معروف افسانہ نگار ، ہمہ جہت ادیبہ میزبا ن ادبی پروگرام اور منتظمہ صائمہ نفیس ۔ کراچی
کہا جاتا ہے کہ سمندر کی گہرائی کا اندازہ ساحل پر کھڑے ہو کر نہیں کیا جا سکتا یہی مثال امین جالندھری کے افسانوی مجموعے حرف حرف کہانی پر صادق آتی ہے۔ ان کے اس مجموعے میں متنوع طرز کے افسانے شامل ہیں۔ جو مصنف کی تخلیقی ہنرمندی کی دسترس پر مہر ثبت کرتے ہیں۔ ایک بار اگر اس کتاب کا مطالعہ شروع کردیں تو پھر امین جالندھری کی تحریر کا حصار قاری کو جکڑے رکھتا ہے۔ افسانوں کا اسلوب بیانیہ بھی ہے اور کرداری بھی، بیانیہ افسانہ اگر مصنف کی گرفت سے آزاد ہو کر طوالت کی طرف نہیں جاتا تو کرداری افسانہ بھی کرداروں کے اطراف ہی گھوم کر اپنے انجام تک پہنچتاہے۔ جب واحد متکلم کی طرز پر افسانہ لکھتے ہیں تو جملوں کی تہہ داری کمال اوج پر نظر آتی ہے۔ جملوں کی یہ بونت قاری کی ساری توجہ تحریر پر مرکوز تو رکھتی ہی ہے ساتھ ساتھ ان پرتوں میں ملفوف اشاروں کا پردہ بھی چاک ہوتا جاتا ہے اور قاری ان کے نوکیلے قلم کی چبھن محسوس کئے بنا نہیں رہ سکتا۔
امین جالندھری کا تعارف مجھ سے اسی کتاب کے ذریعے ہوا اور ان کے افسانے پڑھ کر بخوبی انداز ہ ہونے لگا کہ حرف حرف کہانی کا مصنف قانون کے شعبے سے وابستہ ہونگے کیونکہ ان کی تحاریر جس ہنرمندی سے عام زندگی کے مسائل کو سادہ اور سہل انداز سے بیان کرتے چلے جاتے ہیں وہ کسی قانون دان ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے۔
امین جالندھری کا بیانیہ سادہ اور عام فہم ہونے کے با وجود اثر پذیر ہے۔ آپ کی پارکھی نظر جس طرح رواں زندگی کے پیچ و خم کا مشاہدہ کرتی ہے آپ کا قلم کمال ہنر مندی سے اسے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے۔ آپ کی تحریر میں شہری اور دیہی زندگی کا ساز اپنے اپنے سروں میںسنائی دیتا ہے جب یہی زندگی مسائل اور مشکلات کے گرداب میں پھنستی ہے تو اس کی درد بھری تصویر بھی آپ لفظوں کے رنگوں سے پینٹ کرکے اپنے قاری کے لیے سجادیتے ہیں۔ آپ کے افسانوں میں تمثیل کے ساتھ ساتھ فلسفہ کی گہرائی بھی موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے امین جالندھری نے اپنے اندر اپنی ایک دنیا بسا رکھی ہے وہ اپنی اس دنیا کی سیر کروانے کیلئے وہ اپنے ہی افسانوں کاسہارا لیتے ہیں۔
جن سماجی و معاشرتی مسائل اور نا انصافیوں پر ایک عام شہری سوچ کر رہ جاتا ہے امین جالندھری اسے لکھ کر گویا ایک طرح اس کی ایف آئی آر کروارہے ہیں۔ امین جالندھری کا افسانوی مجموعہ حرف حرف کہانی نئے افسانہ لکھنے والے قلمکاروں کے لیے ایک مثالی گائیڈ کا درجہ رکھتا ہے۔ کیونکہ اس میں امین جالندھری نے متنوع طرز کے افسانے لکھ کر افسانے کی ہر تکنیک کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ کردار نگاری ہو، منظر کشی ہو، مکالمہ نگاری ہو یا افسانوں میں پوشیدہ تحیر ان کے اس مجموعہ میں سب کچھ موجود ہے۔ گرا ان کے اس مجموعہ کی رسائی ہر کالج اور یونیورسٹی کی لائبریری تک ہوتو مجھے امید ہے کہ نئی نسل اس سے مستفید ہوگی۔ امین جالندھری اس افسانوی مجموعہ پر ستائش اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...