معروف محقق، مستند افسانہ نگا، بے بہا ادیب ڈاکٹر سید زبیر شاہ۔ (پشاور)
ادب میں پند نصائح غالب ہوں تو فن مجروح ہو جاتا ہے ۔ مگر یہی پہلو اگر من کی زیریں لہر میں رکھ کر بالواسطہ اظہار کیا جائے تو فن پارے کا کینوس وسعت اختیار کر جاتا ہے۔ امین جالندھری کے تخلیقی اظہاریوں سے یہ بات تو کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ ادب اپنے ماحول اور لوگوں سے جڑے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے مشاہدے میں گہرائی کے ساتھ ایک گہرائی بھی نظر آتی ہے ان میں کھل کر بات کرنے کا حوصلہ بھی ہے اور اشاروں کنایوں میں مدعا بیان کرنے کا سلیقہ بھی ان کو خوب آتا ہے ۔ ایسا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب قلم کار کوفن اور زبان پر دسترس حاصل ہو۔ اسی مہارت نے ان کے ہاں ایک خاص ادبی چاشنی پیدا ہوئی ہے جسے ادب کا ایک سنجیدہ قاری ہی محسوس کر سکتا ہے۔
جہاں تک ان کے مجموعے حرف حرف کہانی میں شامل انسانوں کا تعلق ہے تو اس میں موضوعاتی تنوع کے ساتھ تکنیکی اور اسلو بیاتی نیرنگینیاں بھی نظر آتی ہیں۔ مصنوعی اور بنائوٹی چہرے ،محبت اور خونی رشتوں میں جعل سازی، سماجی بد دیانتی ان کے اہم موضوعاتی حوالے ہیں جن کو روحانی طاقت سے ختم کرنے کے تمنائی ہیں اس لئے تو وہ کہتے ہیں کہ تخلیق میں جب تک روح اور دل کو تڑپانے کی قوت نہ ہو وہ اثر پذیری سے عاری ہوتی ہے۔ اس تخلیقی شدت کے زیر اثر جو بات ان کے دل سے نکلتی ہے وہ اثر بھی رکھتی ہے۔ مستی بظاہر مقدس مزارات پر آئے ہوئے جیب کتروں کی کہانی ہے۔ جن کو جہاں موقع میسر آیا ہاتھ صاف کر گئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں انسان وہی پاتا ہے جو اسکے لئے مقرر کی ہے۔ جھپٹ لپک کے چھننے اور چوری کرنے سے آئی ہوئی چیز محض ایک سراب ہوتی ہے ۔ جو اگلے لمحے ہی غائب ہو جا سکتی ہے۔ ہم زندگی کی ہستی ایک شخص کو اپنے مفادات کیلئے دھوکا دیتے ہیں تو دوسری طرف کسی اور شخص سے دھوکا کھا بھی لیتے ہیں۔
خمار اور چک گ صوفیانہ طرزِ احساس کے افسانے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسی باتیں دنیا داروں کے لئے بہت ہوئیں جو محض ہون کو مانتے ہیں۔ کیونکہ جب ذہنوں میں ان ہوئی جگہ نہیں پاتی وہ اس روشنی سے بھی واقف نہیں ہو سکتے جو کسی بھی درسگاہ سے نہیں مل سکتی۔ اسی طرح موڑ بھی روحانی سفر کی داستان ہے جو عقل اور اس کی سرحدوں سے ماورا ہوتی ہے۔ جسے پہنچنا ہوتا ہے اس کا بلاوا آتا ہے اور پھر عشق کی اک جست بے کراں زمین و آسمان کا حصہ تمام کر کے منزلوں کا سفر طے کرلیتا ہے ۔
امین جالندھری کے بیشتر افسانوں میں فرداور جزئیات مقامیت پر دال ہیں۔ مگر کہیں نہ کہیں اس کے تانے بانے تاریخی تسلسل کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ بلند پروازی میں ایک خاص وکیل کی خاص نفسیات کی عمل اور رد عمل کو سامنے لانے کی کوشش کر کے یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے لڑائی جھگڑے تک جانا پھر اس میں زندگیوں کے چراغ گل کرنا اور سالہا سال کے مقدمات کی پیروی کرنا ان کی اس جنگ کو مسلسل بھڑکا تی رہتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسی جنگ میں جیت کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ مقدمات میں شعوری اور غیر ارادی تاخیر ی فیصلے ہمارے نظام انصاف پر پہلے بھی سوالیہ نشان رہے ہیں اور آج بھی یہ بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ رفیق اور ببن کی دشمنی کسی کی ہار اور کسی کی جیت پر ختم ہوئی ہے۔ یہ کہانی ادھوری تاحال ادھوری ہے اور جب تک ذہنیت نہیں بدلے گی یہ کہانی ادھوری ہی رہے گی۔
مذہب کے نام پر مذہبی بہروپ اوڑھ کر ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا طریقہ بد قسمتی سے اس خطے میں انتہائی کار آمد اور مؤثر رہا ہے ۔ آگ میں کچھ ایسی ہی کہانی سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر جاسوسی نیٹ ورک میں ایسے کردار اب رازنہیں رہے تاہم یہ سوال اپنی جگہ آج بھی بہت اہم ہے کہ اگر محبت کے دیے روشن کرنے کی امید میں نفرت کی آگ بجھانا ضروری ہے تو پھر آگ کے گولے کیوں برسائے جاتے ہیں؟ دیکھا جائے تو عہد جدید کے جدید تر انسان کا ایک بڑا المیہ ہے۔جہاں انسانیت کو اعلیٰ واضح مقام دے کر سماجی میل ملاپ سے محبت کوفروغ دینا چاہئے وہاں ذہنوں میں نفرت کی آگ بھر کر انسانیت کو معدوم کیا جاتاہے۔ بول میری مچھلی ، محض افسانہ نہیں بلکہ ایک پیغام اور نصیحت بھی ہے۔ اس میں دنیا بھر کے آمرانہ رویوں پر طنز موجود ہے۔ زندگی پر ہر زندہ بشر کا ایک جیسا حق ہے مگر شو مئی قسمت کہ مفادات کی اس دنیا میں یہ حق ہر ایک کو میسر نہیں آتا بلکہ کچھ لوگ تو حیات سے وابستہ مسرتوں پر بھی مثل مار سیر گنج بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی آخرت کویاد نہیں رکھتے۔ دنیا کے فنا اور عارضی ہونے پر مسافر بھی ایک عمدہ کاوش ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیاوی رنگینیوں میں محبت سے لبریز زندگی گزرنا اور دھنک رنگ بچوں کی شادی میں شب و روز کرنا ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن دنیاکا مسافر کب تک اس عارضی بوجھ کو اٹھائے پھر سکتا ہے۔ مسافت حیات کے ایک موڑ پر مجبوراً یہ سامان تعیش بکھرنا شروع ہوتا ہے اور پھر بکھرتا چلا جاتا ہے۔ عمر کی جمع پونجی دیکھتے ہی دیکھتے خرچ ہو جاتی ہے ۔ جوانی کی بہار کبھی نہ لوٹنے کیلئے رخصت ہوتی ہے تو اس کے بعد ایک نئی حقیقت کا سفر آغاز ہوتا ہے۔ روحانیت کی نئی منزل کی اس جستجو میں جب مسافر روانہ ہوتاہے تو اپنے آپ سے مل لیتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام اورجاگیر دار نظام میں مخصوص طبقے کی اجارہ داری اور پھر اس نظام کے سر خیلوں کے خلاف ایک مزاحمتی انداز شو ٹائم میں سامنے آتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ طبقہ الگ الگ ناموں کے ساتھ اپنی انگ شناخت اور پہچان رکھتا ہے مگر غریبوں کا خون چوسنے میں سب کا انداز ایک ہی طرح کاہوتا ہے۔ امین جالندھری کے بعض افسانوں میں بعض کرداروں کے نام اجنبیت کے حامل بھی ہیں۔ لیکن ان کرداروں کے ارد گرد بنے واقعات اور واقعات سے جڑی جزئیات ، کرداروں کے اقوال و افعال میں سب ایک ہیں ایک شناسائی بھی ملتی ہے۔ اس حوالے سے درد کی زنجیر کا مطالعہ خصوصی دلچسپی کا حامل ہے۔ افسانہ رہائی بھی وڈیروں اور جاگیرداروں کے بنائے ہوئے خود ساختہ نظام اور اس نظام کے دلالوں کی کہانی ہے۔ محنت کش مزارعین کی محبت پر عیش کرنے والے ظالم جاگیرداروں کو غریب عوام ہی میں سے ایسے پالتو مل جاتے ہیں ۔ جو اپنی زندگی بنانے کے چکر میں اپنے حاکموں کے تمام راستے پہلے ہی سے ہموار کر تے جاتے ہیں تاکہ ان پرکوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ ایک دن کی بات ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔ مذہب کو بنیاد بناکر انگریزوں نے یہاں کے لوگوں کو ہمیشہ آپس میں لڑایا۔ نو آبادیاتی نظام کو مضبوط کرنے میں جہاں ان کی عیارانہ چالیں کامیاب ہوئیں وہاں مذہبی شدت پسندی اور جمود زدہ اذہان نے بھی ان کے راستے ہموار کئے رکھے۔ اس ضمن میں میڈیا کا طوائفوں والا کردار بھی کم شرم ناک نہیں۔ جو چھوٹی تاویلات کو بنیاد بنا کر خبریں بیچنے کا کاروبار کرتا ہے۔ یہ رویہ کل بھی موجود تھا اور آج بھی موجود ہے۔ جب تک ہم اپنے درمیان اصل فتنے کی صورت نہیں پہنچانیں گے ہم یوں ہی مرتے اور کٹتے رہیں گے۔ دیکھا جائے تو سیاسی منظر نامے پر ذاتی مفادات کے حصول کے لئے عوام کااستعمال یہاں کا وطیرہ رہا ہے۔ اس کا اظہار کامیاب میں بھی کہا گیا ہے۔ ایک عام سا بندہ تنگ و تاریک گلیوں اور خستہ حال مکانوں سے محلوں میں منتقل ہونے کیلئے ریاست ہی کووسیلہ بناتا ہے۔ اور جب کامیاب ہوتا ہے تو اپنے ووٹرز کو ان کے حال پر چھوڑکر خود پوش علاقوں میں سکونت اختیار کر لیتا ہے۔ پھر وقتاً فوقتاً اپنی ضرورت کی خاطر گڈگی بجا کر عوام کی طرف آتا ہے کیونکہ ہمارے یہاں سیاست کسی منشور کے تحت نہیں بلکہ بیانیے پر زندہ رہتی ہے۔ لہٰذا جب لیڈر اپنے پسے ہوئے لوگوں میں نئے بیانیے کے ساتھ آکر اپنی خدمت کا احساس دلاتا ہے تو آسانی سے ووٹ لے کر ایوانوں میں لوٹ جاتا ہے۔ مذہب کے نام پر منافرت ادب کے لئے نیاموضوع نہیں۔ امین جالندھری کے ہاں بھی جگہ جگہ اس پر خامہ فرسائی کی گئی ہے بلکہ اس حوالے سے وہ دوسروں کی نسبت زیادہ حساس نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ وہ جس خطے کے باسی ہیں اس میں آئے روز ایسے المیے دیکھنے اور سننے کو مل جاتے ہیں۔ تجربہ میں انسانیت کا مذہب کو وحشت اور درندگی سے متصادم دکھایا گیا ہے بے گناہ انسانوں کا خون بہانا اس کیلئے مذہب کا نام استعمال کرنے کا تجربہ انتہا درجے کی درندگی ہے۔ پاور ان کی ایک اور فکر افروز افسانہ ہے جو مقتدر اور صاحبانِ اختیار کی بے عملی اور عوامی بگاڑ کا نوحہ سناتاہے۔ ملک عزیز کے زوال کی یہ کہانی بظاہر مختصر ہے مگر بڑی مہارت سے اداروں کی بے قاعدگیوں اور مقامی رویوں کا پردہ چاک کرتی ہے۔ لوٹ کھسوٹ کے نت نئے انداز اور غیر انسانی طرز ہائے عمل نے عوام کو بے حال کر دیا ہے۔ مفلوج نظام میں زندگی کرنے کیلئے منفی راستوں کا انتخاب ناگزیر بن جاتا ہے۔ اس لئے دیارِ غیر میں پناہ لینا اور پھر غیر قانونی سرگرمیوں میں شامل ہونا ایک طرح کی مجبوری بن چکی ہے جس ملک میں طاقت کامطلب اختیار اور پیسہ بن جائے وہاں کسی نظام کو آئین اور قانون کے تحت چلانا ممکن نہیں رہتا۔ بھلے ہی یہ سب مقامی اور عالمی سطح پر ملک کی بد نامی کا سبب بنے۔
مادیت پرستی میں دم توڑتی محبت اور اخلاقی اقدار کے خاتمے کو ہنی مون میں موضوع بنایا گیا ہے۔ جہاں عشق و محبت محض باہمی مفادات کے حوالے ٹھہرے وہاں یہ ظاہر پرستی جمالیاتی حس کو مجروح کر دیتی ہے۔ روایت حرکت اورعمل پیہم سے عبارت کسی حد تک علاقی انداز کی کہانی ہے جو نسل در نسل مضبوط کرتی روایت کو سامنے لاتی ہے۔ ذاتی مفاد کیلئے کام کرنا انسان کو بڑا نہیں بناتا بلکہ دردِ دل رکھنے والا بڑا نسان ہمیشہ مخلوق خدا کے حوالے سے سوچتا ہے اور انسانی کی کہانی اسی خوبی سے زندہ رہے گی چاہے بھوک پیاس میں صحرائوں کا سفر در پیش ہولیکن آئندگان کی بہتری کا جذبہ فردِ واحد کو کارواں میں بھی ڈھال سکتا ہے۔
آدھے راستے کا آدمی نسلی بعد میں در آنے والے مسائل کی عکاسی کرتا ہو ا افسانہ ہے۔ عصر حاضر میں نئی نسل کی ضروریات اور دنیا داری کی لالچ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے اس لئے مقبول کو اپنے والد سے گلہ ہے کہ پانی بھر نے والے کو ان کی بھوک نظر نہیں آتی جو ان کی آنتوں میں جم گئی ہے۔ گلو بادشاہ اپنی ایمانداری اور رزقِ حلا ل کے راستے سے ہٹنا نہیں چاہتا لیکن وہ اپنے گھر والوں کے ہاتھوں پریشان رہتا ہے۔ ایک حلال اسے جکڑ کر رکھتی ہے کہ عمر کی دھائیاں برباد ہورہی ہیں کیونکہ حلال میں کوئی طاقت نہیں رہی، شرافت، امانت اور دیانت میں کوئی خوشی نہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ آدھے راستے سے واپس لوٹنا نہیں چاہتا اور اسی طرح آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ بوڑھے آدمی کا نوحہ جہاں مغربی استعمار پر چوٹ ہے وہاں بوڑھے کندھوں پر جوان لاشوں کا نوحہ بھی سناتا ہے۔ ایک روشن مستقبل کی تلاش میں تاریکیوں کا سفر در پیش ہو تو پانے سے زیادہ کھونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ انگریز نے ہماری نسلوں سے ان کے راستے اور منزلیں چھین لیں لیکن ان کے خواب نہ چھین سکے۔ افسانے میں موجود یہ رجائیت نئے خوابوں کی امین بن کر سامنے آتی ہے۔ زر خرید غلام ، ضمیر فروشوں کی کہانی ہے۔ مقتدر طبقوں میں وفاداریاں بیچنے اور سازش کرنے والے ہر دور میں موجود رہتے ہیں اور یہ منافقین صلا پاکر ترقی کرنے کے اہل بنتے ہیں۔ اور جب انتظامات و اختیارات کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آتی ہے تو زوال یقینی بن جاتی ہے ۔ سفید دھواں خیر اور شر کے تصادم سے جنم لینے والی کہانی ہے جس میں تاریخی کرداروں کی مدد سے نفرت کو محبت کا اسیر بنتے دکھا یا گیا ہے ۔ زر زمین اور زن ہمیشہ سے اس دھرتی پر مصیبتوں کا سبب بنی ہے لیکن اصل وطن اور حقیقی جذبہ محبت ہے جو آسودگی سے ہمکنار کر کے امر کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرعون، چنگیز خان اور رچرڈ کے کردار اپنے اندر مثبت تبدیلی محسوس کرنے لگتے ہیں اور کہکشائوں میں گھومنے لگتے ہیں۔ روپ بہروپ میں بدلتی اقدار اور مغربی تہذیب کی یلغار کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مشرقی روایات اپنی تمام تر تقدس اور خالص پن کے با وجود مغرب کے عیارانہ ضربوں سے شکست کھا جاتی ہے۔ بظاہر جیت کے نشے میں ڈال کر وہ مغربی ایجنڈے کے پنجے مضبوط کرتے ہیں جس سے مقامی تہذیب ، اخلاقی معیارات کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے تو اپنی شکست کے بعد بھی وہ اللہ بندہ کو وہسکی اور موٹر پیش کر کے اس کے جسم میں آگ لگا دیتے ہیں تاکہ اس کا اقتدار مضبوطی سے قائم رہے۔
افسانہ گھوڑا بھی در اصل سیاسی گماشقوں کی بدلتی وفاداریاں اور نیو ورلڈ آرڈر کے آگے بے بس ہونے والے مفاد پرستوں کی کہانی ہے جو دولت کے بدلے قومی غیرت اور غیرت ایمانی بیچ دیتے ہیں۔ تاہم اہم نقطہ یہ ہے کہ وطن کی محبت بالآخر غالب آجاتی ہے اور وہ غلامی کا طوق اتار کر جان قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس افسانے میں کرداروں کو علامتوں کے ذریعے پیش کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی ابلاغ کا مسئلہ در پیش نہیں رہتا۔
امین جالندھری کے افسانوں میں جو کثیر الجہتی نظر آتی ہے وہ ان کی کہنہ مشقی پر دلالت کرتی ہے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے ہاں سب کچھ نیا ہے لیکن یہ رائے بغیر کسی خوف کے دی جا سکتی ہے کہ ان کے ہاں سب کچھ پرانا بھی نہیں ہے بلکہ وہ جگہ جگہ اپنی ندرت اور انفرادیت ظاہر کرتے میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مستنصر حسین تارڈ کی نئی کتابیں
۱۔ ویت نام تیرے نام (سفر نامہ) ۲۔ صنم کدہ کمبوڈیا (سفر نامہ )
۳۔ شہر خالی کوچہ خالی (وبا کے دنوں کے حوالے سے ایک ناول)
۴۔ روپ بہروپ (دو ناولٹ) ۵۔ جو کالیاں (ٹلہ جو گیاں۔ سوات اور جو کالیاں)
زیر ترتیب کتابیں:
۱۔ لاہور دیوانگی ۲۔ کیوبا کہانی (سفر نامہ میکسیکو اور کیوبا)
ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور