وقت پر لگا کر اڑ گیا گھر کا ماحول اب خوشگوار تھا۔جاوید صاحب کا فائزہ سے اچھا سلوک اور محبت دیکھ کر عرفان بہت خوش تھا اور فائزہ انہیں عرفان کا باپ نہیں بلکہ اپنا باپ سمجھتی تھی اور انکی خدمت میں ہر وقت لگی رہتی۔
مگر جنکی فطرت میں ڈسنا ہو وہ ڈس ہی لیتے ہیں۔
۔۔۔۔
وہ صغراں کیساتھ کچن میں جاوید صاحب کی فرمائش پر بریانی بنا رہی تھی۔آج اس نے رات کا کھانا اپنی نگرانی میں تیار کروایا۔باقی سب تیار تھا بریانی دم پر تھی اور سلاد بنانا ابھی باقی تھا۔
وہ یہ کام صغراں کو دے کر کمرے میں آکر فریش ہوئی۔عرفان اور جاوید صاحب کے آنے میں ابھی آدھا گھنٹہ رہتا تھا۔
وہ نیچے لاؤنج میں آکر بوریت دور کرنے کے لیے ٹی وی دیکھنے لگی جہاں کوئی شو چل رہا تھا۔
گاڑی کے ہارن کی آواز سن کر اس نے ٹی وی بند کیا۔
اسلام علیکم۔جاوید صاحب نے اندر داخل ہو کر سلام کیا۔
مسز جاوید بھی کمرے سے باہر آئی۔
وعلیکم سلام۔فائزہ نے سلام کا جواب دیا۔وہ صوفے پر بیٹھ گئے
عرفان نہیں آۓ کیا؟ وہ عرفان کو نہ دیکھ کر بولی۔
آیا ہے شاید اسکی کوئی کال۔۔۔۔۔لو آگیا۔
وہ عرفان کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر بولے۔
میں فریش ہو کر آتا ہوں کھانا لگوا دو بہت بھوک لگی ہے۔جاوید صاحب یہ کہہ کر اپنے کمرے کیطرف بڑھ گئے۔۔
وہ بھی سلام دعا کے بعد کمرے میں فریش ہونے چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں کھانا کھانے کے بعد اسکی بنائی بریانی کی تعریف کر رہے تھے اور وہ مسکراتے ہوۓ داد وصول کر رہی تھی۔
ویسے آج تمہیں کھانا بنانے کا خیال کیسے آیا؟ عرفان نے اس سے پوچھا۔
پاپا نے خانساماں سے کہا تھا تو میں نے بنا دی ویسے بھی بور ہو جاتی ہوں گھر میں۔وہ عرفان کی دیکھا دیکھی جاوید صاحب کو پاپا کہتی تھی۔
اب تو بہت لذیذ کھانا کھانے کو ملے گا۔(یکدم انکے دماغ میں اک خیال آیا)
بور کیوں ہوتی ہو تمہاری فرینڈز ہیں ان کے گھر جایا کرو ان کو گھر بلوا لیا کرو۔بلکہ کوئی کورس وغیرہ کر لو۔
ہاں ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔گھر میں کام کے لیے ملازم ہیں یہ بیچاری کیا کرے۔مسز جاوید نے بھی انکی ہاں میں ہاں ملائی۔وہ اب ٹی وی کیطرف متوجہ ہو چکے تھے۔وہ دونوں اٹھ کر اپنے روم میں آگئے۔
کمال کی شادی ہو رہی ہے آج آفس آیا تھا انوائٹ کیا ہے اس نے، تانیہ کی طرف سے بھی۔۔
کب ہو رہی ہے شادی؟ اسے خوشی ہوئی۔
اگلے ہفتے۔وہ آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا ہوا تھا۔
آپ پریشان ہیں کچھ۔وہ اسکے سنجیدہ موڈ کو دیکھ کر بولی۔
نہیں۔بس ایسے کچھ دل بے چین سا ہے۔خیر تم بتاؤ کب چلیں شاپنگ کے لیے۔
جب آپ فری ہوں۔
اگر میں فری نہ ہوا تو۔
تو میں گھر میں جو کپڑے ہیں وہی پہن لوں گی وہ بھی تو نئے ہیں۔
ہاں تم کچھ بھی پہنو تمہیں اچھا لگے گا۔
مگر تمہارے لیے میرے پاس وقت ہی وقت ہے۔میری پہلی ترجیح تم ہو۔کچھ توقف کے بعد وہ گویا ہوا۔نہ جانے اک خوف سا اسکے دل میں بیٹھ گیا تھا کہ فائزہ کو کوئی اس سے جدا کر دے گا۔
مجھے معلوم ہے۔
کیا معلوم ہے؟
یہی کہ میں آپکی پہلی ترجیح ہوں۔۔
کس کی؟ وہ آنکھیں موندھے فائزہ کے چہرے کے تاثرات کا سوچ کر دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا۔۔
میں یعنی فائزہ جاوید صاحب کے بیٹے عرفان صاحب کی پہلی ترجیح ہوں۔فائزہ نے دانت پیستے ہوۓ کہا۔
ہاہاہا۔وہ اسکے اسطرح کہنے پر ہنسنے لگا اور آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
ان چاہتوں کے رنگوں میں
ہر رنگ میرا تم سے تم تک ہے
میرا جنوں کبھی سمجھو تو سہی
زندگی کا ہر لمحہ تم سے تم تک ہے
وہ اسے سنڈے کو اپنے ساتھ ڈریس خریدنے کے لیے مہنگے بوتیک میں لایا تھا اور پھر خود ہی اسکے لیے ڈریس پسند کیے۔جوتے وغیرہ اور باقی کی شاپنگ کر نے کے بعد وہ اسے ریستورنٹ میں لے آیا۔اسے شادی سے پہلے کی ملاقات یاد آگئی جب وہ اسے ریستورنٹ لے کر آیا تھا اور وہ گھبرا رہی تھی مگر آج اسکے چہرے پر پریشانی کی جگہ خوشی رقص کر رہی تھی۔
اس نے کھانے کا آرڈر دیا اور کہنیاں ٹیبل پر ٹکا کر اسے دیکھنا لگا جو ادھر اُدھر کا باخوبی جائزہ لے رہی تھی۔
اسکی نظروں کو محسوس کر کے وہ اسکی طرف متوجہ ہوئی۔
کیا ہوا؟
کچھ نہیں۔میں سوچ رہا ہوں کہ آج تم میرے ساتھ اتنے سکون سے بیٹھی ہو مگر کچھ عرصہ پہلے اسی جگہ میرے ہی ساتھ گھبرا رہی تھی۔
ہاں آپ شوہر نہیں تھے نا اب میں آپکے ساتھ جہاں چلی جاؤں مجھے یہ خوف نہیں ہوگا کہ لوگ چہ مگوئیاں کریں گے یا عجیب نظروں سے دیکھیں گے۔اب میں ریلیکس ہوں۔
(ویٹر نے کھانا لاکر ٹیبل پر لگایا)
تمہاری بات درست ہے۔میری غلطی تھی مجھے تمہاری عزت کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔
اس نے سلسلہ کلام وہی سے جوڑا۔
اب اس بات کا کیا فائدہ ہے۔اس ملاقات کو سوچ کر مجھے کپکپاہٹ ہو رہی ہے۔
ہاہاہا ۔کھانا کھا لو ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
وہ اب کھانے کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
وہ بغیر کہیں رکے گھر پہنچے۔عرفان اپنے کمرے چلا گیا اور وہ مسز جاوید کو کی گئی شاپنگ دکھانے لگی۔
شاپنگ دکھا کر اپنے روم۔میں آئی جہاں عرفان اسی کا منتظر تھا۔
کمال کی کال آئی ہے ناراض ہو رہا ہے۔میں اسکی طرف جارہا ہوں۔
میں بھی چلوں؟
مگر تم تو تیار بھی نہیں ہو۔پرسوں ساتھ چلیں گے مہندی پر۔ابھی دیر ہو جاۓ گی۔
اوکے جائیں آپ۔ خفگی سے گویا ہوئی۔
ناراض ہو کر تو نہ کہو۔اچھا پانچ منٹ میں تیار ہو جاؤ ساتھ ہ۔۔۔۔
مجھے نہیں جانا۔جائیں آپ۔
میری جان ناراض نہ ہو۔جلدی سے تیار ہو جاؤ۔وہ اسے پیار سے منا رہا تھا۔
نہیں جانا اب مجھے۔وہ بچوں کی طرح ضد کر رہی تھی شاید محبت کرنے والے ہی یہ سب ضد برداشت کرتے ہیں اور وہ بھی اسے پیار سے منا رہا تھا۔
جلدی سے تیار ہو جاؤ میری خاطر مان جاؤ۔وہ اسے سینے سے لگا کر التجا کر رہا تھا۔اس نے بھی اور تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا۔
ابھی تیار ہو کر آتی ہوں۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی یہ ضد اسے بہت مہنگی پڑنے والی ہے
شام کے ساۓ ہر طرف پھیل رہے تھے۔پرندے آسمان پر ایک دائرے کی شکل میں اڑتے ہوۓ گھروں کو لوٹ رہے تھے۔سڑکوں پر کچھ زیادہ ہجوم تھے لوگ اپنے گھروں کو جارہے تھے۔ان کی گاڑی بھی کمال کے گھر کی طرف رواں تھی۔
مجھے خزاں کے موسم سے بہت ڈر لگتا ہے۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوۓ مدھم سی آواز میں بولا۔
کیوں؟
اس لیے کہ یہ موسم بہت ویران سا ہوتا ہےدرختوں سے پتے جدا ہو جاتے ہیں۔پھول مرجھا جاتے ہیں اپنی خوبصورتی اور شادابی کھو دیتے ہیں۔وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولا۔۔
ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
مجھے خوف آتا ہے فائزہ کہیں ۔۔۔۔ میں تمہیں بھی نہ کھو دوں۔اس نے کچھ دیر بعد بات مکمل کی۔
ہاہاہا عرفان حد کرتے ہیں آپ بھی۔اب زندگی بھر کا ساتھ ہے نہ آپ مجھے چھوڑ کر جانا نہ ہی میں جاؤں گی وعدہ ہے آپ سے۔
یہ اکثر ہوتا ہے جب بھی کوئی انہونی ہونے والی ہو تو انسان کے دل میں خود بخود طرح طرح کے وسوسے آنے لگتے ہیں برے خیالات یا برے خواب۔جو ہمیں آنے والی مشکلات کے بارے میں چوکنا کر رہے ہوتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے۔وہ اسکی بات پر مسکرایا مگر دل پھر بھی بے سکون تھا۔
…………………
پہلے بھی تم نے ایک موقع گنوا دیا مگر آج یہ موقع تم نے ہاتھ سے جانے دیا تو میں تمہارا ایسا حال کروں گا کہ خود بھی اپنی شکل نہیں پہچان سکو گے۔وہ ادھر اُدھر کا جائزہ لیتے ہوۓ دانت پیس کر بولے۔
نہیں سر آج میں نے کومل میم کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے آج کا موقع نہیں ہاتھ سے جانے دوں گا میں۔
کہاں ہو تم؟
جس گھر میں عرفان سر گئے ہیں وہی کچھ فاصلے پر کھڑے۔۔۔۔۔ ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی جب کومل نے اسکے ہاتھ سے موبائل جھپٹ لیا۔
ہیلو ماموں جان۔کیسے ہیں آپ؟
میں کام ہونے کے بعد اپنی خیرت بتاؤں گا بس جلدی سے مجھے خوش خبری سناؤ وہ ناگن میرے بیٹے کی زندگی سے دفعان ہو گئی۔
ہاہاہا ماموں جان۔آج خوشخبری ہی سننے کو ملے گی۔اوکے باۓ بعد میں بات کریں گے۔
اس نے کال بند کر کے سیل زاہد کو پکڑایا۔
اونچے لمبے قد اور سانولے رنگ کا زاہد ایسی گینگ کا ممبر تھا جو لڑکیوں کی اسمگلنگ کا کام کرتے تھے۔
وہ دونوں کمال کے گھر پہنچ چکے تھے۔عرفان کمال اور اسکے فادر کے ساتھ بیٹھا تھا اور فائزہ کمال کی امی اور کزن ندا(جو آج ہی ان کے گھر آئی تھی) کے ساتھ بیٹھی تھی۔
ندا کافی ہنس مکھ تھی اسکے ساتھ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔کچھ دیر بعد ملازمہ نے چاۓ اور لوازمات اس کے سامنے ٹیبل پر رکھے۔
آنٹی اتنے تکلف کی کیا ضرورت تھی۔
کہاں کا تکلف؟ اب تم کوئی تکلف نہ برتنا اپنا گھر سمجھو۔وہ چاۓ بناتے ہوۓ بولی۔انہیں فائزہ بہت پسند آئی تھی۔
بیگم صاحبہ فائزہ بی بی کو گیٹ پر کوئی لڑکی بلا رہی ہے۔کہہ رہی تھی کہ بہت ضروری کام ہے جلدی آئیں۔ اس نے ابھی چاۓ کا ایک ہی سپ لیا تھا جب چوکیدار نے آکر اطلاع دی۔
کون لڑکی نام نہیں پوچھا؟
کہہ رہی تھی انکی دوست ہوں۔وہ یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔
میری دوست تانیہ تو ہو نہیں سکتی شاید ماہی۔۔۔۔ اچھا آنٹی میں مل آؤں اس سے۔
وہ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھا کر باہر کیطرف بڑھی۔
اسکے گیٹ پر پہچتے ہی چوکیدار نے گیٹ کھولا۔
گیٹ سے چند قدموں کے فاصلے پر گرے مرسڈیز کھڑی تھی وہ اسکی طرف بڑھی مگر گاڑی کے اندر کوئی بھی نہیں تھا اس نے ادھر اُدھر دیکھا مگر وہاں کسی کا نام و نشان نہیں تھا۔
یہاں تو کوئی ن۔۔۔۔۔۔۔۔ سر پر پڑنے والی بھاری چیز نے اسکا جملہ بھی مکمل نہ ہونے دیا۔
سر بری طرح چکرا رہا تھا وہ سر تھامتی پیچھے کی طرف مڑی مگر کچھ دیکھنے سے پہلے ہی زمین بوس ہوگئی۔
کافی وقت گزرنے کے بعد جب فائزہ واپس نہیں آئی تو شکیلہ بیگم کو پریشانی ہوئی انہوں نے ملازمہ کو گیٹ کی طرف بھیجا۔کچھ ہی دیر بعد وہ ہانپتی کانپتی واپس آئی۔
بی بی جی وہاں کوئی بھی نہیں ہے۔
کیا مطلب ہے تمہارا۔چوکیدار کو بلاؤ۔وہ واپس باہر کیطرف مڑ گئی۔
آنٹی آپ کمال کے دوست کو بتائی وہ جلدی سے جاکر پتہ کریں۔ندا نے کہا
ہاں جاؤ کہو۔مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ندا دوسرے کمرے میں جا کر عرفان کو بلا لائی اور اسے ساری بات بتائی۔ اتنی دیر میں چوکیدار بھی آگیا اسکے چہرے پر ہوائیا اڑ رہی تھی۔
بی بی جی وہ باہر گئی تھی کافی دیر گزر گئی میں نے باہر جھانکا تو کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا۔میں آپکو بتانے و۔۔۔۔
وہ اسکی بات کو نظر انداز کرتا باہر کی طرف بھاگا کمال اور اسکے فادر بھی اسکی ہمراہی میں باہر کی طرف بڑھے۔
عرفان نے گیٹ کے باہر ادھر اُدھر کا مکمل جائزہ لیا۔
گاڑی تو آئی تھی کسی کی،یہ ٹائروں کے نشانات ہیں۔کمال نے سڑک پر نشان دیکھتے ہوۓ کہا
اس نے جلدی سے جیب سے سیل نکالا اور اسکا نمبر ڈائل کیا۔
مگر یہ کیا اسکے سیل کی آواز کہیں قریب سے آرہی تھی۔
چھین لیا اسے کسی نے چھین لیا۔وہ اسکا سیل اٹھاتے ہوۓ بولا جو سڑک کی کنارے پڑا تھا۔
میری زندگی چھین لی کسی نے،
فائزہ کہاں ہو بولو ۔وہ اونچی آواز میں چلانے لگا۔
سنبھالو خود کو کیا کر رہے ہو یہ؟ بابا آپ اسے سنبھالیں میں گاڑی نکالتا ہوں۔
کمال بھاگتا ہوا پورچ کیطرف بڑھا اور گاڑی باہر نکالی۔۔
…………
ہمت کرو یار تم ہمت ہار دو گے تو کون اسے ڈھونڈے گا۔کمال نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
فائزہ کو کس لڑکی نے بلایا تھا باہر کون تھی وہ آخر؟ عرفان نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوۓ سوال پوچھا۔
میں کال کرتا ہو بابا کو۔وہ چوکیدار سے اس لڑکی کا پوچھیں۔۔کمال نے گاڑی سائڈ پر روکی اور زبیر احمد کو کال کرکے چوکیدار سے پوچھ گچھ کرنے کا کہا۔۔
تم نے اپنے گھر بتایا ہے؟
کمال نے واپس گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوۓ کہا۔
نہیں۔
کیوں؟
کیا بتاؤں اپنی جان سے پیاری بیوی کو کھو آیا ہوں۔ بتاؤ مجھے کیا کہوں میں انکو؟ وہ ڈیش بورڈ پر سر رکھ کر عورتوں کی طرح بین کر رہا تھا اور کمال کو اسکی تسلی کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔