” تین سال بعد ”
After Three Years
ہیلو اسلام و علیکم آپ مس” حروش تیمور” بات کرہی ہیں آگلی طرف سے نہایت تہذیب سے پوچھا گیا جی آپ کون اس نے نارمل سے انداز میں جواب دیا جی ہمارے باس کو آپ کا ناول “بیٹی کہوں یا رحمت ” بہت پسند آیا ہے اس ناول کے سلسلے میں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔آگے سے مخاطب ہونے والے شخص نے اسکو پتا بتایا تھا اس نے بات مکمل ہونے کے بعد فون کاٹ دیا تھا تین سال کے عرصے میں اس نے بے انتہا شہرت پاہ لی تھی مگر اسکا سب سے پسند کیا جانے والا ناول “بیٹی کہوں یا رحمت ” تھا اس میں اسنے اپنی زندگی سے متعلق بہت سی باتیں لکھی تھیں یہ ناول لوگوں کے دلوں کو چھو گیا تھا اس ناول کو پورا کرنے میں اس کے بابا نے اسکی بہت مدد کی تھی اسکی آخری لائن ایک باپ کی حیثیت سے انہوں نے خود لکھی تھیں
“میں ہمیشہ بیٹی زات سے نفرت کرتا تھا مجھے لگتا تھا کہ جس گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے وہاں خوشیاں ختم ہوجاتی ہیں مگر میں ایک پڑھا لکھا ہونے کے باوجود زمانہ جہالت کی رسم پوری کرہا تھا میں پڑھا لکھا نہیں تھا مجھے میری بیٹی نے پڑھایا ہے اس نے مجھے یہ بات بتائی کہ بیٹیاں کوئی بوجھ نہیں ہوتی ہیں وہ تو رحمت ہوتی ہیں وہ پیروں میں چبھنے والا کانٹا نہیں ہوتی وہ تو پھول ہوتی ہیں جو ہر سو خوشبو بکھیر دیتی ہیں بیٹی تو وہ زات ہے جو اپنے باپ کو بلکل درد میں نہیں دیکھ سکتیں جو اپنے باپ کی عزت کے خاطر سر جھکا کر باپ کے کہنے پر کسی سے بھی نکاح کرلیتیں ہیں ایسی رحمت کو دھتکارتا وہی ہے جو بد نصیب ہوتا ہے نصیب والوں کی اولاد بیٹی ہوتی ہے بیٹی جتنی کمزور ہوتی ہے حالات پڑنے پر وہ بیٹے سے بھی زیادہ مضبوط بن جاتی ہے اپنی بیٹیوں سے پیار کریں صرف اپنی بیٹیوں سے ہی نہیں بلکہ آگر آپ کے پاس بہو ہے تو اسکا بھی خیال رکھیں اسکو اپنے بیٹے سے بیاہنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کے گھر کی نوکرانی ہے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے ۔بیٹی کسی اور کی ہو یا اپنی ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے کیونکہ یہ زات تو اللہ کی رحمت ہوتی ہے
“حروش تیمور”
اور اسکے ساتھ ہی اسکے ناول کا اختتام ہوا تھا
اس ناول نے اسکو عروج پر پہنچا دیا تھا اس ناول کا ایک ایک لفظ انسان کو ہدایت دینے کے لئے تھا
****
وہ ابھی بھی اسکول پڑھاتی تھی اتنا نام ہونے کے بعد بھی اسکے مزاج میں کوئی غرور نہیں آیا تھا وہ دن رات محنت کرکے عروج پر پہنچی تھی وہ لڑکی جس نے ثابت کردیا تھا کہ قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے تلوار سے آپ لوگوں کو صرف خوف دے سکتے ہیں مگر قلم سے آپ لوگوں کو شعور دے سکتیں ہیں دین سکھا سکتے ہیں بے شک قرآن پاک بھی ہم پر قلم کے ذریعے اتارا گیا ہے کوئی نہیں جانتا تھا اتنا اچھا لکھنے والی لڑکی کون تھی؟ وہ لڑکی تو حروش تھئ جو عام سے علاقے میں رہتی اور اسکول پڑھاتی تھی اسکے ساتھ ہی وہ اپنے بابا اور بھائی کا بہت خیال رکھتی تھی ان کی زندگی پر سکون ہوگئی تھی اللہ نے اسکی ہر آزمائش ختم کردی تھی
****
اسنے اپنے بابا سے آفس جانے کی اجازت مانگی جہاں اسے ناول کی بات کرنے کے لئے بلایا گیا تھا تیمور نے اسے خوشی خوشی اجازت دی تھی عزیر بھی خوش تھا اس نے طے کیا تھا کہ وہ کل اسکول سے آکے اس ڈائریکٹر سے ملنے جائے گی
***
اگلے دن وہ اسکول سے آکے جانے کی تیاری کرنے لگی وہ کچھ خاص تیاری نہیں کرتی تھی اس نے عبایا پہنا اور پنک کلر کا اسکارف پہن کر کندھے پر بیگ لٹکایا اور مطلوبہ ایڈرہس پر پہنچ گئی
***(
وہ ایک بہت بڑا آفس تھا اندر جاتے ہی ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی کو اس نے اپنا نام بتایا تھا اس کا نام سنتے ہی وہ لڑکی اسکو حیرت سے دیکھنے لگی آپ ہیں حروش تیمور ؟ جی میں ہی ہوں حروش تیمور اس نے کانفیڈنس سے جواب دیا او مائی گاڈ آپ دکھنے میں بلکل ویسی نہیں جیسا ہم آئیڈیا کرتے ہیں اس نے حیرت سے عبایا اور اسکارف پہنی اس کم عمر لڑکی کو دیکھا میم آپ کئ تو ایج بھی کم ہے آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتی ہیں اس نے سوال کیا اچھا لکھنے کے لئے عمر کی ضرورت نہیں ہوتی اچھا لکھنے کے لئے اچھی سوچ اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے اس نے مسکرا کر اس لڑکی کو لاجواب کردیا تھا سامنے ہی ایک روم تھا وہ دونوں چلتی ہوئی اس طرف چل دیں تھیں
****
وہ اس لڑکی کے ساتھ روم میں داخل ہوئی سر یہ ہیں مس “حروش تیمور” اس نے سامنے بیٹھے شخص سے اسکا تعارف کرایا جو بہت رعب دار لگ رہا تھا اس نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور وہی بیٹھ گئی کام کی بات کرنے کے بعد اس نے جانے کی اجازت چاہی اور اپنا بیگ پہن کر باہر نکلنے لگی اتنے میں ہی کوئی گیٹ کھول کر اندر آیا تھا اس کو دیکھ کر وہ کہیں ماضی میں کھو گئی تھی بلیک ٹی شرٹ بلیک جینس بڑھی ہوئی شیو گہرا پڑتا ڈمپل وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی اندر آنے والے لڑکے نے بھی اسکو دیکھ لیا تھا وہ وہی دروازے پر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا “حروش تم”۔ اس نے اندر آتے ہی سب کو اگنور کرتے ہوئے حروش سے بات کی ۔جی میں !حروش نے کانفیڈنس سے جواب دیا ۔اس کو حیرت ہوئی تھئ جو لڑکی منہ سے الفاظ تک صحیح سے نکال نہیں پاتی تھی وہ آج تین سال بعد اتنے کانفیڈنس سے کیسے بات کرسکتی ہے حروش نے اس سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا وہ اسکے سائیڈ سے نکلتے ہوئے باہر جانے لگی ریان بھی اسکے پیچھے باہر آیا حروش میری بات تو سن لو پلیز اس نے التجائی نظروں سے حروش کو دیکھا۔ جی جلدی بولیں میرے پاس ٹائم نہیں ہے مجھے اپنے گھر جانا ہے ۔وہ میں تمہارے گھر گیا تھا پتا چلا کہ تم لوگ گھر چھوڑ کر چلے گئے ہو ؟ اور تم کومہ سے کب باہر آئیں ؟ اور تم یہاں کیا کرہی تھیں اس نے ایک ساتھ بہت سے سوال کرے مجھے لگتا اتنی ساری باتیں یہاں کھڑے ہوکر کرنا مناسب نہیں رہے گا حروش نے آفس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو پھر کہیں چل کے بات کرتے ہیں ریان نے قسم کھائی ہوئی تھی کہ وہ حروش سے بات کئے بغیر اسے جانے نہیں دے گا نہیں میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جائوں گی اس نے غصے میں کہا ایک تو یار تمہیں غصہ بہت آتا ہے ٹھیک ہے تم مجھے اپنے گھر کا ایڈریس دے دو میں تم سے وہی پر بات کرلوں گا اس نے حروش سے التجا کی اس کے لہجے میں بے چارگی ٹپک رہی تھی اتنے عرصے بعد اس نے اپنی محبت کو دیکھا تھا اس کا دل چھوٹے بچے جیسا ہوگیا تھا حروش کے کومہ میں جانے اور نرگس کی بات سننے کے بعد ریان نے سوچ لیا تھا وہ حروش کے لئے اور مسئلے کھڑے نہیں کرے گا کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ اسکے گھر والے اسکی شادی ریان سے نہیں کریں گے اگر وہ زور زبردستی کرے گا تو بات حروش کے کردار تک پہنچ جائے گی اس لئے اسنے خاموشی سی حروش سے دور ہونے کا فیصلہ کرا تھا اتنے عرصے میں اسنے اپنے آپ کو بدل دیا تھا وہ زیادہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا اسکی مما نے بہت کوشش کی کہ وہ کسی لڑکی کو پسند کرلے مگر اسکے دل میں حروش کی علاوہ کسی کی جگہ نہیں تھی کچھ عرصے پہلے وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر حروش کے گھر بھی گیا تھا مگر پتا چلا کہ وہ سن کچھ ختم کرکے یہاں سے جاچکے ہیں آج اس طرح حروش سے اچانک سامنا ہوجانے پر اس کا دل بری طرح تڑپ گیا تھا
***
وہ دونوں کسی ریسٹورنٹ میں آمنے سامنے بیٹھے تھے ریان نے حروش کے منع کرنے کے باوجود کھانے کا آرڈر دے دیا تھا حروش نے اسے عزیر کے ایکسیڈنٹ سے لے کر نرگس کے گھر چھوڑ کر جانے کا سب کچھ بتادیا تھا اسے بہت دکھ ہوا تھا اسے حروش پر فخر ہوا تھا ایک نازک سی لڑکی نے کس طرح اپنے گھر کو سنبھالا ہوا تھا اس نے دل ہی دل میں اپنی محبت کو داد دی تھی مگر تم وہاں آفس میں کیا کرہئ تھی اس کے زہن میں فورن خیال آیا تھا وہ مجھے میرے ناول کے سلسے میں بلایا تھا ان کو میرا ناول پسند آیا ہے وہ چاہتے ہیں وہ میرا ناول ڈرامہ کے طور پر لوگوں کو پیش کریں اس نے ہلکے سے ریان کو بتایا اسکے لہجے میں بلکل سادگی تھی ۔کیا اس ناول کی رائٹر تم ہو اس نے حیرت سے پوچھا ہاں میں ہوں حروش نے اسی انداز میں جواب دیا “آئی کانٹ بلیو اٹ ” اس نے حیرت سے حروش کو دیکھا مگر آپ وہاں کیا کرہے تھے اس نے سوچتے ہوئے پوچھا وہ میرا دوست ہے احمر میں کام کے سلسلے میں اس کے پاس گیا تھا میں اکثر اسکے ساتھ ہوتا ہوں اسنے مجھے بتایا تھا کہ وہ ایک مشہور ناول پر ڈرامہ بنانا چاہتا ہے جس کا پورا کردار ایک بیٹی پر ہے کیا نام تھا اس ناول کا ہاں “بیٹی کہوں یا رحمت” لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کی رائٹر تم ہو۔ نہ ہی احمر نے مجھے اس ناول کی رائٹر کا نام بتایا ورنہ تو میں تمہیں پہچان جاتا وہ دیوانوں کی طرح بولتا جارہا تھا حروش اسکو دیکھ ہلکا سا مسکرائی مجھے لگتا ہے اب مجھے چلنا چاہیے بابا میرا انتظار کرہے ہونگے اس نے جانا چاہا مگر ریان نے اسکو تھوڑی دیر رکنے کا کہا حروش ایک بات پوچھوں تم سے اس نے نہایت سنجیدہ انداز میں کہا جی کہیں حروش نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا تم کسی سے محبت کرتی ہو مطلب نرگس آنٹی نے مجھے بتایا تھا کہ تم نے خود کشی کیوں کی ہے میں تم سے ملنے آیا تھا جب عزیر تمہارے کمرے میں گیا تو تم فرش پر گری ہوئی تھیں ہم تمہیں ہوسپٹل لے کر گئے تھے پھر تم کومے میں چلی گئی تھیں اس کے الفاظوں میں اسکا دکھ جھلک رہا تھا
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے نرگس آنٹی نے آپ کو غلط بتایا ہے اس نے حیرت سے ریان کو دیکھا اور پھر اسکو ساری بات بتائی ریان نے حروش کو ماہا کی ریان کی مام کے ساتھ ہوئی گفتگو کا بھی بتایا تھا حروش کو دکھ ہوا تھا ماہا کو وہ بلکل ایسا نہیں سمجھتی تھی حروش کی بات سن کے ریان کے دل کو تسلئ ہوئی تھی وہ جانتا تھا حروش ایسی نہیں ہے مگر پھر بھی اسے بہت سے اندیشے تھے آج اسکے سارے اندیشے ختم ہوگئے تھے اس نے مسکرا کر حروش کی طرف دیکھا حروش !ویل یو میری می؟ اس نے بہت امیدوں سے پوچھا اس کی بات سن کر حروش کو جھٹکا لگا تھا اس کا دل بغاوت کرنا چاہتا تھا مگر اس نے اپنے آپ کو نارمل رکھتے ہوئے ریان کو منع کردیا تھا اسکا انکار سنتے ہی ریان تڑپ گیا تھا کیوں منع کرہی ہو اسنے نظریں نیچے کرتے ہوئے پوچھا میں اپنے بابا اور بھائی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی میرے علاوہ ان کا کوئی نہیں ہے اس نے دوٹوک لہجے میں کہا تھا میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میں تمہارا ساتھ دوں گا میں تمہیں ان کا خیال رکھنے سے نہیں روکوں گا پلیز حروش میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں تمہارے انتظار میں میں نے ابھی تک شادی بھی نہیں کی اس نے اپنے لہجے میں بہت سارا درد سمیٹ کر کہا تھا حروش پر اسکا کوئی اثر نہیں ہوا تھا وہ گھر جانے کے لئے اٹھ گئی تھی
گھر پہنچتے ہی وہ اپنے بابا کے پاس گئی تھی وہ عزیر کے کمرے میں بیٹھے تھے انہوں نے حروش کو پیار سے دیکھ کر کہا آگئی میری گڑیا !جی بابا اس نے پیار سے جواب دیا کیا کہا اس پروڈیوسر نے انہوں نے خوشی سے پوچھا تھا انہوں نے کہا ہے کہ وہ ڈرامہ بنانا چاہتے ہیں میرے ناول پر اس نے خوشی سے جواب دیا اسکے ساتھ ہی تیمور اور دونوں بے انتہا خوش ہوئے تھے
****
اگلے دن حروش اسکول گئی ہوئی تھی جب ریان اسکے گھر آیا تھا گھر دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا سب کچھ بدل گیا تھا تیمور بھی بہت عاجزی سے اس سے ملے تھے اس نے عزیر سے ملاقات کی اور تیمور سے کچھ بات کرنے کے بعد چلا گیا
****
حروش جب گھر آئی تو تیمور نے اسکو اپنے پاس بلایا تھا میری بیٹی ویسے تو میری ہر بات مانتی ہے مگر آج میری بیٹی کو مجھ سے وعدہ کرنا پڑے گا کہ وہ میری بات ضرور مانے گی انہوں نے بہت امید سے اس سے وعدہ مانگا تھا وہ اپنے بابا کو انکار نہیں کرسکتی تھی اس نے ان سے وعدہ کیا کے وہ ان کی بات مان لے گی بیٹا میں تمہاری شادی ریان سے کرنا چاہتا ہوں شادی کا نام سنتے ہی اسکا چہرہ اتر گیا تھا اس کو ریان پر غصہ آیا تھا اس کے منع کرنے کے باوجود ریان نے تیمور سے بات کی تھی بابا میں آپ لوگ اس نے اتنا ہی بولا تھا تیمور نے اسکی بات کاٹ دی تھی ریان نے کہا ہے کہ وہ میری بیٹی کو مجھ سے دور نہیں کرے گا بیٹا وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے اور قسمت سے ملتے ہیں دل سے چاہنے والے تیمور کو زینش یاد آئی تھی انہوں نے حروش کے سر پر ہاتھ رکھا تھا
****
ریان کی مما اور ڈیڈ بھی اس رشتے سے خوش تھے ریان نے اپنی مما کے دل سے بھی حروش کی بدگمانی ختم کردی تھی
***
ریان نے حروش سے شادی کرلی تھی اسکی بہن کی شادی بھی ایک سال پہلے ہی ہوئی تھی تیمور اور عزیر بھی ریان کے گھر آگئے تھے ریان کے مام ڈیڈ کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں تھا ان کا کہنا تھا کہ سب کچھ ریان کا ہے وہ جو چاہے گا وہی ہوگا ریان نے بہت محنت سے اپنا بزنس سیٹ کیا تھا وہ اپنی زندگئ کے خوبصورت سفر پر آگئے تھے جس کے لیے اس نے اور حروش نے بہت محنت کی تھی
حروش نے شادی کے بعد بھی لکھنا جاری رکھا تھا ریان اس پر جان دیتا تھا سب کے جوڑے آسمان پر بنائے جاتے ہیں حروش کو بھی ریان کے لئے بنایا گیا تھا
***
حروش کا ناول ڈرامے کی صورت میں ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ اور بلندی پر پہنچ گئی تھی سارے گھر والوں نے مل کر اسکی اس خوشی کو سیلبریٹ کیا تھا
****۔
اس دنیا کا نظام عورت کی وجہ سے چل رہا ہے وہ آگر بیٹی ہے تو رحمت ہے وہ آگر ماں ہے تو جنت ہے وہ آگر بیوی ہے تو ہمسفر ہے وہ اگر بہن ہے تو ہمدرد ہے عورت جس بھی رشتے میں ہے وہ آپ کے لئے بہترین دوست ہے
ختم شدہ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...