پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اس نے ایک گہری سانس خارج کی تھی۔ رات کے تین بجے اس کی فلائیٹ لینڈ کی تھی اور اب تقریباً پونے چار کے قریب کا وقت تھا جب وہ ائیرپورٹ سے نکلتا پارکنگ میں موجود کریم کی جانب بڑھا تھا جو اسے وہاں رسیو کرنے آیا تھا۔
“کیسے ہو کریم؟” اسے گلے لگائے اس کا حال پوچھا گیا تھا۔
“ٹھیک سر!” وہ موؤدب سا بولا
“میرا حال نہیں پوچھو گے؟” فرنٹ سیٹ پر اس کے برابر بیٹھے معتصیم نے شکوہ کیا۔
“ایسے سوال نہیں کرتا جن کا جواب جاننے کا مجھے شوق نہ ہو!” کریم کی بات پر وہ ہنسا تھا۔۔۔
“آپ کی یہ کھوکھلی ہنسی آپ کا حال احوال بیان کررہی ہے۔۔۔۔ لگتا ہے لندن کی آب و ہوا آپ کو راس نہیں آئی” کریم کی بات پر اس نے کریم کا شانہ تھپتھپایا تھا۔ پورا راستہ خاموشی میں کٹا تھا۔
“تم واقعی میں ضرورت سے زیادہ تیز ہو کریم!” اس کے فلیٹ کے باہر گاڑی رکتے ہی معتصیم کریم کو داد دیتا, سامان نکالے وہاں سے جاچکا تھا۔
“اور آپ ضرورت سے زیادہ بےوقوف” سپاٹ لہجے میں بڑبڑائے اس کی پشت کو تکتا وہ گاڑی وہاں سے نکال لے گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کا جائزہ لیتی وہ مسکرا کر گھر کے پول ایریا کی جانب آئی تھی۔
صاف شفاف پانی میں پاؤں ڈالے وہ مسکراتی لطف اندوز ہورہی تھی۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ پاؤں باہر نکالے اندر کی جانب بڑھی تھی جب بیک سائڈ پر موجود بل ڈوگ اس دیکھ کر بھونکا تھا۔
“آہ!” خوف سے چلاتی وہ سوئمنگ پول میں جا گری تھی۔۔۔۔۔ پانی کی گہرائی بہت زیادہ تھی جس کی بنا پر وہ پانی میں ہاتھ مارتی خود کو بچانے کی تگ و دو میں تھی۔
“بب۔۔۔بچاؤ۔۔۔۔بچاؤ!” کریم جو ایک اہم فائل لیے پول سائڈ کی جانب آیا تھا اسے ڈوبتے دیکھ فائل وہی زمین پر پھینکتا اس کی جانب بھاگا تھا۔۔۔۔ پول میں چھلانگ لگائے وہ زویا کی جانب بڑھا تھا جو ابھی بھی ہاتھ پاؤں چلاتی خود کو بچانے کی کوشش میں تھی۔
اس کے پاس پہنچے اسے کمر سے پکڑے,سہارا دیے وہ اسے کنارے کی جانب لاتا پول سے باہر نکال لایا تھا۔
سہارا دیتے,اسے بٹھائے۔۔۔کریم نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی تھی۔
“آپ ٹھیک ہے میم؟” کریم نے فکرمندی سے سوال کیا تھا۔
“جج۔۔۔جی” وہ گہرے سانس بھرتے بولی تھی۔
“جب سوئمنگ آتی نہیں تو کیا کررہی تھی پول میں آپ؟” تولیا اسے پکڑائے کریم نے اپنے ازلی سپاٹ لہجے میں سوال کیا تھا۔
“وہ وہ سوئمنگ نہیں کررہی تھی۔۔وہ گرگئی” شرمندہ سی وہ سر جھکا گئی تھی۔
“گر گئی؟۔۔۔ اہمم۔۔۔کیسے؟۔۔۔کیسے گرگئی؟ ” گلا کھنکھارے اس نے سوال کیا تھا۔
“وہ۔۔۔وہ ڈر کر”
“اور ڈری کیوں؟ مطلب کس نے ڈرایا؟”
“وہ۔۔ ڈوگز سے ڈر لگتا ہے تو۔۔۔۔” انگلیاں مسلتے اس نے جواب دینا چاہا تھا۔
“ٹھیک۔۔۔میں سمجھ گیا!” کریم اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے بولا تھا۔
“شام ہونے والی ہے۔۔۔ آپ کو یوں یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے۔۔۔ اچھا ہوگا کہ آپ کمرے میں جاکر چینج کرلے” تولیا اس کے ارد گرد اچھے سے سیٹ کیے کریم نے ہدایت کی تھی۔ زویا تو بس اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ اس کی شکل بہت حد تک جیک سے ملتی تھی مگر اس کی عادات۔۔۔۔ کیا وہ واقعی میں جیک تھا؟ اب تو اسے بھی شک سا ہونے لگا تھا
“کیا دیکھ رہی ہے؟” کریم نے حیرت سے سوال کیا تھا۔
“آپ بہت اچھے ہے!” بالوں کی گیلی لٹ کو پیچھے کیے وہ جھجھکتے بولی تھی۔
“جائیے آپ نہیں تو ٹھنڈ لگ جائے اور بیمار ہوجائے گی” اس کی بات کو نظرانداز کیے کریم نے ہدایت کی تھی۔
“میڈ کو بھیجو؟”
“نہیں ۔۔۔۔۔ میں چلی جاؤں گی!” وہ زمین سے اٹھتی بولی تھی۔
“ایک۔۔۔ایک سوال پوچھو؟” جاتی جاتی وہ مڑی تھی۔
“پوچھیے!” اجازت دی گئی۔
“بھائی تو نہیں ہے۔۔۔تو پھر آپ یہاں؟” لب کاٹتے اس نے سوال کیا تھا۔
“تاکہ آپ بچا سکوں” اس کے قریب آئے, مسکراہٹ دبائے جواب دیا تھا۔
“جج۔۔۔۔۔جی؟” بھوکلاتی وہ دو قدم پیچھے ہوئی تھی۔
“میں۔۔۔میں چلتی ہوں” تیزی سے مڑتی وہ اندر چلی گئی تھی۔
پیچھے کھڑے کریم نے گہری سانس خارج کیے اس کے پیچھے اندر جاتے زمین پر گری فائل اٹھائی تھی۔ وہ یہاں سنان کی سٹڈی سے ایک اہم ڈیل کی فائل لینے آیا تھا۔۔۔ اگر آج وہ نہ آتا؟۔۔۔۔۔ اس کا ارادہ ان نوکروں کو اچھی خاصی جھاڑ پلانے کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہنی مون؟” شزا نے حیرانگی سے حماد کو دیکھا تھا جو مزے سے اب اپنی پیکنگ میں مصروف تھا۔
“تم تو یوں دیکھ رہی ہو جیسے میں نے کوئی انوکھی بات کردی ہو۔۔۔۔ آفکورس ہنی مون پر جانا ہے۔۔۔۔ سب نئے شادی شدہ جوڑے جاتے ہیں!” اس کے ماتھے کو چومتا وہ مسکرا کر بولا تھا۔
“سب شوہر اپنی بیوی کو منہ دکھائی بھی دیتے ہیں۔۔۔۔ آپ نے دی؟” دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے,آنکھیں چھوٹی کیے اس نے غصے سے سوال کیا تھا۔
“منہ دکھائی وہ شوہر دیتے ہیں جنہوں نے پہلی بار اپنی بیوی کو دیکھا ہو اور اس شکل کو تو میں کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں” اس کے گال پر چٹکی کاٹے وہ بولا تھا۔
“حماد” وہ چڑی تھی۔
“اچھا جلدی جلدی ہاتھ چلاؤں۔۔۔۔ دو گھنٹے بعد کی فلائیٹ ہے ہماری” اسے ہدایت دیتا وہ ایک بار سے پیکنگ میں مصروف ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مگر۔۔۔مگر, ایسے کیسے؟۔۔۔۔ایسے کیسے نکال سکتے ہیں سر مجھے وہ بھی بنا کسی غلطی کے؟” رسپیشنسٹ کے سر پر کھڑے اس نے ہاتھ میں موجود لیٹر کو دیکھے غصے سے سوال کیا تھا۔
“میم مجھے نہیں معلوم, سر نے مجھے یہ آپ کو دینے کو کہا اور میں نے دے دیا۔۔۔ کیوں اور کس وجہ سے نکالا, اس سے میں لاعلم ہوں!” وہ اکتائے لہجے میں بولی تھی۔
زرتاشہ آنکھوں میں جھلکی نمی کو پیچھے دھکیلے, لیٹر پر گرفت مضبوط کیے وہاں سے نکل گئی تھی۔
تکلیف سے اس کے منہ سے ایک سسکی نکلی تھی۔
چلتے چلتے وہ فوٹ پاتھ پر بیٹھے رو دی تھی۔
نجانے اس کی زندگی کی یہ آزمائش کب ختم ہوتی؟۔۔۔ مگر نہیں یہ تو سزا تھی۔ تکلیف سے آنکھیں پھر بھر آئی تھی۔
وہی بیٹھے اپنی سوچوں میں گم وہ پاس آکر رکتی گاڑی کو نہ دیکھ پائی تھی جب اس میں سے نکلے دو آدمی اس مزاحمت کا موقع دیے بنا منہ پر کلوروفورم سے بھیگا ٹیشو رکھے گاڑی میں زبردستی ڈال چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کم ان” دستک پر سنان نے اندر آنے کی اجازت دی تھی اسے۔
“سر یہ فائل” کریم نے فائل اس کی جانب بڑھائی اور ایک نظر اس کے سامنے بیٹھے معتصیم کو دیکھ ہلکا سا سر خم کیا تھا۔
“تم لیٹ ہو کریم” فائل پر نگاہ ڈالے سنان نے شکوہ کیا تھا۔
“آئیندہ ایسا نہیں ہوگا” کریم کے جواب پر سنان نے دھیمی مسکان کے ساتھ سر نفی میں ہلایا تھا۔
فائل کا جائزہ لیتے اس نے ایک نظر معتصیم پر بھی ڈالی تھی جو کب سے اپنے موبائل کو چیک کررہا تھا۔
دفتعاً معتصیم کے موبائل پر ایک نوٹیفیکیشن آیا تھا۔۔۔ میسج کو پڑھ اس کی آنکھیں چمکی تھی۔
“مجھے جانا ہے ضروری اجازت دو” وہ فوراً بیشتر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا۔
“بھولنا مت آج کا ڈنر ہمارے گھر پر کر رہے ہو تم!” سنان نے اسے یاد دلایا تھا۔
“نہیں بھولتا” ان دونوں کی جانب ایک مسکراہٹ اچھالے وہ وہاں سے جاچکا تھا۔
“یہ شخص خود کو کوئی گہرہ نقصان پہنچوائے گے” اس کی پشت کو گھورتے کریم بڑبڑایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آہ” سر میں اٹھی ٹیس پر قابو پائے بامشکل اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھی۔ پلکیں جھپکائیں اس نے آس پاس موجود اندھیرے سے مانوس ہونا چاہا تھا۔
ہوش کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اس نے خوف سے اس بند اندھیرے کمرے کو دیکھا جہاں صرف دروازے کی نیچے سے زرا سی روشنی نظر آرہی تھی۔ خوف سے اس کے رونگتے کھڑے ہوگئے تھے۔
پیشانی پر نمودار ہوتے پسینے کے قطرے۔۔۔۔ اس نے بامشکل کرسی سے اٹھنا چاہا تھا۔۔۔ مگر بندھے ہونے کی وجہ سے یہ ناممکن تھا۔
یکدم وہ سسکی تھی۔۔۔۔ اب یہ کیسا نیا امتحان تھا اس کی زندگی کا۔
“کوئی ہے؟ پلیز کھولو۔۔۔۔۔ کھولو۔۔۔ بچاؤ مجھے۔۔۔۔ پلیزززز۔۔۔ کوئی ہے؟” اونچی آواز میں چلاتی اس کی آواز میں نمی گھل گئی تھی۔
“پلیززز۔” اب کی بار وہ رو دی تھی۔
اچانک کانوں سے دروازہ کھلنے کی آواز ٹکڑائی تھی۔ کم روشنی ہونے کی وجہ سے وہ صرف اس شخص کے جوتوں میں مقید پاؤں دیکھ پائی تھی۔
“کک۔۔۔کون؟” خوف سے ہکلاتے اس نے سوال کیا۔
“تمہارا تاریک ماضی!” جواب دیے ہی کمرت کی لائٹ اون کرتا اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔
“تم؟” اسے جیسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم کیا چاہتے ہو مجھ سے؟” ڈیوڈ نے غصے سے سامنے کھڑے وائے۔زی کو گھورا تھا جو مزے سے ببل چباتا اس کی حالت سے لطف اندوز ہورہا تھا۔
“چچچ۔۔۔ وہی پرانا بیکار سوال۔۔۔۔ کم آن ڈیوڈ تم جانتے ہو کہ مجھے کیا چاہیے!” ببل تھوکتا وہ اس کے سر پر آکھڑا ہوا تھا۔
“نہیں ہرگز نہیں۔۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔۔۔ میں یہ کلب کسی صورت بھی تمہارا نہیں ہونے دوں گا!” وہ پھنکارا تھا۔
“اس سب کے باوجود بھی نہیں؟” وائے۔زی نے اس کے سامنے وہ کاغذات پھینکے تھے۔یہ وہی کاغذات تھے جو ماورا کے بدلے فہام جونیجو نے اسے دیے تھے۔
ان کاغذات میں ڈیوڈ کے تمام کالے دھندوں کے ثبوت تھے جو ڈیوڈ کو تباہ کرسکتے تھے۔
“یہ جھوٹ ہے۔ فراڈ ہے یہ۔ میں کیس کروں گا تم پر!” ڈیوڈ دھاڑا تھا۔
“آئی نو مگر تم پر بھروسہ کرے گا کون؟۔۔۔۔ یو نو میں چاہوں تو ایک پل میں تمہیں مروا کر غائب کرواسکتا ہوں۔۔۔۔ تمہاری تمام پراپرٹیز الیلگل مان لی جائے گی۔۔۔ تمہاری بیوی اور دونوں بیٹیاں سوچوں ان کے بارے میں۔۔۔ سڑک پر آجائے گے وہ سب۔۔۔ بس اب تمہیں چپ چاپ اس کلب کے پیپرز پر سائن کرکے انہیں ارحام شاہ کے نام کرنا ہے” اس کا گال تھپتھپاتا وہ مسکرا کر بولا تھا۔
“مجھے۔۔۔۔مجھے سوچنے کے لیے کچھ ٹائم چاہیے!” لبوں پر زبان پھیرے وہ بولا تھا۔
“اوکے۔۔۔کل تک کا۔۔۔۔ بس کل تک کا ٹائم ہے تمہارے پاس۔۔۔ اچھے سے فیصلہ کرنا اور پھر ان پیپرز پر سائن کرنا اوکے؟” مسکراتا وہ اپنے آدمیوں کو اشارہ کرتا ڈیوڈ کو وہی چھوڑتا وہاں سے نکل گیا تھا۔
اس کے جاتے ہی ڈیوڈ منہ ہی منہ بڑبڑاتا رہ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پول ڈانس کرتی وہ چیل کی نگاہوں سے آس پاس دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ آج وہ لیلیٰ نہیں بلکہ باربی بن کر آئی تھی۔
شبیر زبیری کو اپنے پلان سے آگاہ کرتے وہ ایک ہفتے تک کے لیے ہنی مون کا پراگرام ملتوی کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
حماد اس کے یہاں آنے کے سخت خلاف تھا,احتجاج بھی کیا مگر اس نے کسی نہ کسی طریقے سے اسے سمجھا ہی لیا تھا۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ کے قاتل کو یوں خوشیاں مناتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔
اب بھی وہ وائے۔زی کو اپنے آدمیوں کے ساتھ کلب سے باہر نکلتے دیکھ چکی تھی جب لبوں پر مسکان سجائے وہ ڈانس ختم کرتی تیزی سے چینجنگ روم کی جانب بڑھی تھی۔
کپڑے بدل لینے کے بعد وی نہایت خاموشی اور چالاکی سے وی۔آئی۔پی رومز میں سے ایک کی جانب بڑھی تھی جہاں زمین پر بیٹھا ڈیوڈ ابھی تک اپنی قسمت کو کوس رہا تھا۔۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے اس نے اسے اچھے سے لاک کیا تھا۔
“تم کون ہو؟” اس انجان لڑکی کو اپنے سامنے پاکر وہ چونکا تھا۔
“تمہارا بھیانک کل!” سرسراتی آواز میں بولتی وہ پوکٹ نائف نکالے تیزی سے اس کی گردن پر رکھ چکی تھی۔۔۔۔ ڈیوڈ نے سانس روکے اسے خوبصورت بلا کو دیکھا تھا۔
“اب میری بات نہایت غور سے بڈھے۔۔۔۔ یہ کلب تو کسی بھی صورت ارحام شاہ کے نام نہیں کرے گا اور وہ جو ابھی یہاں سے گیا ہے اسے بھی منع کردے۔۔۔۔ یہ کلب شزا کا ہے,اس کے باپ کا ہے اور اسی کا رہے گا۔۔۔ اور اگر تونے زرا بھی چالاکی دکھائی تو تیری بیوی کو بھوکے کتوں کے آگے ڈال کر تیری بیٹیوں کو بیچ ڈالوں گی۔۔۔ سمجھا کہ نہیں؟” اس کے پوچھنے پر ڈیوڈ نے جھٹ سر اثبات میں ہلایا تھا۔
مسکراتی وہ اس سے دو قدم دور ہوتی دراوزے کی جانب بڑھی تھی۔ ڈیوڈ نے فوراً اپنی گردن کو پکؑا تھا جہاں خون کے قطرے موجود تھے۔
“یاد رکھا۔۔۔شزا نام ہے میرا!” اسے وارننگ زدہ نگاہوں سے دیکھتی وہ وہاں سے نکل چکی تھی۔
“شزا؟” وحشت زدہ سا وہ بولا تھا۔
“شزا۔۔۔۔شزا۔۔۔۔آہ شزا” بار بار نام پکارتا وہ پاگلوں کہ طرح ہنس پڑا تھا۔ تالیاں بجاتا وہ اس وقت بالکل بھی ہوش میں نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“معتصیم!” اس کے لب پھڑپھڑائے تھے۔۔۔۔ سانس روکے وہ اپنے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس کی زندگی آٹھ سال پہلے وہ اپنی خودغرضی کے باعث تباہ و برباد کرچکی تھی۔
“پہچان لیا مجھے؟۔۔۔حیرت ہوئی جان کر” وہ چونکنے کی اداکاری کرتا کرسی کھینچے اس کے بالکل سامنے بیٹھ چکا تھا۔
“میں۔۔۔۔میں یہاں کیا کررہی ہوں؟” اس نے خوف سے گھبرا کر پوچھا تھا۔
“تمہیں نہیں معلوم؟” اس کے سوال پر وہ خوف زدہ سی ہوتی نگاہیں چرا گئی تھی۔
“میں ۔۔نہیں جانتی” سر جھکائے وہ مدھم سا بولی تھی۔
“چلو بتا دیتا ہوں۔۔۔۔ماضی میں کیے گئے گناہ کی سزا کاٹنے آئی ہو تم یہاں!” یکلخت اس کی آنکھوں میں خون اترا تھا۔
خوف سے زرتاشہ کی آنکھیں پھیل گئیں تھی۔ سر تیزی سے نفی میں ہلائے وہ بےآواز رو دی تھی۔
“مم۔۔۔معاف کردو۔۔۔۔ پپ۔۔۔پلیز۔۔۔جانے دو” وہ سسک اٹھی تھی۔
“ارے ارے یہ کیا تم نے تو ابھی سے رونا شروع کردیا۔۔۔۔ ابھی تو میں نے کچھ کہاں بھی نہیں۔۔۔۔” معتصیم مسکرایا تھا۔
“مم۔۔معتصیم۔۔۔” وہ رو دی تھی۔
“معتصیم کیا؟ ہاں کیا معتصیم؟” وہ یکدم دھاڑتا اس کے سر پر جاکھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ خوف سے اس نء دونوں آنکھیں میچ لی تھی۔ روتی سسکتی وہ اس وقت مکمل طور پر معتصیم کے رحم و کرم پر تھی۔۔۔۔ جو اس کے ساتھ کچھ بھی کرسکتا تھا۔
“یونہی۔۔۔ایسے ہی۔۔۔ روتے,تڑپتے,سسکتے دیکھنا چاہتا ہوں میں تمہیں۔۔۔۔ جیسے میں رویا تھا, تڑپا تھا, سسکا تھا۔۔۔۔” خون آلود نگاہوں سے وہ اسے دیکھتا غرایا تھا۔
“بب۔۔۔بخش دو” پورا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
“روؤں مت۔۔۔۔فکر مت کرو۔۔۔۔ تم اکیلی تھوڑی نہ اس بدلے کی آگ میں جلو گی۔۔۔۔ ایک, ایک سے بدلا لوں گا۔۔۔ اور ہاں ایک تو اس کے انجام تک پہنچا بھی آیا ہوں” مسکراتا موبائل ہاتھوں میں گھمائے وہ دوبارہ اس کے سامنے جابیٹھا تھا۔
زرتاشہ سر جھکائے بس روؤئے جارہی تھی۔
“پوچھو گی نہیں کون تھی وہ؟”
“کون؟” زبان پر لب پھیرے اس نے ایک نظر معتصیم پر ڈالی تھی
“تمہاری بیسٹ فرینڈ۔۔۔۔ ماورا عباسی” معتصیم کے منہ سے یہ نام سنے زرتاشہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھی۔
“مم۔۔۔ماورا؟”
“ہاں ماورا!”
“کیس۔۔۔کیسے؟” زرتاشہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
“ماورا زندہ ہے؟” وہ خود سے بڑبڑاتی معتصیم کو دیکھ رہی تھی۔
“لگتا ہے تمہیں یقین نہیں آیا مجھ پر۔۔۔ چلو ثبوت دکھاتا ہوں” موبائل پر انگلیاں چلاتے بہت جلد وہ ایک ویڈیو نکلاے زرتاشہ کے سامنے کرچکا تھا۔
موبائل پر چلتی ویڈیو دیکھ زرتاشہ کی آنکھیں پھٹ گئی تھی۔
“وہ واقعی میں زندہ ہے” خوشی کے آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔۔۔ مگر دوسرے ہی لمحے معتصیم کی بات دماغ میں آتے اس کی آنکھوں میں پھر خوف عود آیا تھا۔
“تم نے۔۔۔۔ تم نے کیا کیا اس کے ساتھ؟” خوف سے اس نے معتصیم کو دیکھا تھا۔
“اسے ایسی جگہ پھینکا ہے جہاں پینے کو پانی بھی نہیں ملے گا” معتصیم کے سنسناتے لہجے پر وہ آنکھیں میچ کر رہ گئی تھی۔
“یہ تم نے کیا کیا معتصیم۔۔۔۔کیا کیا تم نے؟۔۔۔۔۔ کیا کیا تم نے؟” یکدم وہ چلائی تھی۔
“آواز نیچی” اپنی کرسی سے کھڑا ہوتا وہ چلایا تھا۔
“کچھ غلط نہیں کیا اس کے ساتھ۔۔۔۔ جو تکلیف اس نے مجھے دی۔۔۔ جس جہنم میں اس نے مجھے جھونکا موقع ملتے میں نے اسی جہنم میں اسے پھینک ڈالا۔۔۔۔۔ میری غلطی ہی کیا تھی؟ یہی کہ اس سے محبت کی میں نے؟ اور اس نے کیا کیا میری محبت کو رسوا کردیا؟۔۔۔۔۔ میری محبت کو پھانسی لگادی بیچ چوراہے۔۔۔۔ میری عزت کا جنازہ نکال دیا اس نے۔۔۔۔۔۔ وہ یہ سب ڈیزروو کرتی تھی اور اب تمہیں بھی تمہارے کیے کی سزا ملے گی” وہ اونچی آواز میں دھاڑتا رزتاشہ کو خوف میں مبتلا کرگیا تھا۔
اس کا دل پھٹنے کو تھا مگر نہیں۔۔۔۔ آج آٹھ سال بعد اللہ نے اسے وقع دیا تھا۔۔۔۔ گناہ سے توبہ کا موقع۔۔۔۔ اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کا موقع
“ٹھیک ہے تمہیں مجھے جو سزا دینی ہے دے دو۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر ایک بار میری بات سن لو۔۔۔۔ کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے تم انجان ہو۔۔۔ بس وہ جان لو” اس نے منت کی تھی۔
معتصیم نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا تھا۔۔۔۔ دوبارہ کرسی پر بیٹھے اس نے ہاتھ میں موجود گھڑی کو دیکھا تھا۔
“بیس منٹ ہیں تمہارے پاس۔۔۔ جو کہنا یا بتانا چاہتی ہو بتادو” اپنی گھڑی پر نگاہ ڈالے وہ بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا کام کرنے کے بعد چہرے پر مطمئن مسکراہٹ لیے وہ سب کی نظروں سے بچتی کلب کے خارجی دروازے سے نکلتی اپنی گاڑی کی جانب بڑھی۔
وہ بنا کسی مشکل کے اپنا کام کرچکی تھی، مگر یہ اسکی خام خیالی تھی۔
اس سے پہلے وہ گاڑی کا دروازہ کھولتی کسی نے زور سے اسے پیچھے سے دبوچہ اور ہونٹوں پر ہاتھ رکھے اسے کلب کے ساتھ موجود تنگ تاریک گلی میں لے آیا۔
’’رانگ موو ڈارلنگ!‘‘ سرسراتا لہجہ اسکے پورے جسم میں سنسنی پھیلا گیا تھا۔
’’تمہیں کیا لگا کہ تم بچ کر نکل جاؤ گی؟ کیا تم بھول گئی کہ میں کون ہوں؟‘‘ اسکی پشت خود سے ٹکائے وہ اسکے کان میں سرد لہجے میں بولا۔
’’اسکی سزا ملے گی تمہیں!‘‘ اسکے کان کو ہلکے کا کاٹتا وہ بولا، جبکہ اسکی اس حرکت پر دوسرے وجود کی آنکھوں میں ناگواری در آئی۔
اسکے پیٹ میں کہنی مارے اس نے خود کو ایک جھٹکے سے اسکی گرفت سے آزاد کروایا اور مڑ کر ایک زور دار پنج اسکے چہرے پر دے مارا۔
’’شزا سلطان کو سزا دینے والا ابھی پیدا نہیں ہوا!‘‘ وہ پھنکاری اور قدم وہاں سے جانے کو اٹھائے
انگلی کو پوروں سے ہونٹوں سے نکلتا خون صاف کرتا وہ پراسرار سا مسکرایا۔
شزا کے سمجھنے سے پہلے وہ اسے اپنی گرفت میں دوبارہ لیے تیزی سے دیوار کے ساتھ لگائے اس پر مزید حاوی ہوچکا تھا۔ ایک چیخ اسکے لبوں سے نکلتے نکلتے بچی، اسنے گھور کر اسے دیکھا جو آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک لیے مسکراتا اسے دیکھ رہا تھا
کلب سے آتی ہلکی سی روشنی ان دونوں کے چہرے واضع کرنے کو کافی تھی۔
ویسے تو انہیں اپنی پہچان ہمیشہ چھپائے رکھنا ہوتی تھی، مگر ایک دوسرے کے سامنے آنے سے وہ زرا نہیں کتراتے تھے۔
’’وائے۔زی حصاب برابر کرنے والوں میں سے ہے!‘‘ اس سے پہلے شزا اسکے الفاظ سمجھ پاتی، چہرے پر پڑے والا پنچ اسے اچھے سے سمجھا گیا تھا۔
’’اگلی بار ایسی کوئی کوشش نہیں کرنا ڈارلنگ، ورنہ تم جانتی ہو نا مجھے؟‘‘ پنچ والی جگہ پھونک مارتا وہ اسکا گال تھپتھپاتا ایک سائے کی طرح غائب ہوا تھا۔
شزا نے زور سے دیوار میں ایک پنچ مارا۔
’’بلڈی باسٹرڈ!‘‘ منہ نے خون تھوکتی وہ دانت پیستے بڑبڑائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھتے سر کو تھامے وہ بستر سے اٹھتی دروازے کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ کل سے اس نے رو رو کر اپنی آنکھیں سوجھا لی تھی۔
تایا ابا نے اسے خلع لینے کو کہاں تھا اور یہ بھی کہ کاغذار بہت جلد تیار ہوکر آجائے گے۔۔۔یہ رشتہ جس خاموشی کے ساتھ جڑا تھا۔۔۔۔ اسی خاموشی کے ساتھ ختم بھی ہوجانا چاہیے تھا۔۔۔۔ مگر کیا وہ واقعی میں طلاق چاہتی تھی؟ کیا واقعی میں وہ معتصیم کے ساتھ جڑے اس رشتے کا ختم کرنا چاہتی تھی؟۔۔۔۔ سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔۔۔۔ اسے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس پر یقین کرے؟ اپنی دوستوں پر جن کے ساتھ اس نے زندگی کا ایک لمبا عرصہ گزارا یا اس شخص پر جس کے ساتھ چند دن پہلے ہی وہ ایک خاص رشتے میں بندھ گئی تھی۔
“کیا ہوا میری جان طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” اس کی حالت دیکھ تائی اماں کا دل گھبرایا تھا۔۔۔۔ تقی نے بھی اسکی حالت کا جائزہ لیا تھا۔۔۔ بھلے وہ اسے ناپسند تھی مگر آج کل اس کی حالت دیکھ وہ تشویش میں مبتلا ہوگیا تھا.
“تائی امی”
“جی بیٹا؟”
“وہ آج کچھ دیر کے لیے صوفیہ کے گھر چلی جاؤ۔۔۔پلیز؟” اس کی حالت سمجھتے تائی امی نے بھی اسے اجازت دے دی تھی۔۔۔۔
فلحال اس کے لیے یہی بہتر تھا۔۔۔۔ گھر میں ہرکوئی اس کی خراب طبیعت کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔ اب تو ان چچیوں کو بھی پریشانی لگ گئی تھی جو دن میں سو باتیں اسے سنا کر اپنا دل ہلکا کرتیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“صوفیہ گھر پر ہے؟” اس نے اندر جانے سے پہلے گارڈ سے سوال کیا تھا۔
“جی میڈم۔۔۔۔ باقی سب دوستیں بھی اندر ہی ہیں” چوکیدار نے اس کی معلومات میں مزید اضافہ کیا تھا۔
سر اثبات میں ہلاتی وہ ہینڈ بیگ پر گرفت سخت کیے گھر میں داخل ہوئی تھی جہاں ہو کا عالم تھا۔۔۔ سیڑھیاں چڑھتے وہ صوفیہ کے کمرے کی جانب بڑھی جہاں سے آتی باتوں کی آواز پر اس کے قدم ٹھٹھکے تھے۔
“یار یہ کچھ زیادہ ہی نہیں ہوگیا؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ابھی بھی” دعا کی جھنجھلائی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
“مجھے تو سوچ سوچ کر خوف آرہا ہے اگر اس نے ہمارے خلاف کیس کردیا تو؟” عائزہ کا بھی خوف سے برا حال تھا۔
“اگر ایسا ہوا تو ہمارا بلڈ ٹیسٹ ہوگا اور پھر سب کو معلوم ہوجائے گا کہ ہم نے معتصیم پر الزام لگایا خود کو بچانے کے لیے!” دعا کی بات پر اس کا منہ کھل گیا تھا۔
منہ پر ہاتھ رکھے اس نے اپنی آواز کو دبانا چاہا تھا۔
“کم آن گرلز ریلکیس۔۔۔۔ ڈرو مت کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ کیونکہ جسے کچھ کرنا ہے وہ رو تو خود غم میں ڈوبا ہے۔۔۔۔ بیچارے کے ماں باپ نے خودکشی کرلی بدنامی کی وجہ سے” آنکھوں سے نکلے آنسوؤں اس کے چہرے اور ہاتھ کو بھگو چکے تھے۔
“تو ہمارے خلاف ایکشن لینے کا چانس زیرو ہے” صوفیہ کی بات پر ان دونوں نے سکون کی سانس لی تھی جب کہ زرتاشہ کو ابھی بھی اپنے کیے پر افسوس تھا۔
لچھ سوچتے ماورا نے دماغ چلایا تھا۔۔۔۔ تیزی سے ہینڈ بیگ سے موبائل نکالے وہ کمرے کے زرا سے کھلے دروازے سے ان کی ویڈیو بنانا شروع ہوچکی تھی۔
“ہم نے اچھا نہیں کیا گائز۔۔۔۔ خود کو بچانے کے لیے ہم نے ایک بےگناہ کو پھنسا دیا اور وہ بھی کون؟ معتصیم؟ وہ ماورا کا شوہر ہے۔۔۔۔ تم لوگ جانتے ہو ماورا نے کتنی آس سے پوچھا تھا کہ شائد ہمیں غلط فہمی ہوگئی ہو اور وہ معتصیم نہ ہو۔۔۔۔ جانتے ہو کتنی تکلیف ہوئی تھی مجھے اس سے جھوٹ بولتے ہوئے۔۔۔۔ ہم نے بالکل اچھا نہیں کیا۔۔۔ یہ نا صرف معتصیم بلکہ ماورا کے ساتھ بھی زیادتی ہے” زرتاشہ کی بات صوفیہ کو غصہ دلا گئی تھی۔
“تو کیا کرتے؟ انتظار میں رہتے کہ کط معتصیم سر کو ہماری کمپلین کرے گا اور کب ہم اپنے ماں باپ کا سر اس سوسائٹی میں جھکا دے گے شرم سے ؟۔۔۔۔ معتصیم مرد ہے۔۔۔۔ آج نہیں تو کل لوگ اس واقع کو بھول جائے گے اور معتصیم دوبارہ اس معاشرے میں چل پھر پائے گا مگر ہم۔۔۔۔ ہم کیا کرتی؟ اور اگر ہم معتصیم پر الزام نہ لگاتے تو تمام دنیا کو معلوم ہوجاتا کہ ہم ڈرگز لیتی ہیں۔۔۔۔ پھر خوش تھی تم ؟” بات کرتے کرتے صوفیہ کا رخ دروازے کی جانب ہوا تھا جب ماورا نے تیزی سے موبائل پیچھے کھینچا تھا۔۔۔۔ اسے تو مانو اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہ آیا تھا۔۔۔
کیا یہ واقعی اس کی دوستیں تھیں۔ اتنے سالوں کا ساتھ اور وہ انہیں پہچان نہیں پائی تھی۔
“خیر ماورا کی فکر مت کرو۔۔۔ اسے کونسا اس شخص سے کوئی طوفانی قسم کا عشق تھا جو وہ تڑپ تڑپ مر جائے گی۔۔۔۔ کچھ ماہ تک ہوجائے گی بالکل ٹھیک” صوفیہ کی بات سنتی وہ سر نفی میں ہلائے قدم پیچھے کو اٹھاتی وہاں سے جانے کو مڑی تھی جب ساتھ پڑا گلدان سکے ٹکڑانے کی وجہ سے زمین پر گر کر ٹوٹ گیا تھا۔
آواز سنتی وہ چاروں تیزی سے باہر نکلی تھی جب سامنے ماورا کو پاکر ان کے چہروں کا رنگ اڑا تھا۔
“ماورا تم۔۔۔۔ تم کب آئی” زرتاشہ فوراً مسکراتی اس کی جانب بڑھی تھی۔۔۔ ماورا نے تیزی سے قدم پیچھے لیے تھے۔
“خبردار پاس نہیں آنا۔۔۔۔ تم, تم لوگ کتنی گھٹیا ہو۔۔۔ اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے کسی اور پر الزام لگا دیا۔۔۔۔ مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ میں سب کو جاکر بتاؤں گی تم لوگوں کی حقیقت” وہ چیخی تھی۔
“ماورا میری بات تو سنو” زرتاشہ نے اسے روکنا چاہا تھا۔
“کچھ نہیں سننا مجھے۔۔۔۔ دھوکا دیا ہے تم نے مجھے۔۔۔۔ تم سب کو سزا دلواؤں گی میں۔۔۔ دیکھ لینا!” انگلی دکھائے اس نے وارن کیا تھا۔
“اچھا اور کیسے سزا دلواؤ گی؟ کیا ثبوت ہے تمہارے پاس؟۔۔۔پاسکو اور اگر ہمارے خلاف کچھ بولو گی بھی تو تم معتصیم کی بیوی ہو کوئی کیوں مانے گا تمہارے بات؟” صوفیہ نے چبھتے لہجے میں سوال کیا تھا۔
“کس نے کہاں میرے پاس ثبوت نہیں ہے؟۔۔۔ ثبوت ہے میرے پاس۔۔۔۔ یہ دیکھو” وڈیو ان کے سامنے کیے وہ فتح مند آنکھوں سے مسکرائی تھی۔۔۔۔۔ ان چاروں کے رنگ پھیکے پڑے تھے۔
“ایک, ایک کو سزا دلواؤں گی۔۔۔ کوئی نہیں بچے گا۔۔۔”
“پہلے خود کو تو بچالو” اس سے پہلے وہ سمجھ پاتی پیچھے سے کسی زور دار چیز اس کے سر سے ٹکڑائی تھی۔
موبائل ہاتھ سے چھوٹا اور وہ خود بھی سر پر ہاتھ رکھے زمین پر گرگئی تھی۔۔۔۔ آنکھیں بند کرنے سے پہلے جو آخری چیز یاد تھی وہ تھا حسان جس کے ہاتھ میں واز تھا جس پر اس کا خون لگا تھا۔
“ماورا!” زرتاشہ کو تکلیف ہوئی وہ آگے بڑھی تھی جب صوفیہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
“تم میں سے کسی نے کچھ نہیں دیکھا اور اگر منہ کھولا تو اگلی باری تمہاری ہوگی” حسان کے وارننگ دینے پر دعا اور عائزہ نے تو جھٹ سر اثبات میں ہلایا تھا جبکہ زرتاشہ کے آنسو بہہ نکلے تھے۔
“میں اسے ٹھکانے لگاتا ہوں۔۔۔ یہاں پر سب سنبھال لو صوفیہ اور اس بھی سنبھال لینا!” اشارہ زرتاشہ کی جانب تھا۔
جھک کر بےہوش ماورا کو اٹھائے حسان وہاں سے جاچکا تھا۔
“کم آن گائز ہمیں یہ سب یہاں سے سمیٹنا ہوگا” صوفیہ کے بولتے ہی وہ دونوں بھی فوراً ہاتھ چلانا شروع ہوگئی تھی۔
“زرتاشہ” صوفیہ کے چلانے پر وہ بھی ہوش میں آتی ان کی مدد کرنے لگ گئی تھی۔۔۔ جب کہ دھیان ابھی بھی ماورا کی جانب تھا۔۔۔۔
“میں نہیں جانتی معتصیم کے تم نے ماورا سے کس بات کا بدلا لیا ہے مگر وہ بالکل بےقصور تھی۔۔۔۔” زرتاشہ روتے ہوئے بولی تھی جبکہ معتصیم آفندی کا وجود ابھی تک سن تھا۔
“مگر۔۔۔ مگر مجھے صوفیہ نے بولا کہ یہ سب ماورا کے کہنے پر۔۔۔۔۔ ”
“جھوٹ۔۔۔بالکل جھوٹ بولا اس نے تم سے۔۔۔۔ ماورا تو معصوم تھی۔۔۔ بےقصور۔۔۔۔”
“اس کے بعد۔۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوا؟۔۔۔ ماورا لندن کیسے پہنچی؟”
“مجھے نہیں معلوم کہ ماورا وہاں کیسے پہنچی۔۔۔ بلکہ میں تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ زندہ ہے۔۔۔۔ اس حادثے کے بعد ماورا کے تایا تائی رپورٹ کروائی تھی ماورا کے لاپتہ ہونے کی۔۔۔۔ ان کے مطابق وہ صوفیہ کے گھر آنے کو نکلی تھی۔۔۔ پولیس تفتیش کے لیے صوفیہ کے گھر گئی مگر انہیں کچھ نہ ملا۔۔۔۔۔ صوفیہ اور حسان پہلے ہی کیمرہ فوٹیج چینج کرچکے تھے۔۔۔۔ گارڈ کو بھی پیسے دے کر منہ بند کروا دیا گیا تھا۔۔۔۔ پولیس نے ایک ماہ تک کوشش کی اور بعد میں مسنگ پرسنز میں اس کا نام لکھ کر کیس بند کردیا۔۔۔۔”
“اور۔۔۔ اور ماورا مرگئی ہے۔۔۔۔ ایسا کیوں لگا تمہیں؟” گہری سانس خارج کرتے اس نے سوال کیا تھا۔
“حسان نے بتایا ۔۔۔۔ ماورا کو مار کر اس نے ڈیڈ بادی جلا دی تھی کسی سنسان علاقے میں اور کہا کہ یہی بہتر ہے ہمارے لیے۔۔۔۔ میں بتانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر انہوں نے مجھے بلیک میل کیا تھا کہ اگر منہ کھولا تو وہ چھوڑے گے نہیں ۔۔۔۔ میں ڈر گئی تھی” زرتاشہ کی مکمل بات سن کر معتصیم کا دل چاہا تھا دھاڑے مار مار کر روئے۔
اگر یہ سچ تھا تو جو صوفیہ نے کہا اور جو فہام جونیجو۔۔۔۔۔ فہام جونیجو۔۔۔ اس نام پر آکر وہ رکا تھا۔۔۔
اگر زرتاشہ سچی تھی تو فہام جونیجو نے ماورا کے متعلق جھوٹ کیوں بولی۔۔۔۔
“اگر تم سچی ہو تو فہام جونیجو کون ہے اور اس کا ماورا سے کیا تعلق؟” اس پر جھکتے معتصیم نے دانت کچکچائے سوال کیا تھا
“کون فہام جونیجو؟۔۔۔۔میں نہیں جانتی کسی بھی فہام کو اور نہ ہی ماورا” اس نے سر تیزی سے نفی میں ہلایا تھا۔
معتصیم کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا تھا۔
اس نے فورا بیشتر فہام جونیجو کی کہانی سنائی تھی۔
“جھوٹ۔۔۔ وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔ ماورا کا حسان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔۔۔ مجھے نہیں پتہ وہ اب اس معصوم سے کون سا بدلا نکال رہا ہے مگر یہ سراسر جھوٹ ہے”
“ہوسکتا ہے وہ سچا ہو۔۔۔۔ ہوسکتا ہے وہ واقعی میں ماورا سے ملا ہو حسان کے ذریعے؟۔۔۔۔ اور پھر حسان کے قتل کے بعد وہ غائب ہوگئی تھی۔”
“میں کہہ رہی ہوں نا یہ ناممکن ہے۔۔۔۔ ماورا کے لاپتہ ہونے کے ایک ماہ تک پولیس کی کڑی نظر تھی ہم پر۔۔۔۔ اور کیا کہہ رہے ہو؟ قتل اور حسان کا؟۔۔۔ قتل نہیں ہوا تھا اس کا۔۔۔۔۔ ڈرنک کرکے ڈرائیو کررہا تھا۔۔۔ جب ایکسیڈینٹ میں مرگیا تھا وہ” اب کی بار تو معتصیم کا حال کاٹو بدن تو لہو نہ تھا والا تھا۔
“زرتاشہ میں ایک آخری بار کہہ رہا ہوں۔۔۔ سوچ سمجھ کر جواب دینا۔۔۔۔ کیا تم واقعی فہام جونیجو کو نہیں جانتی؟ یا اس کا نام نہیں سنا؟۔۔۔۔۔ کبھی غلطی سے کہی بھی؟” معتصیم بےصبر ہوا تھا۔
“فہام جونیجو” دماغ پر زور ڈالے اس نے نام دھرایا تھا۔
یکدم دماغ پر کچھ کلک ہوا تھا۔
“جس دن۔۔۔ جس دن ماورا کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا اس دن میں صوفیہ کے گھر گئی تھی اس سے بات کرنے جب میں نے دونوں کسی بات پر بحث کررہے تھے۔۔۔ وہاں۔۔۔ وہاں یہ نام سنا تھا میں نے”
“کیا؟ کیا بات کررہے تھے وہ ؟” معتصیم نے تیزی سے سوال کیا تھا۔
“صوفیہ نے پوچھا تھا کہ کام ہوگیا جس پر حسان نے جواب دیا تھا کہ وہ “اسے” دبئی پہنچا چکا ہے ۔۔۔۔ آگے سب فہام جونیجو سنبھال لے گا۔۔۔ اسے کون میں نہیں جانتی۔۔۔ وہ دونوں بھی خاموش ہوگئے تھے مجھے وہاں دیکھ کر” زرتاشہ کی بات مکمل ہوتے ہی معتصیم نے گہری سانس خارج کی تھی۔
“تم نے۔۔۔۔۔ تم نے بہت غلط کیا زرتاشہ۔۔۔ اور تم سے زیادہ برا میں نے کیا۔۔۔” سر نفی میں ہلاتا وہ دروازے کی جانب بڑھا تھا۔
“پلیز۔۔۔ پلیز معا کردو معتصیم۔۔۔۔ پلیز” وہ روتے بولی تھی۔
“بالکل بھی نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ اور جو تم لوگوں نے ماورا کے ساتھ کیا اس کے باوجود تو بالکل بھی نہیں۔۔۔ تم سب کو سزا ملے گی” معتصیم کا سپاٹ لہجہ اس کے کانوں سے ٹکڑایا تھا جس پر وہ پھیکا سا ہنس دی تھی۔
“سزا؟ بدلا۔۔۔۔ کیسی سزا اور کون سا بدلا؟۔۔۔۔ کس سے لو گے بدلا کس کو دو گے سزا؟۔۔۔۔ عائزہ کوکھ۔۔۔۔ جس کا شوہر اس پر بدکرداری کا الزام لگاتا اسے تیزاب سے جلا چکا تھا اور وہ اپنی باقی کی زندگی لوگوں کے گھروں کی صفائی کرتے اور برتن دھوتے گزار رہی ہے۔۔۔۔۔۔ یا دعا جو ایڈز جیسی بیماری میں مبتلا ہوکر تڑپ تڑپ کر مر گئی۔۔۔کتنے یا صوفیہ سے جس کو کچھ غنڈے حسان کے قرض کے بدلے اٹھا کر لے گئے تھے اور اب وہ کہاں ہے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔۔ یا مجھ سے بدلا لو گے۔۔۔ جس کا شوہر ایک بھنورا تھا اور جب مجھ سے دل بھر گیا تو اپنے بچے کی بھی پرواہ نہ کی اور طلاق دے دی اور میں جو کینسر جیسی بیماری سے لڑ رہی ہوں اور ایک بیٹا ہے جس کا میرے بعد کیا بنے گا کچھ معلوم نہیں۔۔۔ بتاؤ معتصیم کس سے بدلا لو گے تم؟۔۔۔۔۔ کون بچا ہے یہاں؟۔۔۔ تمہارا بدلا تو قدرت لے رچکی ہے ہم سے۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ تم نے ماورا کے ساتھ کیا کیا۔۔۔ مگر ابھی بھی اگر وقت نہیں گزرا تو اسے بچالو۔۔۔ سنبھال لو اسے۔۔۔۔ پلیز معتصیم۔۔۔۔ میں نہیں جانتی کہ اس کے ساتھ کیا کیا ہوا مگر۔۔۔ مگر وہ بےقصور ہے معتصیم” اس کی بات سنتا وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ باہر نکلا تھا۔
“سر” اس کا ایک آدمی آگے بڑھا تھا۔
“اس کو چھوڑ آؤ وہی جہاں سے لائے تھے۔۔۔ اور ایک کھروچ نہیں آنی چاہیے” انہیں حکم دیتا وہ گاڑی میں جابیٹھا تھا۔
آنکھیں بند کیے گاڑی کی پشت سے ٹیک لگائے اس نے کئی آنسو انر اتارے تھے, مگر پر بھی کچھ آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔
وہ یہاں کیوں آیا تھا اور کیا ہوگیا۔۔۔۔ یہ سب, یہ سب ایسے نہیں ہونا تھا۔۔۔۔ تکلیف سے دماغ پھٹا جارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...