تمام حمد و ثنا اس رب عظیم کے حضور جس کی ذات سب سے بڑی علیم ہے، اور جس نے اپنے دعوی (علم بالقلم) کے بموجب نہ صرف مجھے ایک علمی گھرانے میں پیدا کیا بلکہ میرے حق میں علم کی منزلیں کشادہ کیں اور مجھے یہ تحقیقی و تنقیدی کتاب لکھنے کا شرف بخشا۔
ادب سے ذوق، مجھے ورثہ میں ملا۔ میرے والد محمد ایوب فاروقی صابرؔ بہت اچھے شاعر و ادیب ہیں۔ چچا اور ماموں سے بھی ادبی و علمی ماحول ملتا رہا۔ جس کے سبب ابتداء ہی سے مجھے کتابوں کے مطالعے اور خاص طور سے افسانوی ادب سے دلچسپی رہی۔ میرے معلوماتی و ادبی مضامین کی تین کتابیں ’’ قوس قزح‘‘، ’’مضامین نو‘‘ اور’’ سائنس نامہ‘‘ شائع ہو چکی ہیں۔ کچھ نصابی ضرورتوں اور کچھ ذوق طبع کی خاطر میں نے بہت سے ناول پڑھے۔ ان میں عزیز احمد کے ناول بھی شامل تھے۔ عزیزؔ احمد کا تعلق جامعہ عثمانیہ اور نظام حیدرآباد کے گھرانے سے بھی رہا ہے اور اردو ادب کی دنیا میں وہ ایک ناول نگار کے علاوہ نقاد، ماہر اسلامیات اور ایک انگریزی استاد کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ عزیز احمد کے ناولوں کے مطالعے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ان کا تنقیدی و تحقیقی مطالعہ کرنا چاہئے چنانچہ میں ان کے ناولوں کے تنقیدی مطالعے پر مبنی یہ کتاب پیش کر رہا ہوں۔
اردو میں پریم چند کے ساتھ ناول نگاری عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ پریم چند نے اردو ناولوں کو اس موڑ پر لا کھڑا کر دیا تھا جہاں سے اس کی ترقی کی راہیں دور دور تک جا سکتی تھیں۔ پریم چند کے بعد ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو ناول نگاری کے میدان میں کئی انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ انسانی زندگی کے گوناگوں مسائل حقیقت نگاری کے ساتھ پیش ہونے لگے۔ ناول کے موضوعات میں جدت کے ساتھ مغربی ناول کے اثرات کو بھی قبول کیا گیا۔ پریم چند، کرشن چندر، منٹو اور عصمت کے ساتھ ساتھ اردو کے مشہور ناول نگاروں کی فہرست میں ایک اہم نام عزیز احمد بھی ہے۔
عزیز احمد کی ناول نگاری کا دور 1931ء سے 1966ء تک ہے۔ اس درمیان انہوں نے آٹھ ناول ہوس، مرمر اور خون، آگ، گریز، ایسی بلندی ایسی پستی، شبنم، برے لوگ اور تری دلبری کا بھرم اور چند ناولٹ جیسے ’’خدنگ جستہ، جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور مثلث وغیرہ لکھے۔ اردو ناول کی تنقیدی کتابوں اور بیشتر تاریخ ادب کی کتابوں میں عزیز احمد کی ناول نگاری پر صرف تعارفی تبصرہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید نے بھی اپنی کتاب ’’عزیز احمد کی ناول نگاری‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ عزیز احمد پر تفصیلی کام کی ضرورت ہے۔ عزیز احمد پر کچھ مضامین پاکستان میں ابو سعادت جلیلی اور دوسرے احباب نے لکھے تھے۔ لیکن عزیز احمد کی ناول نگاری پر کوئی مبسوط کام نہیں ہو پایا تھا۔ چنانچہ اس کتاب کے ذریعے عزیز احمد کی ناول نگاری کے بھر پور مطالعے کی پیشکشی کی کوشش کی گئی ہے۔
زیر نظر کتاب کو چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب ناول کے پس منظر اور اردو ناول کے آغاز و ارتقاء سے متعلق ہے اس باب میں قصہ گوئی کی قدیم تاریخ سے لے کر قصہ کی بدلتی ہیئتوں جیسے کہانی، قصہ، حکایت، داستان، ناول، افسانہ کے آغاز و ارتقاء پر اختصار سے نظر ڈالتے ہوئے اردو ناول کے بدلتے رجحانات کا جائزہ لیا گیا۔
دوسرا باب عزیز احمد کے حالات زندگی ان کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات اور ان کے کارناموں پر مشتمل ہے۔ عزیز احمد کی ناول نگاری پر تجزیہ کرنے کے لئے ان کے حالات زندگی سے واقفیت ضروری ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ناولوں میں جگہ جگہ مختلف مقامات پر سفر کرنے کے بعد مشاہدات کو ناولوں میں برتا ہے۔ جن میں ہندوستان، پاکستان اور برطانیہ کے شہروں کی زندگی دکھائی دیتی ہے۔
اس کتاب کے تیسرے باب سے عزیز احمد کے ناولوں کے تنقیدی مطالعہ کا آغاز ہوتا ہے اس باب میں عزیز احمد کے ابتدائی دور کے ناولوں کے عنوان سے ان کے دو ناولوں ’’ہوس‘‘ اور ’’مرمر اور خون‘‘ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ دو ناول عزیز احمد کے زمانہ طالب علمی کی کاوش ہیں جن میں سطحیت اور سستی جذباتیت پائی گئی ہے ان ناولوں میں انگریزی ناولوں کے بہت سے اثرات اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ عزیز احمد کے استاذ مولوی عبدالحق نے ان ناولوں کے دیباچے لکھ کر ان کی ہمت افزائی کی تھی۔
چوتھے باب کا عنوان ’’عزیز احمد کے شاہکار ناول‘‘ ہے۔ اس باب میں ان کے چار اہم ناولوں ’’گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی اور شبنم‘‘ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ چاروں ناول عزیز احمد کی شاہکار ناولوں میں شمار ہوتے ہیں اور انہیں ان ناولوں کے سبب ہی اردو ناول نگاری کی دنیا میں مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ ان ناولوں میں عزیز احمد اپنے فن کے عروج پر دکھائی دیتے ہیں۔ عزیز احمد کے ناول نگاری کے میدان میں مقام کو متعین کرنے کیلئے اردو کے بیشتر ناقدین نے ان کے ان ہی ناولوں کو سراہا ہے۔
زیر نظر کتاب کے پانچویں باب میں ’’ عزیز احمد کے دیگر ناول اور ناولٹ‘‘ کے عنوان سے ان کے دو ایسے ناولوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے جن پر بہت کم لکھا گیا ہے ان میں سے ایک ناول ’’برے لوگ‘‘ ہے، یہ عزیز احمد کا ایسا گمنام ناول ہے جسے پہلی مرتبہ تحقیق کے ذریعہ منظر عام پر لایا جا رہا ہے دوسرا ناول ’’تری دلبری کا بھرم‘‘ یہ دونوں ناول عزیز احمد نے تقسیم ہند کے بعد قیام پاکستان اور قیام برطانیہ کے دوران لکھے۔ اور ان میں مقامی اثرات زیادہ پائے گئے ہیں ان دو ناولوں کے جائزہ کے ساتھ عزیز احمد کے تاریخی ناولٹ ’’ خدنگ جستہ، جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور مثلث ‘‘ کا اجمالی جائزہ بھی اس باب میں شامل ہے۔
اس کتاب کے چھٹے اور آخری باب میں ’’عزیز احمد کی ناول نگاری کا اجمالی جائزہ‘‘ کے عنوان سے ان کے ناولوں میں اجزائے ترکیبی اور دیگر خصوصیات کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے اور اردو ناول نگاری میں ان کے مقام کے تعین کی کوشش کی گئی ہے۔
اس کتاب کے لئے اردو کے موجودہ دور کے مشہور ناول نگار محترم جناب پیغام آفاقی صاحب نے اپنی گراں قدر آرا پیش کی ہے۔ جناب پیغام آفاقی صاحب علی گڑھ یونیورسٹی کے ممتاز آ سکالر اور مشہور زمانہ ناول’’ مکان‘‘ کے مصنف ہیں۔ میرا جناب پیغام آفاقی صاحب سے رابطہ سوشیل میڈیا کے فیس بک سے ہوا۔ جہاں اردو افسانہ اور ناول کے مختلف گروپس میں ان کے تبصرے پڑھتا رہتا تھا۔ میری درخواست پر انہوں نے اس کتاب پر اپنی رائے لکھنے کے لئے رضامندی ظاہر کی اور مبسوط پیش لفظ لکھا۔ جس کے لئے میں ان کا مشکور ہوں۔ اس موقع پر میں میں اپنے اساتذہ، دوست احباب اور تمام بہی خواہوں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے میرے ادبی سفر میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اس کتاب کے ذریعے امید ہے کہ عزیز احمد کی ناول نگاری کے بہت سے نئے گوشے سامنے آئیں گے۔ اور یہ کتاب اردو ناول کی تنقید و تحقیق میں ایک اضافہ تصور کی جائے گی۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی