تجزیہ: صبا ممتاز بانو۔ مصنفہ، شاعرہ، صحافی، فکشن رائٹر، کالم نگار(لاہور)
حرف حرف کہانی کے مصنف امین جالندھری سینئر اور پختہ کار لکھاری ہیں جو دنیا کو من کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ ان کے من میں روحانیت، وحدانیت، تصوف کا غلبہ ہے لیکن وہ سماجی تلخیوں اور معاشرتی حقائق کو نظر انداز نہیں کرتے۔ ان کے کردار مختلف روحانی تجربات سے گزرتے ہیں۔ اس راہ میں حاصل اور لا حاصل کی کشمکش سے دو چار ہوتے ہیں۔ عام فہم الفاظ، سادہ اور سلیس زبانی مگر ادبی چاشنی بدرجہ اتم موجود معاشرے کے ستائے، ٹھکرائے اور عدم توجہی کا شکار افراد خاص موضوع ہیں۔ کچھ کرداروں میں مثالیں نقطہ عروج پر ہے۔ لکھتے ہوئے روحانی معاملات پر حد سے زیادہ اعتقاد ، غیر جانبدارانہ تجزیے سے محروم رکھتا ہے ۔ ایک لکھاری کو بہترین انداز سے وسیع ، غیر جانبدار اور آفاقی نقطہ نظر کا حامل ہونا چاہئے تاکہ وہ انسان اور اس کے مذہب، عقائد اور نظریات سے ماورا ہو کر دیکھا پھر لکھ سکے۔
اس کی دنیا بہم خیالات، عقائد اور واہمات سے پرے ہونی چاہئے ۔ بلاشبہ ان کے کوئی کردار اپنی آفاقیت کا احساس دلاتے اور گہرے تاثر چھوڑتے ہیں۔ شاید اس رنگ کو زیادہ کرنے کی ضرورت ہے یہ وہی رنگ ہے جو ان کے کئی افسانوں کو حسن عطا کر رہا ہے۔ تاثراتی، کرداری اور محاکاتی انداز کو انھوں نے خوب برتا ہے۔ ان کے ہاں مکالمہ بازی جوبن پر ہے۔ تخلیقی جملے ہنر مندی سے بُنے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر:
“دھن دولت کبھی کسی کے پاس رہی ہے یہ رنڈی تو روز بستر بدل دیتی ہے ، تمہارا ساتھ کب دے گی”
ان کے افسانہ” رہائی “میں انسان کی منافقت ، ہوس اور خود غرضی کی عکاسی کی گئی ہے۔ چودھریوں یا جاگیرداروں کے اپنے کمیوں سے رویے کو انھوں نے افسانے کے اختتام پر ایک ہی فرقے میں عیاں کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کا ایک افسانہ “ایک دن کی بات”چونکا دینے عنصر سے بھر پور ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان کے اپنے افسانے کے موضوعات میں سماجی رویوں کو زیادہ لکھنا چاہئے ۔ سماجی موضوعات پر ان کے لکھے افسانوں کا بیانیہ زیادہ طاقتور اور پر کشش ہے۔ امیر اور غریب کا طبقاتی فرق، کمزور کا استحصال، سامراجیت، کی بالادستی وغیرہ مٹی کے مضامین ہیں جن میں مٹی کے انسانوں کا ایک دوسرے سے برتائو موضوع بحث ہے۔ یہ لامحدود و موضوع لکھنے کیلئے وسیع میدا ن رکھتا ہے۔ امین صاحب تراش سکتے ہی۔ ان کا قلم تجربات کی بھٹی سے کندن ہوکرنکلا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہیں وہ راست بیانیے اور کہیں علاماتی و اشاراتی انداز میں بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔
آقائوں کے فکشن کی بہترین تصویر پیش کر کے حق اداکر دیا ہے۔ ادب برائے زندگی کے متوالوں کو آغا گل کا ادب اور کتابیں پڑھنی چاہئیں۔
کچھ تمثیلات و علامات علامات لکھاری کی سوچ با فہم سے پرے ضرور ہیں مگر تھوڑے سے تردد سے وہ انہیں آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ پوری کتاب حرف حرف کہانی کا مجموعی مطالعہ ہی لکھاری کی سوچ و فکر تک رسائی دیتا ہے۔ یقینا حرف حرف کہانی کی طرح وہ مزید اچھا لکھتے رہیں گے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...