براڈ کاسٹر، وکیل ، مصنف، سفر نامہ نگار۔ ملک بشیر مراد (آزاد کشمیر)
امین جالندھری سے ہماری ملاقات کبھی نہیں ہوئی لیکن روز ملتے ہیں، وہ ان کرم فرمائوںمیں سے ہیں جو ہر صبح واٹس ایپ پر باقاعدہ درشن دیتے اور اپنی محبت کا احساس دلاتے ہیں۔ ہماری دانست میں روزانہ کی بنیادوں پر یہ مواصلاتی جہاد ایک مومنانہ معرکہ ہے جو ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہم جیسے سست لوگوں کے بس سے تو بالکل ہی باہر کی بات ہے۔ ہم تو پیام و سلام کے ان سندیسوں کا گھونگھٹ بھی کئی مہینے بعد کھولتے ہیں۔ آج صبح ماہانہ نشست میں امین جالندھری صاحب کا پیامی بستہ کھولا تو روزانہ کے تہنیتی پیغاموں کے ساتھ ہفت روزہ طعنے بھی نظر سے گزرے جو اچھے خاصے دھمکی آمیز اور لرزہ خیر تھے ۔ وقوعہ کچھ یوں ہے کہ سید معراج جامی ہمارے مشترکہ دوست ہیں، سچ پوچھیے تو سب کے متفقہ دوست ہیں کہ ان محدودے چند اہل ادب میں سے ہیں جو نہ صرف با ادب ہیں بلکہ اہل دل بھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دل کے عارضے میں مبتلا رہتے ہیں، اس کے با وجود ہر سال دوستوں کا دل رکھنے اور اپنا بہلانے کی نیت باندھے کراچی سے نکلتے ہیں اور کشمیر کے آخری گائوں تائو بٹ کو چھو کر لوٹتے ہیں۔ جامی صاھب کی وساطت سے ہماری منجھلی کتاب”صفر نامہ” جالندھری صاحب تک پہنچی انھوں نے وہ صرف پڑھی ہی نہیں بکہ اس پر ایک عالمانہ اور فاضلانہ مضموں بھی موزوں کر کے ارسال فرمایا، اس کے بدلے ہم نے ان کی دو کتابیں پڑھیں لیکن مضمون ایک بھی نہیں لکھا۔ اس پر ان کا گلہ تو جائز ہے مگر دھمکیاں داب ناجائز کے زمرے میں آتی ہیں جن کی داد رسی ضابطہ فوجداری میں موجود ہے لیکن کیا کیجیے گا کہ ہم وکالت کے پیشے سے وابستہ ہونے کے با وجود مقدمہ بازی سے ڈرتے ہیں ورنہ یہ اچھا خاصPrima facie case بنتا تھا۔
امین جالندھری کی طرح ہمارے ایک قلندری دوست اور بے مثل شاعر افتخار مغل ہو گزرے ہیں۔ اچھے وقتوں میں انھوں نے ہم پر اتنا عمدہ مضمون لکھا کہ ہم احسان کے ملبے تلے دب گئے۔ ایک دو مرتبہ ہم نے بھی اس ملبے کے نیچے سے سر نکال کر جواب آں غزل کے طور پر مضمون داغنے کی کوشش کی لیکن مصروفیت نے دبا لیا۔ افتخار اور ہمارے درمیان بے تکلفانہ تعلقات تھے جن کا ناجائز فائدہ ہم دونوں برابر اٹھاتے تھے۔ پس اس نے ہماری جانب سے جواب میں دیر کو تاخیری حربوں پر معمول کیا اور باتوں باتوں میں کچوکے لگانے شروع کر دیئے۔
آخر کار تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ایک دن ہم نے دل برداشتہ ہو کر قلم برداشتہ قسم کا مضمون لکھ مارا، جس کو اسی گرما گرم حالت میں ہمارے دوسرے شاعر دوست ابراہیم گل نے اپنے رسالے میں چھاپ کر جلتی پر تیل ڈالنے کی مساعی جمیلہ فرمائی اور اسی گرمی کی آگ کو مزید آنچ دینے کی غرض سے تیسرے شاعر دوست اعجاز نعمانی رسالے کی چند جلدیں بغل میں دابے مشتمبہ شریف روانہ ہوئے جو اس مغلی شہنشاہ اور ہمارے یارِ غارافتخار کی راجدھانی تھی اس روز عالیجاہ نے اپنے دربار میں مشاعرہ بپا کر رکھا تھا، بقول نعمانی مضموں کی تلاوت کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور اسی اندھیرے میں مشاعرہ بھی ڈوب گیا۔ ہماری اس خطا پر افتخارایسا خفا ہوا کہ تیس سال معافی تلافی میں لگ گئے۔ امین جالندھری نے بھی بصیغہ پیغامات کچھ ایسے ہی سکندری حملے کیے لیکن اب ہم وہ غلطی تب کریں کہ جب اپنی زندگی کی زنبیل میں مزید تیس پنتیس سال دکھائی دیں جو کہ ملکی حالات اور ذاتی جذبات کے پیش نظر نا ممکنات میں سے ہے۔ امین جالندھری کی شان میں جوابی کاروائی میں تاخیر کا باعث ان سے ہماری محبت ہے جو ہم تا دیر دل میں محفوظ رکھ کر اس کی لذت سے محظوظ ہونا چاہتے تھے لیکن انہیں ہماری یہ سرشاری پسند نہیں آئی اور اتنی عجلت مچائی کہ ہم افراتفری میں چند سطور لکھنے پہ مجبور ہو گئے۔ ذرا سنبھل کے لکھتے تو دونوں کے حق میں بہتر ہوتا۔ امین جی جتنے عمدہ لکھاری ہیں اتنے ہی محبتی انسان ہیں ایسے لوگوں کو ہم دل میں سنبھال کے رکھتے ہیں لڑکے بالے تو رہے نہیں کہ ادھر کوئی دل میں اترا ادھر اگلے لمحے ہم نے بے شمار محبتیں کیں لیکن ایک بار بھی پٹنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی وجہ صرف یہ کہ ہم نے محبت ہمیشہ دل میں چھپائے رکھی، جس سے کی اسے بھی پتہ نہیں چلنے دیا۔
ہمارے چالیس سالہ پے در پے محبتوں کے تجربے کا حاصل یہ ہے کہ محبت کا اظہار ایک لاحاصل مشق ہے۔ محبت جتنی دیر دل میں رہتی ہے پختہ ہوتی رہتی ہے پس اس تاخیر کے پس منظر میں امین جی کی دل شکستگی ہر گز مطلوب نہ تھی بلکہ محبت کی پختگی مقصود تھی۔ انھوں نے جتنا جاندار اور آبدار مضمون ہمارے حق میں تحریر کیا اس کا تقاضا یہ تھا کہ ہم کوئی طرح داربلکہ خونخوار قسم کا مضمون لکھ کر ان کے شایانِ شان جوابی کاروائی ڈالتے لیکن وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ خود جالندھری صاحب نے بھی مہلت نہ دی۔ ان کی کتاب حرف حرف کہانی جب ہمارے پتے پر آئی تو ہم سفری بھو ل بھلیوں میں لاپتہ تھے۔ اس طرح ایک مدت تک یہ بے چاری ریڈیو اسٹیشن کے گیٹ پر ہماری منتظر رہی۔ ہم آئے اسے وصول کیا ، گھر لے گئے ، اسٹڈی ٹیبل پر رکھا اور پھر سفر پہ نکل گئے یوں سفر در سفر کا یہ سلسلہ بھی ان کی کتاب اور ہمارے درمیان حائل رہا۔ حرف حرف کہانی امین جالندھری کا افسانوی مجموعہ ہے جو حرف حرف حقیقت معلوم ہوتا ہے ، وکیل ہونے کے ناطے وہ اپنی کتاب کے آخر میں ایک بیان حلفی بھی دیدیں صراحت لف کردیتے کہ جملہ مندرجات کتاب ہذا مبنی بر حقیقت ہیں اورحرف بحرف درست تسلیم ہیں، تاہم چونکہ وہ امین ہیں اس لئے ان کے صادق ہونے پر کوئی کلام نہیں، بر بنائے ایں بدوں بیان حلفی بھی یقین کیا جا سکتا ہے۔ امین جالندھری نے پوری امانت و دیانت کے ساتھ معاشرتی برائیوں کے بھیانک چہرے سے پردہ چاک کر کے انہیں سرعام بے نقاب کرنے کی مجاہدانہ کاوش کی ہے۔ ان کے تخیل کا گھوڑا محشر خیال سے چلتا ہے تو ہند کے درباروں اور سندھ کے جاگیرداروں کی خاک اڑاتا اسلام آباد کے سیاسی ایوانوں کی چھت پر چڑھ جاتا ہے اور وہاں سے ایک ہی جست میں سات سمندر پار امریکہ جا ٹھہر تا ہے اس طرح ان کے افسانے بین الاقوامی نوعیت کے ہیں، امین جالندھری کے اس مجموعے میں بڑے شاندار جاندار اور کسی حد تک پر ہیز گار افسانے شامل ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ منٹو کے افسانے پڑھنے کے بعد ہمیں باقی سارے افسانے پر ہیز گار اور افسانہ نگار نیکو کار معلوم ہوتے ہیں۔
امین صاحب کے افسانوں میں موضوعاتی تنوع موجود ہے ورنہ عام چلن کے افسانوں کا چال چلن ٹھیک نہیں ہوتا، محبت، جنسی ہیجان، شادی، طلاقیں جیسے دقیا نوسی موضوعات سے باہر آنا گوارا نہیں کرتے لیکن امین جالندھری نے متنوع موضوعات پر قلم آزمائی کے دلچسپ تجربات کیے جس میں کامیاب بھی رہے۔ وہ اپنے سماج کے حقیقی مسائل کو بڑی کامیابی سے افسانوی جامہ پہنانے میں قادر نظر آتے ہیں اسے مزید مستور کرنے کی خاطر تجریدی انداز بھی اپناتے ہیں لیکن پھر بھی حقیقت جا بجا برہنہ نظر آتی ہے۔ امین جالندھری کی نسبت جالندھر سے ہے۔ ہندوستان کے مہان گائیک کے ایل سہگل کی نسبت بھی جالندھر سے تھی، پاکستان پہ جالندھر کا یہ احسان ہے کہ اس نے اسے مطلق العنان صدر ضیاء الحق اور شاعر پاکستان حفیظ جالندھری دیا، افسانہ نگار کی کمی تھی پس وہ امین جالندھری کی صورت حیدر آباد سے طلوع ہوئے اور تادیر ادب کے افق پر جگمگاتے رہیں گے۔
امین جالندھری سے ہماری بھی کچھ نسبتیں ہیں۔ پہلی نسبت وکالت ہے جس میں وہ شائد اپنی مرضی سے آئے جبکہ ہم اللہ پاک کی مرضی سے وارد ہوئے ورنہ کسی جنم میں وکیل بننے کا شوق نہیں تھا۔ دوسری نسبت افسانہ نگاری کی کہ دورِ جہالت یعنی نابالغی کے عہد میں ہم نے بھی افسانے لکھے اور بلوغت کے بعد توبہ کر لی۔ تیسری نسبت یہ کہ بچپن میں ہم ریڈیو جالندھر بڑی رغبت سے سنتے تھے ریڈیو جالندھر کا یہ احسان ہے کہ ہم اس کے پروگرام دیس پنجاب کے طفیل پنجاب کے مہمان شاعر شو کمار بٹالوی سے روشناس ہوئے ۔ بلبل پنجاب سریندر کور کی آواز میں شو کمار کا یہ گیت اب بھی ہمارے من آنگن میں دھمال ڈال رہا ہے۔ مینوں ہیرے ہیرے کیندا ہائے نی منڈ المبڑاں دا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
اردو پنجابی کی معروف شاعرہ، ادیبہ اور صحافی پروین سجلؔ کا ادبی سفر
ممکن، مقال، حطیم ، دیباچہ آپ ﷺ ، آخری نبی ﷺ (پنجابی)
جاچڑ (پنجابی) رفو کے بعد
“تکیہ”
صنف نو: ثلاثی غزل، مروجہ غیر مروجہ بحول پر مشتمل شائع ہو گئی ۔
سجل ؔ پبلی کیشنزلاہور۔0333-4294708