پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد(بھاولپور)
’’ہر قدم روشنی‘‘……ایک جائزہ
ادباء و شعراء میں سے جتنے لوگوں کو حج کی سعادت ملتی ہے اُن میں سے دس پندرہ فیصد لوگ سفر نامہ حج ضرور لکھتے ہیں۔ اِن سفر نامہ ہائے حج میں سے ہر سفر نامہ نگار اپنے مزاج اور اپنی دلچسپی کے مطابق سفرنامہ لکھتا ہے ۔ کسی کی توجہ جغرافیائی معلومات پر ہوتی ہے اور کسی کی تاریخی واقعات و حالات پر۔ کسی سفر نامے میں حج کے فرائض اور واجبات کو اہمیت دی جاتی ہے اور کسی سفر نامے میں خود سفر نامہ نگار اہم ہو جاتا ہے جبکہ ’’ہر قدم روشنی‘‘ ایک ایسا سفر نامہ ہائے حج ہے جس کا ایک ایک لفظ عقیدت اور محبتِ خدا و رسول میں ڈوبا ہوا ہے ۔
’’ہر قدم روشنی‘‘ ہمارے بزرگ دوست خورشید احمد ناظرؔ کا لکھا ہوا سفر نامہ ہے ۔ خورشید صاحب 1998ء میں حج پر گئے تھے اور غالباً یہاں سے روانہ ہوتے ہوئے بھی اُن کے ذہن میں سفر نامہ لکھنے کا خیال موجود تھا۔ میں سمجھتا ہوں اور کوئی سفر نامہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے لیکن سفر نامہ حج وقتاً فوقتاًلکھے جاتے رہنے چاہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اگر اِس طرح کے سفر نامے ہمارے سامنے موجود ہوں تو ہم سر زمینِ حجاز خاص طور پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی بدلتی ہوئی کیفیات سے روشناس ہو سکتے ہیں ۔ مثلاً میں ایک دو چیزوں کی طرف بطور خاص توجہ مبذول کرانا چاہوں گا خورشید احمد ناظرؔ صاحب نے اپنے سفر نامے کے صفحہ نمبر29پر لکھا ہے ۔
’’ان معلومات اور مطالعے نے مجھے یہ فیصلہ کرنے میں مدد دی تھی کہ میں حج ، ریگولر سکیم کی بجائے سپانسر شپ سکیم کے تحت کروں اور رہائش کے لیے سرکار کے انتظام کے انتخاب کی بجائے اپنی رہائش کیلئے نجی طور پر انتظام کروں ‘‘
ظاہر ہے کہ اُس وقت یہ بات ممکن تھی لیکن اب 2003ء کے انتظاماتِ حج میں یہ بات ممکن نہیں رہی تھی ۔اِس لیے کہ اس بار جتنے لوگوں نے سپانسر شپ سکیم کے تحت درخواستیں دی تھیں وہ سب مسترد ہو گئیں اور ہزاروں لوگ فریضۂ حج کی سعادت سے محروم ہو گئے ، اِسی طرح خورشید ناظرؔنے صاحب اپنے ساتھ ادویات لے جانے کا ذکربھی کیا ہے۔ اُن کا جملہ ہے ۔
’’ہنگامی صورتِ حال کے لیے میں نے کچھ ادویات اپنے ساتھ رکھ لی تھیں‘‘ (2)ص53,52
لیکن اب حجاج کو ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر کوئی دوا ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں تھی بلکہ نسخے کے مطابق ادویات بھی حاجی کیمپ کے ڈاکٹر سے سیل بند کرانا پڑتی تھیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ بدلتا ہے، صورتِ حال میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں مثلاً ایک زمانہ تھا جب خانہ کعبہ میں ’’بابِ فہد‘‘ نہیں تھا۔ اِسی طرح مدینہ منورہ میں مسجد نبوی آج کے مقابلے میں بہت چھوٹی مسجد تھی جبکہ آج آنحضرتؐ کے زمانے کا سارا مدینہ مسجد نبوی میں سماگیا ہے ۔ اِس بات کو واضح کرنیکے لیے ایک مثال اور بھی دی جا سکتی ہے اور وہ یوں کہ ایک زمانہ تھا کہ جب مسجد نبوی میں آبِ زم زم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہوگا لیکن آج مسجدِ نبوی کا ہر حصہ آبِ زم زم کے کولروں سے معمور نظر آتا ہے یعنی اگر کوئی شخص مختلف زمانوں میں لکھے گے سفر نامہ ہائے حج کا مطالعہ کرے تو اُسے اِن تمام مقدس مقامات کی تفاصیل مِل سکتی ہیں۔
خورشید ناظرؔ صاحب سے میری ملاقات 1978ء میں ہوئی تھی ۔ دو چار ملاقاتوں ہی میں اندازہ ہو نے لگا کہ وہ صاحبِ مطالعہ اور سلیقے سے گفتگو کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ پھر بیس سال بعد اچانک پتا چلا کہ وہ حج پر جا رہے ہیں گویا نماز روزے کے فرائض کے علاوہ دین سے اُن کی اِس قدر دلچسپی میرے نزدیک ایک نئی بات تھی ۔ لیکن پھر ایک اور نئی بات سامنے آئی اور وہ یہ کہ وہ آنحضرتؐ کا اسم گرامی لیتے ہی رونے لگتے ہیں۔ یہ اُن کی صاحبِ ایمان ہونے کی نشانی تھی۔ یہ تو گزشتہ سال اُن کے سفر نامہ حج کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ اُن پر اللہ تعالیٰ کی بہت سی مہر بانیاں ہیں۔ اِس سے زیادہ اور کیا ہوگا کہ انہوں نے ٹی وی پر ایک نعت سُنی نعتِ سُنتے ہی رونے لگے اور اپنی زندگی کی پہلی نعت لکھی اور پھر انہیں زیارتِ رسولؐ کی سعادت حاصل ہوئی گویا جس خورشید ناظرؔ کو ہم برس ہا برس سے ایک عام انسان کے طور پر جانتے تھے اُس کی پہچان یہ تھی کہ اِس دنیا کی سب سے بڑی ہستیؐ اُن پر مہربان تھی ، خدا کرے ہم سب کا نصیبہ اِسی طرح جاگ جائے ۔
ایسے میں خورشید ناظرؔ نے حج کیا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اُن کی کیفیت کیا ہوگی؟ بدقسمتی سے ہمارے ہاں حج کرنے کی بھی کسی صورتیں اور کئی وجہیں ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ اِس لیے بھی حج پر جاتے رہتے ہیں کہ وہ آتے جاتے ممنوع اشیاء یعنی ہیروئین وغیرہ کا کاروبار کر سکیں، اِس کے علاوہ جدہ یا کراچی ائیر پورٹ پر کسی واپس آنے والی فلائیٹ کا مشاہدہ کریں تو پتا چلے گا کہ تقریباً ننانوے فیصد لوگ پی آئی اے کی طرف سے مجوزہ وزن سے کہیں زیادہ سامان لیے بیٹھے اور پریشان نظر آتے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ ایک شخص تو مکہ معظمہ سے عام واٹر کولر بھی لے کر آیا تھا ۔ ایسے حجاج بہت ہی کم ہوتے ہیں جو اِس سفر کو صرف اللہ کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ خورشید ناظر ؔ صاحب نے یہ سفر خریداری کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کے لیے اختیار کیا تھا ۔ اِس حوالے سے بیگم کے ساتھ اُن کی طے شدہ شرط دیکھیے۔
’’آپ مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں کسی شے کی خریداری نہیں کریں گی ، ہم وہاں سے صرف کھجوریں ، آبِ زم زم اور تسبیحات لائیں گے ۔‘‘ ص7
میں نے کئی لوگوں کو دیکھا کہ وہ حج کے لیے مکہ معظمہ پہنچے لیکن انہیں فوراً ہی Home Sicknessنے آ لیا ۔ میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو بہت صحت مند ہونے کے باوجود ایک عمرہ بھی نہیں کر سکا تھا ۔ ایک کے بارے میں سنا کہ وہ مکہ معظمہ میں اپنی رہائش پر پڑا بیوی بچوں کو یاد کرتا اور انہیں اپنے پاس بلانے کی سعئیناکام میں مصروف تھا جبکہ یہ سفر صرف اور صرف ایک شوق اور ایک تڑپ کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خورشید ناظرؔ اِسے کبھی خوشبو بھرے سفر اور کبھی خوشیوں بھرے سفر سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اُن کے ہاں اِس سفر کی پہلی نماز اِس سفر کا پہلا جمعہ اور اسی طرح دیگر تمام معاملات ایک عقیدت سے معمور عمل کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔مثلاً مکہ معظمہ پہنچتے ہی وہ اپنی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’میں نے اپنے ارد گرد کے منظر پر نظر ڈالی ، ہر شے مختلف ، ہر شے حسیں ، مجھے فضا نور سے بھری اور ایمان کی خوشبو سے مہکی مہکی محسوس ہو رہی تھی ۔میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج کی صبح میری اب تک کی زندگی کی سب سے خوبصورت صبح تھی ۔ص26‘‘
اِسی طرح آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’آج کی نماز آج تک کی تمام نمازوں سے بالکل مختلف تھی کیونکہ آج کعبہ کالے کوسوں نہیں ،صرف چند گز کے فاصلے پر بالکل میری نظروں کے سامنے تھا ۔ نماز سے فارغ ہو کر میں اپنی جگہ سے اُٹھنے کی بجائے بیت اللہ پر نظریں جمائے اُسے غور سے دیکھنے لگا۔ص36‘‘
اِسی طرح مسجد نبویؐ میں اپنی نمازِ جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں نے ہزاروں مسلمانوں کے ساتھ مسجد نبویؐ میں نماز جمعہ کو اپنی اِس مسجد میں پہلی نماز کے طور پر عجیب کیف و سرورکے عالم میں ادا کیا ہے۔ میرے ارد گرد ٹھاٹھیں مارتا ہوا انسانوں کا ایک پاکیزہ سمندر ہے جس میں ، میں اپنے آپ کو ایک ننھی سی کشتی کی طرح تیرتا ہوا محسوس کر رہا ہوں ۔ص66۔67‘‘
اورواقعہ یہی ہے کہ یہ سفر اِسی جذبے اور اِسی شوق کے ساتھ ہو سکے تو کیا ہی بات ہے؟ میں غور کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص مجھ سے اِس سفر نامہ حج کی دو تین چیدہ چیدہ باتیں پوچھنا چاہے تو میرا پہلا جواب یہ ہوگا کہ اِس سفر نامے کو صرف پڑھا نہ جائے بلکہ اِسے اپنے لیے رہنما بنایا جائے ۔اِس لیے کہ اِس سفر نامے میں وہ تمام چیزیں آ گئی ہیں جن کی صاحبِ دل شخص کو ضرورت ہو سکتی ہے ۔مثلاً سفر کے تمام مراحل ایک ایک کر کے پڑھنے والوں کے علم میں آ جاتے ہیں اور اِس سفرنامے کو رہنما بنانے والا شخص کہیں غلطی نہیں کر سکتا مثلاً عام لوگوں کو تلبیہ تک معلوم نہیں ہوتا جبکہ خورشید ناظرؔصاحبنے تلبیہ کے ساتھ ساتھ ہر موقع کی دعائیں بھی لکھ دی ہیں۔ دعاؤں میں بھی عام مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ عربی دعائیں عام لوگ یاد نہیں کر سکتے اور ترجمہ انہیں معلوم نہیں ہوتا لہٰذا وہ جگہ جگہ مشکلات میں مبتلا رہتے ہیں جبکہ خورشید ناظرؔ صاحب نے یہ مشکل بھی حل کر دی ہے ۔ اِس سفر نامے کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اِس میں سفر حج میں پیش آنے والے اور مذکور فرائض و مقامات کی تاریخ بھی دے دی ہے۔ مثلاً کوئی آدمی حج پر جائے اوراُسییہ معلوم ہی نہ ہو کہ حطیم کیا ہے اور اِس میں نوافل ادا کرنے کی کیا فضلیت ہے تو حج تو ہو جائے گا لیکن وہ شخص اِن فضیلتوں سے محروم رہے گا ۔ اِسی طرح کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ حج یا عمرہ کرنے کے بعد سر کے چند بال قینچی سے کاٹنا ،مشین پھروانے یا سر پر اُسترا پھروانے کی کیا حیثیت ہے اور آنحضرتؐ کو کونسی چیز سب سے زیادہ پسند تھی تو وہ شخص غلطی کر سکتا ہے یا زیادہ ثواب سے محروم رہ سکتا ہے۔
’’ہر قدم روشنی‘‘ کی تیسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اِس کے ذریعے قرون اولیٰ کے مسلمانوں ، صحابیوں ، خلفاء ، راشدین ، امہات المومنین ، اہلِ بیت اورخاندانِ رسولؐ کے زمانے کی تاریخ کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیمؑ اور خانہ کعبہ و مسجد نبوی کی بھی ساری تاریخ قاری کے علم میں آ جاتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ کا کوئی بھی واقعہ ایسا نہیں ہے جو اِس سفرنامے کے بطن سے پھوٹتا نظر نہ آتا ہو یعنی یہ تمام واقعات سفر نامے کی وحدت کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اِس حوالے سے مفید نظر آتے ہیں۔یہاں پر ایک اور بات کہنا بھی ضروری ہے کہ خورشید ناظر صاحب نے اِس سفرنامے میں جہاں واقعات کی ایک سے زیادہ وجوہ موجود تھیں ، اُن کا بھی ذکر کر دیا ہے ۔مثلاً حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو خانہ کعبہ کے قریب چھوڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’حضرت سارہؓ نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ وہ ہاجرہؑ اور اسماعیل ؑکو کسی ویرانے میں چھوڑ آئیں۔ آپ اِن دونوں ماں بیٹے کو لے کر اِس ویرانے میں چھوڑآئے جہاں اب بیت اللہ ہے لیکن بعض مفسرین نے اِس روایت سے اختلاف کیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم کی ساری زندگی آزمائش ہی میں گزری ، جب حضرت اسماعیل پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو ایک اور آزمائش میں ڈالا اور حکم ہوا ، اسماعیل اور اُن کی والدہ کو عرب کے ریگستان کے کسی بے آب و گیاہ مقام پر تنہا چھوڑ آؤ ‘‘۔ص45‘‘
’’ہر قدم روشنی‘‘ کی چوتھی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ حج پر جانے والے لوگوں کو تقابل کے ذریعے سیرتِ نبویؐ کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔ ہم اپنی عام زندگی میں چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبرا کر ہاتھ اُٹھا اور شکایات کے پلندے جمع کر لیتے ہیں مثلاً آج کا حاجی مکہ سے مدینہ منورہ یا مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آرام دہ ائیر کنڈیشنڈ بس میں سفر کرتا ہے ۔ اس کے باوجوداُسے انتظامات کی شکایت ہوتی ہے اور یہ شکایت خود خورشید ناظرؔ صاحب نے بھی کئی جگہ کی ہے لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئیے کہ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک کا پہلا سفر آنحضرتؐ اور اُن کے یارِؓ غار کے لیے کس قدر پُر خطر ، خوفناک اور مشکل تھا لیکن آپؐ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں گھبرائے اور نہ ہی خوفزدہ ہوئے ۔
اگرچہ خورشید ناظرؔصاحب کا لہجہ ملتان کے حاجی کیمپ، جدہ کے ائیر پورٹ کے ہال اور مکہ سے مدینہ کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے بھی تلخ ہے لیکن سعودی حکمرانوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا لہجہ ہر جگہ تلخ ترہو گیا ہے ۔ خاص طور پر خورشید ناظرؔ صاحب نے جنت البقیع والے حصے کا عنوان ہی درج ذیل رکھا ہے ۔
عنوان ’’دل نے ہر گام کئی زخم نئے کھائے ہیں‘‘ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ جنت البقیع میں زائرین کو ریت ، گندم کے دانوں اور کبوتروں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اور سعودی حکمرانوں نے تمام پاکیزہ شخصیات کی مبارک قبور کا نام و نشان تک مٹا دیا ہے۔ خورشید ناظرؔ صاحب اِس حوالے سے ذکر کرتے ہوئے بہت تلخ ہو جاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ۔
’’تم اگر اپنے عقیدے کو ہی درست سمجھتے ہو تو ضرور سمجھو ۔مجھے اِس پر کوئی اعتراض نہیں ۔تم اگر اِس کی اشاعت کرنا چاہتے ہو تو ضرور کرو لیکن لوگوں کو گردن سے پکڑ کر بزعمِ اختیار مجبور نہ کرو کہ وہ اِس پر عمل کریں ۔ تم صحابہ کرام ، اہلِ بیت اور ہماری ماؤں کی قبور کو نشان کی حد تک تو باقی رہنے دو ، وہاں بیشک اپنے مسلک کے مطابق تحریر کروا دو کہ فلاں عمل جائز اور فلاں بدعت ہے لیکن یوں نہ کرو کہ بنامِ بدعت تم نے انہیں جس طرح مٹا دیا ہے آہستہ آہستہ کسی کے علم میں ہی نہ رہے کہ یہاں کون کون دفن ہے اور ہاں ایک بات اور بھی یاد رکھو ، دنیا اور یہاں کی ہر شے فانی ہے۔ جس طرح تم سے پہلے کی حکومتیں نہیں رہیں ، تمہیں بھی آج نہیں تو کل اختیار سے ہاتھ دھونے ہی ہوں گے ۔ ص111,110‘‘
اِس طرح کے مقامات پر ایک حاجی کی بجائے سیاست دان بولتا نظر آتا ہے اور یہ تو ہمارے علم میں ہے کہ خورشید ناظرؔصاحب سرکاری ملازم تھے تو اپنی یونین کے صدر تھے اور ملازمت سے الگ ہوئے تو اپنے علاقے کے کونسلرہو گئے ۔ گویا جگہ جگہ اُن کی لیڈری کی رگ پھڑکتی اور انہیں کچھ نہ کچھ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہاں میں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف یہ کتنا چاہوں گا کہ در حقیقت ان جملوں میں لیڈر کے ساتھ ساتھ ایک سنی عقیدہ شخص بولتا نظر آتا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ اِس تلخی میں بھی حکمت کی کئی باتیں چھپی ہوئی ہیں۔
’’ہر قدم روشنی‘‘ کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ہر حاجی اپنے ایک سفر حج میں صرف ایک حج کرتا ہے لیکن خورشید ناظر صاحب نے اپنے 1998ء والے ایک ہی حج میں دو حج کیے ہیں ۔ ایک وہ حج جس کے لیے وہ بہاول پور سے ملتان ، ملتان سے کراچی ، کراچی سے جدہ ، جدہ سے مکہ ، مکہ سے مدینہ ، مدینہ سے پھر مکہ اور پھر منیٰ ، عرفات ،مزدلفہ اور مزدلفہ سے واپس منیٰ کا سفر کرتا ہے لیکن اُن کا اِس سے بھی بڑا سفر حج وہ ہے جو انہوں نے اپنی خیالی دنیا میں آنحضرتؐ کی معیت میں اختیار کیا ہے ۔ اِس سفر کی خصوصیت اول یہ ہے کہ یہ سفر آنحضرتؐ کے ساتھ اختیار کیا گیا اور دوسرا یہ کہ آنحضرتؐ کے ساتھ سفر کرنے والے صحابہؓ کرام کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی لیکن اَب اُس میں مزید ایک حاجی کا اضافہ ہو گیا۔ میں نے اپنی زندگی میں جتنے سفرنامہ ہائے حج پڑھے ہیں ’’ہر قدم روشنی‘‘ اپنی اِسی خصوصیت کی بنا پر مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے ۔
’’ہر قدم روشنی‘‘ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ باقی سارے سفر نامہ ہائے حج بیانیہ ٹیکنیک میں لکھے گئے ہیں جبکہ ’’ہر قدم روشنی‘‘ کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ تلازمۂ خیال یعنی Association Of Ideasکی ٹیکنیک میں لکھا گیا ہے۔ مثلاً خورشید ناظرؔصاحب کسی ایک جگہ تشریف فرما ہیں مثال کے طور پر جنت البقیع میں تو جنت البقیع میں پہنچتے ہی اُن کے ذہن پر جن خیالات کی یلغار ہوتی ہے وہ انہیں بے کم و کاست پیش کرتے چلے جاتے ہیں اور اِس ٹیکنیک کے ذریعے جنت البقیعکی اہم ترین مدفون شخصیات اور اُن کی زندگیاں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔ یہ ٹیکنیک خورشید ناظرؔ صاحب نے کسی ایک جگہ نہیں برتی بلکہ سارا سفر نامہ اسی ٹیکینک میں لکھا گیا ہے ۔
جہاں تک ’’ہر قدم روشنی‘‘ کی لفظی خصوصیات کا ذکر ہے تو میں اولین بات یہ کہنا چاہوں گا کہ غالباً یہ واحد سفر نامہ حج ہے جس کے تمام عنوانات موزوں ہیں مثلاً چند ایک عنوانات دیکھیے :
1:جس پہ بیداری تصدق وہ مجھے نیند ملی
2: یہ زمین وہ ہے جہاں رحمت برستی ہے
3: عظیم تر ہے ترا شہر ،تیرا گھر مولا ۔
4:سجدۂ شوق کروں یا ترا جلوہ دیکھوں ۔
5:درِ اقدس پہ غلام ابن غلام آیا ہے ۔
6:یہ وہ نگری جس میں روشن روشن چہرے رہتے ہیں ، وغیرہ
ہم جانتے ہیں کہ خورشید ناظر صاحب نقاد ہی نہیں بلکہ شاعر بھی ہیں لہٰذا اِس سفرنامہ حج میں جگہ جگہ اُن کے نعتیہ اشعار اور ایک آدھ جگہتضمین کی صورت بھی نظر آتی ہے ۔اِس کے علاوہ خورشید ناظر صاحب کے ہاں جگہ جگہ تخلیقی جملے نظر آتے ہیں مثلاً خورشید ناظر صاحب سلیم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’اُس کا خیال تھا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں لیکن اُسے کیا معلوم کہ ہمیں سیدھا راستہ تو نظر ہی اب آیا ہے ۔ص51‘‘
خورشید ناظرؔ ، آنحضرتؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
’’اہل ایمان کے دِل کِھل اُٹھے تھے جبکہ خدا اور اُس کے رسولؐ کے دشمنوں کے دلوں میں زخموں کی فصل کاشت ہو گئی تھی ۔ص57‘‘
اِسی طرح خورشید ناظر صاحب اپنی تحریروں میں جگہ جگہ تشبیہات ، استعارات اور دیگر ضائع بدائع کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تحریروں کو پُر اثر اور رنگین بتاتے چلے جاتے ہیں مثلاً چند جملے دیکھیے۔
’’مجھے یوں لگا جیسے میں ایک چھوٹی سی ندی ہوں جس کے آگے دنیا داری کا بند باندھ دیا گیا تھا اب یہ بند ٹوٹ گیا ہے اور میں ایک پُر کیف روانی کے ساتھ اپنے جیسی اور بہت سی ندیوں میں آن ملا ہوں جو ہم رنگ ، ہم آہنگ ، اور یک جا ہو کر ایک دریا کی شکل اختیار کر چکی ہیں اب یہ دریا ایک شان و شوکت کے ساتھ سمندر کی جانب بڑھ رہا ہے جو اُس کی منزلِ مقصود ہے۔‘‘ص13‘‘
’’میں نے محسوس کیا کہ سیاہیوں میں ڈوبا ہوا میرے دِل کا آئینہ مزید صاف ہونے لگا ‘‘ ص14
’’میرے رسول ؐنے آنکھ کھولی بچپن اور جوانی گزاری خوشیاں دیکھیں ان گنت دکھ اُٹھائے اور تاریکیوں کے صحرا میں روشنی کا وہ مینار تعمیر کیا جس نے پوری دنیا کو روشن کر دیا ہے ‘‘ ص21
’’تیرے سینے پر مسجد نبوی کا چاند چمک رہا ہے جہاں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔‘‘ص58
اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ ’’ہر قدم روشنی‘‘ ایک ایسا سفر نامۂ ہے جو عقیدت میں ڈوبا ہوا اور ایک نئی ٹیکنیک میں لکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میری رائے میں حج پر جانے والے ہر خوش نصیب کو اس سفر نامۂ حج کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے خاصہِ خاصانِ رُسلؐ وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
وہ دیں کہ ہوئی بزمِ جہاں جس سے چراغاں
آج اس کی مجالس میں نہ بتی ،نہ دیا ہے
(مولانا الطاف حسین حالیؔ)