اپنے آفس میں بیٹھا حسن مجتبٰی خالی نظروں سے انابہ کی میز کو دیکھ رہا تھا ۔بھوری آنکھوں میں زیاں کا احساس سوا تھا۔کل سے وہ انابہ سے رابطہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا مگر وہ تو شاید اسے اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لئے نکال چکی تھی ۔سر جھٹک کر پہلے اس نے اپنی ان سوچوں سے پیچھا چھڑایا پھر ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے اسنے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور بر سر اقتدار پارٹی کے صدر کو ای میل کرنے لگا کہ اسکے پاس ڈی ڈی کمپنی کے کرپشن سے جڑے پکے ثبوت ہیں ۔جواب میں اسے ایک ہفتے کا انتظار کرنے کو کہا گیا تھا ۔مطمئن انداز میں اسنے اپنا سر ہلا دیا ۔وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے کے قریب تھا مگر دل تھا کہ خوش ہونا بھول چکا تھا ۔
“مس انابہ کی میز کو یہاں سے ہٹوا دوں؟” یکدم اسکے اسسٹنٹ فیصل نے اسے مخاطب کیا تو اسنے چونک کر انابہ کی میز کی سمت دیکھا ۔ویران میز اور ویران ہو چکا دل۔ایک کسک پورے وجود میں سرایت کر گئی۔بھوری آنکھیں لمحے بھر کے لئے نم ہوئیں اور پھر نارمل ہو گئیں ۔
“نہیں اسے اسی طرح رہنے دو۔”اسنے کہا ۔سر ہلاتا ہوا فیصل باہر چلا گیا تھا ۔اسکے نکلتے ہی حسن کا موبائل بجنے لگا۔اسکرین پر افہام کالنگ نے اسکے زخموں پر نرم پھاہا رکھا تھا۔کوئی تو تھا جو اسے کبھی اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔
“ہیلو افہام!” اسنے موبائل کان سے لگاتے ہوئے کہا ۔
” حسن! میں اس وقت تم سے ملنا چاہتا ہوں ۔” اسکی آواز میں سپاٹ پن تھا ۔
“اس وقت؟” اسنے گھڑی پر نظر ڈالی ۔آٹھ بج چکے تھے ۔”اوکے! میں آفس سے نکل رہا ہوں ۔مگر تم مجھے کہاں ملوگے؟”
“میں ایڈریس ٹیکسٹ کر دونگا۔اور اپنے ساتھ وہ سارے ثبوت اور شواہد لے آنا جو تم نے ماموں کے خلاف اکٹھا کئے ہیں تاکہ ہم فیصلہ کن قدم اٹھانے سے پہلے اسے ایک دفعہ دیکھ لیں ۔” اسکا انداز مشینی تھا۔حسن مجتبٰی تھوڑا سا الجھا پھر اسنے اپنا سر جھٹک دیا تھا۔
– – – – – – – – – –
” افہام!! افہام!!”وہ ایک متروکہ عمارت کے اندھیرے بیسمنٹ میں ٹارچ جلائے پاگلوں کی طرح افہام کو پکارے جا رہا تھا ۔ہر دفعہ پکارنے پر اسکی آواز گونگی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ جاتی۔عجب خاموشی اور وحشت کا جنگل اسکے گرد پسرا تھا۔وہ زرا سی دیر میں حبس کی وجہ سے پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔
“افہام!” وہ ایک دفعہ پھر پوری قوت سے چلایا ۔آواز کی بازگشت مزید تیزی سے دیوار سے ٹکرا کر لوٹی ۔شرٹ کی آستین سے چہرہ صاف کر کے اس نے اپنے اطراف دیکھنے کی کوشش کی ۔پر مہیب اندھیرا اسے نگلنے کے لئے تیار کھڑا تھا۔افہام مشکل میں تھا، وہ خطرے میں تھا ۔ورنہ ایسا ہونا ناممکن تھا کہ وہ اسے کہیں بلاتا اور خود وہاں نہ پہنچتا۔
“افہام!اگر تم اس جگہ ہو تو مجھے زرا سا اشارہ کرو۔میں یہیں ہوں ۔میں یہاں تمہارے لئے آیا ہوں ۔جب تک مجھے تمہارے یہاں نا ہونے کا یقین نہیں ہو جاتا میں یہاں سے ہل بھی نہیں رہا۔تم جانتے ہو نا کہ وکی تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑ سکتا ۔ایک دفعہ مجھے اپنے پاس بلانے کی کوشش کرو۔”اسکی آواز اس دفعہ کپکپا گئی۔کیونکہ اتنا تو وہ پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ فون کال افہام نے اپنی مرضی سے نہیں کی تھی کیونکہ وہ اسے کبھی حسن نہیں کہا کرتا تھا ۔وہ اسے ہمیشہ وکی کہا کرتا تھا ۔
” افہام! “اسنے دوبارہ اسے آواز دی۔یکدم عجیب سی آوازوں کے شور سے پورا بیسمنٹ گونج اٹھا ۔یوں جیسے دروازے بند کئے جا رہے ہوں ۔وہ اپنے عقب میں گھوما اور ٹارچ کی روشنی میں اسے خود کو گھیرے میں لیتے ہیولے نظر آ گئے تھے ۔وہ واقعی بہت برا پھنسا تھا۔اپنے ہاتھ میں پکڑے لیپ ٹاپ بیگ کو اسنے مضبوطی سے پکڑ لیا ۔اسے اپنی پشت پر اونچے قہقہے کی آواز سنائی دی ۔وہ تیزی سے آواز کی جانب گھوما ۔کریم یزدانی اسکی جانب آ رہے تھے ۔وہ بے اختیار لب بھینچ کر رہ گیا ۔وہ پکڑا جا چکا تھا ۔تو پھر افہام کہاں تھا؟ اسے اسکی فکر کوئی۔
“افہام کہاں ہے؟” اسنے سرد لہجے میں پوچھا۔جواباً کریم یزدانی کا قہقہہ مزید اونچا ہوا۔
“افہام کہاں ہے؟” اس دفعہ وہ اتنی بلند آواز میں چیخا تھا کہ در و بام جھنجھنا اٹھے۔”اگر افہام کے جسم پر معمولی سی خراش بھی آئی تو میں ہر ایک کو دیکھ لونگا۔اسلئے اسے ضرر پہنچانے سے پہلے… “اسکی بات ادھوری رہ گئی اور ایک بے حد طاقتور بلب بالکل اسکے سر کے اوپر جل اٹھا ۔حسن نے بے اختیار اپنی آنکھوں پر بایاں بازو رکھا۔
“آنکھیں کھولو بیٹے! آنکھیں کھول کر حقیقت دیکھو۔حقیقت بھی اتنی ہی چبھیگی جتنی یہ روشنی چبھ رہی ہے ۔”اسے کریم یزدانی کی زہر آلود آواز سنائی دی ۔
“اپنی بکواس بند کر کے افہام کو میرے حوالے کریں ۔” وہ آنکھوں سے بازو ہٹاتا ہوا بولا۔
کریم کے ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ رینگی اور انہوں نے اشارہ کیا تھا ۔انکے باڈی مین نے فوراً انکے ہاتھ پر ٹیبلٹ لا کر رکھا۔اسکرین پر چند جگہ انگلیاں رکھنے کے بعد انہوں نے اسکرین کا رخ اسکی جانب کیا۔فوٹوز کا سلائیڈ شو شروع ہو گیا تھا ۔پہلی تصویر میں سفید کور والی پین ڈرائیو کو دیکھ کر وہ اپنے خشک لبوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔اگلی تصویر میں کریم یزدانی افہام کو اپنے گلے لگا رہے تھے ۔پھر اسکے بعد کی تصویروں میں افہام کی ڈی ڈی کمپنی کی عمارت میں چند پوز تھے اور آخری تصویر میں وہ ایک شاندار سے آفس کی پاور سیٹ پر بیٹھا تھا ۔میز پر لگی تختی بتا رہی تھی کہ وہ ڈی ڈی کمپنی کے سی ای او کی ملکیت ہے ۔ٹیبلٹ اسکے سامنے سے ہٹا کر انہوں نے حسن مجتبٰی کے چہرے ٹوٹ پھوٹ یا شاک تلاش کرنے کی کوشش کی۔ انہیں اپنی جانب دیکھتا پا کر وہ بے اختیار ہنس دیا۔
“آپ کو لگتا ہے کہ چند ایڈیٹڈ تصویریں دکھا کر آپ مجھے افہام سے متنفر کر دینگے تو آپ نے ہم دونوں کا قیمتی وقت ضائع کر دیا ہے ۔نا آپ مجھے افہام کی جعلی آواز سے کال کر کے بیوقوف بنا سکتے ہیں اور نا ہی مجھے اس سے الگ کر سکتے ہیں ۔” اسکے لہجے میں مان تھا، دوستی کا غرور تھا، اعتبار کا زعم تھا ۔کریم یزدانی بھی ہنس پڑے۔انہیں اپنے سامنے کھڑے رپورٹر پر بے انتہا ترس بھی آیا۔اسکی تیکھی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔انہیں افسوس ہوا کہ چند لمحوں میں وہ آنکھوں کو ماند پڑتا دیکھینگے ۔انہوں نے اس سے کچھ کہے بغیر ایک نمبر ملایا اور فون اسپیکر پر رکھ دیا۔
“جی ماموں!” دوسری جانب سے افہام کی آواز آئی ۔حسن مجتبٰی کی آنکھیں پھیل گئیں ۔وہ اسکی زبان سے اتنی تابعداری والا ‘جی ماموں’ سن کر حیران رہ گیا ۔
“اس پین ڈرائیو کے علاوہ کوئی اور چیز تو نہیں ہے جس میں میرے خلاف ثبوت ہے ۔” کریم یزدانی اسکی طرف جتاتی نظروں سے دیکھ کر کہہ رہے تھے ۔
“جی نہیں ۔میرے پاس اسکے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے ۔اور اگر کچھ ہوگا بھی تو وہ وکی کے پاس ہوگا۔اوکے ماموں! میں فون رکھتا ہوں ۔ابھی میری ایک میٹنگ ہے ۔”
فون کٹ گیا تھا ۔اور حسن مجتبٰی لب بھینچے، بجھتی ہوئی بھوری آنکھوں کے ساتھ کریم یزدانی کو دیکھ رہا تھا ۔دو دن….صرف دو دن وہ افہام سے نہیں ملا تھا اور…. اور اڑتالیس گھنٹوں نے اتنا کچھ بدل دیا تھا۔اسکا دوست، اسکا بھائی، اسکا یقین، اعتبار سب کچھ چھین کر وہ اڑتالیس گھنٹے گزر چکے تھے ۔حسن کا سارا مان اوندھے منہ گرا۔اسکا وجود بھربھری ریت سے بنے محل کی طرح ڈھے گیا تھا ۔کریم یزدانی کے سامنے کھڑا ضبط کی انتہاؤں سے گزرتا وہ، وہ حسن مجتبٰی نہیں تھا جو محض اپنے ایک جملے سے اپنے مقابل کو مات دے دیا کرتا تھا نا ہی یہ وہ تھا جسکے بے لاگ و لپیٹ تیکھے سوالوں کے جواب دینا ہر ایک کے بس میں نہیں تھا۔یہ تو دوستی جیسے مقدس رشتے میں دھوکہ کھانے والا انسان تھا۔ایک ہارا اور ٹوٹا ہوا کھلاڑی ۔جسے وہاں سے مات ہوئی تھی جہاں سے اس نے کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں سوچا تھا ۔اسکی بھوری آنکھوں کے کنارے گہرے سرخ ہونے لگے۔وہ جسے آنسوؤں سے نفرت تھی، وہ جو اپنے آنسوؤں کو آنکھوں کے بجائے دل کے حوالے کر دیتا تھا ۔آج اسکا دل چاہا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔اسکی پروا کئے بغیر کہ اسے روتا دیکھ کر اسکے دشمنوں کو اس پر صرف ہنسنے کا ہی موقع ملیگا۔مٹھیاں بھینچ کر اسنے اپنے آنسوؤں کو باہر آنے سے سختی سے روکا۔
“تمہاری جانب میرے بہت سارے حساب نکلتے ہیں ۔آج سارے بقایا ادا کرنے کا دن ہے اور ساتھ ہی میں تمہارا باب اسی طرح بند کرونگا جس طرح تمہارے باپ کا کیا تھا۔گھبراؤ نہیں میں تمہیں جان سے نہیں مارونگا ۔بس اس قابل نہیں چھوڑونگا کہ میرے آگے سر اٹھانے کا سوچ بھی سکو۔” کریم یزدانی کے جملے نہ اسے توڑ سکتے تھے اور نا ہی اسے گرا سکتے تھے ۔توڑا تو کسی اور نے تھا ۔گرانے والا تو کوئی اور تھا ۔اسکا چہرہ اذیت سے سرخ پڑ گیا ۔
یکدم انہوں نے آگے بڑھ کر اسکے منہ پر بھر پور مکا مارا تھا. وہ دو قدم پیچھے لڑکھڑایا۔” یہ اسلئے ہے کہ تم فہد ندیم کے بیٹے ہو۔” کسی نے اسے دھکیل کر آگے کیا۔اسکی ناک پر دوسرا مکا مارا گیا ۔”یہ میری بیٹی کے جذبات سے کھیلنے کی سزا ہے۔” درد کی ایک تیز لہر پورے وجود میں سرایت کر گئی۔”یہ ان نقصانات کے لئے جو میں نے این سی پی پارٹی کے ہارنے اور داور کے گرفتار ہونے کی وجہ سے اٹھائے ہیں ۔”وہ پے در پے اس پر مکے برساتے چلے گئے ۔ان جسمانی اذیتوں کو وہ برف کی چٹان بنا برداشت کر رہا تھا ۔ہونٹ اور ناک سے بہتے خون سے بے نیاز وہ بس ویران آنکھوں سے پٹ رہا تھا ۔کریم یزدانی کے لوگ اسے گن پوائنٹ پر گھیرے کھڑے تھے کہ جہاں اسنے کوئی پیش قدمی کی کہ اسے گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے ۔مگر وہ تو کسی پیش قدمی کے متعلق فی الحال کچھ نہیں سوچ رہا تھا ۔برف کی چٹان سے وجود کو اندرونی خلفشار اور جذباتی توڑ پھوڑ کھوکھلا کر دینے پر تلے تھے۔جب کریم یزدانی کی قوت جواب دے گئی تو وہ پیچھے ہٹے اور اپنی سانسیں درست کرنے لگے۔اپنا سارا غصہ اور ذہنی تناؤ جو وہ اتنے دنوں سے محسوس کر رہے تھے نکال چکے تھے ۔
“چلو لاؤ وہ سارے ثبوت اور شواہد جو تم نے میرے خلاف اکٹھا کئے ہیں ۔” اپنا کالر درست کرتے ہوئے ہوئے وہ غرائے تو حسن مجتبٰی بے اختیار چونکا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے لیپ ٹاپ بیگ کو دیکھا ۔وہ جیسے ابھی ابھی ہوش میں آیا تھا ۔اسے جو کرنا تھا خود کرنا تھا اور جلدی کرنا تھا۔کیونکہ پچھلی دفعہ کی طرح وہ اس امید پر وقت گزارنے کی کوشش نہیں کر سکتا تھا کہ اسکی پشت پر افہام موجود ہے جو اسے کسی بھی طرح یہاں سے نکال لے جائیگا۔پہلی مرتبہ اس نے محسوس کیا کہ اسکے پیروں تلے جو مضبوط زمین تھی وہ اب اسکی نہیں تھی ۔وہ اب اکیلا تھا، تنہا تھا۔مدد کرنے والے ہاتھوں نے اسے گہری کھائی میں دھکا دے کر اپنے ہاتھ کھڑے کر لئے تھے۔بائیں آنکھ کے گوشے سے بہتی آنسو کی نا محسوس سی لکیر چہرے پر پھیلے خون کے ساتھ مدغم ہو گئی۔
“میرے جسم کے ریشے بھی الگ کر دینے میں تم لوگ کامیاب ہو گئے تب بھی میں تمہیں یہ نہیں دونگا۔” اسنے لیپ ٹاپ بیگ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے سینے سے لگایا ۔
کریم یزدانی نے بیزاری سے اپنے بندوں کو اشارہ کیا اور وہ سب بری طرح اس پر چمٹ گئے تھے ۔تھوڑی دیر کی جدوجہد کے بعد حسن زمین پر گرا تھا اور بیگ کریم کے ہاتھوں میں تھا۔وہ بیگ کی چین کھول کر اس میں رکھے کاغذات چیک کرنے لگے۔حسن مجتبٰی کے لئے بس پل بھر کی غفلت کافی تھی۔اسنے گرے گرے اپنی جینز زرا سا اوپر کھسکائی اور بائیں جراب سے گن نکال کر اس آدمی کے ہاتھ پر بے آواز فائر کیا جو اسے گن نکالتے دیکھ چکا تھا ۔اور اگلے لمحے اس نے کمرے میں جلتے واحد بلب پر فائر کیا تھا۔بیسمنٹ میں افراتفری مچ گئی تھی۔کریم یزدانی اپنے آدمیوں کو القابات سے نوازتے ہوئے حسن کو پکڑنے کو کہہ رہے تھے ۔وہ دروازے تک پہنچ کر اسے کھولنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک گرم سا شعلہ اسکی دائیں پنڈلی کے گوشت کو چیرتا دوسری طرف سے نکل گیا ۔دایاں ہاتھ سختی سے لبوں پر جما کر اسے اپنی چیخ روکی اور بیسمنٹ سے باہر نکل گیا ۔دروازہ دوبارہ بند کر کے وہ اوپر جانے والی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔بمشکل لڑکھڑاتا وہ سڑک تک آیا تھا۔غیر رہائشی علاقے کے باعث سڑک ویران تھی۔اسنے رک کر پنڈلی پر رومال باندھ کر خون روکنے کی کوشش کی ۔اسے اپنے پیچھے نزدیک آتے قدموں کی آواز سنائی دینے لگی ۔وہ اب تیزی سے دوڑنے لگا تھا۔اسکا پیچھا کرتی خون کی لکیر مزید گہری ہونے لگی۔اسے نقاہت بھی محسوس ہو رہی تھی ۔وہ دوڑتے دوڑتے لڑکھڑایا اور گھٹنے کے بل زمین پر گر پڑا تھا ۔ہتھیلیاں زمین پر ٹیک کر اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے اسنے شرٹ کی آستین سے چہرے پر لگا خون صاف کیا اور اپنے اطراف دیکھا ۔اگر وہ شاہراہ چھوڑ کر کچی سڑک لے لے تو وہ وہاں پہنچ جائیگا۔اٹھ کر اسنے اپنے جوتے مخالف سمت میں پھینکے اور کچی سڑک پر اترتا چلا گیا ۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ نشیب میں واقع اس قدیم طرز کے بنے لکڑیوں کے مکان کے باہر کھڑا اسکا دروازہ بے صبری سے بجا رہا تھا ۔اسی طرح، اسی انداز میں جس طرح سالوں پہلے راستہ بھٹک جانے پر وہ بجا رہا تھا ۔یہی ایک جگہ تھی، یہی ایک گھر تھا جہاں اسے پناہ مل سکتی تھی ۔جہاں اسکے جذباتی و جسمانی دونوں طرح کے زخموں پر مرہم لگ سکتا تھا ۔جہاں اسکے بکھرے وجود کو محبت سے سنبھالا جا سکتا تھا ۔کوئی بڑبڑاتا دروازے کی طرف آ رہا تھا ۔مگر دروازہ کھلنے سے پہلے وہ بے ہوش ہو کر کچی مٹی پر گر پڑا۔
– – – – – – – – – – –
دروازہ ایک دھماکے سے کھلا تھا اور اپنے بیڈ پر لیٹی جویریہ چونک کر بیٹھ گئی۔اسنے خوف سے کریم یزدانی کو دیکھا جن کی آنکھوں میں غصے کی وجہ سے شرارے دوڑ رہے تھے۔وہ بے حد طیش کے عالم میں اسکے قریب آئے۔
“تمہارا کوئی رابطہ تھا حسن مجتبٰی سے؟” وہ چیخے۔
جویریہ کا دل سوکھے پتے کی مانند لرز گیا۔
“کک… کون حسن مجتبٰی؟” اسنے خشک ہوتے حلق کے ساتھ خود کو انجان ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔
“مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش مت کرو جویریہ! کیونکہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تم اپنے بھتیجے سے ملی ہوئی ہو۔”
” میرا یقین کریں میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔بلکہ اگر وہ مجھ سے ملنے کی کوشش بھی کرتا تو میں اسے انکار کر دیتی۔” اسنے بمشکل جھوٹ بولا تھا۔
“تمہارے حق میں یہی بہتر ہے ورنہ اگر تم نے اپنے خاندان کی طرف واپس جانے یا مجھے دھوکہ دینے کی کوشش کی تو تم اچھی طرح جانتی ہو کہ پھر تم ہمیشہ کے لئے اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے سے بھی محروم رہوگی۔سمجھیں تم؟ “انہوں نے اپنی انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کی ۔
“آپ مطمئن رہیں ۔میں اپنے بیٹے کے لئے کوئی غلط قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔”اسنے یقین دلانے والے انداز میں کہا ۔
انہوں نے اسکی طرف دیکھ کر مطمئن انداز میں اپنا سر ہلایا۔
” اگر تمہارا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے تو تمہیں یہ تو نہیں معلوم ہوگا کہ وہ میرے خلاف سازشیں کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ بیوقوف رپورٹر اپنے باپ کا انتقام لینے کا سوچ رہا تھا ۔”
جویریہ نے اپنا سر اٹھا کر انہیں دیکھا ۔کیا وہ پکڑا گیا؟ اسکا دل بہت زور سے دھڑکنے لگا۔
” اور تم سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ میں اپنے دشمنوں کا سر کچلنا کتنا پسند کرتا ہوں؟ “وہ اسکی طرف بغور دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔
” کیا کیا ہے آپ نے وکی کے ساتھ؟ “وہ غرائی۔
“جس انسان کے ساتھ تمہارا اٹھارہ سالوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے اسکے لئے یہ لہجہ؟” انہوں نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔” میں اسے کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔مجھے بس اس لڑکے سے اپنا ڈیٹا واپس لینا تھا۔مگر اسنے میرے سامنے چالاکی کرنے کی کوشش کی اور میرے بندوں کی گولیاں کم ہی خطا کرتی ہیں ۔”انہوں نے پر سکون لہجے میں کہا ۔مگر جویریہ کا سارا سکون پل بھر میں غارت ہوا اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل لگنے لگا۔اسے ایک دفعہ پھر وہ سیاہ رات یاد آ گئی جس نے اسکی زندگی تباہ کر دی تھی ۔جب اسنے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے باپ جیسے بھائی کا تڑپتا وجود دیکھا تھا۔اور اب… اب وکی… اسکے سامنے اسکا چہرہ گھوم گیا۔اس دن اسنے کتنی محبت سے اسے اپنے گلے لگایا تھا۔ اور اسے یقین دلایا تھا کہ وہ اب تک اسے نہیں بھول پایا ہے اور اس نے اسکے ساتھ کیا کیا تھا؟ کس بے مروتی کا مظاہرہ اسنے کیا تھا۔کس بے رحمی سے اسکے ہاتھوں کو جھٹکا تھا۔اسکی آنکھوں سے نمکین پانی ٹپکنے لگے اور اسنے اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا محسوس کیا۔
“آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے اچھا نہیں کیا ہے۔آپ کے سارے گناہوں کی سزا اب آپ کو خدا ہی دیگا ۔جب میرا رب فرعون کو غرق کر سکتا ہے تو پھر آپکی کیا بساط ہے؟آپ اس سے زیادہ ظالم تو نہیں ہو سکتے۔” وہ پھٹ پڑی ۔
کریم یزدانی نے چند لمحے خاموش نظروں سے اسے دیکھا پھر یکدم آگے بڑھ کر بھر پور ہاتھ اسکے دائیں رخسار پر رسید کر دیا تھا۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی پیچھے ہوئی۔
” میں بس تمہیں آزما رہا تھا کہ تمہیں اب بھی اپنے پرانے رشتوں سے محبت ہے یا نہیں ۔مطمئن رہو ایک گولی سے تمہارا بھتیجا مرا نہیں ہوگا۔لیکن ایک بات یاد رکھنا جویریہ! اگر تم نے اسکا ساتھ دینے کی کوشش کی تو پھر تم اپنے بیٹے سے ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو بیٹھوگی ۔” انہوں نے قہر آلود لہجے میں کہتے ہوئے اسے دھکا دیا ۔وہ گرنے کو تھی کہ اندر آتے حمزہ نے اسے تھام لیا ۔
” ڈیڈی! آپ پھر ماما پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں؟ ”
” سمجھا لو اپنی ماں کو۔اپنے ہوش و حواس قائم رکھے ورنہ اسکے لئے اچھا نہیں ہوگا۔”
” آپ بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ آئندہ اگر آپ نے میری ماما پر ہاتھ اٹھایا تو میں انہیں لے کر ہمیشہ کے لئے اس گھر سے چلا جاؤنگا ۔” حمزہ نے ان سے نظریں ملائے بغیر کہا اور جویریہ کو سہارا دے کر بیڈ پر بٹھایا تھا۔
کریم یزدانی نے پلٹ کر اپنے سترہ سالہ بیٹے کو دیکھا جو یکدم بہت بڑا لگنے لگا تھا جواب دیئے بغیر کمرے سے نکل گئے ۔
” تمہیں اپنے ڈیڈی سے نہیں الجھنا چاہیے تھا ۔”جویریہ نے کہا ۔
“ماما! مجھے نہیں معلوم کہ آپکی ڈیڈی سے شادی کیوں اور کن حالات میں ہوئی تھی ۔مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس گھر میں آپکے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ہے اور اب آپکا بیٹا آپکا خیال رکھیگا۔آئندہ مجھے آپ روتی ہوئی نہ ملیں ۔”اسنے محبت سے کہتے ہوئے اسے اپنے شانے سے لگا لیا تھا ۔
– – – – – – – – – –