معتبر محقق، ناقد، ادیب، انشاء پرداز۔ ڈاکٹر عبد الکریم ۔(آزاد کشمیر)
امین جالندھری سماج کے نباض ہیں اور ان کے افسانوں کے موضوعات اسی لئے متنوع اور سماج سے ہی متعلق ہیں۔کسی بھی موضوع پر کمال مہارت سے قلم اٹھانا ان کا خاصہ ہے۔ وہ لفظ کے امین ہیںاور یکسوئی سے سماج کے کوڑھ پر لکھتے چلے آرہے ہیںَ ان کے ہاں جذباتیت اور سطحیت نہیں، ایک روانی اور ٹھہرائو ہے اور یہ خوبیاں عمر کی ریاضت کی دین ہیں۔ انھوں نے اپنے اس دوسرے افسانوی مجموعے کی کہانیوں کو حقیقت میںحرف حرف خونِ جگر سے کشید کیا ہے۔ انھوں نے سماجی مسائل اور ناسوروں کے علاوہ رومانیت، تصوف، سیاست اور فن کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ان کے اس مجموعے کے افسانے کرداری بھی ہیں اور علامتی بھی۔ ان کا انداز بیشتر افسانوں میں مکالماتی ہے اور کہیں کہیں خود کلامی بھی ہے ۔ مکالمے کے ذریعے انھوں نے بہت ساری ان کہی باتوں کو کہی میں تبدیل کیا ہے۔ ملک کے اندر جاگیردارانہ نظام کی تباہ کاریوں او ر سماج پر اس کے اثرات کو مکالمے کے انداز میں “رہائی” میں کہہ گئے ہیں تو”ایک دن کی بات” میں میڈیا کی آمریت کا پول بھی کھول دیا ہے جہاں اخلاقیات اور روایات نہیں پیسہ اور ریٹنگ اہم ہے۔ سماج میں لا قانونیت، ظلم اور نا انصافی کو”بول میری مچھلی” میں طنز کے جامے میں بیان کر گئے ہیں۔ تصوف پر ایک سے زیادہ افسانوں میں خامہ فرسائی کی ہے لیکن عقیدت کے پیرائے میں۔ ان میں”موڑ” اور”مسافر” اہم ہیں۔ ملک میں رائج ظلم و استبداد نظام اور نظام عدل کو “بلند پروازی” میں رگڑا دیا ہے۔ انصاف کے حصول میں عشروں بیت جاتے ہیں۔ مظلوم در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیںلیکن ان کی بنیاد بہر حال انا پرستی ہے جس نے سماج کے خوب صورت چہرے کو گہنا دیا ہے ۔ بڑے شہروں ، درباروںاور خانقاہوں کی بھیڑ سے فائدہ اٹھانے والے جیب تراش ایک دوسرے کو بھی نہیں بخشتے۔ ہر ایک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کھیل کے کوئی اصول کوئی ضابطے نہیں۔ امین صاحب نے “تجربات” میں مذہب پر انسانیت کو مقدم رکھا ہے اور اس میں1947ء کے بلووں اور ہجرت کی چاپ موجود ہے۔ “التجا” مجھے تمام افسانوں میں گہرا لگا ۔ رستم و سہراب کے درمیان گفتگو اور تہہ در تہہ ہے۔ سامراج ہمارے ملک کے اندر رستم و سہراب پیدا کرتا رہے گا اور ان گھوڑوں پر شرطیں بھی لگائے گا اور ان کو اپنا کام ہونے کے بعد راستے سے ہٹاتا بھی رہے گا۔ اور ہم استعمال ہو تے رہیں گے ۔ یہ سیاست کے رستم و سہراب بھی ہیں اورادب کے بھی۔”پاور” ہمارے ملک کے سب سے بڑے ناسور بد عنوانی کو ہدف بناتا ہے۔ ہم نے اس کا علاج صرف اینٹی کرپشن کے محکمے کے حوالے کیا ہوا ہے۔ یعنی جو رشوت لیتے پکڑے جائیں اوررشوت دے کر چھوٹ جائیں۔ اس ملک میں منشیات نے گزشتہ چار عشروں میں بہت انڈے بچے دیے ہیں ۔ سیادت اور سیاست انہی کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا کاروبار دنیا میں ہے۔ ایک نسل تباہ لیکن اس کا کاروبار کرنے والوں کی نسلیں شاہانہ زندگیاں گزار رہی ہیں۔ اشرافیہ کے بچے اسی منشیات پر تعلیم حاصل کر کے واپس آکر پھر اس ملک کی مظلوم مخلوق پر حکمرانی کرتے ہیں اور ان”کتوں” کے آگے ہڈی پھینک کر لڑاتے ہیں۔ کاش اس مظلوم مخلوق کو کبھی احساس ذلت ہو جائے۔ یہ افسانہ مجھے ناول”نیلی بار” کی یاد دلا گیا۔ ز ر خرید غلام مجھے افسانہ سے زیادہ افسانوی لگا اور “سفید دھواں” رومانوی ۔ اسی افسانے کے ایک رومانوی اقتباس پر اختتام کرتا ہوں۔ محبت اور نفرت دو متضاد چیزیں ہیں۔ دن اور رات ہیں۔ ندی کے دو کنارے ہیں۔ چاند اور سورج ہیں۔ گرمی اور سردی ہیں۔ خزاں اور بہار ہیں۔ پھول اور کانٹے ہیں ۔ متضاد چیزیں ہی آپس میںربط رکھتی ہیں۔ شریر شیطانو ! تم آپس میں فیصلہ کرلو۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...