تاجدار عادل
ہر طرف کچھ کمی عجیب سی ہے
آج کل زندگی عجیب سی ہے
پھول کھلنے لگے ہیں کانٹوں میں
عشق میں تازگی عجیب سی ہے
کبھی جاتے نہیں ہیں اس کی طرف
طلبِ یار بھی عجیب سی ہے
ساری دنیا نظر میں ہے لیکن
اس کی تو بات ہی عجیب سی ہے
بے سبب دل اداس رہتا ہے
صبح بھی شام بھی عجیب سی ہے
اپنے ہی آپ کو ستاتا ہے
دوست کی دشمنی عجیب سی ہے
ہر اندھیرا دکھائی دینے لگا
آج کل روشنی عجیب سی ہے
کھیلتی ہے تمہاری یادوں سے
غم کی ہر اک خوشی عجیب سی ہے
جیسے صحرا میں کھل رہی ہو دھنک
رنگ میں سادگی عجیب سی ہے
راس آتی نہیں کسی کو بھی
آج کل دوستی عجیب سی ہے
اس کے خوابوں سے جی نہیں بھرتا
نیند کی آنکھ بھی عجیب سی ہے
سوکھے آنسو ہوں جیسے آنکھوں میں
گاؤں کی چاندنی عجیب سی ہے
عشق دنیا سے کیسے ہار گیا
یہ کہانی بڑی عجیب سی ہے
کیا توجہ ہے اُس کی ملنے پر
کس قدر بے رُخی عجیب سی ہے
کل پُراسرار جیسی چاہت تھی
ویسی ہی آج بھی عجیب سی ہے
عشق میں چند راز ہوتے ہیں
یہ مگر آگہی عجیب سی ہے
ایک جادو ہوئی حقیقت بھی
کبھی سادہ کبھی عجیب سی ہے
بھول بیٹھا ہوں میں اُسے جب سے
دل میں کچھ بے کلی عجیب سی ہے
بادشاہ ہیں فقیر کے در پر
عشق کی راہ بھی عجیب سی ہے
خود ہی لکھتا ہوں اور سوچتا ہوں
اب مری شاعری عجیب سی ہے
میں ہی شاید بدل گیا ہوں اب
یا تری دوستی عجیب سی ہے
عادلؔ اُس کا دھیان رہتا ہے
تیری یہ بے خودی عجیب سی ہے