جان نے ہلنے کی کوشش کی تو فوراً وہ بولا۔
“نہ ۔۔۔ نہ ۔۔۔۔۔ ایسی حرکت مت کیجئے، میں جانتا ہوں کہ آپ دونوں مسلح ہیں، مگر میرے حضور، ایک حقیر سا پستول تو اس خاکسار کے پاس بھی موجود رہا کرتا ہے۔ اور ذرا غور سے دیکھئے، وہ پستول خادم کے کوٹ کی جیب میں سے پہلے ہی آپ دونوں کو جھانک رہا ہے۔”
اتنا کہہ کر اس نے پھر وہی بھیانک قہقہہ لگایا جس سے میری جان جلتی تھی ۔ عجیب ہنسی تھی، معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی چھچھوندر کسی بل سے بول رہی ہو۔ ہنستے وقت وہ دوہرا ہو جاتا تھا اور تب اس کا کُب بہت زیادہ نمایاں ہو جاتا تھا ، جیسے ہی وہ ہنستے ہنستے نیچے جھکا میں نے موقع غنیمت جان کر جلدی سے اپنا چھوٹا سا پستول باہر نکال لیا ۔ میں نے یہ بھی پروا نہ کی کہ اپنے مالک کی موجودگی میں مجھے اپنا پستول نہیں نکالنا چاہئے ، بس اچانک ہی یہ حرکت سرزد ہو گئی۔ پستول کا رخ اپنی طرف دیکھ کر وہ کہنے لگا:
“اوہو ۔۔ ننھے چوہے تم نشانے کی مشق کرنا چاہتے ہو! مجھ جیسے بڑے جادوگر پر گولی چلانا چاہتے ہو! شاید تمہیں معلوم نہیں کہ گولی مجھ پر اثر نہیں کر سکتی۔ جان صاحب آپ نے اچھا ملازم رکھا ہے ، جو ذرا سی بات پر پستول نکالتا ہے ۔ آپ کو معلوم نہیں کہ میرے آدمی باہر کھڑے ہیں۔ گولی چلتے ہی وہ آپ لوگوں کو زندہ نہ چھوڑیں گے اس لئے مہربانی کر کے اپنے اپنے پستول زمین پر ڈال دیجئے، دیکھئے جلدی کیجئے میری پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔”
جان نے مجھے اور میں نے جان کو دیکھا۔ آخر مجبوراً ہم دونوں نے اپنے اپنے پستول نکال کر زمین پر پھینک دئیے ۔ اس منحوس کبڑے نے وہ پستول اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے کافی دور پھینک دئیے اور پھر اپنا پستول جیب سے نکال کر ہم دونوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہنے لگا۔
“ہاں تو سرکار اب سیدھی طرح وہ نقشہ نکال کر مجھے دے دیجئے ۔”
“نقشہ۔۔۔۔۔۔۔!” جان نے مصنوعی حیرت سے کہا۔
” جی ہاں نقشہ۔ معمولی سا نقشہ۔”
“مگر میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب تم نے ہمیں کل رات تک کی مہلت دی تھی تو پھر اب اسی رات کو تم ہمارے خیمے میں کیوں آ گئے؟
“صاحب بات یہ ہے کہ بڑے آدمیوں کا اعتبار ذرا کم کیا کرتا ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اور پھر اپنی بات پوری کرتے ہوئے کہنے لگا:
“کون جانے اس عرصے میں آپ خزانہ کہیں چھپا دیتے ، کہیں زمین میں دفن کر دیتے یا اپنے اس چوہے کے ہاتھ کہیں بھیج دیتے۔”
“خبردار۔۔۔۔۔۔! منہ سنبھال کر بات کرو۔ تم مجھے بار بار چوہا کیوں کہتے ہو؟” میں نے طیش میں آ کر پوچھا۔
“واہ بھئی” اس نے ہنس کر کہا۔ “دن کو تو میں دن ہی کہوں گا رات کو رات، اب تمہیں چوہا نہ کہوں تو کیا کہوں؟ تم کل آئینے میں اپنی شکل دیکھنا بالکل چوہا نظر آتے ہو۔”
“اور تم چھچھوندر۔” میں نے غصے سے کہا۔
“میں اس نئے خطاب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔” اس نے جھک کر کہا۔
“خدا نے مجھے کبڑا بنا کر ہر قسم کا خطاب برداشت کرنے کی طاقت دی دی ہے، میں اس خطاب کا برا نہیں مانتا۔”
بہت ہی ڈھیٹ تھا کم بخت، جس انداز اور جس طریقے سے وہ طنزیہ باتیں کرتا تھا میرا جی جل جاتا تھا ، انہیں سن کر ۔ میرے چہرے کو خوب غور سے چند بار دیکھنے کے بعد وہ کہنے لگا۔
“ہاں تو صاحب یہ باتیں بعد کے لئے اٹھا رکھئے، اب ذرا مطلب کی بات کیجئے، بولئے مسٹر جان، وہ نقشہ کہاں ہے؟ لائیے، مجھے جلدی دیجئے میرا ایک ایک منٹ بہت قیمتی ہے ۔”
“نقشہ میرے پاس نہیں ہے ۔” جان نے مسکرا کر کہا۔
“آپ کے پاس نہیں تو پھر کس کے پاس ہے؟”
“یہ مجھے نہیں معلوم، میں شروع ہی سے اس قسم کا کوئی نقشہ لے کر نہیں چلا تھا۔” جان نے جواب دیا۔ اب وہ نڈر ہو کر بات کر رہا تھا۔
“جھوٹ مت بولئے، مجھے اس سے سخت نفرت ہے۔ سیدھی طرح بتائیے کہ نقشہ کہاں ہے؟”
جان تو خاموش رہا ۔ مگر میں نے سینہ تان کر کہا:
“جب وہ تم سے کہہ چکے ہیں کہ نقشہ ان کے پاس نہیں ہے ، تو پھر کیوں انہیں پریشان کر رہے ہو؟ جاؤ اپنا کام کرو۔”
کبڑے جادوگر نے یہ سن کر میری آنکھوں میں غور سے دیکھا اور پھر حقارت بھرے لہجے میں کہنے لگا۔
“انہیں پریشان تو میں اس لئے کر رہا ہوں کہ وہ سچ بات خود اپنے منہ سے کہہ دیں، مگر خیر کوئی بات نہیں ، وہ اگر نہیں بتانا چاہتے تو میں خود معلوم کرلوں گا کہ نقشہ کہاں ہے؟”
“ضرور ضرور، آخر تمہارا جادو کس دن کام آئے گا؟”میں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
“لڑکے!” کبڑے کے چہرے پر اچانک زبردست غصے کے آثار نمودار ہو گئے ، اور وہ خوفناک آواز میں بولا:
“میں بار بار کہتا ہوں کہ تو اور تیرا مالک میری قوت سے واقف نہیں ہیں، میرا جادو بتاتا ہے اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ خزانے کا نقشہ کس کے پاس ہے ۔”
“جب تمہیں معلوم ہے تو جاکر خود اس سے لے لو ۔ ہمارا دماغ کیوں کھا رہے ہو؟” میں نے مسکرا کرکہا، اسے جلا کر مجھے مزا آ رہا تھا۔
“رحم! رحم! اے دیوتا! تم نے کیوں میرے دل میں یہ رحم پیدا کر دیا ہے؟” اس نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھا کر کہنا شروع کیا: “تمہارا منظور نظر چیتن کیا اسی لائق ہے کہ اس لڑکے جیسے معمولی چوہے اس کا مذاق اڑائیں۔” اس نے اتنا کہہ کر مجھے پھر غور سے دیکھا اور کہا۔
“میری طاقت دیکھنا چاہتا ہے ، تو دیکھ، اب میں تجھے اپنے جادو کا کرشمہ دکھاتا ہوں ، تم بھی دیکھو جان! تم سمجھتے تھے کہ نقشہ محفوظ ہے لیکن اب وہ میں چند سیکنڈ ہی میں اس حقیر چوہے سے حاصل کر لیتا ہوں ، کیوں کہ وہ اسی کے پاس ہے ۔”
اس نے اس گفتگو کے بعد پھر بھیانک قہقہہ لگایا ، میں نے چونک کر جان کو دیکھا، اس کا چہرہ اب بالکل پیلا پڑ گیا تھا اور وہ خوفزدہ نظروں سے میرے منہ کو تک رہا تھا۔
” یہ تم نے کیا کیا فیروز؟” جان نے کہنا شروع کیا:
“میں نے غلطی کی جو تم پر اعتبار کیا ۔ اب شاید تم نادم ہوگے ، تم نے خواہ مخواہ ہماری گفتگو میں حصہ لے کر اس احمق کبڑے کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، تمہیں معلوم نہیں کہ یہ دوسروں کے چہرے دیکھ کر ان کے دلوں کا حال پڑھنا خوب جانتا ہے، بزرگوں نے کہا ہے کہ کسی کی باتوں کے درمیان مت بولو ۔ کاش تم اس پر عمل کر کے خاموش ہی رہتے ۔ اب میں کیا کہہ سکتا ہوں۔”
“کچھ بھی نہیں کہہ سکتے، مسٹر جان!” کبڑے جادوگر نے مسکرا کر کہا۔ “اس لڑکے میں یہی تو ایک عیب ہے، چھٹانک بھر کا چھوکرا اور باتیں بڑی بڑی بناتا ہے، واقعی اگر یہ خاموش رہتا تو مجھے مشکل ہی سے یہ بات معلوم ہوتی کہ نقشہ اس کے پاس ہے، گو میرا جادو مجھے بعد میں یہ بتا دیتا لیکن اتنا معلوم کرنے کے لئے مجھے بڑی محنت کرنا پڑتی، خیر کوئی بات نہیں ، لاؤ بیٹے اب تم وہ نقشہ مجھے دے دو۔”
“تو کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ نقشہ کس چیز میں بند ہے”میں نے پژمردہ آواز میں کہا، میں جان کی باتیں سن کر افسردہ ہو گیا تھا۔
“کیوں نہیں، نقشہ ایک چمڑے کے بٹوے میں بند ہے اور تم نے اسے کہیں چھپا رکھا ہے ۔”
“آپ بتا سکتے ہیں کہ کہاں چھپا رکھا ہے؟”
“اب میں یہ درد سری کیوں مول لوں ۔ جب مجھے معلوم ہے کہ نقشہ تمہارے پاس ہے تو ظاہر ہے وہ تم نے اپنی قمیض میں کہیں چھپا رکھا ہوگا ، لاؤ اب جلدی کرو، پہلے ہی کافی رات ہوچکی ہے اور ابھی مجھے بہت دور جانا ہے ۔”
کبڑے نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا بالکل میرے قریب آ گیا۔ جان کا بس نہ چلتا تھا کہ اسے کچا کھا جائے ، مگر غریب مجبور تھا ، پستول کی نال اس کی طرف تھی، میں بالکل خاموش کھڑا تھا ، کبڑے نے میرے پاس آ کر کہا۔
“اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لو۔”
میں نے مجبوراً ہاتھ اوپر اٹھا لئے، اس کے بعد وہ مردود پستول کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس طرح کھڑا ہو گیا کہ اگر ہم دونوں میں سے کوئی بھی ذرا سا ہلتا تو پستول کی گولی ایک ہی وقت میں ہم دونوں کو زخمی کر سکتی تھی۔ شرم کے مارے میری نگاہیں نیچی تھیں اور جان کے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اس ظالم کبڑے نے اپنے الٹے ہاتھ سے میری تلاشی لی۔ جب باہر کی جیبوں میں اسے کچھ نہ ملا تو پھر اس نے اندر کی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ چمڑے کا بٹوہ نکال لیا ۔ بٹوہ نکلتے دیکھ کر جان کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی اور پریشان ہو کر اس نے منہ پھیر لیا ۔ ایسا لگتا جیسے اس کی ٹانگوں میں کھڑے رہنے کی سکت نہ رہی ہو۔
بٹوے پر قبضہ کرتے ہی کبڑا جادوگر حیرت انگیز پھرتی کے ساتھ پیچھے ہٹا اور پستول کا رخ بدستور ہم دونوں کی طرف رکھتے ہوئے اس نے الٹے ہی ہاتھ سے بٹوہ کھولا۔ ساتھ ہی وہ کہنے لگا۔
“بڑے ہوشیار بنتے تھے جان۔ خزانے کا نقشہ اپنے ملازم کے پاس رکھ کر تم یہ سمجھتے تھے کہ میں نقشہ نہیں پا سکوں گا، مگر ۔۔ ارے یہ کیا؟”
اس نے چونک کر بٹوے کے اندر جھانکا، اس کے چہرے پر حیرت کے آثار پیدا ہو گئے ۔ اس کی پوری توجہ بٹوے کی طرف لگ گئی اور وہ بار بار بٹوے کو ہلا ہلا کر دیکھنے لگا ۔ وہ اپنے اس کام میں اتنا منہمک ہوا کہ پستول بھی اس سے ٹھیک طرح پکڑا نہ جا سکا، بٹوے کو الٹا کر کے اور اس کو تھپتھپا کر وہ اس انداز سے زمین کو دیکھنے لگا گویا نقشہ بٹوے کے کسی پوشیدہ کونے سے نکل کر اب وہاں جا پڑے گا ۔ میرے لئے یہی موقع تھا ، کبڑا جادوگر یہ بالکل بھول چکا تھا کہ اس نے کچھ پہلے اپنے پستول سے ہم دونوں کو نشانہ بنا رکھا تھا۔ بار بار بٹوے کو ہلارہا تھا اور اس میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک بار جیسے ہی اس نے بٹوے کے اندر جھانکا میں نے اپنی جگہ سے جست کی اور ایک زور دار ہاتھ اپنی پوری قوت سے کبڑے جادوگر کے پستول پر مارا، پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر جان کے قدموں میں جا پڑا، جان کو خود حیرت تھی کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ؟ بٹوے میں نقشہ رکھ کر اس نے مجھے خود دیا تھا اور نقشہ اب بٹوے میں موجود نہیں تھا ، مگر یہ وقت حیرت کرنے کا نہیں تھا ، وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے اس نے جلدی سے پستول پر قبضہ کر لیا اور پھر کھڑے ہو کر اس کا رخ کبڑے جادوگر کی طرف کردیا۔
کبڑا خوںخوار نظروں سے مجھے گھور رہا تھا ، کیوں کہ اس کی توقع کے خلاف میں بہت زیادہ ہوشیار ثابت ہوا تھا۔ وہ خواب میں بھی یہ نہ سوچ سکتا تھا کہ میں اس کے لئے اس قدر خطرناک بن جاؤں گا ، اسے احمقوں کی طرح اپنی طرف تکتے دیکھ کر میں نے کہا۔
“کہئے حضور جادوگر صاحب۔ آپ کی جادوگری کیا ہوئی، چوہا وقت آنے پر شیر بھی بن سکتا ہے، یہ آپ نے دیکھ لیا نا ۔ آپ تو خزانے کا نقشہ لینے آئے تھے ، اب آپ تشریف لے جائیے ورنہ خواہ مخواہ آپ کا اپنا پستول آپ کے حق میں برا ثابت ہوگا۔”
“میں جاتا ہوں” کبڑے نے کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھ کر کہا: “مگر میں اس کا انتقام زبردست لوں گا۔ تم نے مجھ سے دھوکا کیا”
“دھوکا۔۔۔ کیسا دھوکا؟ حضور دھوکا تو آپ کے جادو نے آپ سے کیا ہے۔ جب آپ کو معلوم تھا کہ بٹوہ میرے پاس ہے تو کیا آپ اپنے جادو کے زور سے یہ معلوم نہیں کر سکتے تھے ، کہ وہ بٹوہ خالی بھی ہے۔”
“خیر ان باتوں کو چھوڑو، تم مجھے صرف اتنا بتا دو کہ نقشہ تم نے کہاں چھپا کر رکھا تھا ۔ میں فوراً چلا جاؤں گا ، سچ کہتا ہوں ایک منٹ اس خیمے میں نہیں رہوں گا۔”
“اجی حضرت بٹوہ شرو ع سے تھا ہی خالی، آپ کو بےوقوف بنانے کے لئے ہم نے یہ اداکاری کی تھی ۔ ”
میں نے اتنا کہہ کر جان کی طرف دیکھا وہ میرے اس جھوٹ سے اتنا خوش تھا کہ خوشی کے مارے اس کے ہاتھ بری طرح کپکپانے لگے۔
“تم جھوٹ بول رہے ہو ، سچ سچ بتا دو۔” کبڑے نے کہا، اس کی آنکھوں میں میرے خلاف نفرت ہی نفرت دکھائی دیتی تھی۔
“اگر تم اسے جھوٹ سمجھتے ہو تو میں تمہیں سچ بتا دیتا ہوں۔ نقشہ میں نے ایک سیپ میں بند کر کے سمندر میں پھینک دیا تھا، وہ سیپ ایک مچھلی نے نگل لی اور اس مچھلی کو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا ۔ بڑی مچھلی سمندر کی تہہ میں رہتی ہے اور وہیں اس کے پیٹ میں وہ نقشہ محفوظ ہے۔”
میرے اس مذاق سے کبڑے کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور وہ اپنا پاؤں زمین پر پٹختے ہوئے کہنے لگا۔
“اچھا میں سمجھ گیا کہ تم بتانا نہیں چاہتے ، خیر کوئی بات نہیں۔ ایک ہی دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر اچھا نہیں ہوتا۔ میں خزانے کا نقشہ ضرور حاصل کر کے رہوں گا ۔ اب تو میں جاتا ہوں لیکن پھر آؤں گا ۔ میں تمہیں چین سے نہیں بیٹھنے دوں گا۔”
“تم جاتے ہو یا پھر میں پستول استعمال کروں؟” جان نے ذرا سخت آواز میں کہا۔
ہم دونوں کو باری باری دیکھنے کے بعد وہ منحوس کبڑا خیمے کا پردہ اٹھا کر باہر چلا گیا۔ اس کے باہر جاتے ہی میں نے اپنا چھوٹا سا پستول اٹھاکر جیب میں رکھا اور اپنے مالک جان کا ہاتھ پکڑ کر خیمے کے دوسرے دروازے سے باہر نکلا۔ جان نے کچھ پوچھنا چاہا تو میں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا۔ جان نے کچھ نہیں کہا، حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔
خیمے سے باہر آکر ہم دونوں تیزی سے جنگل میں مخالف سمت بڑھنے لگے۔ جان بہت حیران تھا ، مگر بے چارہ میری وجہ سے بالکل ہی خاموش تھا۔ ہم دونوں جھاڑیوں ، ٹیلوں اور گڑھوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اور انہیں پھلانگتے ہوئے خیمے سے کوئی چار فرلانگ دور نکل آئے ۔ یہاں چاند کی ہلکی روشنی گھنے جنگل کی وجہ سے بالکل ہی مدھم ہو گئی تھی ۔ تھوڑے ہی فاصلے پر ایک بہت بڑا درخت تھا۔ میں اس درخت کی آڑ میں جلدی سے جا کر چھپ گیا۔ پلٹ کر پیچھے دیکھا تو دور دور تک کسی آدمی کا نام و نشان نہ تھا، جان اب بھی حیران تھا، مگر میری وجہ سے بولنا نہیں چاہتا تھا ۔ حالانکہ مجھے یقین ہے کہ اس کے دل میں ہزاروں سوال اٹھ رہے ہوں گے۔
چند لمحوں تک خاموش رہنے کے بعد میں نے یہ سننے کی کوشش کی کہ کوئی ہمارے تعاقب میں تو نہیں آ رہا ؟ یا کسی قسم کی کوئی آواز تو نہیں آرہی؟ جب مجھے اطمینان ہوگیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے تو میں نے جان سے کہا۔
“ہاں اب آپ فرمائیے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟”
“یہ۔۔۔۔یہ سب کیا ہے؟”
“آپ کو شاید حیرت ہے کہ آخر یہ سب کیا ہو گیا، نقشہ کیا ہوا ۔ میں نے آپ کی بغیر اجازت کبڑے پر کیوں پستول تان لیا اور پھر آپ کو کیوں، اس گھنے جنگل کے اندر لے آیا۔ آپ یہی سوچ رہے ہیں نا۔؟”
“ہاں فیروز ، لیکن مجھے تم پر اتنا اعتبار ہے کہ میں سمجھتا ہوں تمہاری ان حرکات کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے، پھر بھی میں وہ وجہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔”جان نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
میں نے جواب دینے سے پہلے ادھر اُدھر دیکھ لینا بہتر سمجھا۔ جب مجھے اطمینان ہو گیا کہ کوئی چھپ کر ہماری باتیں نہیں سن رہا ہے تو میں نے آہستہ سے کہا۔
“سنئے! بات اصل میں یہ ہے کہ جیسے ہی مجھے اس بات کا علم ہوا کہ اب کبڑا جادوگر کسی بھی لمحے میں خیمے کے اندر آنے والا ہے ، اور اندر آ کر وہ لازمی ہمیں پستول دکھا کر ہم سے نقشہ مانگے گا، اسی وقت میں نے سوچ لیا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے ؟ میں نے فوراً ایک ترکیب سوچی اور اس پر عمل کرنے کا ارادہ بھی کر لیا ۔ کبڑے کے اندر آتے ہی بغیر آپ کی اجازت کے اس پر پستول تان لینا بھی اصل میں اسی ارادے کی ایک کڑی تھا۔ مجھے یقین تھا کہ کبڑا مجھ سے میرا پستول یا تو چھین لے گا یا پھر اسے زمین پر پھینک دینے کے لئے کہے گا ۔ اور جیسا کہ آپ نے دیکھا ایسا ہی ہوا ، پستول پھینک دینے کے بعد اس نے میری تلاشی لی اور بٹوہ حاصل کر لیا۔ مگر اس بٹوے میں کیا نکلا۔ ؟ٹھوڑی سی خاک اور بس۔۔۔۔۔”
“یہی تو مجھے حیرت ہے کہ بٹوے میں سے نقشہ کیوں نہیں نکلا؟” جان نے جلدی سے پوچھا: “بتاؤ! ایسا کیوں ہوا؟”
“نکلتا بھی کیسے جناب!” میں نے مسکرا کر جواب دیا:
“نقشہ تو میرے پستول کی نال میں رکھا ہوا تھا۔”