ہر چند ہم ایسے بھی جہاں تاب نہیں تھے
کب ماتھے پہ روشن کبھی مہتاب نہیں تھے
بے نام اُداسی تو ہمیشہ رہی لیکن
ہم اُس سے بچھڑ کر کبھی بے تاب نہیں تھے
یہ خواب بھی تیرے تھے اِنہیں ساتھ ہی لے جا
یہ بجھتے ہوئے خواب مِرے خواب نہیں تھے
کردارِ فقیہاں مِری آزادہ روی بھی
’’گمراہی‘‘ کے لیکن یہی اسباب نہیں تھے
اُس بزم میں ہر جھوٹ پہ بول اٹھتے تھے فوراً
نادان تھے ہم واقفِ آداب نہیں تھے
ہر گوہرِ نایاب کی تذلیل بجا ہے
پر ہم تو کوئی گوہرِ نایاب نہیں تھے
احباب کے تِیروں کے تو ہم عادی تھے حیدر
اِس بار مگر بھائی تھے احباب نہیں تھے
درد جتنا بھی ترے در سے عطا ہوتا گیا
کاسۂ دل درد مندوں کا دعا ہوتا گیا
برہمی میں وہ نجانے کیا سے کیا کہتے رہے
بے خودی میں ہم سے جانے کیا سے کیا ہوتا گیا
جسم و جاں پر اک عجب مستی سی ہے چھائی ہوئی
اک نظر کے لُطف سے اتنا نشہ ہوتا گیا
پھر مِری شہ رگ سے بھی آتا گیا نزدیک تر
مجھ سے کیا بچھڑا ہے وہ گویا خدا ہوتا گیا
آنکھ میں ، دل میں ، لہو میں رقص فرمانے لگا
کس ادا کے ساتھ وہ مجھ سے جدا ہوتا گیا
گونج اُٹّھیں گنبدِ جاں میں مِری تنہائیاں
کوئی خط خاموش لفظوں سے صدا ہوتا گیا
پھول تھا وہ تو میں خوشبو بن کے اس میں جذب تھا
وہ بنا خوشبو تو میں بادِ صبا ہوتا گیا
جس قدر ہوتا گیا اُس کی محبت کا اسیر
ذات کے زندان سے حیدر رِہا ہوتا گیا
٭٭٭