معروف دانشور،محقق،نقاد ، ادیب،شاعر اور بے مثل صحافی۔محمود شام(کراچی)
زندگی خود ایک کہانی ہے۔ آپ کے چاروں طرف کہانیاں ہیں۔ ہر گلی کہانی ہے۔ ہر دریچہ افسانہ ہے۔ ہرمحلہ ایک ناول ہے۔ پہلے تو میں اپنی ندامت کا اظہار کروں اور معذرت چاہوں کہ حرف حرف کہانی کے انتہائی منفرد۔ پختہ کہانی کار سے میں اتنے برسوں بعد متعارف ہو رہا ہوں۔ یقینا یہ میری کم علمی ہے۔ اورحرف و دانش کے سچے تخلیق کاروں سے دوری۔ اب جب اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں غیر معمولی کہانیاں میرے ہاتھوں میں آگئی ہیں۔ تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ میں نے دنیا سے اٹھنے سے پہلے یہ شاہکار افسانے پڑھ لئے اور اردو کے ایک عظیم افسانہ نگار سے میرا رابطہ ہو گیا۔
افسانے ہمارے لیے ہمیشہ ایک جہان دگر بسا دیتے ہیں۔ مایوسیوں سے دور لے جاتے ہیں۔ سانس لینے کے لیے ایک نیا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ حرف حرف کہانی لکھنے والے کی انگلیاں اس مملکت خداداد کی نبض پر رہتی ہیں۔ جو کچھ تشخیص کرتے ہیں ان کو صرف مریض کے ہی نہیں اس کے اقربا اور ہم شہروں کے سامنے ایسے مؤثر انداز میں بیان کرتے ہیں کہ سب کانپ کر رہ جاتے ہیں ۔ ان کی زبان اپنی ہے۔ علامتیں اپنی۔ استعارے اپنے قوت تخلیق اپنے اوج پر ۔ کہانی کی بنت پوری پختہ کاری سے جملوں کی ساخت بھی اپنے اسلوب سے۔
حیرتیں اور طلسماتی پڑھنے والوں کو گھیرے رکھتے ہیں۔ کبھی افسانہ نویس ہمیں مغلیہ دور میں لے جاتے ہیں۔ شاہی دربار سجا لیتے ہیں۔ کبھی وہ ہمیں جمہوری دورکی جرائم سر پرستیوں میں لے جاتے ہیں۔ لیکن ہر ماحول میں وہ ہماری دلچسپیوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ اپنے کروڑوں ہم وطنوں کی حسرتیں۔ مرادیں۔ تمنائیں۔ امیدیں ان کا موضوع خاص ہیں۔ ان کے اظہار کے لئے کبھی دیو مالائی کہانیوں کا سہارا لیتے ہیں کبھی علامتی جہانوں کا۔ مجھے رشک آتا ہے کہ نفس مضمون پر ان کی گرفت ہمیشہ بہت مضبوط رہتی ہے۔ اسی مناسبت سے وہ کردار تلاشتے ہیں۔ تراشتے ہیں۔کبھی ان سے لاڈپیار کرتے ہیں۔ کبھی بے رحم مؤرخ بن جاتے ہیں۔ جغرافیہ بھی ان کے سامنے مؤدب کھڑا رہتا ہے۔ معاشرے کی بے بسی، فرد کی بے بسی، تقدیر کی ستم ظریفی ان کے بنیادی موضوع ہیں۔ لیکن ہر کہانی میں ان سے ان کا سلوب بالکل مختلف ہے۔ حرف حرف کہانی اس بدقسمت ریاست کے 75سال کی تاریخ ہے جو ہر عہد کے حاکم کی نہیں محکوم کی حقیقت کا اظہار یہ ہے۔ تقسیم ہند کے زخم بھی ہیں۔ درد کے تجربے بھی، لسانی تعصبات کے کچوکے بھی، سفارشیں، رشوتیں، سفید پائوڈر، پولیس گردی، مزار پرستی، عقیدت کی خریدو فروخت بھی۔ یہ ادب برائے ادب بھی ہے۔ ادب برائے زندگی بھی۔ یہ تو باقاعدہ نقاد طے کر سکتے ہیں کہ وہ اسے کس خانے میں رکھیں گے۔ مجھے تو ان میں حقیقت پسندی دکھائی دے رہی ہے۔ ترقی پسند تحریک جس طرح فرد کے کرب کا اظہار کرتی تھی۔ اس میں وہ بھی ہے اور اجتماعی دکھ بھی ہیں۔
رہائی ایک وڈیوہے جس میں جاگیر دارانہ ماحول کے مناظر اپنی پوری شقی القلبی۔ بے دردی اور انسانی استحصال کے ساتھ ہمارے ساتھ رواں رہتے ہیں۔ 75سال میں ہمارے قائدین۔ دانشوروں، مصاحبوں ، قصیدہ گوؤں نے جس نوع کے معاشرے کو تشکیل دیا ہے جس میں فرد کے خوابوں کو تعبیر نہیں ملتی ہے۔ بلکہ ان کو پاش پاش کیا جاتا ہے۔ اس زخم زخم سماج کی تصویریں ہر کہانی میں ملتی ہیں۔ امین جالندھری کی لکھت ہر قدم بتاتی ہے کہ معاشرے کی ہر جہت پر انکی گہری نظر ہے۔ کلاسیکی ادب۔ اساتذہ کی شاعری، جدید حسیات، نئی ٹیکنالوجی کا مطالعہ اور مشاہدہ بھی ہے۔ اس خام مال سے وہ اپنی کہانیوں کے شہر بساتے ہیں۔ صرف انسان کے مختلف روپ ہی نہیں تراشتے۔ صرف انسانی خاکوں میں رنگ نہیں بھرتے۔ وہ کبوتروں، گھوڑوں کی نفسیات سے بھی حظ اٹھاتے ہیں۔
ایک دن کی بات ہمارے سماج کی مافیاز کی طاقتوروں کی ایک بھر پور تمثیل ہے۔ ہر کہانی اپنے کوزہ گر کی مہارت اور طبع حساس کی غماز ہے۔ وہ سندھ کے کنارے بسے ہوئے ہیں۔ سندھوندی کے میکدے سے سرور میں رہتے ہیں۔ پوری وادی سندھ میں گزتے حادثوں ، ٹوٹتی قیامتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے اسلوب میںخمار بھی ہے۔ تصوف بھی، روپ بہروپ بھی ، تلخیاں بھی رنگینیاں بھی۔
حرف حرف کہانی اردو کے افسانوی ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اردو ادب کے نقاد ، ادبی میلے سجانے والے ، کانفرنسیں منعقد کرنے والے بھی میری طرح امین جالندھری کی تخلیقی بلندیوں سے لاعلم ہیں۔ ورنہ ان کے ساتھ بھی شامیں منائی جارہی ہوتیں۔ ادبی رسائل کے خاص نمبرز نکالے جاتے۔ ایوارڈز کے اعلان کیے جا رہے ہوتے۔
امین جالندھری نے گوشہ نشینی میں افسانے کی صنف کو مالا مال کیا ہے۔ جس عہد میں وہ اتارے گئے ہیں۔ اس کی تصویر کشی کا حق انھوںنے ادا کر دیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ، اے آرزو خرامی
دل جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی
اُس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے
میں بھی جلے ہوئوں میں ہوں داغِ نا تمامی
(غالبؔ)