(Last Updated On: )
معروف دانش ور، محقق، نقاد، شاعر، ادیب، مدیر شہیر۔ سید معراج جامیؔ(کراچی)
امین جالندھری کا تعلق تو حیدر آباد سندھ سے ہے ،پہلے وہ بینک میں ملازم تھے مگر ایل ایل بی کی وجہ سے ریٹائر منٹ کے بعد وکالت کرنے لگے ۔ بنیادی طور پر امین جالندھری افسانہ نگار ہیں۔افسانہ نگار ادب کا وہ مسیحا ہوتا ہے جو بیمار معاشرے کے مظلوم انسانوں کی کہانیاں اپنے افسانے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے مگر یہ کوئی کلیہ نہیں ہے کیونکہ بہت سے افسانہ نگارو ں نے صاحب ثروت خاندان کے افراد پر مشتمل بھی کہانیاں لکھی ہیں بلکہ ناول تک تخلیق کیے ہیں ۔ان افسانوں اور ناولوں میں بھی انسانی کمزوری ، بدعت، کمینگی ،ناانصافی اور ظلم کی کہانی کو بھی اپنے الفاظ میں ڈھالا ہے ۔ یعنی معاشرے کے غریب اور امیر طبقے کے اندر پروان چڑھنے والی بُرائیوں ہی کا ذکر کیا ہے ۔
دراصل انسانی معاشرہ ایک اشرافیہ کا معاشرہ سمجھا جاتا ہے جہاں سکھ ہی سکھ ہوں، راحت ہی راحت ہوں، شادمانی اورکامرانی کا دور دورہ ہو ،ہر انسان خوش و خرم ہو اور جہاں کسی بھی بُرائی کا گزر نہ ہو ۔ایساغلط نہیں سمجھا جاتا کیونکہ رب کائنات نے انسان کو تمام مخلوقات سے افضل پیدا کیا ہے اور اسے اشرف المخلوقات کا اعزاز عطا کیا ہے تو کیا اسے اشرف مخلوق کے معاشرے میں بھی وہی جنگلی قانون اور رسم و رواج ہوں گے جو حیوانات کے معاشرے میں ہیں۔ جسے ہم جنگل کا قانون کہتے ہیں۔ یقینا نہیں جنگل کے قانون اور انسانوں کے قانون میں بُعد مشرقین ہے مگر افسوس کہ یہ بعد مشرقین نہیں ہے ۔ آج انسان پستی کے اتھاہ گہرایوں میں ڈوب چکا ہے اور جانوروں سے برتر زندگی گزار رہا ہے اور اس کے ساتھ ایسا عمل کوئی اور مخلو ق نہیں بلکہ انسان ہی کر رہے ہیںگویا یہ اشرف مخلوق اب انسان نہیں رہی بلکہ درندہ بن کر ایک دوسرے کو نوچ کھسوٹ رہے ہیں۔
اگرچہ انسان کی بلندی اب پستی میں بدل گئی ہیں مگر اس دنیا کا بھی ایک وقت ہے اور انسانوں کے اندر بھی کچھ ایسے انسان ہیں جو دلدل میں کنول کی مانند رہ رہے ہیں اگرچہ بہت کم ہیں مگر ہیں۔ا نہی چند اچھے لوگوں میں معاشرے کے ہر طبقے میں موجود ہیں۔
افسانہ نگار جہاں اپنے قلم کی حرمت مٹا چکے ہیں وہیں قلم کی آبرو کی حفاظت کرنے والے اور حقیقت کا آئینہ دکھانے والے افسانہ نگار بھی موجود ہیں۔ انہی چند افسانہ نگاروں میں امین جالندھری بھی ہیں، امین جالندھری بنیادی طور پر ایک راسخ العقیدہ انسان ہیں، وہ بہت منہ پھٹ ہیں، بہت جلد غصہ میں آجاتے ہیں ، بُرے لوگوں سے کسی حال سمجھوتا نہیں کرتے ، انھیں اپنے پاس سے ایسے نکال پر پھینک دیتے ہیں جس طرح دودھ میں سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے ۔ انھیں نہ مجمع آرائی کا شوق ہے نہ زیادہ دوستی بڑھانے کا ،وہ اپنی دنیامیں مگن ہیں۔ میں نے غور کیا تو پتہ چلا کہ جو انسان اندر سے صاف ستھرا ہوگا اس میں وہی خوبیاں ہوں گی جو میں نے بیان کی ہیں کیونکہ ایسے انسان کو دوستوں سے زیادہ اپنے ایمان اور اپنی صاف گوئی پر مکمل بھروسہ ہوتا ہے اس لیے وہ کسی کی نہ بے جا حمایت کرتے ہیں اور نہ کسی کے مطلوب ہوتے ہیں۔
’’ حرف حرف کہانی‘‘ امین جالندھری کے افسانوں کا یہ دوسرا مجموعہ ہے ۔ اس سے قبل ’’دو حرف‘ ‘ کے نام سے ان کا پہلا افسانوی مجموعہ1995ء میں منظر عام پر آیا تھا۔28برس کے بعد یہ دوسرا مجموعہ آیا ہے ۔اس دوسرے مجموعے میں پچیس (25)افسانے شامل ہیںجب کہ امین جالندھری ماشااللہ نہ لکھنے میں سست ہیں اور نہ ہی ان کا مشاہدہ کمزور ہے ۔بات صرف اتنی ہے کہ امین جالندھری خواہ مخواہ کاغذ سیاہ نہیں کرتے ہیں۔ معاشرے میں رونما ہونے والے ایسے واقعات جن کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں اور جو معاشرے کے جسم پر ایک بدنما داغ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ،امین جالندھری اسی واقعے کو قرطا س پر ڈھالتے ہیںمگر ایک بات یہ بھی ہے کہ امین جالندھری کو صرف بُرائی کی نمائش کرنے کا شوق نہیں ہے وہ انسان کی اچھائی بھی بیان کرتے ہیں مگر کیا کیجئے کہ اچھائی کے مقابلے میں بُرائی کی مقدار بہت زیادہ ہے ۔
امین جالندھری کیا دیگر سب بڑے اور چھوٹے افسانہ نگار وں نے بُرائیوں ہی کو رونما کیا ہے کیونکہ ایک تو بُرائی کی مقدار اچھی سے بہت زیادہ ہے دوسرے ان بُرائیوں کا منظر عام پر لانے کا خاص مقصد یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ جو اس دلدل میں پھنس چکے ہیں یا اپنی کم عقلی کی بنا پر اس تار عنکبوت میں پھنسے والے ہیں ، ان افسانوں کو پڑھ کر اپنے تحفظ کے لیے ہاتھ پائوں ماریں گے اور اس عذاب سے بچ بھی سکیں گے ،جو پھنس چکے ہیں وہ اس سے آزاد ہونے کے لیے جدوجہد کریں گے ۔ ایک طرح سے بُرائیوں کی تشہیر لوگوں کو ان سے آگاہی دلانے اور ان سے اپنے دامن کو بچا کر رکھنے میں ممدو معاون ثابت بھی ہوتے ہیں۔
افسانہ نگار ہو شاعر ہو مصور ہو یا کسی اور شعبے کا قلم کار ،کبھی دل سے بُرا نہیں ہوتا ۔وہ ایک صاف شفا ف انسان ہوتا ہے جسے اپنے جیسے انسانوں سے پیار ہوتا ہے ،وہ انھیں کسی بھی دکھ یا تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھ سکتا ۔ وہ کبھی کسی بُرائی کی حمایت کرتا نظر نہیں آئے گا ۔ہر قلم کار کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے قلم سے ،اس کی سوچ سے اوراس کی تحریر سے مشکل میںپھنسا شخص شکاری کے جال سے بچ نکلے ، راہ راست پر آجائے یا اپنی منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کر لے تو اس کی ساری محنت ٹھکانے لگ گئی اور وہ اپنے مالک کے سامنے سرخرد ہو گیا ۔
امین جالندھری شوقیہ افسانہ نگار نہیں ہیں انھیں یہ صفت دیعت کی گئی ہے اس لیے وہ اپنے قلم سے معاشرے کے بگڑے لوگوں کو راہ راست پر لانے اور سدھے سادے لوگوں کو ایسے بدکماش لوگوں سے ہوشیار کرتے ہیںکیونکہ امین جالندھری کے پاس یہی ہنر ہے اور وہ اپنے ہنرکو سچے دل سے کام میں لاتے ہیں۔
امین جالندھری کی اس کتاب ’’حرف حرف کہانی‘‘ میں پچیس افسانے اور پانچ تقریظات شامل ہیں ، میںاگر ان کے پچیس افسانوں پر مختصراً بھی اظہار خیا ل کروں تو میری یہ تحریر بھی ایک کتابچہ کی صورت اختیار کر لے گی۔ اس لیے میں صرف دو افسانوں پر اظہار خیال کروں گا جو مجھے لکھنے پر آمادہ کر رہے ہیں ،ایسا نہیں کہ دیگر افسانے مجھے آمادہ نہیں کر رہے ہیں مگر بات وہی کہ اس قدرطویل لکھ بھی دیا تو پھر قارئین کیا پڑھیں گے ۔
امین جالندھری کا ایک افسانہ میں نے پڑھا’’آگ‘‘ یہ دو فوجی کے آپس کے مکالمے ہیں جو سرحدوں پر خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ایک ہندو اور دوسرا مسلمان ۔ رات کے سمے جب پوری فضا خاموشی کی چادر اوڑھے سو رہی تھی یہ دونوں وقت گزاری کے لیے آپ میں باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتیں دونوں کے مذہب کی میتھالوجی سے شروع ہوتی ہے اور اس دوران دونوں کے جملوں میں کمال کی فلاسفی پڑھنے کو ملتی ہے ۔اگرچہ فوجی کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں مگر علم مکتب کا محتاج نہیں ہوتا، انسان کا معلم وقت، حالات اور ماحول ہوتا ہے ۔ دونوں فوجی کے مکالمے پڑھتے وقت علم میں آگاہی بڑھتی ہے کیونکہ یہ ایسی فلسفیانہ باتیں نہیں ہوتی جو سر سے گزر جائیں۔
دوران گفتگو جب دونوں حقیقت حال کی جانب آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہند کی سرحد کا محافظ مسلمان ہے یعنی ثروت اقبال اور پاک سرحد کا فوجی ہندو دیا شنکر ۔ دونوں وعدہ کرتے ہیں کہ گولی کی زبان میں بات نہیں کریں گے اور باہمی محبت اور بھائی چارہ کا مظاہرہ کریں گے ۔ جب ڈیوٹی ختم کر کے دونوں اپنی اپنی جگہ لوٹنے لگتے ہیں تو ان دونوں ’’ہیرو‘‘ کا استقبال ’’گولیاں ‘‘ کرنے لگتی ہیں۔
آگ کے عنوان سے یہ افسانہ امین جالندھری کا انسانیت کے ناطے ایک ایسا پیغام ہے جس پرعمل تو فوجی کر سکتے ہیں مگر سیاست دان، فوج کے سربراہ اور حکومت نہیں کر سکتی کیونکہ آپس میں ایک دوسرے کو لڑانے ہی میں تو ان کی بقا کی سلامتی ہے ۔
امین جالندھری کا کتا ب میں ایک افسانہ ’’کامیاب‘‘ کے نام سے ہے ، بظاہر یہ نام کوئی توجہ اپنی جانب تو مبذول نہیں کراتا کیونکہ اس نام میں کوئی انوکھا پن نہیں ہے مگر امین جالندھری کا کمال یہی ہے کہ اس کے عوامی افسانے بھی عوامی عنوانات سے چلتے ہیں۔
’’کامیاب ‘‘دو لوگوں کے درمیان گفتگو ہے ،پہلا شخص بھاٹی گیٹ پر سیاسی جلسہ کرانا چاہتا ہے اور اس کے لیے دن رات محنت کرتا ہے پورے شہر میں پوسٹر اور بینر لگواتا ہے ۔ دوسرا شخص اس شخص سے اس قدر دیوانگی کی وجہ جاننا چاہتا ہے اور اس سیاسی شخص کی گفتگو ہی اس افسانے کی اصل جان ہے ۔ اس میں وہ سب باتیں آ جاتی ہیں جو ہم سب پاکستان میں انتخابات کے دنوں میں دیکھتے آ رہے ہیں کہ کیسے سیاست دان اور حکمران ملک لوٹنے کے لیے بھیڑ کی شکل میں عوام میں آتے ہیں اور انھیں سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرتے ہیںاور پھر جیتنے یا ہارنے کی صورت میں اس علاقے سے اس طرح دور بھاگ جاتے ہیں جس طرح کعبے سے کافر بھاگتا ہے ۔
امین جالندھری نے معاشرے کے ان مسائل پر قلم اٹھایا ہے جو آج سے نہیں ماضی سے مسلسل حائل ہے اور یہ مسائل اللہ نہ کرے قیامت تک رہیں مگر اس ملک کے حکمران ، سیاست دان ، علما اور محافظ سب کو اپنا دوزخ بھرنا ہے اس لیے وہ عوام کو جس قدر بیوقوف بنائیں ، جتنے سبز باغ دکھائیں ، جتنے وعدے وعید کریں یہ سب بہلاوے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ دراصل عوام اگر پڑھی لکھی ہوتی تو اپنا بہتر سوچ سکتی تھی اسی لیے عوام کو پڑھنے سے اس خوبصورتی سے روکا جاتا ہے اور نوجوان نسل کو زندہ رہنے کے لیے پڑھائی چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے دھندے کرنا پڑتے ہیں کہ ان کی عقل کا سوتا خشک ہوجاتا ہے اور یوں ایک جاہل عوام کی وجہ سے ان سب بدقماشوں کا کاروبار چلتا رہتا ہے ۔
کاش عوام میں اتنا شعور آجائے کہ وہ اپنا اچھا بُرا ہی سمجھ لے اور کوے کی پیچھے مت دوڑے تو ان کی زندگی سدھر سکتی ہے ۔ ایک افسانہ نگار عوام کو آگاہی تو دے سکتی ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنا تو نہیں سکھا سکتی ۔ امین جالندھری اپنی سی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ عوام میں شعور پیدا ہو آگاہی ہو اور اچھے بُرے کی تمیز ہو ۔اللہ کرے امین جالندھری کی تحریروں سے لوگ کچھ سبق سکھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
پروفیسر غازی علم الدین کی مندرجہ ذیل نئی کتب مارکیٹ میں دستیا ب ہیں:
۱۔ لسانی زاویے قیمت:1000/-روپے
۲۔میزانِ انتقاد و فکر قیمت:600/-روپے
۳۔اردو کا مقدمہ قیمت:400/-روپے
ناشر: مثال پبلشرز فیصل آباد موبائل نمبر:0300-66683284۔ رابطہ مصنف: موبائل :0345-9722331