محب عزیز حیدر قریشی ! ۔ مبارکہ چلی گئیں ۔ تم دونوں کزن ساتھ کھیلتے کھیلتے جا نے کب بڑے ہوئے؟ کب ۔ ۔ کب دلھا ، دلہن بنے ۔ ؟ کب مادر ، پدر کے مراتب پر سر فراز ہوئے ؟ پتہ نہیں چلا ۔! اس کا بھی ہوش نہیں رہا کہ دونوں میں سے کس نے یا دونوں ہی نے یہ فیصلہ کیا ؎
من تو شدم ۔ تو من شدی
من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گو ید بعد ازیں
من دیگر م ۔ تو دیگر ی
فاصلے اپنی جگہ باقی ر ہے یا فاصلوں کی مو جودگی کا احساس باقی رہا تو اس نے پہل کی ۔ اور اک ادائے مستانہ اور جر اء ت رندانہ سے تیری ٹوپی اپنے سر پر اوڑھ لی اوربقول انور سدید (مرحوم ) تجھ کو اپنا با قا عدہ سر تاج تسلیم کیا ۔اس سے بھی تشفی نہیں ہوئی توراتوں میں اکثر سوتے سوتے جاگ کر اپنا سر پلنگ کے پائنتی میں پہنچادیا اور تمہیں جگائے بغیر ْپرش سے دیوتا بنا دیا اور خود کو پتنی سے پجارن ۔
ممتاز شاعرہ فرحت نواز نے مبارکہ کی آنکھوں میںخود اعتمادی دیکھی اور اس کو تم سے جو ڑا ۔ ان کے خیال میں کسی عورت کی آنکھوں کو اتنی زبر دست خود اعتمادی کوئی مرد ہی دے سکتا ہے۔ شہناز خانم عابدی کو مبا رکہ کے چہرے بھر میں نرمی ہی نر می جھلکتی دکھائی دی اور میں اس کی تصویر میں ٹوپی کے ما سوا کچھ نہ دیکھ پا یا ۔ تمہاری ٹوپی مبارکہ کے چہرے مہرے ، سچ پو چھئے تو مبارکہ کے سارے وجود سے گھل مل گئی ۔ ۔ ٹوپی وہی وہ تھی ۔
تم نے خواب دیکھا ۔ اس کو اہمیت دی ۔کاغذ پر درج کیا، اپنے بیٹے کو پڑھایا ۔ کچھ ضروری ہدایات دیں ،ساتھ ہی بیٹے سے وعدہ لیا راز داری کا ۔بیٹے سے بر داشت نہ ہوا، اس نے ماں کو پڑھا دیا یا بتا دیا ۔ خواب میں تم کو تمہاری موت کی تا ریخ سے آ گاہ کیاگیا تھا لیکن تا ریخ میں کہیں سن وفات شامل نہیں تھا۔ اس خواب کو سن کر یا خواب کا معلوم ہو نے کے بعد مبارکہ کی حالت غیر ہو گئی ۔ ایمبو لینس منگوائی گئی ۔ ڈاکٹرز نے دیکھا ۔
ٹسٹ لوا ئے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ زندگی بچانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ تم نے اس صورت حال کواس طرح لفظا یا ہے کہ لکھنئو والوں سے منسوب ’’ پہلے آپ ‘‘ کی جگہ ’’ پہلے میں ‘‘ نے لے رکھی تھی کیونکہ مبارکہ ہی نہیں’’ خود آپ‘‘ بھی دل کے ایک والو کے بند ہو نے کے مسئلے سے دو چار ہو کر ہسپتال کے ہو گئے تھے ۔ مبارکہ ہسپتال سے گھر آگئیں ۔ تم بھی انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کے مرا حل سے کامیابی سے گزر آئے ۔۔۔۔ وقت گزرتا گیا لیکن ’’ پہلے میں ‘‘ کی متمنی مبارکہ نے اپنی درخو است پر رضائے الٰہی کی مْہر ثبت کروالی اور ’’ پہل ‘‘کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اللہ کی بھیجی ہوئی آئی اور اللہ کی جا نب لوٹ گئی ۔
کون جانے کسی جمعہ کے دن سورۃ یسٰین اور سورۃ صافات پڑھ کر تم سے پہلے جا نے کی دعا بھی ما نگی ہو جو مستجاب ہو کر رہی ۔ ایک مدت سے وہ ہر جمعہ کے دن صرف تمہارے لئے اس طرح دعا مانگنے کو اپنا معمول بنا ئے ہو ئے تھی۔
اللہ تعا لیٰ مبارکہ کی مغفرت فرما ئے ۔ درجے بلند کرے اور اس کے پیا روں کو ( بشمول حیدر قریشی ) کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔
ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدہء عالم دوامِ ما
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔