معروف دانشور، محقق ، ناقد ، مدیر، شاعر، ادیب اور انشا ء پرداز۔ڈاکٹر عتیق احمد جیلانی (حیدر آباد )
کسی بھی سماج کی رگوں میں دوڑتے لہو یعنی اس کے نظریات، تصورات اور اعتقادات کی تطہیر کوئی آسان کام نہیں۔ صفائی کا یہ عمل جاری نہ رہے تو جسم اندر اور باہر سے نت نئے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ اہل قلم اپنے خدا داد نشتر تحریر سے یہ کارِ خیر انجام دیتے ہیں۔ حیدر آباد سندھ سے تعلق رکھنے والے معروف افسانہ نگار، دانش ور اور ادبی خدمت گزار جناب امین جالندھری نصف صدی سے اسی خوش گوار فریضے کی ادائی میں مصروف عمل ہیں۔ ان کے تازہ افسانوی مجموعے کو فرسودہ روایات و تصورات اور گم راہ کن نظریات کے مقابل ضرب کلیم اور حرف حق کہنا چاہئے۔ حرف حرف کہانی ، حرف حرف سچائی ہے، حرف حرف شعور ہے، حرف حرف حیرا نی ہے، حرف حرف دانائی ہے اور حرف حرف آگہی ہے۔ بے بصری کی شب تار میں بصیرت کے چراغ روشن کرنے والا یہ قلم کار رابطے اور مکالمے کا شیدائی ہے۔ رابطہ وہ جو نتیجہ خیز ہے، مکالمہ وہ جو با معنی اور اثر انگیز ہے۔ یہ رابطہ اور مکالمہ جاری ہے، جذبہ و احساس کے ذریعے سے ، تفکر و تعقل کے حوالے سے، شعور و آگہی کے رستے سے، تلاش و جستجو کے واسطے سے اور حرف و قرطاس کے وسیلے سے ۔ یہی وہ مساعی ہے جو امین جالندھری کو زندہ رکھے گی ویسے بھی کہتے ہیں کہ کاغذ انسان سے زیادہ پائیدار ہے۔ جناب امین جالندھری کی کہانیاںاگر چہ ہماری حقیقی زندگی سے چنی گئی ہیں مگر ان کی تہہ میں ایک پر اسرار ماورائیات بھی موج زن ہے۔ یہ ماروائیت تفہیم کی سطح پرکوئی گہری دھند پیدا نہیں کرتی بلکہ بیانیے کی بر ہنگی پر نامعلوم سا پردہ ڈال دیتی ہے۔ گویا افسانے کا مرکزی خیال چلمن سے لگا رہتا ہے۔ صاف چھپتا بھی نہیں، سامنے آتا بھی نہیں۔
بیان کا یہ حجاب مانع نگاہ نہیں بلکہ پردئہ ساز ہے۔ بہ قول غالب
محروم نہیں ہے تو ہی نواہا ے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
جناب امین جالندھری اپنی موجودہ گوشہ نشینی سے ذرا پہلے ایک بھر پور سماجی کردار ادا کر چکے ہیں۔ بینکنگ کے شعبے میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہتے ہوئے انہیں اس عہد کے استحصالی معاشی نظام کے تا رو پود کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور اپنی منصبی ذمے داریوں کی ادائی کے دوران وہ ان اچھے یا برے کرداروں کو بھی قریب سے دیکھتے رہے ہیں جو اس نظام کے اصل شراکت دار ہیں۔ ان مراعات یا فتہ طبقات کی خود غرضیوں ، بے اعتدالیوں، ریشہ دوانیوں اور عاقبت نا اندیشیوں کے مطالعے اور مشاہدے نے انہیں نت نئی کہانیوں کا خزینہ دار بنا دیا ہے۔ دوسری طرف موصوف کی عملی زندگی کا یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ وہ اپنے افتادِ طبع کے زیر اثر ہمیشہ عامۃ الناس کے نزدیک رہے ہیں۔ ان کے طرزِ بود و باش اور اندازِ نشست و برخواست کے گواہان ان کی عوام دوستی اور غریب پر وری سے خوب واقف ہیں۔ گو یا انہیں معاشرے کے مختلف طبقات کو نزدیک سے دیکھنے ، سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ہے۔ انفرادی اور گروہی سطح پر رویوں کا منظر اور پس منظر ان پر پوری طرح آشکا ر ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان کے افسانوں میں چہرہ نما عوام و خواص ہمارے معاشرے کے حقیقی نمائندے ہیں۔
حرف حرف کہانی کے افسانے پڑھ کر اور صاحب کتاب سے مل کر جو نکات سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں۔
انکی فکر کا محور و مرکز پیروی دین محمد (ﷺ) اور حب ذات محمد ؐ ہے۔
مادہ پرستی کو جدید انسانی معاشرے کا ناسور گردانتے ہیں۔
ہر نوع کے معاشی استحصال اور سماجی تفریق کے خلاف صف آرا ہونا ان کی عادت ہے۔
بندگانِ خدا سے ہم دردی اور خدمت خلق کو نجات اُخروی کا وسیلہ جانتے ہیں۔
پیارے وطن پاکستان سے ان کی محبت غیر مشروط اور لازوال ہے۔
روحانی انقلاب کے نقیب ہیں اور اس کے لئے باطنی صفائی اور مسلسل ریاضت ضروری خیال کرتے ہیں۔
تزکیہ نفس اور تعمیر کردار کے لئے اہل بصیرت سے حصولِ فیض کولازمہ حیات سمجھتے ہیں۔
منتخب معاصر ادب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔
مشرقی ادب و ثقافت کی روایت سے واقف ہیں۔
تاریخ کے نشیب و فراز پر نگاہ ہے۔
گردو پیش رونما ہوتی سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے خوب و زشت پر نظر ہے۔
ڈاکٹر ریاضؔ مجید نے کہا تھا۔
پھیلتی لہریں جی کو اچھی لگتی ہیں
تالابوں میں پتھر پھینکتا رہتا ہوں
جناب امین جالندھری کے احباب جانتے ہیں کہ انہیں ٹھہرے پانیوں میں پتھر پھینکنے کی عادت ہے۔ مگر پتھر پھینکنے کا یہ عمل ان کاکھیل نہیں ہنر ہے۔ اس عمل سے پیدا ہونے والا تحرک زندہ رہنے اور زندہ رکھنے کااک بہانہ ہے۔ ہر قابل ذکر تخلیق کار کی طرح چھیڑ چھاڑ کا یہ سلسلہ ان کے افسانوں میںبھی موجود ہے۔ وضاحت کی ضرورت نہیں کہ خوابیدہ سماج کی بیداری کے لئے یہ نسخہ کتنا کارگر ہے۔ ان کے قلم سے نکلے ہوئے حرف وہ کنکر ہیں جو ہمارے رویوں اور ہمارے فکر و خیال کی سطح پر تموج کا باعث بنتے ہیں۔ یہی ہے وہ تحرک ، یہی ہے وہ تموج جو کسی تبدیلی یا انقلاب کی بنیاد بنتا ہے۔ فراقؔ گورکھ پوری کا شعر یاد آرہا ہے ، آپ بھی سنئے اور سر دھنئے۔
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
سوال یہ ہے کہ آخر یہ دنیا کیا ہے؟ کیسی ہے؟ اسے کیسا ہونا چاہئے؟ کیا،کہاں، کیسی اور کتنی تبدیلی درکار ہے۔ تبدیلی کے ذرائے کیا ہوں گے؟ وسائل کہاں سے آئیں گے؟ دست انقلاب آفریں کس کا ہوگا؟ جہانِ تازہ، عالم نو، معمورہ دیگر کی تخلیق و تعمیر بنی نوع آدم کا اجتماعی فرض ہے تو پھر پہلا قدم کسے اور کیسے اٹھانا چاہئے؟ یقینا پہل وہی کریگا جسے قسامِ ازل نے علم و شعور ، دردو سوز اور عزم و عمل کے اوصاف سے بہرہ مند کیا ہوگا، جو دیدئہ بینا قوم ہوگا، جو شہید جستجو ہوگا، جس کی بصیرت افروز نگاہ کے لئے دہر آئینہ خانہ ہوگا۔ آغاز وہی کریگا جس کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہوگا: غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز، جسکے روز وشب فطرت کے سرودِ ازلی ہوں گے، جو حق بین و حق شناس اور حق نگر و حق آگاہ ہوگا۔ اس کار گاہِ رنگ و بو کی تشکیل و تعمیر نو کے لئے پہلا پتھر رکھنے والا وہی مردِ خدا ہوگا کہ جس کی جفا طلبی کا شاہد و مداح ماضی کا وہ دشت سادہ ہے کہ جس کی رنگ پیراہنی و نکہت نفسی کا نیرنگ آج اطراف و اکنافِ عالم میں جلوہ گر ہے۔
رازوں سے بھرا یہ بستہ جسے ہم دنیا کے نام سے جانتے ہیں ہمہ وقت ہمارے تجسس، ہماری ذہانت اور ہمارے صبر وضبط کا امتحان لیتا رہتا ہے۔ عام لوگ تو اس بستے کی ظاہری سجاوٹ اور بناوٹ کن گن گاتے گاتے عمر بِتا جاتے ہیں۔ کم ہیں جو تجسس کے آزار میں مبتلا ہوتے ہیں، ان میں سے بھی بہت کم سطح سے نیچے دیکھنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو کھنگالتے ہیں، کھوجتے ہیں، بستے کی جیبیںکھولتے اور ٹٹولتے ہیں ۔ چند بے صبرے ذرا سی جستجو اور تھوڑی سی تلاش کے بعد اپنے نتائج تحقیق و تفتیش تحریر و تقریر میں گوندھنا اور شعر و ادب کے چوکھٹوں میں سجانا شروع کر دیتے ہیں۔ جناب امین جالندھری نے اس طلسمی صندوق کے رنگ و روغن اور ظاہرہ چمک دمک کی مدح سرائی کو شعار نہیں بنایا کہ یہ راستہ تن آسانوں کا ہے، کم نگاہوں کا ہے، بے بصروں کا ہے۔ انہیں قسام ِ ازل نے جو دل درد مند اور ذہن گرہ کشا عطا فرمایا ہے، اسی کی بہ دولت انھوں نے یہ قفل ابجد کھولا ہے اور اس صندوق کے کھلے یا چھپنے خانوں میں مدفون نت نئے قصے حرف حرف کہانی کی صورت میں مرتب کر دیئے ہیں ۔ کیا یہ محض افسانے ہیں! کیا یہ صرف کہانیاں ہیں؟ کیا یہ محض چند واقعات ہیں؟ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ یہ مجموعہ واقعات ، مشاہدات، تجربات، قصوں ، کہانیوں اور افسانوں سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہے۔ بھید بھرے بستے اور جادوئی صندوق سے بر آمد ہونے والی چیز روحانی بصیرت ہے، عرفانِ حقیقت ہے، شعورِ ذات ہے، فہم حیات ہے ۔ کہانیاں بہت ہیں اور کہانیاں کہنے والے بھی کم نہیں، قصے بہت ہیں اور قصہ گو بھی کم نہیں، واقعات سلسلہ بھی لا متناہی ہے اور راویان بھی بے شمار، آنکھیں بھی بہت اور مشاہدے بھی بہت، سمتیں بھی کئی اور زاویے بھی بے حساب ۔ مگر اصل مشاہدہ تو وہ ہے جو دیکھنے والے کو سر تا پا چشم بنادے، واقعہ تو وہ ہے جو دلوں کو حیرت خانہ بنادے، تجربہ تو وہ ہے جو دماغ کو روشنی اور قلب کو گداز بخشنے کا اہل ہو اور افسانہ تو وہ ہے جو حقایق کے در وا کرتا چلا جائے۔ حرف حرف کہانی کا حرف حرف ایسے ہی تجربات، مشاہدات اور واقعات سے مالا مال ہے۔
حرف حرف کہانی کے مجھ جیسے قارئین منتظر ہیں دنیا میں تبدیلی کے، انقلاب کے، سائے کے، روشنی کے ، نکہت و رنگ کے، سر سبزی کے۔ ہم یقین رکھتے ہیں ایک جہانِ تازہ کی تشکیل کا، ایک عالم نو کی تعمیر کا۔ اور جب، یعنی جب بھی وہ دن آئے گا تو اس کی متشکلیں اور صورت گروں میں بہت سے اہل دل کے ساتھ ہمارے ممدوح امین جالندھری کا نام بھی ضرور ہوگا، جس نے صرف شکوئہ ظلمت شب ہی نہیں کیا بلکہ اپنے حصے کے چراغ بھی جلائے۔ آئیے ان چراغوں سے اپنے چراغ جلانے کا وقت آچکا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭