ہیری جیکی کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا کے اچانک اس کے فون پہ کال آنے لگی۔ فون چیک کیا تو سیانشنگ کالنگ لکھا آ رہا تھا ۔ سیانشنگ چائنیز میں ہیڈ کو کہتے ہیں۔
نی ہاو! (کیسے ہو )؟؟؟
ہاو دؤ شے (میں ٹھیک ہوں شکریہ)
نی زن می یانگ (آپ کیسے ہیں)
ہاو (ٹھیک)
وومن یاؤ شی می منگٹین جئےشو (کیا ہم کل مل سکتے ہیں )
نہار (کہاں)
چاؤ شی (سپر مارکیٹ )
فون بند کر ک ہیری سوچ میں پڑ گیا کے ایسا کیا کام ہو سکتا ہے کیونکہ اگر باہر ملنے کے لئے بلایا تھا تو یقیناً کوٸ خاص بات تھی۔
وہ اندر آیا تو ندا بیگم فون پہ مصروف تھیں وہ انہیں باتیں کرتا چھوڑ کر اپنے کمرے میں آگیا۔
کل کی ہونے والی ملاقات کے بارے میں سوچتا جانے کب وہ نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔
ابھی اسے سوۓ ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ وہ اچانک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ آج پھر وہی خواب۔۔۔۔ وہ جب سے اپنی ٹریننگ مکمل کر کے آیا تھا مسلسل ایک ہی خواب روز دیکھتا آرہا تھا۔ بہت پیچھا چھڑانے کے بعد بھی وہ اس خواب کے زیرِ اثر رہتا تھا۔
ہیری فریش ہو کر باہر آیا تو کھانا لگ چکا تھا۔ کیا بات ہے بیٹا تم تو شام میں نہیں سوتے پھر آج خیریت تھی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ؟؟؟
ندا بیگم فکر مندی سے پوچھ رہیں تھیں۔ نہیں کچھ نہیں ہوا بس آنکھ لگ گٸ تھی۔
بابا کہاں پر ہیں؟؟ ہارون صاحب کو موجود نہ پا کر وہ بولا۔
بس بیٹا کشمیر کے حالات کا تو تمہیں پتا ہے نہ۔ ہماری گورنمنٹ پاکستان کی مدد کے لیے لاٸحہ عمل ترتیب دے رہی اس سب میں ہی مصروف ہیں وہ آج کل۔
ہمم چلیں آپ تو کھانا شروع کریں۔
کھانا کھا کر وہ روم میں آیا تو پھر وہی خواب نظر آیا۔
گھڑسوار تلواریں دھول ہر چیز گڈ مڈ ہو رہی تھی وہ جانتا تھا اس خواب کو سورةالعٰدیٰت کا منظر تھا یہ اور وہ یہی سمجھتا تھا کہ آرمی جواٸن کرنے کی وجہ سے اسکو یہ خواب آ رہے ہیں کیونکہ اسکا مقصد ملک کی حفاظت ہی تو تھا۔ مگر جو بات اسے پریشان کرتی تھی وہ ایک لڑکی تھی جو اسے نظر آتی تھی۔ گھوڑے کی لگامیں تھامے ہوۓ اک لڑکی جس کا چہرہ اسے کبھی نظر نہیں آیا۔ اور خواب کا یہی حصہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
********************************
اپیا! اپیا! اپیا آپ کہاں ہیں؟؟؟ میں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں آپ کو۔۔۔۔ منورہ زہرہ کو آوازیں لگاتی جا رہی تھی جبکہ زہرہ بی بی کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے باہر جانے کا سوچا گرم کوٹ دستانے لانگ شوز پہنے وہ باہر نکل آٸ ۔ کچھ ہی دور گٸ تھی تو زہرہ موسم کی شدت سے بے نیاز کام کرتی نظر آٸ۔
منورہ نے دہل کر اسے دیکھا اور زور سے چلاٸ اپیاااااااااااااااا یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟؟؟
آپ نے اس گندے سے ڈوگی کو پاس کیوں بٹھایا ہوا ہے؟؟؟
زہرہ نے اسکے چیخنے پر اسے ناگواری سے دیکھا اور اپنے کام میں مصروف ہو گٸ۔ وہ چھوٹا سا گھر بنا رہی تھی اس سردی سے ٹھٹھرتے لاغر سے کتے کے لیے۔
کیا ہو گیا ہے منو۔۔۔ اتنا کیوں چلا رہی ہو جیسے کوٸ ایلین دیکھ لیا ہو۔
ہاں تو اور کیا ابھی ایک ہفتے پہلے تو آپ نے کہا تھا کہ آپ کو اچھی والی پرنسز نہیں بننا اینیملز کی ہیلپ تو اچھی والی پرنسز کرتی ہے نہ تو پھر آپ کیوں کر رہی ہیں؟؟؟
وہ سخت خفا نظر آ رہی تھی اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس گندے سے کتے کے لیے گھر بنا رہی تھی اس لیے کیونکہ وہ بری شہزادی بننے کے باوجود اس ٹھنڈ میں کتے کے لیے گھر بنا رہی تھی۔
زہرہ کو اپنی اس چھوٹی سی پرنسز پر بہت پیار آیا مگر وہ رخ موڑتے ہوۓ بولی۔
کیونکہ ہماری اچھی والی پرنسز کو یہ ڈاگ گندہ لگ رہا ہے وہ صرف اچھی دکھنے والی چیزوں اور لوگوں کی ہی ہیلپ کرتی ہے تو پھر کسی کو تو گندے نظر آنے والے بچوں اور اینیملز کا خیال تو رکھنا ہو گا نہ۔
وہ اسکو اس دن کا حوالہ دے رہی تھی جب اس نے ایک بچے کو صرف اسلٸیے چاکلیٹ نہیں دی کیونکہ اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوۓ تھے۔ زہرہ نے اسکو بہت سمجھایا مگر اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ وہ گندہ ہے۔
اور آج جب زہرہ نے اسکو یہ باور کرایا کہ پرنسز تو سب کی ہیلپ کرتی ہے اس پہ گھڑوں پانی پڑ گیا تھا۔
تو کیا میں اچھی والی پرنسز نہیں ہوں۔ وہ اداس ہوتے ہوۓ بولی۔
ارے نہیں آپ تو اچھی پرنسز ہو بس آپ نے ان کی بھی ہیلپ کرنی ہے جن کی کوٸ ہیلپ نہیں کرتا۔
اوکے اب میں اچھی والی پرنسز بنوں گی کیا میں آپکی ہیلپ کروں۔ وہ چہکتے ہوۓ بولی۔
اور پھر اس نے سخت سردی کے باوجود زہرہ کی بھرپور مدد کی اور جب زہرہ نے کتے پر اپنی گرم سویٹر ڈالی تو منورہ نے بھی پھر اپنی ٹوپی اسے پہنا دی۔
سچ ہی ہے چھوٹے اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں نفرتیں بھی محبتیں بھی اور عبادتیں بھی۔
اور دوووور کہیں قسمت کھڑی اس ننھی پری کی اس معصوم سی نیکی پر مسکرا دی تھی۔
********************************
ہیری اگلی دوپہر سپر مارکیٹ پہنچ گیا کہ اسے اپنے ہیڈ آتے نظر آۓ جو اسے پاس بنے ریسٹورنٹ میں آنے کا کہہ رہے تھے۔
وہاں پہنچ کر دونوں ایک ٹیبل پر آ گۓ۔ فلحال دونوں خاموش تھے۔ کہ وان لی نے ایک چٹ اسے پکڑاٸ۔
نی دوو (پڑھو)
ہیری نے حیران ہوتے ہوۓ چٹ پر دیکھا۔ جہاں اردو میں دو الفاظ جگمگا رہے تھے۔ فوٹوگرافر
ہیری ان دو الفاظ سے سمجھ گیا کہ اسے کیا حکم دیا جا رہا تھا۔ اس نے چٹ پکڑی اور نکل گیا۔
تو اسے اب جاسوسی کے لیے جانا تھا بلکہ نہیں مخبری کے لیے وہ جانتا تھا کہ اسے انتہاٸ نازک حالات کے بارے میں بریفنگ دینی ہے تاکہ فوج خفیہ طور پر کارواٸ کر سکے۔
مگر وہ حیران تھا کہ میڈیا جب ہر پل کی خبر دے رہا ہے تو پھر کیسی مخبری کرنی۔
خیر اب یہ تو وہی جا کر ہی پتہ چلنا تھا کہ اسے کس چیز کی مخبری کرنی ہے۔
دو دن بعد اسے نکلنا تھا۔
تو اس نے کھانے پر ہی ماں باپ کو بتانے کا سوچا۔
مام مجھے آرڈرز مل گۓ ہیں مجھے پرسوں مشن کے لیے نکلنا ہے۔
اچھا چلو تم کامیاب ہو کر لوٹو میں بہت خوش ہوں کہ میرا بیٹا ملک کی حفاظت کے لیے جا رہا ہے۔ بھٸ فخر ہی تو ہو گا نہ آخرکار سپر پاور کی فوج کا حصہ ہے میرا بیٹا۔ ندا بیگم جزباتی ہو رہی تھیں اور کیوں نہ ہوتیں آخر تھی تو پاکستانی ہی۔
خیر جا کہاں رہے ہو؟؟؟ ہارون صاحب نے اب کہ پوچھا۔۔۔۔
پاکستان۔۔۔۔ وہ سپاٹ چہرہ لیے بولا
پاکستان۔۔۔۔۔۔۔ مگر پاکستان ہی کیوں؟؟؟؟ ندا بیگم تو گویا پھٹ ہی پڑی تھیں۔
ریلیکس مام اٹس ماٸ جاب اینڈ آٸ ہیو ٹو گو۔ ہیری تسلی آمیز لہجے میں بولا۔
ڈاٸننگ ہال میں خاموشی چھا گٸ۔ ہیری جلد ہی اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا اسے پرسوں نکلنا تھا اور کل اسے اپنے ضروری کام نپٹانے تھے۔ کل کا دن یقیناً مصروف گزرنے والا تھا۔
دوسری طرف ندا بیگم کمرے میں مضطرب سی ٹہل رہی تھیں۔ کم آن بیگم آپ تو ایسے بی ہیو کر رہی ہیں جیسے وہ پاکستان نہیں بلکہ مریخ پہ جا رہا ہو۔ ہارون صاحب زچ ہو کر بولے۔
تو کیا آپ نہیں جانتے میں کیوں اسے پاکستان نہیں بھیجنا چاہتی۔ ہم کیوں پاکستان چھوڑ کر چاٸنہ آ گۓ؟؟؟
سب یاد ہے مجھے۔ ہارون صاحب اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوۓ بولے۔
جب یاد ہے تو پھر کیوں اسے منع نہیں کر رہے آپ۔ ہم اب مزید جنازے نہیں دیکھ سکتے ہارون۔ میں ہیری کو خضر بننے نہیں دوں گی۔ میں اسے نہیں کھو سکتی۔ میرا دل مچلتا ہے آج بھی اسے دیکھنے کو اس سے باتیں کرنے کو مگر میں نے اپنے دل پہ پہرے بٹھا لیے ہیں بھاٸ کے معاملے میں میرا دل سخت ہو سکتا ہے مگر بیٹے کے لیے ہر گز نہیں کبھی بھی نہیں۔ ندا بیگم رو رہی تھیں جبکہ ہیری جو انھیں راضی کرنے کی غرض سے آیا تھا وہی سے لوٹ گیا۔
صبح ناشتے کی میز پہ ندا بیگم کا غصہ دیکھنے والا تھا وہ کسی سے بات نہیں کر رہی تھیں مگر ہر چیز کی اٹھا پٹخ ان کے غصے کی غماز تھی۔ اوہ مام واٹ ہیپینڈ بابا مجھے تو لگتا ہے آج بارڈر پہ حالات کافی خراب ہیں۔ ہیری ہنستے ہوۓ بولا۔
بیٹا آج اپنی مام کو مت چھیڑو آج شیرنی بنی بیٹھی ہیں ۔ ہارون صاحب بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوۓ بولے۔
تم چپ کر جاٶ ہیری میں وارن کر رہی ہوں ورنہ ضاٸع ہو جاٶ گے آج میرے ہاتھوں۔ ندا بیگم چمچہ اٹھاتے ہوۓ بولیں۔
اوپس میری توبہ مام جو میں شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالوں کم آن جیکی اس سے پہلے میرے منہ پر ہی مام چین کا نقشہ بنا لیں یہاں سے کھسکنا ہی بہتر ہے۔ ہیری جاتے جاتے بھی انھیں تنگ کرنا نہ بھولا۔ جبکہ ندا بیگم نے چمچہ اٹھا کر اسے دے مارا۔
اووووووووو بابا آج میری ٹریننگ کام آ گٸ ورنہ جیسا آپکی زوجہ محترمہ کا نشانہ ہے نہ یقیناً میں کسی کو منہ دکھانے کے لاٸق نہیں رہتا۔
ہیری تم میرے ہاتھ لگ جاٶ ایک دفعہ ڈھیٹ کہیں کا۔
**********************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...