"مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے” پلوشہ نے نخیف سی آواز میں کہا
"گھر چل کے بات کریں گے ابھی تم آرام کرو ” جمال نے اسے کہا اور باہر کی طرف اپنے قدم بڑھانے لگا
"میں حسینہ سے مل کے آئی ہوں” یہ الفاظ سن کر جمال پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اسے تکنے لگا اسے اپنی سماعت پہ شبہ گزرا۔۔۔۔
جس کو ڈھونڈنے کے لیے اس نے زمین و آسمان ایک کردئیے تھے اس کی خبر اسے پلوشہ دے رہی تھی اسے ابھی بھی اپنی سماعت پہ شک ہی گزرا تھا۔۔
"کیا کہا تم نے پھر سے کہو؟ وہ اضطراری کیفیت میں بولا
"کیا ہوا آپ کو ؟؟ جمال کی سرخ آنکھیں دیکھ کر اسے خوف سا محسوس ہوا
"” میں جو پوچھ رہا ہوں وہ بتاؤ؟؟ اس کی آواز ہلکی سی غراہٹ سے مشابہ تھی۔۔
"میں بازار گئی تھی وہاں پہ اس کی کپڑوں کی بوتیک ہے” پلوشہ نے بمشکل بتایا۔۔
"اور اور کیا دیکھا تم نے ؟؟ وہ اس پہ جھکا اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔
"اور کچھ نہیں” وہ چاہ کے بھی اسے بچے کے بارے میں نہیں بتا سکی
"پتا بتاؤ مجھے؟؟ وہ اس سے پتا پوچھنے لگا۔۔
"میں پتا بتا دیتی ہوں لیکن اس بات کی کیا ضمانت کہ آپ اس کو پا کے مجھے نہیں چھوڑ دیں گے ؟؟ وہ اپنے بدترین اندیشے کو زبان دے رہی تھی ۔۔۔
” مجھے جانا ہے ” وہ اس سے ہاتھ چھڑا کے جانا چاہ رہا تھا
پلوشہ کو لگا کہ اس نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر دی ہے لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔۔
اس کی پشت پہ نظریں جمائے
وہ اسے وہاں سے جاتے دیکھ رہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے پلوشہ کے بتائے پتے پہ جا پہنچا۔۔
بوتیک کا دروازہ اس نے ایک جھٹکے سے کھولا ۔۔
حسینہ نے اس طرح دروازہ کھلنے پہ چونک کے پیچھے مڑ کے دیکھا تو اس کا وجود برف کا ہی بن گیا ۔۔
سامنے جمال سرخ آنکھوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔
دونوں ایک دوسرے کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔۔
وہ جو اس کے دیکھنے سے حیا سے اپنی پلکیں جھکا جاتی تھی آج اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
"باہر بورڈ نہیں پڑھا آپ نے ؟؟ یہاں مردوں کا داخلہ منع ہے” وہ بولی تو اس کے لہجے میں برف سی ٹھنڈک تھی ۔۔
"میرے ساتھ چلو” وہ بولا
"کیوں پھر سے چھوڑ کے جانا ہے؟؟وہ استہزاءیہ انداز میں بولی
"بڑی مشکل سے اپنے ٹوٹے بکھرے وجود کو جوڑ کے بیٹھی ہوں "اس کے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی ۔۔
جمال خالی خالی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔
” اور کس رشتے سے لینے آئے ہیں ؟؟ اس نے پوچھا
"تم آج بھی میری ہو میری بیوی ہو بولو ہو نا” وہ اگے بڑھ کے اسے کاندھوں سے جھنھوڑنے لگا
"پیچھے ہو کے بات کریں” وہ اسے دھکیلتے ہوئے بولی
"کوئی حق نہیں آپ کا مجھے چھونے یا اس طرح ہاتھ لگانے کا اس کے بعد ” اس کے سامنے اس نے کاغذات کا پلندہ پھینکتے ہوئے کہا۔۔
جمال کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا وہ بے یقینی سے وہ کاغذات اٹھائے وہاں سے پلٹ کے باہر نکل آیا ۔۔
حسینہ وہیں زمین پہ بیٹھتی چلی گئ کیا کچھ سہا تھا اس نے کسطرح خود کو بچوں کی خاطر گھسیٹ رہی تھی ۔۔
کہاں کہاں نہیں دھکے کھائے تھے اس نے اسے گزرے پلوں کی وحشت و اذیت آج بھی پوری طرح یاد تھی ۔۔
اکیلی عورت کو اس معاشرے کے مرد مال غنیمت سے زیادہ نہیں سمجھتے چاہے وہ کس بھی مجبوری کے تحت باہر نکلی ہو اس کے ماتھے پہ ان دیکھا Available کا ٹیگ لگا دکھائی دیتا ہے ۔۔۔
وہ بھی اسی ٹیگ کے ساتھ روزگار کی تلاش میں باہر کی دنیا میں تھی ۔۔
حالات اس کے لیے نامساعد تھے تعلیمی لحاظ سے کم تھی لے دے کے اس کے پاس صرف حسن کی ہی دولت تھی جسےخدا نے دل کھول کے اسے بخشا تھا۔۔
سوہنا رب ہر حال میں انسان کو آزماتا ہے کبھی معمولی شکل و صورت دے کے تو کبھی حسین و جمیل بنا کے بھی امتحانوں میں ڈال دیتا ہے ۔۔۔
ہر جگہ اس کے ساتھ وقت گزارنے کا ہزاروں روپیہ دینے کو تیار تھے لیکن عزت کی نوکری دینے پہ اس کی کم تعلیم اور ناتجربے کاری ہی وجہ انکار بن جایا کرتی۔۔
ایک دن اس نے حالات سے تنگ آکر کے خودکشی کے بارے میں سوچا۔۔
ساری رات وہ ایسا کوئی طریقہ سوچتی رہی جس سے اس کی موت خودکشی نا لگے تاکہ اس کے بعد اس کے بچوں کو اس کی حرام موت کے طعنے نا سننے پڑیں ۔۔۔
"کسی گاڑی کے سامنے آجاتی ہوں یہ تو حادٹہ ہی لگے گا ” آخر قرعہ گاڑی کے سامنے آنا نکلا۔۔
ںہت ہمت مجتمع کرکے وہ باہر نکلی اور ایک مصروف شاہراہِ پہ سڑک عبور کرتے ہوئے اچانک ہی رک گئی ۔۔۔
اس کی توقع کے مطابق اس کےجسم کو گاڑی کی زوردار ٹکر سے ہوا میں اچھلنا تھا اور پھر بس اس مصیبت زدہ زندگی سے جان چھوٹ جانی تھی لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔۔
ایک تیزرفتار گاڑی نے بروقت اپنی گاڑی کے بریک پہ دباؤ ڈال کر بالکل اسے کے قریب گاڑی روک دی۔۔
” مرنے کے لیے اس گاڑی کے سامنے ہی آنا تھا تم کو” گاڑی کا باوردی ڈرائیور کھڑکی سے سر نکال کے اس پہ چلایا۔۔
"تم ٹھیک ہو؟؟ چوٹ تو نہیں لگی تم کو؟؟ گاڑی کا پچھلا دروازہ کھلا اور ایک مشفق چہرے کی عورت باہر نکل کے اس کی جانب بڑھی۔۔
حسینہ اپنے طے کیے گئے پلان کو ناکام ہوتے دیکھ کر بڑی بیزار ہوئی اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ عورت اسے گاڑی میں بٹھا کے اسپتال لے آئی ۔۔
تھوڑی دیر میں اس عورت سے مماثلث رکھتی ہوئی ایک لڑکی جو کہ ڈاکٹر دکھتی تھی ان کے پاس آئی۔۔
"آج کس کو ٹکر ۔مار دی آپ کے ڈرائیور نے؟؟ کہا بھی ہے کہ کوئی تجربے کار بندہ رکھ لیں لیکن آپ اور آپ کی خدمت خلق ” وہ بغیر رکے بولنے کی عادی تھی شاید
‘ میری ماں بننے کی کوشش نا کر جلدی سے چیک کر اسے چوٹ تو نہیں لگی اسے اور سارے ٹیسٹ شیشٹ کرنا سسث کے پیٹ پکڑ رہی تھی بار بار ” وہ اسے جھڑکتے ہوئے بولیں ۔۔
حسینہ اس ڈاکٹر کے ساتھ اندر چلی گئی اور اس اتفاقی معائنے نے اس کی ہر سوچ ہی بدل دی ۔۔
” بے بی ٹھیک گرو کررہا ہے ” ڈاکٹر الٹراساؤنڈ کرتے ہوئے بولی
اس کے الفاظ تو حسینہ کی دنیا ہی ہلا گئے ۔۔۔
اپنے دگر گوں حالات کے باعث وہ اپنے اندر پلنے والی ننھنی جان سے قطعی لاعلم تھی ۔۔
"اللّٰہ!! یہ میں کیا کرنے جا رہی تھی ” وہ بڑبڑائی
ڈاکٹر نے اسے چونک کے دیکھا اور وہ فوری طور پہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گئی ۔۔۔
وہ اسے اپنے باہر لے آئی اور اپنی ماں کو صورت حال سے آگاہ کیا۔۔
ساری بات سننے کے بعد وہ اسے کسی گناہ کا بوجھ اٹھائے لڑکی سمجھیں جو کہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے مرنا چاہتی تھی ۔۔
ساری بات سننے کے بعد فہمیدہ بیگم جو کہ فلاحی کاموں میں ہمیشہ ہی اپنا حصہ ڈالنا اپنا فرض عین سمجھتی تھی اسے اپنے ساتھ لگائے گاڑی تک لے آئیں ۔۔
” آؤ تم کو گھر چھوڑ دوں ” وہ پیار سے بولیں
"گھر نہیں جانا ” اس نے دھیرے سے کہا
"نا تو پھر سے کسی گاڑی کے نیچے آنا ہے ؟؟ وہ بگڑے لہجے میں بولیں
"گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے بچے بھوک نہیں برداشت کر پائیں گے نوکری کی تلاش کرنی ہے مجھے” وہ آنسوؤں کو اپنے اندر اتارتے ہوئے بولی
وہ بچوں کا سن کر چونک پڑیں اور پھر اس سے باتوں باتوں میں ساری تفصیلات لے لیں ۔۔
"اکرم میاں !! گاڑی سلائی سینٹر کی طرف موڑ لیں اور وہیں سے حسینہ کی زندگی کا رخ بہتری کی طرف مڑ گیا ۔۔
سلائی سیکھنے سے سکھانے اور پھر مخیر افراد کی مدد سے اپنے بوتیک کے قیام تک اس کے کئی سال لگ گئے ۔۔۔
جمال کے اس طرح چھوڑ جانے کے بعد اس نے کبھی کوئی آس نا لگا ئی اور نا اس کی یاد میں آنسو بہائے لیکن اس کی اولاد جب گود میں آئی تو اس کی صورت دیکھ کر وہ ستمگر بے حد یاد آیا ۔۔۔
سب نے کہا کہ اسے یہ بچہ اس کو ہی دے دینا چاہیئے لیکن دل کے کسی کونے میں جمال کے لوٹ آنے کی امید اب بھی باقی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال حسینہ سے وہ کاغذات لے کے سارے راستے کڑیوں سے کڑیاں جوڑتا گیا اور آخرکار اتنے سالوں بعد اس کے سامنے سے سارے پردے اٹھ گئے ۔۔
وہ غصے سے بھرا اپنے ڈیڈ کے آفس چلا آیا اس نے بنا دستک دئیے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔۔
"یہ کونسا طریقہ ہے آفس میں آنے کا”وہ آفس کے ورکرز کی میٹنگ لے رہے تھے اسے اس طرح جارحانہ انداز میں اندر آتے دیکھ کے ڈپٹ کے بولے
"ان سب کے سامنے ساری باتیں کروں یا باہر بھیجیں گے ان کو” وہ الفاظ چبا چبا کے بول رہا تھا
انھوں نے میٹنگ برخاست ہونے کا اشارہ کیا اور سب کے باہر جاتے ہی اس نے ان کی ٹیبل پہ وہ کاغذات پھینکے۔۔
یہ کیا بدتمیزی ۔۔۔۔۔۔؟؟ وہ آدھا جملہ بول کے چپ ہوگئے ان کی نظر ان کاغذات سے گویا چپک ہی گئیں تھیں۔۔۔۔۔
ڈاکٹر مقصود جعفری کی مکالماتی اسلوب کی منفرد شاعری
ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں "میں نے کہا کہ زاغ و زغن پھر سے آ گئے کہنے لگے یہ طرزِ...