معروف دانشور ،محقق، ناقد، افسانہ نگار اور ادیب ۔ نجیب عمر(کراچی)
امین جالندھری عصر حاضر کے منفرد افسانہ نگا ر ہیں ان کے افسانوں کے موضوعات میں تنوع خیال میں ندرت اور قارئین کے ذہن میں تازگی کا احساس جگاتے ہیں اردو افسانہ نگاری پر نظر ڈالیں تو عرصے تک افسانے میں کہانی اور کہانی میں افسانے کو سمونے کا ذکر کر رہا ہے تاہم اس تنازعہ کو میرے بزرگ دوست، پائے کے افسانہ نگار اور ادیب رئوف نیاز ی نے اس بحث کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سمیٹ دیا کہ کہانی تشکیل ہے اور افسانہ تخلیق کہانی کو تخلیق کے درے تک پہنچا نے تک کئی خارجی عوامل کو خوبصورتی سے برتنے کا ہنر ہے۔ یہ خون جلا کر روشنی بکھیرنے کا نام ہے۔
میں افسانہ نگاری کو کارِ ثواب سمجھتا ہوں۔ سورۃاعراف کی 176 ویں آیت (ترجمہ) کہانیاں کہتے رہو تاکہ لوگ کچھ غور و فکر کریں۔
کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے۔
The shortest distance to human mind in story
آپ افسا نے کے ذریعے قارئین کے سامنے کئی سوال رکھتے ہیں اور اسے جواب تلاش کرنے میں معاونت کرتے ہیں ۔ یہی انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے اگر اسے ڈھنگ سے کیا جا سکے۔ میں نے امین صا حب کے چند افسانے پڑھے جن میں سے بیشتر اختصار کے حامل ہیں۔ میرے نزدیک اختصار افسانے کا حسن ہے بشرطیکہ اسے برتنے کا ڈھنگ آتا ہو۔افسانے کی طوالت اور اختصار سے متعلق بر صغیر کے قد آور افسانہ نگار کرشن چند کا قول ہے کہ: “میں افسانے کا آغاز کرتا ہوں پھر افسانے خود اسے ختم کرتا ہے یعنی کرشن چندر یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ افسانے کی طوالت اور اختصار اس کی فطری ضرورت ہوتی ہے اگر تخلیق کار اسے غیر ضروری اختصار میں قید کریگا تو افسانہ مر جھا جائیگا ٹھیک اسی طرح اگر اسے غیر فطرے طوالت میں پھیلا ئیگا تو افسانے کا حسن ماند پڑ جائیگا۔
آج افسانہ نگاری کے لئے زمین سے لے کر خلا تک اور اس سے آگے آسمانوں تک موضوعات بکھرے پڑے ہیں جس پر چاہیں طبع آزمائی کریں بس موضوع کا حق ادا ہونا چاہئے۔ آج چند افسانہ نگار مبہم پیرائے میں ایسا ابہام پیدا کرتے ہیں کہ قاری سمجھ نہ پائے اور وہ اس کو کامیابی سمجھتے ہیں یہ جو کچھ بھی ہے ہم اسے افسانہ نگاری نہیں کہہ سکتے۔ آئیے امین صاحب کے چند افسانوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جن اصول و ضوابط کا میں نے ذکر کیا ہے اس پر جانچنے کی سعی کروں۔ کتاب کی پہلی کہانی جسے افسانہ بنانے کا کام بڑی چابک دستی سے کیا گیا ہے۔ مساوات انسانی اس کا بنیادی خیال ،نادار خود کو نادار نہیں جانتا اور حاکم مقتدر، رحم حکمرانی کو سر پر سوارہونے نہیں دیتا۔ جس کا افسانے میں کہیں ذکر نہیں بلکہ بین السطور میں مہک رہا ہے کہ دونوں کے ملن کی جگہ وہ جہاں شاہی سے خارج ہونا اونادار احساس ناداری سے مبرا انسانیت کی سطح پر اور خالق دو جہاں کے نزدیک ہم پلہ اور حالت سجدہ میں جہاں دونوں انسانیت کی معراج پراور اقبال وہ خط امتیاز کھینچتے ہیں جس کے آگے کوئی بڑائی نہیں جس کے نیچے کوئی کمتر نہیں۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
ایک افسانہ بلند پروازی ، کبوتر باز کبوتریں لڑاتے لڑاتے جب وہی گر انسانوں پر استعمال کرنے لگتا ہے تو کبھی اس کے سامنے انسان کی شکل میں اشرف المخلوقات کی شکل میں اس کے سامنے کوئی رفیق آجاتا ہے اور ببن خان کو احساس ہو جاتا ہے کہ یہ ہارنے کیلئے بنا ہی نہیں ۔کبوتر کبھی انسان نہیں ہو سکتے اور انسان کو کبو تر نہیں بنا یا جا سکتا چونکہ کسی کسی میں بلند پروازی کی نمو ہوتی ہے ہر ایک شعر حسب افسانہ ہے۔
شکستہ پر ہیں مگر رخ فراز کی جانب
صد آفریں ہے لگن طائرانِ بسمل کی
افسانہ شو ٹائم یہ ایک نفسیاتی افسانہ ہے ۔ جراثیم کش اسپرے سے جراثیم مارے جا سکتے اس کا نوے فیصد تک خاتمہ ممکن ہے اور ہم اپنی فصلوں کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔ پیداواری صلاحیت اور جراثیم کش دوائوں سے فصل کومحفوظ بنا کر پیسے کما سکتے ہیں تاہم کچھ انسان میں جراثیم کے مانند ہوتے ہیں ان کا خاتمہ ہی ضروری جو آبادی کی فصلوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ ان جراثیم کا نام ہے غرض بے ایمانی، چوری، خود غرضی،اقر با پروری، دھوکا اور ایسی بے شمار خلاقی بیماریوں کے جراثیم ان کے لئے بھی اسپرے کی بلکہ بے انتہا طاقتور جراثیم کش دوائو کی ضرورت ہے۔
سیاسی اتار چڑھائو عوام الناس کا استعمال اور بس استعمال ۔ فن کا ذکر خالی خولی مقصد بر آری کسی اور کی۔ پلہ بھاری کسی اور کا ٹکٹ اس کو دیا جائیگا جس کی جیب بھاری ہو۔ پیسوں کے بغیر کوئی کام ہوتا ہے کیا حتیٰ کہ علاقے کا نام بھی استعمال کیا جاتو جو خود کو وہاں کا جم پل ثابت نہیں کرتے تاہم ان کے درشن سے ووٹ سمیٹنے کا کام لیا جاتا ہے ۔ بیلٹ باکس میں پڑنے والے ووٹ بڑے اہم ہوتے ہیں لیکن اس سے اہم ان کی گنتی ہوتی ہے۔ جو ووٹ گنے جائیں وہ کسی کام کے لہٰذا اصل کردار ان خفیہ ہاتھوں کا جو ووٹ گنتے اور اس سے زیادہ اہم ہوئے جو کسی کی فتح کا اعلان کرتے ۔ جمہور چندرروز اس پرچہ میگوئیاں کرکے خاموش ہوجاتی ہے۔ سیاست میں ان کا حصہ اتنا ہی ہوتا ہے۔ سیاست کی رنگینیوں، کج ادائیوں، پیسوں کی ریل پیل دکھلانا اور عوام کی بے قدری کے احوال دکھانا ہمارے دلوں پر دستک دیتا سیاسی رنگ ووٹوں کا افسانہ۔
افسانہ محاسبہ کے بانکے اور کٹیلے جملے
٭ میڈم آزوری کل بہت جذبات میں تھیں۔ ٭ کل ہی تم نے کلفٹن میں چار ہزار گز کا پلاٹ الاٹ کرایا ہے۔ ٭ آئندگان کونسل کی جگہ کاش میںریس کورس میں ہوتا تو خوب گھوڑے دوڑاتا۔ ٭میڈم۔۔۔ میدانوں میں میدان ایک ہی ہے۔ پانی پت کا۔ ٭ اس آرٹس کونسل میں کتنی سیڑھیاں ہیں جتنی ترقی کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ ٭ سبز لباس میں ہری لگ رہی تھی۔ ٭رہبر ہمدانی نے ہاتھ ہلا ہلا کرنا پسندیدہ افراد ، ملک گیری، دھونس، فرمانِ جنوں، پانچ اسٹار ہوٹلوں میں رقص حیات و مساوات ، عوامی زندگی، نظریہ ضرورت، جمہوریت، گھوڑے مرلعے، سیب بادام اخروٹ، لوہے کی کرشمہ سازیاں، اور ورلڈ بینک۔ ٭ تمہارے لئے تو پورے ملک میں مشہور ہے ، منہ پھلا کر جھوٹ بولتے ہو۔ ٭ حبس کے موسم میں علامتی اظہار اچھا لگتا ہے۔ ٭ بی بی میرا گال آپ کی لپ اسٹک نے لال کر دیا ہے۔ ٭ نصف صدی میں نصف بہتر خواہش پر ہونے والے ظلم۔ ٭آخری سین میں ، انگلیاں عوام کی طرف ہوں گی اور پوچھا جائیگا، تم نے وطن کو کیا دیا۔
آخری سوال کس قدر انصاف پر مبنی ہے ۔ ملک کے تمام تر مسائل سے کھیلنے والوں کا وطن کے مجبور و مقہور عوام پر یہ بوجھ بھی۔ افسانوں کی دنیا میں منفرد توانا اور نئی آواز سے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کے اندر بے شمار افسانے پل رہے ہیں۔ انہیں منصئہ شہود پر لایا جائے تاکہ سنجیدہ قارئین کی دل بستگی کا سامان ہو سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
راجپوت
مصنف : ایم اے رشید رانا (ایس ایس پی (ر) پنجاب پولیس)
قیمت:800روپے (بیرون ملک 50ڈالر ) صفحات533
رشید رانا نے پولیس ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد چھ سال کی شبانہ روز محنت کے بعد یہ کتاب
تصنیف کی ہے۔ یہ راجپوت برادری کے بارے میں منفرد کتاب ہے جس میں تین سو سے زائد
راجپوت برادری کی نامور شخصیات کے حالات و تصاویر شامل ہے۔
یہ کتاب فیروز سنز کی تمام شاخوں سے دستیاب ہے۔
مزید رابطہ: رشید رانا موبائل نمبر:0300-8482808
عالم اجل حضرت محمد عالم مختار حق قلم کے سپاہی اور علم و فضل کے درویش تھے۔ انھوں نے مذہب اور ادب میں بھر پور حصہ لیا اور اپنا سرمایہ تحقیقی ، علمی و ادبی سے ادب کوثر وت مند بنایا۔ ویسے تو ان کی ادب کے مختلف جہتوں میں کئی تصانیف ہیں مگر مکتوبات پر ان کی چند بہت کار آمد کتب شائع ہوئی ہیں۔ ان کے فرزند جمیل نے تین جلدوں میں محمد عالم صاحب کے نام خطوط شایع کیے ہیں۔
چند عزیزوں کے خطوط (تین جلدیں)
کتاب بہت خوبصورت ، طباعت نفیس، مجلد اور تینوں جلدوں کی ضخافت تقریباً سولہ سو ۔ قیمت تینوں جلدیں تین ہزار روپے
ناشر: کتب خانہ محمد عالم مختار حق ، شہاب ٹائون ، ڈاک خانہ سبزہ زار ، بند روڈ لاہور۔ موبائل نمبر:0313-7576257