جہان زاد،
وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت
جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے
محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن
تمام رات تیرتے رہے تھے ہم
ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے
تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے
کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے
ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف
تیرتے رہے
تو کہہ اٹھی: “حسن یہاں بھی کھینچ لائی
جاں کی تشنگی تجھے!”
(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا میں
کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں
سے شاد کام ہو گیا!)
مگر یہ وہم دل میں تیرنے لگا کہ ہو نہ ہو
مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا۔
نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں
کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے
یہی وہ اعتبار تھا
کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا۔۔
میں سب سے پہلے “آپ” ہوں
اگر ہمیں ہوں۔۔تو ہو اور میں ہوں۔۔پھر بھی میں
ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!
اگر میں زندہ ہوں تو کیسے “آپ” سے دغا کروں؟
کہ تیری جیسی عورتیں، جہان زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں “سلجھ” سکا
جو میں کہوں کہ میں “سلجھ” سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں۔۔
(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر
تیرے لب پہ تھا۔۔
وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا
لبوں کو نوچتا رہا
جو میں کبھی نہ کر سکا
نہیں یہ سچ ہے۔۔میں ہوں یا لبیب ہو
رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا
جو صد نوا و یک نوا خرامِ صبح کی طرح
لبیب ہر نوائے ساز گار کی نفی سہی!)
مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گل نہیں، نہ تھا کبھی
وجودِ آدمی سے آب و گل سدا بروں رہے
نہ ہر وصالِ آب و گل سے کوئی جام یا سبو ہی بن سکا
جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!
جہان زاد،
ایک تُو اور ایک وہ اور ایک میں
یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے
ہمیشہ گھومتے رہے
کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا
مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے۔۔
مثلثِ قدیم کو میں توڑ دوں، جو تُو کہے، مگر نہیں
جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اس مثلثِ قدیم کا
نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں
گھومتے ہوئے
سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی
برس پڑی
وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی
میں سیلِ نورِ اندروں سے دھل گیا!
مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی
کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!
تمام کوزے بنتے بنتے “تو” ہی بن کے رہ گئے
نشاط اس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی۔۔
یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ
کہ جب خمیرِ آب و گل سے وہ جدا ہوئے
تو ان کو سمتِ راہ نو کا کامرانیاں ملیں۔۔
(میں اک غریب کوزہ گر
یہ انتہائے معرفت
یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت
مجھے ہو اس کی کیا خبر؟)
جہان زاد،
انتظار آج بھی مجھے ہے کیوں وہی مگر
جو نو برس کے دورِ نا سزا میں تھا؟
اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا
نہ گمرہی کی رات کا
(شبِ گنہ کی لخّتوں کا اتنا ذکر کر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں!)
حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا
نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا
اک انتظارِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!
کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آ کے رک گئے
تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اتر گیا
تمام رفتہ و گذشتہ صورتوں، تمام حادثوں
کے سُست قافلے
مرے دروں میں جاگ اٹھے
مرے دروں میں اک جہانِ باز یافتہ کی ریل پیل جاگ اٹھی
بہشت جیسے جاگ اٹھے خدا کے لا شعور میں!
میں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہوا
غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو
۔مرے وجود سے بروں۔
تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے
میرے اپنے آپ سے فراق میں،
وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)
وہ پھر سے ایک رقصِ بے زماں بنے
وہ رویتِ ازل بنے!