معروف محقق، نقاد، کالم نگار، افسانہ نگار، ناول نگار، تجزیہ نگار۔ نسیم انجم (کراچی)
جناب امین جالندھری کا نام ادبی دنیا میں تعارف کا محتاج نہیں ہے ، ان کی کہانیاں پڑھنے کے بعد اس با ت کا انداز ہ بخوبی ہوا کہ مصنف ایک پختہ قلمکار ہیں ، ان کا تخلیقی کام مستند ہے، وہ عرصہ دراز سے افسانوں کی کاشت کر رہے ہیں اس محنت اور لگن کے نتیجے میں ان کے دو افسانوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں ، اول ’’ حرف حرف روشنی ‘‘ اور دوئم جو میرے زیر مطالعہ رہا ’’ حرف حر ف کہانی ‘‘ الفاظ اور جملوں کے ذریعے بصیرت وبصارت میں ڈھل کر قارئین تک پہنچا ہے ، مصنف کے خیال و افکار ، سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں میں اتنی قوت تھی کہ ان کے افسانوں کو آگہی کی تپش اور تجربات کی آنچ نے حرارت پہنچائی ہے ، یہ عام افسانے نہیں ہیں ، ان کو سمجھنے کے لیے قاری کے لیے ذہانت وفطانت اور وسعت علم کا موجیں مارتا سمندر اس ہی طرح ہوناچاہیے ، جس طرح قلمکار نے اپنے وجدان اور شعور کے سنگم سے کہانیاں تخلیق کی ہیں ، ’’حرف حرف کہانی ‘‘ کے زیاد ہ تر افسانوں میں معنویت اور کائنات کے وہ اسرار و رموز سمٹ آتے ہیں جن سے ہرشخص واقف نہیں ، یہ افسانے غور وفکر کی راہیں ہموار کرتے ہیں ، یہ خالصتا بیانیہ افسانے نہیں ہیں ، بلکہ اس کی تہہ در تہہ کئی پرتیں ہیں ان کہانیوں کی گہرائی میں اترنے کے بعد ایک نئی دنیا جو کشف و کرامات کی ہے وجود میں آتی ہے ، یہ معجزے یا تحیر زدہ واقعات ان صوفیاء کرام سے منسوب ہیں ، جن بزرگوں کی ساری عمر ریاضت و عبادت اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں گذری ، آج جو ہند وپاک میں اسلام کی روشنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے اور قلوب کو ایمان کی تقویت بخش رہی ہے یہ ان ہی بزرگان دین کی مرہون منت ہے ، صوفیاء کرام کے علم اور درس وتدریس سے بے شمار لوگوں نے استفادہ کیا ، پیر ومرشد کے دربار میں بادشاہوں نے حاضری دی اور اللہ حکم سے بیماروں نے شفا پائی ، اللہ کے طالبوں نے راستی کی تلاش اور عبدیت کے تقاضوں کے تحت تخت و تاج کو ٹھوکر ماری اور اپنے رب کی عبادت اور اس کے احکام کی تکمیل کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں ، کچھ ایسا ہی سچا اور پکا رنگ مصنف کی تحریروں میں بھی گھل مل گیا ہے ۔
ان کے افسانوں کی ایک خوبی حقیقت نگاری بھی ہے ، تمام کہانیوں کا جنم مکالماتی فضا میں ہوتا ہے، منظر نگاری کی طوالت دور دور تک نظر نہیں آتی ہے، بلکہ مکالمہ نگاری کے ذریعے کہانی اپنے آغاز اور انجام تک پہنچتی ہے ، جزئیات نگاری کا حسن اور اسلوب بیان کی سادگی نے مصنف کے افسانوں کو تازگی بخشی ہے اور مختلف موضوعات کی کہانیاں ایک دلکش انداز میں سامنے آئی ہیں ، تمام کہانیاں معاشرتی جبر ، ناانصافی اور صوفیانہ طرز بیان کی آئینہ دار ہیں ۔ہند و پاک کے ناقدین نے اپنے تبصرے اور وقیع آرا سے کتاب کو مرصع کردیا ہے ۔
جناب ڈاکٹر معین الدین شاہین اجمیری نے امین جالندھری کی تخلیقات کے بارے میں لکھا ہے ’’امین جالندھری دنیائے اردو ادب میں ایک ایسے صاحب قلم کی حیثیت رکھتے ہیں جو نہ صرف وقت کی نبض ٹٹولنے میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ مداوا کرنے کا فن بھی جانتے ہیں ، عہد حاضر میں برصغیر میں جو انشا پر داز فکر رسا کے گھوڑے دوڑانے میں مصروف ہیں ان میں امین جالندھری بھی پایہ رکاب نظر آتے ہیں ، جناب ڈاکٹر شاہد احمد جمالی کے خیال کے مطابق امین جالندھری صاحب صوبہ سندھ میں ایک جانی مانی ادبی شخصیت ہیں ادبی ذوق تو گویا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے ، نثر نگاری خاص طور پر افسانہ نگاری میں ان کو مکمل دسترس حاصل ہے ‘‘۔
میں نے ’’حرف حر ف کہانی ‘‘ کے کئی افسانے ایک ہی منشت میں پڑھ ڈالے ’’مسافر‘‘ ، ’’محشر خیال‘‘، ’’مستی ‘‘، ’’خمار‘‘، ’’چک گ‘‘، ’’ب 45‘‘ ، ’’رہائی ‘‘، ایک د ن کی بات وغیرہ افسانہ خمار میں مصنف نے معجزات اور کرامات کی دنیا آباد ہوتی دکھائی ہے ، گو کہ اب ایسے واقعات شاذ و نادر ہی جنم لیتے ہیں ۔
افسانہ ’’مسافر‘‘میں تخلیق کار نے دنیا کی نا پائیداری کو موضوع بنایا ہے ، قطار در قطار لوگ فانی دنیا کو کو چ کرکے ابدی دنیا کی طرف کوچ کر رہے ہیں اور یہ ہی دنیا کی حقیقت ہے کہ سب کو ایک دن جانا ہے ، یہ مال ومتاع، گھر بار ایک حدیث مبارکہ کے مطابق ہمارا نہیں اسے دوسرے لوگ برتیں گے ، ’’اچھا اور نیک بندہ ‘‘ وہ ہی ہے جو زندگی کی حقیقت کو جان لیتا ہے ، فضل دین اس افسانے کا کلیدی کردار ہے اور آخر کار اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں حال و قال ختم ہوجاتا ہے ، افسانہ ’’رہائی ‘‘ کی بنت اور کردار نگاری نے افسانے کو زندہ تابندہ بنادیا ہے ۔
یہ کہانی ہمارے اس معاشرے کی کہانی ہے جہاں غریب کا استحصال ہوتا ہے اس کی عزت وآبرو کا سودا کیا جاتا ہے ، اگر غریب ہاری اور خدمت گار احتجا ج کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اور اس کے خاندان کو پایہ زنجیر کرکے قید بامشقت کی سزا دے دی جاتی ہے ، افسانے کے کردار سائیں اور عرض محمد ہیں ، عرض محمد ‘سائیں کی خدمت اور اسے فائدہ پہچانے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے آزماتا ہے لیکن بدلے میں ذہنی وجسمانی اذیت اس کا مقدر بنتی ہے ، افسانے کے اختتام پر اندرون سندھ میں بسنے والے وڈیروں اور جاگیرداروں کی ذہنی پسماندگی کی عکاسی بہت مؤثر انداز میں کی ہے ، انجام بہت بھیانک اور انسانیت سوز ہے ، سائیں ! آپ کا خادم جو ٹہرا ۔
عرض محمد ہمارے خاندا ن میں آج تک کسی کو پولیس میں بھرتی نہیں کروایا ہے لیکن بات ہمارے بیٹے کی ہے اور تم ہمارے پرانے کمدار ہو ، تمہارے لیے لاکھوں روپے خر چ کریں گے اور ہاں تمہاری حسن زادی کا کیا حال ہے ، سائیں آ پ کی باندی ، تو پھر عرض محمد کل تم یہ کرنا کہ حسن زادی کو حویلی بجھوادینا ۔ سائیں سائیں ۔۔ سائیں
اس طرح کے حالات گاؤں گوٹھ میں ہر روز پیش آتے ہیں ، علم و شعور نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں کی آبادی اپنے حقوق سے اس لیے محروم رہتی ہے کہ انہیں تعلیم سے کوسوں دو ر رکھا جاتا ہے ، مصنف کے تمام افسانے کفایت لفظی کے مظہر ہیں ، ان کا انداز بیان اچھوتا اور دلکش ہے جو قاری کو کہانی کے انجام تک اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور یہ ہی کامیاب افسانوں کی خوبی ہوتی ہے ۔
٭٭٭٭٭٭
اردو ہماری قومی زبان ہے
لہٰذا اردو بولیے، اردو پڑھیے، اردو لکھیے