آج نماز کے بعد مسجد میں بیٹھا وہ خدا کے سامنے اقبالِ جرم کر رہا تھا۔۔۔
یا اللہ مجھ سے نا شکری ہوگئی ہے بہت بڑی۔۔
میں نے تیری عطا کردی محبت جیسی نعمت کو ٹھکرادیا۔۔ وہ نعمت جس سے میں ساری زندگی محروم رہا۔۔ اور جب وہ مجھے ملی تو میں نے اسکو گوا دیا۔۔
وہ گوہر نایاب تھی جسے میں نے پھتر سمجھ کر ٹھوکر ماردی۔۔۔
شاید اسی لیے میں ایک سال سے ایک آگ میں جل رہا تھا۔۔
یا اللہ مجھے معاف کردے۔۔
یا اللہ مجھے پچھتاوے کی اس آگ سے بچالے۔۔ میرے اللہ مجھے ایک موقع دے دے۔۔ میں تیری دی گئی نعمت کو سمجھ نہ سکا میں ناشکرا بندہ ہوں مجھے معاف کردے یا رب۔۔۔
وہ دونوں ہاتھ پھیلاے اللہ سے التجا کر رہا تھا۔۔
آج اسکا دامن آنسوؤں سے تر تھا۔۔ آج اسکے آنسوں اس کے گناہوں کو دھو رہے تھے۔۔۔
اللہ کے سامنے رونے سے اسکا دل ہلکا ہو گیا تھا البتہ وجود میں ایک بے چینی تھی کہ حقوق اللہ تو اللہ پاک معاف کر دیتا ہے۔۔ مگر حقوق العباد کی معافی جب تک بندہ نہ دے دے تب تک اللہ بھی نہیں دیتا۔۔
اسی سوچ کے ساتھ وہ مسجد سے سیدھا حرمین کے گھر گیا۔۔
مگر وہاں جانے پر اسکو پڑوسیوں سے معلوم ہوا کہ حرمین کے گھروالوں نے یہ گھر کسی اور کو بیچ دیا ہے اور اب وہ کہاں رہ رہے ہیں یہ انکو معلوم نہیں۔۔
ایک ہارے ہوے شخص کی طرح اپنے وجود کو گھسیٹتا ہوا وہ ساحلِ سمندر پر پہنچا۔۔
وہاں سمندر کے کنارے کھڑا وہ حرمین سے ہونے والی پہلی ملاقات سے آخری ملاقات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔
آج اسکے وجود میں بلکل خاموشی تھی۔۔
سمندر میں اٹھتی لہروں کا شور، فضا کا شور یا آسمان میں اڑھتے پرندوں کا شور بھی اسکے وجود کی خاموشی کو توڑ نہیں سکتا تھا۔۔
کار سے ٹیک لگاے وہ ٹوٹے پھوٹے وجود کو سنبھالے کھڑا تھا جب اسکے دماغ میں ایک جھماکے سے شفا کا خیال آیا۔۔۔
_____________________________________
حرمین اس وقت عمارت کے سامنے گارڈن میں موجود پھولوں کو چھو رہی تھی۔۔ جب اسکو اپنے پیچھے سے کسی کی آواز آی۔۔۔
کیا مجھے معافی مل سکتی ہے؟؟ وہ آواز اصفر کی تھی۔۔
اصفر کو دیکھ کر کچھ دیر حرمین حیرانی کے عالم میں خاموش رہی پھر اسنے کہا۔۔
تم یہاں کیسے؟؟
وہ سب میں تمھیں بتادوں گا ابھی مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے حرمین۔۔۔ اصفر کی آنکھوں میں نمی تھی۔۔
حرمین کچھ نہیں بولی۔۔
مجھے معاف کردو حرمین میں نے تم پر بھروسہ نہیں کیا۔۔
میں نے تمھیں غلط سمجھا۔۔ میرا گناہ معافی کے قابل نہیں ہے۔۔ مگر تمھارا دل بہت بڑا ہے مجھے معاف کردو پلیز۔۔۔ ایک موقع دے دو مجھے۔۔
وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔۔۔
ہاتھ مت جوڑو اصفر۔۔ میں تمھیں کب کا معاف کر چکی ہوں۔۔
مگر میں تمھیں اپنی زندگی میں شامل نہیں کر سکتی۔۔۔
کیوں حرمین؟؟مجھے ایک موقع دے دو تمھیں خدا کا واسطہ ہے۔۔ اسکا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ رہا تھا۔۔۔
میرے دل میں تمھارے لیے اب وہ جزبہ محبت نہیں ہے۔۔
مجھے اللہ کی محبت مل گئ ہے۔۔ اب تمھاری محبت کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔۔۔ حرمین کے چہرے پر نہ افسوس تھا نہ کوئی دکھ۔۔
حرمین میں محبت سے محروم رہا ہوں۔۔ مجھے پہلی بار ایک ننھے سے ستارے کی شکل میں ایک لڑکی ملی تھی جس نے میری زندگی میں محبت کی محرومی کو ختم کردیا تھا۔۔
اور میں نے اس کو کھودیا۔۔۔
مگر آج وہ ننھا سہ ستارہ اتنا روشن ہوگیا ہے کہ اسکی چمک نے میری آنکھوں کو کھول دیا ہے۔۔
تمھاری آنکھیں کھلنے میں بہت دیر ہوگئ ہے اصفر۔۔ حرمین کا لہجہ سرد تھا۔۔
حرمین اگر تم مجھے نا ملی تو میں ساری زندگی پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہوں گا مرتا رہوں گا۔۔
پچھتاوا انسان کو زہنی معزور بنا دیتا ہے۔۔ میں ساری زندگی تڑپتا رہوں گا نہ مجھے تم ملو گی نہ خدا ملے گا۔۔
لیکن اگر تم مل گئ تو میرے اندر پچھتاوے کی آگ ٹھنڈی ہوجاے گی۔۔ میں پھر کبھی تمھارے لیے آنسوں نہیں بہاؤں گا۔۔
میرے آنسوں صرف اللہ کی محبت میں نکلیں گے۔۔
دھوکا کھانے والے کا تو دل ٹوٹا ہوتا ہے۔۔ اسکو پھر بھی صبر آجاتا ہے۔۔ مگر دھوکا دینے والے کو کبھی صبر نہیں آتا وہ ساری زندگی اپنی ہی لگائ ہوئ آگ میں جلتا رہتا ہے۔۔۔
میں نے بھلے تمھیں دھوکا نہیں دیا مگر تمھارا سچ جانے بنا تمھیں غلط سمجھا تمھارا دل توڑا تم سے جھوٹ بولا۔۔
مجھے اس آگ میں جلنے سے بچالو۔۔
اگر تم نے مجھے اپنی زندگی میں شامل نہ کیا تو میں پچھتاتا رہوں گا کہ میں نے اپنی کوتاہی کی وجہ سے اپنی سچی محبت کو کھو دیا۔۔
وہ کانپتے لبوں سے کہہ رہا تھا۔۔
حرمین سوچ کے سمندر میں ڈوب گئ اسکو سر شفقت علی کی کہی وہ بات یاد آنے لگی
( جب انسان اللہ کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے تو عشقِ حقیقی دنیاوی محبت پر غالب آجاتی ہے۔۔ اللہ بندے کو اسکی محبت بھی دے دیتا ہے ۔۔ مگر بندے کے دل میں پھر اس شخص کہ لیے وہ جزبہ نہیں رہتا۔۔۔ وہ دوبارہ ملنے والی اپنی محبت کو صرف اللہ کے لیے اپناتا ہے۔۔ صرف اللہ کے لیے اس سے محبت رکھتا ہے۔۔)
حرمین پلیز۔۔ ہوسکتا ہے تم میرے لیے ہدایت کا ذریعہ بن جاؤ تمھارا ساتھ پا کر میں بھی عشقِ حقیقی کی منزل پر قدم رکھ دوں۔۔ وہ نرم لہجے بولا۔۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ بولی۔۔۔
میں تم سے اللہ کہ لیے رشتہِ ازدواج قائم کرسکتی ہوں۔۔ کیوں کہ اللہ ہی دلوں کو ملانے والا ہے۔۔ حرمین کی بات سن کر اصفر کے چہرے پر ایک چمک آگئ۔۔۔
_____________________________________
آج شادی کے سرخ جوڑے میں وہ اسٹیج پر اپنے جیون بھر کے ساتھی کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔
ہال میں موجود ہر شخص کی نظر ان دونوں پر تھی۔۔ وہ دونوں گلشن کہ دو گلابوں کی طرح کھل رہے تھے۔۔
وہ حسین و جمیل جوڑا جو آج آسمان کے دو ستاروں کی مانند چمک رہا تھا۔۔ انکی چمک بتا رہی تھی کہ اللہ کے بناے گے جوڑے آسمان کے ستارے ہوتے ہیں جنکی چمک سے انکا سارا خاندان روشن ہوتا ہے۔۔
اصفر حرمین کے چہرے کو دیکھتا یہ سوچ رہا تھا کہ اللہ نے اس کو اپنی محبت کے لیے بنایا ہے جبھی اللہ کہ دربار میں اسکا معافی نامہ قبول کرلیا گیا۔۔۔ اور ساری زندگی اسکو کسی کی محبت میں تڑپنے سے بھی بچالیا گیا۔۔
جبکہ حرمین کے دل میں آج ایک ہی بات تھی کہ۔۔۔ “بندے کی محبت سے خدا نہیں ملتا مگر خدا کی محبت سے ساری دنیا مل جاتی ہے”۔۔۔
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...