(Last Updated On: )
حنیف تمنا
ہر انتہا کو ہے حدو وسیاق میں رکھا
مہِ تمام بھی اُس نے مُحاق میں رکھا
اُسی نے وقت میں تفریقِ روزوشب کرکے
نِظامِ ہست ہے اس افتراق میں رکھا
مہِ تمام بھی دولخت خُود کیا اس نے
پھر اپنی ذات کو اُس اِنِشقاق میں رکھا
جو نِگہِ شوق میں روشن ہے اے فلک ایسا
سِتارہ کب ہے کوئی شب کے طاق میں رکھا
وہ اور تھے کہ ہُوا جن پہ اِلتفات و وِصال
وہ ہم تھے جن کو ہمیشہ فِراق میں رکھا
عُدو سے رغبتِ پیہم ہے یار کو لیکن
ہمیں ہے ثانیہءِ اتفاق میں رکھا