’’ خواب عذاب ہوئے‘‘ کے عنوان سے حسن عباس رضاؔ نے اپنا پہلا مجموعہ شایع کیاہے ، آپ نے مختلف اصناف اور پیرایوں میں اپنے افکار و جذبات سے عہدہ برآ ہونے کی کامیاب کوشش کی ہے ، ان سب تخلیقی تجربات میں تنوع کے ساتھ ساتھ خلوصِ جذبات اور صداقتِ فکر کا یکساں اظہار بھی نمایاں ہے ، جس کے باعث یہ توقع ضرور کی جاسکتی ہے کہ اس خوبصورت نقشِ اول کے بعداُن کی مزید کاوش انتظار کے قابل ثابت ہوگی‘‘
فیض احمد فیض ۔ ۱۴نومبر ۱۹۸۴
’’حسن عباس رضاؔ ، اس دور کی جدید نسل کا نہایت باشعور اور بہت ذہین شاعر ہے ، اسے تخلیق کار کے منصب و مقام کا علم ہے ۔۔۔وہ اردو ادب کے ان جدید غزل کے شعراء کی صف میں شمولیت کی طرف بڑھ رہا ہے ، جن میں فراقؔ ، اور فرازؔ ، ناصر اور اطہر نفیس ، احمد مشتاق اور شکیب جلالی شامل ہیں ۔ حسن رضا کے ہاں بھی ان اعجاز کاروں کی طرح روایت اور جدت کا امتزاج موجود ہے ۔۔۔ حسن عباس رضا ایک ترقی پسند ، ارتقا پسند ، اور تغیر پسند شاعر ہے ، اس لیے اس کی غزل کے دائرے میں انسانیت متعدد مثبت امکانات سے سج کر جلوہ نما ہوتی ہے۔ غزل کے ساتھ ہی حسن رضاؔ نے نظم کے میدان میں بھی اپنی انفرادی سوچ اور سلیقہ مندی کو برقرار رکھا ہے ، ایسا بہت کم ہُوا ہے کہ کامیاب غزل کہنے والا ، کامیاب نظم کہنے پر بھی قادر ہو یا کوئی بڑا نظم نگار بڑی غزل بھی کہہ سکا ہو ،فیض اور فراز کی سی مثالیں اکا دکا ہی ہیں ، جنہوں نے عمدہ غزل کے ساتھ ساتھ عمدہ نظم بھی کہی ، اور خوشی کا مقام ہے کہ ہمارا نوجوان شاعر حسن رضا ، ان دونوں اصنافِ سخن پر اطمینان بخش حد تک حاوی ہے۔‘‘
احمد ند یم قاسمی ۔ ۱۹۹۵ ’’نیند مسافر ‘‘کے پیش لفظ سے اقتباس
’’ میرے سامنے کی بات ہے جب تم نے شعر موزوں کرنے شروع کیے تھے ، پھر تم اکیڈمی میں میرے ساتھ شامل رہے ، اور سب سے بڑا رشتہ یہ کہ ہمسفری کے ساتھ ساتھ ہم نظری کے عذاب و نشاط میں ہم تجربہ بھی رہے ، اور اب وہ دن آیا کہ تم صاحبِ کتاب بن رہے ہو ، اپنے سامنے کا پودا دیکھتے دیکھتے بھرپور درخت بن جائے تو خوشی ہوتی ہے ، گو کہ اس پودے کی دیکھ بھال اور آبیاری میں میرا کوئی Contribution نہیں ، محض پودے کی اپنی سخت جانی اور نمو کی قوت تھی کہ جان لیوا موسموں کے باوجود نہ صرف زندہ رہا ، بلکہ اس میں پھل پھول بھی آ گئے ، سو مجھے اس حوالے سے بے حد خوشی ہے ۔۔ مجھے اور مجھ جیسے سر پھروں کو تمہارے اشعار اور تحریریں جب بھی عزیز تھیں ، اور آئندہ بھی عزیز رہیں گی، اور میں تو خاص طور پر ایسی نوید سے خوش ہوتا ہوں کہ ۔۔ سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا ۔۔۔ سو لکھتے رہو ، اور ہو سکے تو دوسروں تک پہنچاتے رہو ، چاہے کتابی صورت میں تمہاری تحریریں لوگوں تک پہنچیں یا قاصد کبوتروں کے توسط سے ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ تم اور دیگر نوجوان شاعروں اور افسانہ نگاروں کا جو گروہ موجودہ عہد میں اسلام آباد ، راولپنڈی میں جمع ہے ، ایک باوقار اور سچا ادب پیدا کر رہا ہے‘‘ احمد فراز ۱۹۸۵ لندن سے آئے ایک خط سے اقتباس
’’حسن عباس رضاؔ، کی خوبصورت شاعری سے میں پہلے ہی Impress ہو چکا تھا ، یہ غزل کے رنگ میں بہت اچھے شعر کہتے ہیں ۔۔۔ حسن رضا کے اشعار کی خوبی یہی ہے کہ وہ بیک وقت انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی ، وہ ان کے حالات بھی بیان کرتے ہیں ، اور ہمارے بھی ، ان کا درد بڑا تخلیقی ہے ، مگر یوں بھی کیا کہ دوست سن کر اداس ہو جائیں ۔
بدن میں قطرہ قطرہ زہر اُتارا جا رہا ہے کہ ہم کو آج کل قسطوں میں مارا جا رہا ہے
بظاہر تو بہت ہی دُور ہیں گرداب سے ہم مگر لگتا ہے ہاتھوں سے کنارا جا رہا ہے‘‘
گُلزا ر ۔ بمبئی ’’تاوان ‘‘ کے پیش لفظ سے اقتباس
’’ حسن عباس رضاؔ نے عمر کی زنبیل میں ہاتھ ہی ڈالا تو وقت کے سانپوں نے اُسے ڈسنا شروع کر دیا ، شعر لکھنے پر سزا ، اور شعر چھاپنے پر سزا ، مگر یہ دونوں تجربوں کے باوجود حسن عباس رضا کو خود پر پابندیاں عاید کرنا نہیں آئیں ، مجھے تو یہ پاکستان کا آندرے مالرو ؔ لگتا ہے ، مالرو فاشزم کے خلاف تھا ، حسن رضاؔ محکومیت اور بے حسی کے خلاف ہے ۔ حسن عباس رضاؔ کی شاعری سن کر میرے جیسے بے حِس وجود میں بھی حرارت محسوس ہوتی ہے ، شاید یہی انفرادیت کہیں اجتماعی حرارت بھی بن سکے ‘‘کشور ناہید’’خواب عذاب ہوئے ‘‘کے پیش لفظ سے اقتباس
’’ مقامِ شکر ہے کہ ہمارے درمیان ابھی ایسی آوازیں زندہ ہیں ، جو حرمتِ لفظ کے تحفظ کی ذمہ داریوں سے کماحقہء واقف ہیں ۔ حسن عباس رضاؔ بھی ایک ایسی ہی خوبصورت اور جاندار آواز کا نام ہے ، جس نے گزشتہ چند برسوں میں اردو شاعری کو بہت سے باقی رہ جانے والے شعر دیئے ۔ حسن عباس رضاؔ کی شاعری نے نہ صرف یہ کہ بہت جلد اپنی شناخت کا مرحلہ طے کیا ہے ، بلکہ مستقبل کے امکانات کی نشاندہی بھی کی ہے ۔ مدت سے اردو کا مزاحمتی ادب اپنے ایک نمائندہ شاعر کے انتظار میں ہے ، حسن عباس رضاؔ کا اپنے خوابوں پر یقین راسخ ، او ر اپنی سچائیوں پر ایمانِ تمام فن کی ریاضتوں کے ساتھ یونہی مسلسل و متواتر رہا تو کیا عجب کہ یہ منصب اسی کا مقدر ٹھہرے ‘ ‘ افتخار عارف ’’خواب عذاب ہوئے ‘‘ کے فلیپ سے اقتباس