(نظم)
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں
تم بھی آئوگے ہم بھی آئیں گے
حلف اٹھانے کی رسم سے بے نیاز لمحے
تمام مفلوج عدل گاہوں کی مصلحت کیش بے زبانی
لہو فروشی کے کل دلائل
دفاتر منصفی پہ تحریر کر رہے ہیں
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں تم بھی آئوگے ہم بھی آئیں گے
تم اپنے سارے حلیف لانا
قصیدہ خوانوں کا مجمع بے ضمیر لانا
خمیدہ سر مصلحت پسندی کے زہر آلود تیر لانا
تم اپنی مانگی ہوئی شکستہ سی تیغ لانا
صلیب لانا
اذیتوں کے نصاب لانا
ہر ایک پشت بشر پہ تحریر وحشتوں کی لکیر لانا
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں تم بھی آئو گے ہم بھی آئیں گے
ہم اپنے ہمراہ زندہ لفظوں کے پھول لے کر
ہر ایک دامن کی دھجیوں کی دھنک میں پوشیدہ
زندگی کے اصول لے کر
ہزارہا سر کشیدہ کرنوں کا نور لے کر
ہم اپنی ان بیٹیوں کی مانگوں کا حسن لے کر
کہ جن کے سیندور کو کھرچ کر
تم آج بارود کی سرنگیں بچھا رہے ہو
ہم اپنی دھرتی کے ذرے ذرے میں شعلہ افشاں
جلال لے کر
ضرور آئیں گے
جلد آئیں گے
وہ دور اب دور تو نہیں ہے
کہ وقت جب منصفی کرے گا
۔۔۔۔۔۔
حوالہ
حسن حمیدی: نظم ’’ ـتاریخ کی عدالتـ‘‘،مشمولہ ماہنامہ افکار ،کراچی،منتخب منظومات نمبر،شمارہ300مارچ 1985،صفحہ86۔