(Last Updated On: )
شقیق القلب اور صرف آنکھ سے دینے والے اسے نہ پڑھیں۔
22۔ معروف ہمہ جہت ادیبہ، افسانہ نگار، مبصر ڈاکٹر لبنیٰ زبیر عالم۔ صدر قومی زبان تحریک حیدر آباد سندھ
تعارف: فخر حیدر آباد سندھ، قابل صداحترام امین جالندھری صاحب سے پہلی گفتگو اپنے گروپ پاکستان قومی زبان تحریک میں ہوئی جس کے بعد احقر نے انہیں اپنے ادبی گروپ “فرض کتابیں قرض تبصرے” میں شامل کیا۔ آپ سے پہلی ملاقات تحریک کے اجلاس میں ہوئی۔ جس میں ہم پریس کلب میں نئے ادیبوں کی تقریب رونمائی کرتے ہیں کتاب کی۔ یوں ہوا کہ بزرگو ار پریس کلب کے دروازے سے آگے ہال سیڑھیوں کے نیچے تسبیحات میں مشغول تھے ہمارے سلام کے جواب میں کہا اوپر جائیں، اوپر پروگرام ہے۔ ہم چپ چاپ اوپر چلے گئے ، نہ اپنا نام بتایا نہ یہ کہا کہ ہم اس تقریب کے نالائق میزبا ن ہیں۔ لیکن ماشاء اللہ آپ ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ اسی تقریب میں آپ نے ہمیں اپنی دو کتابیں عنایت کیں جن کے لئے کہا گیا تھا کہ حیدر آباد آئوگی تو تم کو اپنے ہاتھ سے حرف حرف روشنی دوں گا جس کے ساتھ بونس میں یہ حرف حرف کہانی بھی مل گئی۔ ان ہی حرفوں کی عرق ریزی کی یہ ادنیٰ سی کاوش آپ کے سامنے ہے۔ (مزید اپنا ہاتھ روک لیا ہے یہی سب کا مشورہ ہوتاہے) میں اک ججمنٹنل قاری نہیں، اک چاول سے پوری دیگ کے اندازے کی قائل نہیں، سو الف سے ی تک پڑھنے کی عادی ہوں۔ اور ان فرائض میں زیر زبر تک کی ڈنڈی مارنا گناہ سمجھتی ہوں۔ دورانِ قرات محسوس کیا کہ امین جالندھری صاحب کی جہاں یہ خواہش ہے کہ آئندگان ان کی تحاریر سے حظ اٹھائیںاور سرشار ہوں وہیں انہیں متشاعراور نقلی ادیب سے شکوہ ہے کہ وہ اخلاقی اقدار کا خیال نہیں رکھتا ۔ جسے وہ اک اصطلاح نقلی ادب سے منسوب کر رہے یں اورادیب کیلئے لب کشائی کروں (واللہ اعلم بالصواب) ان کی فرمائش بھی تھی سو 23مارچ پہلے روزے کا وعدہ تھا جو پورا ہوا چاہتا ہے۔
حرف حرف کہانی یا حرف حرف روشنی
کتاب پڑھتے ہوئے مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ کاش! اس کا عنوان حرف حرف روشنی ہوتا لیکن یہ حق صاحب کتاب کوہے، جو چاہے نام رکھے، عین ممکن ہے کہ دونوں کتابیںآگے پیچھے آئی ہوں اور روشنی کا کام کرنے والی کا نام پہلی والی کو مل گیا ہوجو اس کیلئے اور مصنف کیلئے مشعل راہ بنی ہو۔ مصنف بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ دورانِ قرات کئی بار اپنی بد نصیبی کا احساس ہوا کہ ڈاکٹر لبنیٰ تمہارے شہر اور تمہارے ہی محلے میں ایک ایسا چراغ تھا جس کی لو سے پورا علاقہ روشن ہو سکتا تھا جن سے شناسائی بہت دیر بعد نصیب ہوئی۔ مگر الحمدللہ دیر آید درست آید۔ (ایسا اسلوب ، اتنی چابک دستی ، اس قدر مہارت جو افسانوں کی دنیا میں اب کثیر افسانہ نگاروں کو نصیب نہیں اسے پڑھنے کا اعزاز مجھے نصیب ہوا۔ فکشن کے حلقوںمیں ایک بڑا وقت گزارنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ ہندوستانی اردو ادیب ہی امین جالندھری صاحب و دیگر سے ٹکر لے سکتے ہیں۔ اگر چہ میں اس قابل نہیں کہ خیال آفرینی کروں، چند سو کتابیںپڑھنے کے با جود اردو اور اردو ادب میرا شعبہ نہیں (بد نصیبی ان تمام ہم عصرادیبوں کی بھی کہ وہ امین جالندھری صاحب سے بہت کچھ سیکھ سکتے تھے۔ ایسا فکشن، ایسا بہاؤ ، خدادا صلاحیتوں کے ساتھ بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنے اور ان کا مشاہدہ کرنے سے نمو پاتا ہے۔ اگر میں ناقد ہوتی تو صرف ایک سوال اٹھاتی کہ امین جالندھری صاحب کے ہر افسانے میں کسی خاص عقیدے کی جھلک ہے۔ برادرم معراج جامی صاحب کے مطابق اس کتاب میں مذہب کی جھلک ہے جس سے میں کلی طور پر متفق نہیں ہاں البتہ اس بات سے متفق ہوں کہ مصنف صرف نباض نہیں حاذق ہیں۔ کتاب میں کہیں بھی کسی دھرم سے بیزار یت یانام نہاد اسلام کا پرچار نہیں ہے نہ انصاف کی طلب ہے نہ خلق سے شکوہ۔ اور ادب کا تو ویسے بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ ہر ادیب آزاد ہوتا ہے جو چاہے لکھے، اس سے پہلے ہم فحش نگاروں اور ملحدوں کو ادب کے مہان استھان پر بٹھا چکے ہیں تو اہل تصوف سے کیا بیر؟ یہ صنف عشق نگاری کی صنف ہے جہاں فنا فی الذات سے اک آنچ کی کسر باقی رہ جاتی ہے۔
افسانوں میں کچھ بھی ماورائے عقل نہیں ہاں مگر پر اسراریت ضرور ہے جس کو ناچیز نے بھی محسوس کیا ہے۔ تبصرہ لکھنے سے قبل جن علاقوں میں سے گزر کر آئی ہوں کتاب کھولتے ہی وہ کہانی کی صورت میں میرے سامنے تھے۔ امین جالندھری کو پڑھتے پڑھتے اگر آپ آنکھیں بند کر کے ان میں سے کچھ لفظ دہرائیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ موصوف ایسے عشق میںرچ بس گئے ہیں کہ اب بس دھمال کی کسر باقی ہے۔
افسانے اور اقتباسات: افسانے یا افسانچے جن کو میں اپنی کم علمی کے تحت مائیکرو فشن، سائیکو فشن اور رئیل فکشن سمجھی ہوں۔ اک معمہ ہیں جن میں اہل نظر کے لئے پیغامات بھی ہیں۔ کوشش ہوگی کہ ان رازوں سے پردہ اٹھایا جائے (بشرط زندگی) لیکن اس کے بیان کرنے کا وعدہ نہیں۔
آئیے افسانوں کو اک دوسرے سے جوڑتے ہیں جس کیلئے عنوانات پر غور کیجئے۔
محشرخیال۔ مستی، خمار ، موڑ، بلند پروازی، آگ، مسافر ،رہائی، تجربہ، التجا، محاسبہ، روایت، آدھے راستے کا آدمی ، سفید دھواں، روپ بہروپ، گھوڑا وغیرہ۔
جب آپ یہ افسانچے پڑھیں گے آپ پر اک نئی فکر کے در کھلیں گے کتاب پڑھنا شرف ہے ۔ تجسس ختم کرنا مطلوب نہیں چلیں!تجسس بڑھادیتی ہوں۔
چنیدہ اقتباسات: افسانہ محشر خیال۔ حضرت! آپ سے درخواست ہے کہ بلا دہندوستان میں اک ایسی مسجد تعمیر کریں کہ صاحبان ذوق اش اش کر اٹھیں، مگر اس لمحہ میری آپ سے اک درخواست ہے کہ آج آپ کے اقتدار میں نماز تہجد ادا کی جائے۔ حضور ! یہ گناہگار اس کا اہل نہیں۔
حضرت! ہم سے یہ سعادت نہ چھینیں۔ بسم اللہ حضور ۔ اگر آپ کی منشا یہی ہے تو صفیں درست کرنے کا حکم دیجئے۔ جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر محل سرا میں پھیل گئی اور نمازِ تہجد کے لئے صفیں آراستہ ہونے لگیں۔
افسانہ خمار۔
سائیں عشق کا خمار ایسا ہوتا ہے۔
ہاں میاں ماروی کو عمر ہی ملتا ہے۔
افسانہ مستی:
علی محمد تم بہت بے صبرے بن جاتے ہو۔ تحمل اور وقار سے کام کرو اندر (جیل) جانے سے فن اور آدمی داغ دار ہو جاتے ہیں۔
خیر محمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تواس کا ہاتھ خالی باہر آیا۔
کنڈیکٹر نے ہنستے ہوئے کہا۔ سائیں آپ کا کرایہ اک آدمی دے کر چلا گیا ہے اور اس نے یہ پیغام دیا ہے کہ تم سے حاصل شدہ ساری رقم نذرانے کے بکس میں ڈال دی ہے۔ قلندر کی بستی میں ایک نعرہ گونجتا ہے۔ دمادم مست قلندر، یہاں مستی اچھی نہیں ہوتی۔
افسانہ چک گ ، ب 45:
بہت سی باتیں کہنے کی نہیں ہوتی ہیں۔ صرف سننے کی ہوتی ہیں۔
سن! نسیم بہار دلوں کو تراوت بخشتی ہے اور نسیم صبح گلوں کو خوشبو۔
نور دین۔ جان لو۔ ایک رشتہ چقمق اور لوہے میں ہوتا ہے۔ جسے کشش کہتے ہیں۔
آج جو پوچھنا ہے پوچھ لو ہم تمہیں کشش عطا کرتے ہیں۔
یہ کشش ہماری زندگی ہے۔ ہمیں کہاں سے لے آئی ہے؟ اور ہمیں کہاں لے جائیگی؟ تمہیں پتہ ہے؟
بلند پروازی:
استاد آپ اور کورٹوں میں۔ خیر تو ہے؟
اچھے میاں۔ شریف آدمی کورٹوں کے ذریعہ سے ہی انصاف مانگتا ہے ۔ خواہ انصاف ملنے میں32برس لگیں۔
افسانہ آگ:
شیخ جی۔ ہر تہذیب اپنے “عصر” کی گواہ ہوتی ہے ۔ یہ آگ ہمارے ابتدا کی ساتھی ہے۔
پنڈت جی۔ یہ بہت سوں کی ابدی رفیق بھی تو ہے۔
یہ بتلائو اس آگ کا اصل ٹھکانہ کہاں ہے؟
شیخ جی۔ منش کے اپنے من میں ۔
بقیہ افسانے اپنے قاری کو ڈھونڈ رہے ہیں یقینا انھوں نے اپنا ساتھی چن لیا ہوگا تجسس بر قرار رکھتے ہوئے میری یہ خواہش ہے کہ یہ کتاب اس دور کے نئے لکھنے والے ضرور پڑھیں۔
فکر و فلسفہ: امین جالندھری صاحب اک خاص فلسفے کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں جسے فلسفہ عشق کہتے ہیں۔ اہل تصوف اور اہل روحانیت کے ہاں بھی مختلف نظریات ملتے ہیں جیسا کہ ایک ہی مذہب کے مسالک اور فرقوں میں ہوتا ہے۔ بندی تقابلی مذاہب اور اقبالیات کی طالبہ بھی ہے اس وجہ سے کتاب پڑھتے ہوئے کہیں تسکین تو کہیں الجھائو محسوس ہوا۔
روح، روشنی، ہونی، انہونی، خواب، الہام وغیرہ مصنف کی تحریر میں جیسے خود سے عود آتے ہیں۔
محسوسات کی دنیا کو قرطاس پر اتارنا ممکن ہوتا تو کوئی اپنے خالق کی بابت سوال نہ کرتا۔ کتاب پڑھنے سے جو منظر بنتے ہیں وہ اپنی اپنی آنکھ کے منظر ہوتے ہیں۔ قلم اور کتاب کی یہ تقدیس ہمیشہ سے ہے اور قیامت تک قائم رہے گی۔
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
اقبال۔
خواہش تو یہی ہے کہ قابلیت، ترقی اور دریافت کو مادی خواہشات سے ہٹ کر سوچا جائے لیکن واللّٰہ علٰی کل شیئٍ قدیر ۔
حرف حرف کہانی کو پھر روشنی کہوں گی کہ اس میں اک فلسفہ پر غور کریں کہ علم ہو، محبت ہو یا نسبت اس کے منتقلی کے راستوں کیلئے ہم صرف کوانٹم فزکس ، بائیو ٹیکنا لوجی اور آنے والی مائیکرو ٹیکنا لوجی کے محتاج نہیں۔ اس کی دلیل میں یوں دوں گی کہ جنا ب
ذکر ہو، غور ہو، فکر ہو، ہجر ہو، پھر عشق ہو تو فنا فی الذات کے بعد شاید کسی کتاب کا نزول ہو جاتا ہے۔
یہاں تو آج کل ہم ادب میں صرف “لکھ” رہے ہیں۔
مصنف نے کئی افسانوں میں سینے کے ذریعے کشش منتقل ہونے کی تھیوری پیش کی ہے جس پر میں نہیں جانتی کہ کسی نے غور کیا یا نہیں۔ کئی سائنسی سوالات کو ہمیشہ سے تخیلات نے جنما اور تخیلات نے ہی جواب دیئے۔ گویا ہمارے سوالات کے جوابات ہمارے بہت قریب ہوتے ہیں۔
اٹھتے ہیں حجاب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر
اقبال۔
مصنف سیاست، وکالت، معاشرت اور روحانیت کا سیر حاصل علم رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ہر تحریر میں کہیں امین جالندھری کی اپنی ذات مشکل ہی نظر آئیگی لیکن کوئی تحریر ان کے نظریہ سے خالی نہیں۔ تانا بانا بننا اور لفظ سے لفظ جوڑنا وہ بھی اتنے سلیقے سے یہ خوبی ہمیں انشا نگاروں اور مزاح نگاروں کے ہاں ملتی ہے کہ وہ بلا کی ذہانت رکھتے ہیں۔ لیکن بزلہ سنج طبیعت کو سنبھال کر سنجیدگی کو قائم رکھنا یہ اس لگام کو تھامنا ہے جو مصنف کو بنا دوڑائے چوٹی پر پہنچا دیتی ہے۔
کتاب کے سرنامہ میں تحریر شعر امین جالندھری صاحب کے قلم کی بے باکی کو ظاہر کر رہا ہے۔
مجھے دریافت کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
سنہری بات کرنا چاہتے ہو اور ڈرتے ہو
دریافت کا بے خوبی سے یہ رشتہ اس کنویں سے نکلنے کے مصداق ہے جس میں اندھیرا ہے اور مذہب کا خوف۔ بے خوفی ہی در اصل جہاد بالقلم ہے جو آپ کو جہاد بالنفس تک لے جاتی ہے۔
زبان و اسلوب: امین جالندھری ویسے تو جالندھر پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انداز میں کبھی لکھنؤ کی چاشنی جھلکتی ہے تو کہیں اک عام اردو بولنے والے کا انداز نمایاں ہے (اردوئے محلہ اور اردوئے معلی کا حسین امتزاج۔
قلم کی روانی ایسی کہ جس میں کاغذ کو لفظوں کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ کچھ افسانوں میں ثقیل زبان بھی استعمال ہو ئی ہے لیکن اس بار مجھے جو ادیبوںسے شکوہ تھا کہ وہ ہم جیسے گلابی اردو دانوں کیلئے صرف سہل زبان کا استعمال کیا کریں وہ دور ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ جیسے مصالحے پرانے یا نئے نہیں ہوتے ان کے استعمال کا سلیقہ پکوان کو لذیذ یا بد ذائقہ بناتا ہے اسی طرح ادیب اگر الفاظ کا استعمال جانتا ہے تو وہ حقائق کو ملفوف کر کے بے حیائی سے چھانٹ سکتا ہے اور کسی غیر دلچسپ واقعے کو باعث حظ بنا سکتا ہے ۔ میری نظر میں ہر اچھے ادیب میں یہ خوبی ہونی چاہئے جو امین جالندھری صاحب کے اندر بدرجہ اتم موجود ہے۔
بقول سلمان صدیقی صاحب امین جالندھری وضاحتی بیانیے سے گریز کرتے ہیں بالکل یہ درست ہے اور اسے میں دو ٹوک اسلوک سے تعبیر کرتی ہوں۔ جان کاشمیری صاحب فرماتے ہیں کہ امین جالندھری کی تحاریر میں ابہام نہیں۔ یہاں اک بات قابل غور ہے کہ ادیب بھی بہادر یا بزدل ہو ا کرتے ہیں کم سے کم ابہام بہادری کی دلیل ہے میرے تجزیے کے مطابق امین جالندھری صاحب دھرم ذات پات سب پر بول لیتے ہیں لیکن لیکن لیکن۔ کسی کی ذاتیات پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
یہ وہ فن ہے جسے آئندگان اور موجودگان (نئی اصطلاح برائے ہم عصر اور نو خیز لکھارئین) کو سیکھنے کی ضرورت ہے خواہ وہ بڑے بڑے نام ہوں۔ وہ جو عام سی باتوں کو جدید یت کے نام پر اپنا دل بہلانے اور کتابوں کی لائن لگانے کی خاطر وائرل کر رہے ہیں۔
لب لباب:
آخر میں یہ کہوں گی کہ حسب عادت کتاب پڑھنے کے دوران پرو ف ریڈنگ بھی کرتی رہی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ میں پہلے آنکھ سے پھر دل و دماغ سے اور پھر محسوس کر کے پڑھتی ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کتاب پر اپنی رائے حق دی ہے ، اس کے مصنف کو سچے قاری ملیں کہ سچے ادیب کو کتاب کی فروخت سے زیادہ اس کا سمجھا جانا مطلو ب ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
بین الاقوامی شہرت کے حامل ممتاز علمی و ادبی شخصیت ، صاحب اسلوب ہفت زباں شاعر، ادیب، نقاد، دانشور، مترجم، معروف تعلیم اور وطن عزیز میں شاعری کی اختراعی صنف’ہائیکو’ کے خالق وامین، استاد الاساتذہ محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کی نئی تصنیف۔
لوح مسطور
(نعت، سلام ، خوا ب نامہ منظوم، نظمیں، ہائیکو، خماسی، غزلیں)
منظر عام پر آگئی ہے۔
صفحات120، قیمت250روپے ، مجلد نفیس طباعت ، رابطہ : کتاب نگر، ایس ایس مال ، نصرت روڈ ملتان کینٹ 0321-4510444
رابطہ مصنف: 0301-7416630