افسانہ نگار، ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار، اداکار ۔مبصر عشرت علی خان حیدر آباد
حیدر آباد شہر کے اردو ادبی حلقے میں، شعراء کے مقابلے میں نثر نگار ہمیشہ ہی اقلیت کا شکار رہے ہیں مگر فکر و فن کی دنیا میں ان ہی مختصر و محدود لکھاریوں نے اپنا نام پیدا کیا ہے۔ وہ چاہے ڈاکٹر حسن منظر ہوں یا قدیر غوثی ، ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ہوں یا سلطان جمیل نسیم، اجمل اعجاز ہوں یا کاظم رضا، پروفیسر انوار احمد زئی ہوں یا محمد علی عادل۔ ان معتبر حوالوں میں ایک اور معروف افسانہ نگار امین جالندھری کا نام بھی شامل نظر آتا ہے جن کی ادبی محافل اور تخلیقات عالم آشکار ہیں۔ سماجی و ثقافتی شکست و ریخت اور بے لگام سوشل میڈیا کے اس دور میںجب سب کچھ تلپٹ ہو کر رہا گیا ہے اور قلم کے ہنر اور کتاب کے سحر سے دنیا نکلتی دکھائی دے رہی ہے، امین جالندھری سر پھرے، ادبی محافل و تخلیقات سے معاشرے کی رفو گیری کرتے نظر آتے ہیں جو فی زمانہ نیکی کے کام ہیں، یہ وقت بھی مانگتے ہیں اور رقم بھی دوست بھی بناتے ہیں اور دشمن بھی مگر باز نہیں آتے بس کارِ کوہ کن سنبھالے رکھتے ہیں۔
امین جالندھری کو حرف سے کتنی عقیدت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ انھوں نے اپنی ہرتصنیف کے عنوان میں حرف ضرور شامل کیا ہے۔ پہلی کتاب دو حرف دوسری حرف حرف کہانی اور تیسری حرف حرف روشنی اس سے دو باتیں آشکار ہوتی ہیں اول یہ کہ یا تو وہ حرفوں کے بنے ہوئے ہیں یا پھر یہ کہ حرف لکھنے کے عذاب سے پوری طرح واقف ہیں۔
جان تن سے نکلنے لگتی ہے
حرف لکھنا عذاب ایسا ہے
(بینش سلیمی)
یہ سب کچھ جاننے کے با وجود کہ حرف کہنا، برتنا، لکھنا، سجانا سب کٹھن مراحل ہیں، امین جالندھری نے تخلیق اور محافل کی صورت اس کا اہتمام شدت وحدت کے ساتھ کیا ہے۔ امین جالندھری دوستی میں حدت اور دشمنی میں شدت کے قائل ہیں دوست کو ایک دفعہ کو بھول بھی جائیں مگر دشمن کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور اس بات کے اظہار میں پس وپیش سے کام نہیںلیتے، خود جیسے بھی ہیں مگر جینئین لکھاری ہیں لہٰذا اوریجنل لکھنے والوں کو دل سے پسند کرتے ہیں جبکہ ایسوں ویسوں کی تخلیق کو پٹی فٹنگ سے موسوم کرتے ہیں ان کے افسانوی مجموعے حرف حرف کہانی کا جائزہ لیا جس میں 26افسانے ہیں جو مختلف النوع پلاٹس پر مشتمل ہیں، محشر خیال میں انھوں نے دربار شاہی کا ماحول دکھایا ہے۔ اس میں ایک جملہ عقل سے ماورا ہے کہ توشہ خانے سے فو ا کہات اور مشروبات لے آئو۔ دوسرا افسانہ مستی جیب کتروں کے ایک دوسرے پر ہی ہاتھ صاف کرنے پر مبنی ہے یہ کہانی پرانی ہے ۔ اس میں کردار ناموں سے سندھی مگر بولی سے لکھنوی نظر آتے ہیں اس میں ایک محاورہ غلط لکھا گیا ہے کہ شیر کی سی چالاکی جبکہ چالاکی سے لومڑی سامنے آتی ہے۔ خمار ایک اصطلاحی اور علامتی کہانی ہے اس کے بعد ایک افسانہ موڑ میں تصوف پر بحث ہے اور روحانیت کا پرچار۔ بلند پروازی افسانہ میں آگرے کا ماحول اور شوق دکھا یا گیا ہے پھر افسانہ آگ جس میں آگ کے کئی روپ دکھائے گئے ہیں۔ بول میری مچھلی فہمی اعظمی کی جنم کنڈلی کی طرح کا گنجلک افسانہ ہے باوجود کوشش کہ میں سمجھ نہیں پایا جس میں امریکہ اور بنیاد پرستوں کی چشمک اجاگر کی گئی ہے۔ درد کی زنجیر نامی افسانے میں جو خانہ بدوش کی کہانی ہے اس میں افسانہ نگار نے ہندی اور فارسی الفاظ کی آمیزش کر کے افسانوی تاثر متاثر کیا ہے ایسے الفاظ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرا د کے منہ سے ہی اچھے لگتے ہیں۔ ایک افسانے کا عنوان ہے رہائی یہ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ہاری اور وڈیرے کے ازلی بیر پر کہانی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ ایک دن کی بات ایک علامتی افسانہ ہے جس میں پیسہ پھینک تماشہ دیکھ جیسے تاثر کو سامنے رکھا گیا ہے۔ سیاسی عروج و زوال اور وفا بے وفا ئی امین کے لکھے افسانے کامیاب میں ملتی ہے۔ اسی طرح ایک اور نیم سیاسی افسانے تجربہ میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں پر ہونے والے ظلم کو آشکار کیا ہے۔ اس میں ظلم کے منطقی انجام کوخوبصورتی سے دکھا یا ہے۔ مجموعے کے سولہویں افسانے التجا میں رستم و سہراب والے قصہ کو اپنی ذہنی اختراع سے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ایک اور افسانے پاور میں پہلے تو انسانی اسمگلنگ کو موضوع بحث بنایا اور پھر اچانک منشیات کی طرف رخ موڑ دیا کیوں وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ محاسبہ کے عنوان سے ایک افسانے میں ممی ڈیڈی قسم کے مصنوعی ایلیٹ کلاس اور اخلاقی طور پر بگڑے بچوں کے ذریعہ وطن عزیز کا جشن زریں منانے اور آئیڈیاز شیئر کرنے کے طریقوں پر بحث ہے۔ ایک افسانہ بہ عنوان ہنی مون ہے جس میںرومانس کا ذکر ہے اور اس کے انجام کی کہانی، پھر ایک افسانہ بہ عنوان روایت ہے۔ اس میں ریگستان میں بسنے والوں کی سخت جانی اور حوصلہ مندی پر کہانی کو بُنا گیا ہے۔ اس کے بعد افسانے کا عنوان ہے۔ آدھے راستے کا آدمی جس میں خیر اور شر کی ازلی دشمنی کو اچھی طرح سے اجاگر کیا ہے بہ ظاہر خیر کی پسپائی سے لگتا ہے کہ وہ شر کے مقابلے میں ہار گیا ہے۔ پھر ایک افسانہ ہے “بوڑھے آدمی کا نوحہ ” جس میں نوجوان اور بزرگ انسان کی سوچ کے فرق کو اجاگر کیا ہے۔ اس میں بچوں کو غلط راہ پر چلنے کی پاداش میں دکھ اور کرب کا اظہار دکھا یا گیا ہے۔ زر خرید غلام نامی افسانے میں افسانہ نگار نے کہانی انار کلی کو ایک نئی جہت دینے کی کوشش کی ہے مگر کہانی بہت ہی مصنوعی سی لگتی ہے۔ افسانوی رنگ بالکل نہیں ہے۔ ایک افسانہ سفید دھواں بھی اس مجموعے میں شامل ہے جو بس بھرتی ظاہر کرتا ہے یہ بھی ایک علامتی افسانہ ہے بہت زیادہ گنجلک اور کٹھن کہانی ہے پھر آتا ہے روپ بہروپ اس کی کہانی پبلسٹی کے نمائندے اور اشتہارات کے کمالات پر مبنی، چھبیسویں اور آخری افسانے کا عنوان ہے گھوڑاامریکہ اور پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو اجاگر کرتا ہوا افسانہ جو کہ علامتی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس مجموعے میں املا کی خامیاں حد سے زیادہ ہیں کرداروں کی گفتگو تخاطب کا لحاظ بالکل نہیں رکھا گیا کردار کبھی ہم، میں، ہمارے اور کبھی تیرے بولتا نظر آیا یاآئے، ڈیشز بے تحاشہ لگائے گئے ، کوما اور سوالیہ نشان بہت کم، افسانے میں کرداروں کی گفتگو ماحول کے مطابق نہیں مثلاً یہ کہ خانہ بدوش زبردست ہندی اور فارسی کے الفاظ استعمال کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان تمام خامیوں کے با وجود یہ مجموعہ پڑھے جانے کے لائق ہے۔ جس میں قارئین کو الفاظ کے ذخیرے سے آشنائی ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭