باب سوم:حصہ سوم
حقیقت پسندی کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء
ادب اور فن کی تنقید وتحقیق میں حقیقت پسندی کی اصطلاح ایسے ادب کو الگ کرکے دیکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو زندگی کو بعینہٖ منعکس کرتا ہو۔ حقیقت پسندی کی اصطلاح کے اطلاق میں اگرچہ زیادہ تخصیص سے کام نہیں لیاجاتا تاہم اسے رومانویت، مثالیت اور فراریت کے متضاد خیال کیاجاتا ہے۔ ان ساری اصطلاحات سے مراد زندگی کے تلخ حقائق سے منہ موڑ کر تخیل کی دنیامیں پناہ لینا ہے۔
دراصل حقیقت نگاری کے مختلف مرحلے یادرجے ہوسکتے ہیں جن میں سے پہلا تو یہ ہے کہ دنیاوی حقائق اور مظاہر کو مشاہداتی سطح پر اپنی رائے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس طرح پیش کیاجائے جیساکہ وہ معروضی اور مادی طورپر دکھائی دیتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر کو تصویری حقیقت پسندی یا فطرت پسندی بھی کہاجاتا ہے۔ دوسرا درجہ ان تخلیق کاروں کی توضیح کرتا ہے جو ادب کو فراریت سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں حقیقت نگاری کا مطلب ان ناخوشگوار تفصیلات اور متغیر رویوں کا تخلیقی سطح پر ادراک ہے جن کا ذکر نہ کرنا ہی مناسب ہواکرتا ہے چنانچہ ہم اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ادب میں حقیقت نگاری ایک رجحان کا نام ہے جو رومانوی یا جذباتی ہوئے بغیر زندگی کو زندگی کی طرح منعکس کرتے ہوئے فطرت کی اس کے سارے پہلوئوں سمیت ممکنہ حد تک دیانت داری سے تصویرکشی کی ترغیب دیتا ہے۔ حقیقت پسندحقائق کو مثالیت کی اس سطح پر برتنے پر یقین نہیں رکھتے کہ جمالیاتی پہلو مافوق الفطرت اور نزولی مواد کے اظہار میں ضرورت سے زیادہ درآئے۔ (1)
حقیقت پسندی کا ایک مترادف واقعیت پسندی بھی ہے مگر ایک دبستان ادبی سیاق و سبق میں یہ سمجھتا ہے کہ حقیقت پسندی کا مطلب زندگی کی ہوبہو عکاسی نہیں ہے۔ یہ معاشرت اور زندگی کے اسرارورموز کو اپنے زاویے سے سمجھنے کا نام ہے۔ کوئی بھی حقیقت نگار اپنی افتادِ طبع کے پیش نظر زندگی کے کسی خاص پہلو یا پہلوئوں کو اپنے انفرادی انداز میں بیان کرتا ہے یا کرسکتا ہے۔ بس اتنا ہے کہ اس کا اندازِ بیان ایسا ہو کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہو اس پر حقیقت یااصلیت کا گمان ہو۔(2) وہ کرداروں پر ملمع نہ چڑھائے، واقعات کے بیان میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لے اور اسلوب بھی اس قدر رنگین نہ ہو کہ قاری اس میں کھو جائے۔ اسی لیے حقیقت نگار مابعدالطبیعیاتی، روحانی یا مافوق الفطرت عناصر کے بیان سے گریز کرتے ہیں۔ صوفیانہ واردات حقیقت نگاروں کے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے اگرچہ حقیقت نگاری کی ایک قسم مابعدالطبیعاتی حقیقت نگاری بھی ہے جو یہ کہتی ہے کہ آفاقی حقائق ہی اصل حقائق ہوتے ہیں جیسے خیر، انصاف، انسانیت، امن، محبت وغیرہ۔ آفاقیت کا تعلق مثالیت سے بھی گہرا ہے اور مثالیت پسندی حقیقت پرستی سے لگانہیں کھاتی اس لیے مجرّد حقیقت نگاری یہ کہتی ہے کہ آفاقی حقائق صرف انسانی ذہنیت کی پیداوارہیں اور وہ معمولی اور روزمرہ سے بلند ترباطنی تجربات پرانحصارنہیں کرتی۔
حقیقت پسندی کے حوالے سے تقلیدImitation کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ادب و فن میںImitation کی اصطلاح’’ ایک دوسرے کے عمل کے مشاہدے کے زیراثر عمل کرنے کی تحریک‘‘(3) کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کا ایک معنی نقّالی یا بناوٹ بھی ہے۔ اگر ایک مصنف کسی دوسرے مصنف کے اسلوبِ بیان کی ہوبہو نقل کرے تو اسے بھی تقلیدکہاجائے گا۔ موسیقی کے فن میںImitaion کا مطلب کسی دھن میں غنائی خیال کے مختلف حصوں میں آوازوں کی تکرار کو بھی کہاجاتا ہے۔(4) کوئی نقلی یا مصنوعی چیز جسے اصلی، حقیقی اور اعلیٰ چیزوں کی مانند بنایاگیا ہو تو اسے بھی Imitation کہتے ہیں۔ نقل بمطابق اصل کے لیے ایک اور لفظ Counterfietبھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی وہ شے جو کسی اور شے کی تلبیس ہو۔(5) ڈرامے میں نقال، بہروپیے، بھانڈ، مسخرے یاخاموش اداکارکوMimic کہاجاتا ہے اور دراصل Mimicry کا مطلب نقالی یا بہروپ بھرنا ہوتا ہے۔(6)
سنگتراشی میں یہ اصطلاح بہت استعمال ہوتی ہے جہاں اس کا مطلب مٹی، موم، کاغذ یا پتھر کے ذریعے مجسمہ، سانچہ، ڈھانچہ یا نمونہ(model) بنانا ہے۔(7)
قدیم فلسفے میں تقلیدImitation مثالی کرداروں کی صنائع بدائع ،لفّاظی، فصاحت و بلاغت اور زورِ خطابت سے حقیقی تصویرکھینچنے کو کہاگیا ہے اور اس عہد میں بھی اسے ایک باقاعدہ فن کا درجہ حاصل تھا۔(8)
قدیم تاریخ میں شاعروں پر افلاطون کے نقالی کے الزام کا ذکرملتا ہے جس کے مطابق شاعرپورے سچ کا اظہار نہیں کرتے اور اس میں سے دو حصے کم کردیتے ہیں۔ ارسطو نے البتہ ادب کو نقالی کی بجائے نمائندگی قراردے کر شاعروں اور ادیبوں کی کسی قدر لاج رکھنے کی کوشش کی۔
دراصل تقلید ، صنفی معنوں میں نقل یا چربے کو بھی کہاجاتا ہے اوراس پر سب سے بڑا اعتراض بھی یہی ہے۔ تقلیدیاچربے کے مقابلے میں اوّلین، قدیم ترین اور طبع زاد کو زیادہ اعتبار حاصل ہوتا ہے۔ تخلیقیت کو تقلیدکامتضادخیال کیاجاتا ہے۔Originality دراصل تمام فنونِ لطیفہ کی جان ہوتی ہے جو ایجادات اورتخلیقیت کی بناپر کسی ادیب اور شاعر کی انفرادیت، جدّت پسندی اور نئے پن کا تعین کرتی ہے اور اس سے کسی شاعر کا اعتبارقائم ہوتا ہے۔ اس بات پر بھی البتہ بحث ہوتی رہی ہے کہ خالص یا مجرد Originality کہیں پائی جاتی ہے یا نہیں بلکہ اسے بھی غیرمحسوس اور ناقابلِ تحقیق تقلید ہی کہا جاتا ہے۔ ارسطو نے البتہ ادب کو زندگی کا عکس قراردیا۔ اس کے خیال میں ادب اشیاء اور معمولات کو وہ جیسے بھی ہیں یا جیساانھیں ہوناچاہیے، اسی طرح پیش کیے جانے کا نام ہے لیکن انیسویں صدی میں آتے آتے تقلید یاImitation کی اصطلاح ادب میں رفتہ رفتہ ترک کردی گئی جب اس کا موازنہ حقیقت پسندی میں تخیل کی کارفرمائی سے کیا جانے لگا۔(9)
ادب میںImitation کا جواز یہ بھی دیاجاتا ہے کہ حقیقت اپنی کلیت میں الفاظ کی گرفت سے باہرہوتی ہے اس لیے اس میں ہنرمندی اور تخیل کو بروئے کار لانا ہی پڑتا ہے تاکہ ادب پارہ یاکوئی بھی فنی مظہراصلیت کا تاثردے سکے۔
بیسویں صدی کے اختتام تک آتے آتے نظری تنقید میں حقیقت نگاری کی اہمیت کم سے کم ہوچکی ہے اور بعض تنقیدی دبستان تو سمجھنے لگے ہیں کہ ادب کی تفہیم کے لیے اب یہ اصطلاح اتنی کارآمد نہیں رہی اور اس کے بغیر بھی تنقیدی مباحث ہوسکتے ہیں۔(10)
حقیقت پسندی کی تحریک شعوری طورپر 1830 ء کے بعد فرانسیسی انقلاب کے بعدشروع ہوئی اور1850 ء سے لے کر1880 ء تک اس کا یورپ میں بہت چرچا رہا۔ ابتداء ہی سے اس تحریک کے پیروکاروں پراعتراضات بھی شروع ہوگئے تھے کیونکہ اس تحریک کے محرکات کو یا تو سمجھا ہی نہیں گیا یا اس کی توضیحات میں کوئی کمی رہ گئی۔ بعض ادبی حلقوں نے اسے ادب کے بنیادی شعائر کی خلاف ورزی قراردیا۔ وہ اسے انسانی فطرت کی تذلیل بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں حقیقت پرستی، غیرمعمولی، پیچیدہ، منفرد اور قابلِ تعریف کرداروں کو نظرانداز کرنے کا نام تھا۔ اس طرح ادب پارہ کسی المیے میں پوشیدہ تخلیقی ترفع سے محروم رہ سکتا تھا۔ انسان کا بے ساختہ پن مجروح ہوتاتھا اوریوں حقیقت پسندی کے نام پر اس نوعیت کا تخلیقی تجربہ جمالیاتی حظ سے خالی رہ کر صحافیانہ وقائع نگاری کی سطح سے اوپر اٹھنے کے قابل نہ رہ پاتا۔(11) اس تنقید کے باوجود حقیقت نگاری ادب کا ایک نمایاں رجحان رہا ہے اور اس کے اثرات قبول کرنے والوں میں بالزاک ستے دال اور فلابیربھی شامل ہوگئے۔ جنہوں نے فردیت اور موضوعیت کی بجائے معروضیت اور لاشخصیت کو فروغ دیتے ہوئے زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کو اپنی تحریروں میں اجاگرکیا۔ وہ ایک حقیقت نگارکے طورپر انسانی میلانات ،سماجی ماحول اور معاشرتی روایات کو کام میں لائے۔ انھوں نے اعتقادات اور فطرت کے جمالیاتی پہلوئوں کو آمیزکرکے اپنا اسلوب تراشا۔ انھوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں کو حقیقت کے قریب لانے کے لیے اپنی ذاتی یادداشتوں اور سوانحی پہلوئوں کو ان میں سمودیا تاکہ فرد اور معاشرے کی صحیح عکاسی ہوسکے۔ ایسے ناول نگاروں میں ڈکنز، گوگول، طالستائی، دوستوفسکی، مارک ٹوین اور میلول بھی شامل ہیں جنہوں نے زندگی کی تلخیوں، فرد کی بے بسی، سیاسی جبر اور سطحی پہلوئوں پرتوجہ دے کر حقیقت نگاری کو تخلیقی ترفع عطاکیا ہے۔(12)
ایسا بھی نہیں کہ حقیقت نگاری ان سے پہلے ادب میں موجود ہی نہ تھی۔ دراصل ادب سدا سے ہی زندگی کا مرقّع رہاہے، اس لیے دیومالائی قصے ہو ں یا لوک داستانیں، قدیم رزمیے ہوں یا لوک گیت ان ساری اصنافِ سخن میں آپ کو حقیقی زندگی کے مسائل کی جھلک دکھائی دے گی۔ یہاںتک کہ طلسم ہوشربا جیسی داستانوں کے فرضی واقعات اور کرداروں کی فرضی صلاحیتوں نے عہدِ جدید میں حقیقت کا روپ دھار لیا ہے اور وہ اب اتنے محیرالعقول نہیں لگتے یعنی وہ مفروضے بھی دراصل حقیقت کے حصول کی ایک کوشش ہی تھے۔ ناول میں جدیدصنف کے طورپر حقیقت نگاری کا سہرا چاہے آپ ڈیفواور فیلڈنگ کے سر باندھنے کی کوشش کرتے رہیں، ادب میں بہرحال آپ کو حقیقت نگاری کا سراغ صدیوں پہلے لکھی گئی اور ہم تک پہنچنے والی ہر تحریر میں مل جائے گا چاہے وہ نظم میں ہو یانثرمیں، وہ انسانی تحریر ہویاالہامی، اس کا تعلق فرد اور معاشرے سے ضرورنکل آئے گا۔
اردو میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کا فسانۂ آزاد اور اس کے دوسرے ناول جیسے ’جامِ سرشار‘ اور’سیرِکہسار‘حقیقت پسندی کی مثال ہیں۔ چاہے آپ انھیں جدید معنوں میں ناول ماننے سے انکار کریں تو بھی وہ حقیقت نگاری کی اردو نالوں میں اوّلیں مثالیں سمجھے جائیں گے۔ مرزامحمدہادی رسوا کا ناول امرائو جان ادا، سماجی حقیقت نگاری کا مرقع ہے اور نذیراحمد کے مقصدی اور اصلاحی ناول بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔(13)
شاعری میںبھی سارے کلاسیکی اردو شعرا میں آپ کو حقیقت نگاری کی مثالیں بغیرڈھونڈے مل جائیں گی۔ میر، آتش، مصحفی اور پھرغالب بھی اپنی تمام نفاست پسندیوں کے باوجود حقیقت نگاری سے یکسرخالی نہیں ہیںاور نظیراکبرآبادی تو اوّل وآخر حقیقت نگارہیں۔
اہم حقیقت نگار
استے دال(1783-1842) کا اصل اورپورانام میری ہنری بیلے(Marie Henry Beyle)تھا لیکن وہ معروف استے دال(Stendhal) کے نام سے ہوا۔ وہ فرانس میں گرینوبل(Grenoble) کے مقام پر ایک وکیل کے گھرپیداہوا۔ بارہ سال تک ایک پادری اسے گھرپر بطوراتالیق پڑھاتارہا۔ اس کے بعد اس کی باقاعدہ تعلیم ایک مقامی سکول میں ہوئی۔ سترہ برس کی عمرمیں وہ پیرس منتقل ہوااور بعدازاں فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اس کی عمرکازیادہ ترحصہ اٹلی میں گزرا۔ جب نپولین کو شکست ہوگئی تو وہ نئے حکومتی نظام سے سمجھوتہ نہ کرپایااور اس نے دوبارہ اٹلی کے شہرمیلان کا رخ کیا لیکن اطالوی وطن پرستوں کی ایک تنظیم سے تعلق کی بنا پر1811 ء میں اسے میلان سے نکال دیاگیا۔ یوں اسے پیرس واپس آناپڑا۔ پیرس کے ادبی حلقوںنے جنھیں سیلون (Salon) کہا جاتا ہے،اس کا خیرمقدم کیا۔ وہ کونسل کی حیثیت سے بھی کام کرتا رہا۔ اس کا انتقال پیرس ہی میں ہوا۔
استے دال کی کتاب”La Charteuse de Parme” دراصل اس کی خودنوشت سوانح عمری ہے جسے اس نے 1822 ء میں تصنیف کیاتھا۔ Racine of Shakespear” ـ” اس کی دوسری کتاب اور”Vie de Rossini” تیسری اہم تصنیف تھی لیکن اس کا پہلا باقاعدہ ناول 1827″Armance” میں شائع ہوا جو بطور حقیقت نگار اس کی شہرت کا سبب بنا۔ 1830 ء میں استے دال کا اگلا ناول”Le Rouge et le Noir” کا تانا بانا حقیقی واقعات سے بناگیاتھا۔ اس ناول کا مرکزی کردارJulien Sorel استے دال خود تھا یااس کا ایسا روپ تھا جس میں ڈھلنے کی وہ خواہش رکھتاتھا۔ محمدحسن عسکری نے اس ناول کا براہ رست ترجمہ ’’سرخ و سیاہ‘‘ کے نام سے کیا تھا۔بطورحقیقت نگار استے دال کواصل مقبولیت اس کے ڈرامے Le Charteuse de Parmeسے ملی۔ اس ڈرامے میں بطور سماجی حقیقت نگار اس نے اپنے ذاتی تجربات اورمشاہدات کو سمودیاتھا۔ اس میں اطالیہ کے درباری آداب و انداز اور اس کے طرزِمعاشرت پراثرات کو سچائی کے ساتھ منعکس کیاگیاتھا اور اس سے واٹرلو کی مشہور اور نتیجہ خیزجنگ کا نقشہ بھی آپ کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ بطور حقیقت نگار استے دال کے اسلوب کو بطورِ مثال سامنے رکھاجاسکتا ہے جو اپنے کرداروں کی انفرادی خصوصیات کے مطالعے، شخصی توانائی کے احساس اور ان کی سب کی قابلِ فہم تشریح، الفاظ کے موزوں انتخاب اور اندازِ بیان کے سبب الگ سے پہچاناجاتا ہے۔(14)
بیلنسکی(Belinsky) کی ترقی پسندانہ تحریروں اور ذاتی سرپرستی نے اسے شاہانہ اطوار کے مقابلے میں جمہوری اقدارکا حامی بنادیا۔ اس دور کے روس میں ایسے اختیارات کا حامل گردن زدنی تھا چنانچہ ان افکار کا پرچار کرنے والے حلقوں سے تعلق کی بناپر1849 ء میں اسے گرفتار کرکے اس کی پھانسی کا حکم صادر ہوا لیکن حیران کن طورپر اسے تختۂ دار سے پھانسی سے پہلے ہی اتارلیاگیااور اس کی سزا قیدبامشقت اور سائبیر یا کی طرف جلاوطنی میں بدل دی گئی۔ وہ چارسال وہاں قید رہا۔ اس کے بعد اس نے پانچ سال ایک سپاہی کے طورپر خدمات انجام دیں تب کہیں اسے پیٹرس برگ واپس آنے کی اجازت ملی۔
1849 ء میں اس کی گرفتاری اس امرکی غماز تھی کہ اس کاشمار اہم لکھنے والوں میں ہونے لگاتھا۔ اس کے تراجم اور طنزیہ مضامین نے اپنے قارئین کا حلقہ پیدا کر لیاتھا۔ اس کا ناولٹ ’بیچارے لوگ‘1849 ء میں شائع ہوچکاتھا۔ اگلے سالوں کی اذیت کوشی اور بے کسی نے اس کی حقیقت نگار ی میں ذاتی تجربات سے اور بھی زیادہ سوز و گداز اور تاثرپیداکردیا۔ اس کی تحریروں ،اس کے افکار اور اس کی زندگی پر اس کے والد کے قتل، جاگیرداروں کے جبرواستحصال، قیدوبند، وطن بدری، مرگی کی بیماری، جوئے کی لت اور ان تمام مسائل کے سبب یورپ کے سفر، قرضوں اور جائیدادوں کی قرقیوں کے اثرات بہت واضح اور گہرے ہیں۔ (15)
گستاف فلائبیر(1821-1880)(Gustave Flaubert) ایک سرجن کابیٹاتھا۔ وہ فرانس میں روئین(Roven) کے مقام پر پیداہوا ور وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ قانون پڑھنے کے لیے اس نے پیرس کا رخ کیا لیکن اسے ذاتی طورپر قانون سے کوئی رغبت نہ تھی۔ 1846 ء میں اسے اپنے والد اور بہن بھائی سے دائمی جدائی کاصدمہ سہناپڑا اور وہ پیرس چھوڑکر کروہاںسےCrosset چلاآیا اور اس کے بعدباقی زندگی وہیں گزاری۔ اس نے ساری زندگی شادی نہیں کی البتہ 1854 ء سے 1864 ء تک اس کا اس کے عہد کی ایک نامورشاعرہ لوئزکولے(Mile Louise Colet) سے دھواں دھار معاشقہ چلا۔ دونوں میں محبت بھرے خطوط کا تبادلہ ہوتارہا اور اب یہ خطوط فرانسیسی ادب کی تاریخ کاحصہ ہیں ورنہ اس کی زندگی جذبات سے بہت حد تک خالی تھی۔
1849ء میں اسے یونان اور مصرکی سیاحت کا موقع ملااور وہ ان دونوں ممالک کی قدیم ثقافت اور روایات سے بہت متاثرہوا۔ 1850 ء میں جب وہ مشرق کے سفر سے واپس لوٹا تو اس نے مادام بواری(Madame Bovary) جیسا شاہکار ناول تخلیق کیا۔ اسے لکھنے میں اس کے چھ سال صرف ہوئے لیکن جب یہ ناول سامنے آیا تو فوری طورپر مقبول ہوگیا حالانکہ اس ناول پر بہت سے اعتراضات بھی ہوئے۔ اس کے بعد اس نے سلامبو (Salammbo) پر توجہ دی جو دراصل تاریخی دستاویز ہے اور اس میں آثارِقدیمہ کا مطالعہ خاص طوپرشامل ہے۔فلائبیر اپنے زمانے کے نشیب و فراز، رسوم و رواج، اعتقادات و افکار کا ہی عکاس ہے۔ اپنی یادداشتوں اورتجربات کو اس نے اپنی ایک تصنیف”La Education Sentimentale” میں بڑی کامیابی سے استعمال کیا ہے۔
فلائبیر کی اپنی شخصیت بھی بہت مختلف اور پیچیدہ تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ ساری عمر مصائب وآلام کا شکار رہا۔اسے اعصابی کمزوری بھی لاحق تھی۔ اس کے قریبی دوست یاتووفات پاگئے یا اس کی اپنی وجہ سے اس کا ساتھ چھوڑکراسے تنہاکرگئے لیکن ان نامساعد حالات، ذہنی پریشانیوں اور جسمانی کمزوریوں کے باوصف وہ مسلسل لکھتارہا۔ اسی دوران اس کی کتاب “La Tentation de Saint Antoine” منظرِ عام پرآگئی۔1877 ء میں اس کی تین کہانیوں کا مجموعہ “Trios Contes” شائع ہوا۔ اس کی آخری کتاب”Bouvard et Pecuchet“تھی جسے وہ خود اپنا شاہکار سمجھتاتھا۔ اس کی صحت توپہلے ہی کمزورہوچکی تھی۔ آخرکار مرگی کے حملے میں وہ جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔
فلائبیر میں شرمیلے پن اور حساسیت کے ساتھ ایک نوع کی نخوت بھی تھی۔اسے اپنے دوست اپنے آپ سے کمترلگتے تھے اوروہ ان کی کم مائیگی، شکل و صورت اور عادات واطوار کا مضحکہ اڑایاکرتا تھا۔شاید یہ بھی اس کی حقیقت پسندی کا ہی ایک رخ ہو لیکن اس کا اسلوب جچاتلا اور اندازِ بیان زور دار ہوتاتھا اس لیے وہ ایک رومانی حقیقت پسند کے طورپر ادب کے میدان میں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔(16)
ہنورڈی بالزاک(1799-1850)(Honore De Balzac) کا شمار انیسویں صدی کے مشہورفرانسیسی ناول نگاروں میں ہوتاہے۔ باپ کی خواہش پر اس نے وکالت کی توسہی لیکن اس پیشے کو دل سے قبول نہ کرسکا۔ اسے بطور سزا گزربسر کے لیے معمولی رقم دے کر ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اکیلا چھوڑ دیاگیا۔ انتہائی مایوسی اور افسردگی کے ان دنوں میں بالزاک نے ناول اور المیہ کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا۔1820 ء سے 1822 ء کے دوران میں اس ماحول میں لکھی ہوئی تخلیقات کا مجموعہ Oeuvres de Jeunesse ہے۔ تب تک وہ ایک ناکام، گمنام اور مقروض شخص تھا۔ یہاںسے وہ برٹینی (Britany) چلا گیا اور اس نے ایک باغیچے کو اپنابسیرا کرلیا جو فائگرس (Fougeres) کے قریب واقع تھا۔ اس کا پہلا سنجیدہ ناول Les Chovans تھا جس میں دیہاتی ماحول اور طرزِ معاشرت کی منظرکشی کی گئی تھی۔ واقعیت نگاری میں انسانی زندگی، تلخی اورالمیے کی آمیزش اس ناول کا خاص پہلو تھا۔ حقیقت نگاری رومانویت کے متضادخیال کی جاتی ہے۔ اس کا اظہار اس کی کتابPhysiologie of Marraige میں ہوتا ہے۔
بالزاک نے مقروض ہوتے ہوئے بھی اپنی تمام تحریروں کو”La Comedie Humaine” کے عنوان سے خود ہی شائع کیا جس میں شہروں اور قصبوں کی عمومی، سیاسی، معاشرتی اور فوجی طرزِ زندگی کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی گئی ہے۔ اس کے کردار ہمیں چلتے پھرتے عام انسانوں کی طرح متحرک دکھائی دیتے ہیں جو اپنی جسامت، لباس، پیشے اور سکونت کے اعتبار سے اپنی انفرادی پہچان رکھتے ہیں۔ اس کے کردار تخیلاتی ہوتے ہوئے بھی حقیقی ہیں۔ اس کے اسلوب میں طوالت، تفصیلات اور بیانات، اس کے گہرے مشاہدے اور مزاج کی گہرائی کا خارجی اظہار سمجھے جاتے ہیں۔(17)
اقبال کی حقیقت نگاری
اقبال کو ہم اوّل و آخر ایک حقیقت نگار بلکہ واقعیت نگار تک کہہ سکتے ہیں۔ انھیں ان کی زندگی ہی میں ترجمانِ حقیقت کا خطاب ان کے پڑھنے والوں نے یونہی نہیں دیاتھا۔ ہمیں اقبال کی شاعری مقالات، بیانات، شذرات اور مکالمات میں حقیقتِ حال یا حقیقت کی تلاش کے علاوہ اورکچھ ملتا ہی نہیں ہے۔ حقیقت کی عکاسی اورحقیقت کی جستجو ان کے مزاج کا حصہ تھی: ع رہی حقیقتِ عالم کی جستجو مجھ کو(بانگِ درا؍کلیاتِ اقبال،ص108/92- )
اس لیے ان کے ہاں حقیقت نگاری اپنے تمام پہلوئوں، زاویوں اور مرحلوںسمیت جلوہ گر ہے۔ حقیقت نگاری کا بنیادی واسطہ انسان اور انسانی زندگی سے ہے۔ وہ انسان کی انفرادیت اور اہمیت کی حقیقت جانتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ’’ہرایک انسان اپنی جگہ ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اور کسی کاوجود بے کار نہیں ہے لیکن اس حقیقت کا پتا اس وقت چلتا ہے جب ہمیں کسی شخص سے اچھی طرح سابقہ پڑے اور ہم اسے قریب سے دیکھیں۔‘‘(18) موت اپنی جگہ برحق سمجھی جاتی ہے لیکن اقبال کے نزدیک’’موت کا کوئی وجود نہیں، اصل حقیقت زندگی ہے، موت نہیں۔‘‘(19) دوسری طرف وہ موت کو بھی زندگی کے حوالے سے ہی سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور مرنے والوں سے موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں دنیاوی زندگی کے حقیقی مسائل کے حوالے سے استفسار کرتے ہیں ؎
اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے
روح کیا اُس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟
کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے، خرمن بھی ہے؟
قافلے والے بھی ہیں، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟
تنکے چنتے ہیں وہاں بھی، آشیاں کے واسطے؟
خِشت و گِل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟
( کلیات اقبال،ص70- )
اور کس دردمندی سے یہ سب وہ ایک مصرعے میں سمودیتے ہیں۔ ع
اس جہاں کی طرح واں بھی دردِ دل ہوتا نہیں؟
( کلیاتِ اقبال،ص71- )
اور اسی درد کی ایک سچے حقیقت نگار کی طرح تصویرکھینچتے ہوئے وہ جیسے خود حقیقت نگاری کا بنیادی اصول بیان کرتے ہیں۔ ع
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے
( کلیاتِ اقبال،ص99- )
اور وہ محض دیکھتے نہیں ہیں بلکہ خودمنظر کا حصہ بن جاتے ہیں ؎
گلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
( کلیاتِ اقبال،ص124- )
حقیقت نگار کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ماضی کی نقّالی نہیں کرتا بلکہ زمانۂ حال میں رہتا ہے اور مستقبل پرنظررکھتا ہے ؎
ذرا دیکھو کہ جو کچھ ہورہا ہے ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں
( کلیات اقبال،ص100- )
اور اسی مضمون کے ایک اور زاویے سے بیان میں پرجلال مظاہرِ فطرت کے حوالے سے فطرت پسندی اور حقیقت نگاری کس تخلیقی ترفع کے ساتھ آمیز ہوئی ہیں جیسے کہ دونوں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہوں ؎
دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا؟
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا؟
( کلیات اقبال،ص427- )
اسے مفکرانہ حقیقت نگاری کا مرقع نہیں تو اور کیا کہیں گے اور اگر مستقبل میں وہی ہو جائے جس کا ادراک کوئی وقت سے پہلے کرلے تو سمجھئے کہ اس شخص کی حقیقت نگاری پر مہرتصدیق حالات و واقعات نے ثبت کردی۔روزنامہ انقلاب کے10 دسمبر1931 ء کے شمارے کے مطابق اقبال نے کیمبرج یونیورسٹی میں آج سے پچیس برس پیشتر اس تہذیب کی یہ خرابیاں دیکھی تھیں تو اس کے انجام سے متعلق پیش گوئیاں کی تھیں’’…اگرچہ میں خود بھی ان کا مطلب نہیں سمجھتاتھا…یہ 1907 ء کی بات ہے۔ اس سے چھ سات سال بعدیعنی1914 ء میں میری یہ پیش گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوگئیں۔ 1914 ء کی جنگِ یورپ دراصل اہلِ یورپ کی اس غلطی کا نتیجہ تھی…یعنی مذہب و حکومت کی علیحد گی اور دہریانہ مادیت کا ظہور…بالشویزیم مذہب و حکومت کی علیحد گی کا ایک طبعی نتیجہ ہے…‘‘(20) یہ حقیقت پسندی کی معراج ہے کہ پیشین گوئیاں حقیقت بن جائیں۔ اس طرح کی ایک اور پیشین گوئی علامہ اقبال نے اپنے شعروں میں یوں کررکھی تھی ؎
کشیری کہ با بندگی خود گرفتہ
بتے می تراشد زسنگ مزارے
بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیبِ تنش جامۂ تار تارے
ازاں می فشاں قطرۂ بر کشیری
کہ خاکسترش آفریند شرارے
( کلیات اقبال فارسی،ص271- )
یہ نظم پیامِ مشرق میں 1923 ء میں شائع ہوئی تھی اور کمال یہ ہے کہ1924 ء کی تحریکِ کشمیر کا آغاز ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں کی ہڑتال اور بغاوت سے ہوا۔(21) اسی طرح اقبال ہی کے قلم سے نکلاتھا کہ ؎
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
( کلیات اقبال،ص396- )
اورآل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہٰ آباد میں۱۹۳۰ء میں اقبال نے اپنی تقریرمیں کہاتھا کہ:
’’سندھ کی پشت ہندوستان کی طرف ہے اور منھ وسطِ ایشیاء کی جانب۔ علاوہ ازیں اگرسندھ کے ان زراعتی مسائل جن سے حکومت بمبئی کو مطلق ہمدردی نہیں اور اس کی بے شمارتجارتی صلاحیتوں کا لحاظ رکھ لیاجائے۔ اس لیے کہ کراچی بڑھتے بڑھتے ایک روزلازماًہندوستان کا دوسرا دارالسلطنت بن جائے گا تو صاف نظرآتا ہے کہ اس کو احاطۂ بمبئی سے ملحق رکھنا مصلحت اندیشی سے کس قدردور ہے…‘‘(22)
اور آج کا کراچی آپ کے سامنے ہے ۔کیا اس شہرکاشمار برصغیر کے معاشی اعتبار سے دوچار اہم ترین شہروں میں نہیں ہوتا اور کیا یہ پاکستان کا دارالخلافہ نہیں رہا۔تاریخی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقبال نے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کیسی بصیرت افروز بات کہی تھی:
’’تاریخ کا فیصلہ ہے کہ حائلی مملکتیں عظیم سیاسی وحدتوں کی صورت اختیارکرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ملک شام جو سلطنت ِرومااور اہلِ فارس کے درمیان ایک حائلی مملکت تھا ۔اس صورتِ حال سے دو چار رہا ،لہٰذا افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی دشوار ہے۔‘‘(23)
یعنی اقبال اگر آئندہ کی بات کرتے ہیں تو روشنی گزشتہ سے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا نکتۂ نظر عقلی، استدلالی اور تجزیاتی ہوتا ہے۔1929 ء کے آغاز میں افغانستان میں غازی امان اللہ خان کے خلاف شورش نے سراٹھایا اور وہاں بچہ سقّہ کی حکومت قائم ہوگئی لیکن جیسا کہ وہاں کی تاریخ کاانداز ہے، خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اقبال نے امان اللہ خان کی ناکامیوں کا ایک سبب اصطلاحات نافذکرنے میں عجلت اور فوج کی طرف توجہ کرنے میں غفلت کو قرار دیا(24) ۔ ان اصطلاحات کا مقصد وہاں کے مسلمانوں کی حقیقی ترقی تھا لیکن اقبال کے خیال میں یہ ترقی دنیا کے ملائوں کے نظریہ کے خلاف تھی۔ اقبال جانتے تھے کہ افغانستان کا ملّا شور بازار اس شورش کا سرغنہ تھا حالانکہ اس نے خوداصطلاحات کی اس دستاویز پر جسے’نظام نامہ‘کہاگیاتھا، دستخط کئے تھے۔ اقبال نے اس صورتِ حال سے یہ حقیقت پسندانہ نتیجہ اخذ کیا کہ’’اس امر کے یقینی ہونے میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمِ اسلام میں قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل خیالات میں جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اغلب ہے کہ قدامت پرست اسلام بغیرجدوجہد کے سرِ تسلیم خم نہیں کرے گا۔‘‘(25)
1929ء کے بعد سے لے کر آج تک کے حالات دنیا کے سامنے ہیں۔ اقبال نے1929 ء میں جس خدشے کا اظہار کیاتھا وہ اپنی انتہائی شدت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے اور لڑکیوں کے سکولوں کواڑانے، سرِعام کوڑے مارنے، سرکاٹنے، بتوں کو نیست و نابود کرنے کے واقعات کے ساتھ ملائوں کی شورش اپنی تمام انتہاپسندی کے ساتھ افغانستان اور قبائلی علاقوں میں جاری ہے جو دراصل اسلام کے قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل اندازِ نظر کے درمیان خونی کشمکش سے عبارت ہے اور اس کا اختتام مستقبل قریب میں ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
حقیقت نگاروں کے بارے میں یہ بات عام طورپرکہی جاتی ہے کہ وہ واقعات، حقائق اور مناظرِ فطرت کو اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں اور دکھاتے ہیں۔ یہ بات اقبال پربہت حد تک صادق آتی ہے۔ اقبال نے میتھیوآرنلڈ کے اس خیال کو کہ شعر تنقیدِ حیات ہے کو یوں قبول کیا ہے کہ’’ یہ بات بھی یکساں طورپر درست ہے کہ خودحیات تنقیدِ شعر ہے۔‘‘(26) شعر کی زبان میں اقبال نے اسے یوں بیان کیا ہے ؎
ای میانِ کیسہ ات نقدِ سخن
بر عیارِ زندگی او راہزن
( کلیاتِ اقبال فارسی،ص55- )
اقبال اس بارے میں اس قدر انصاف پسند ہے کہ اپنے آپ کو بھی اپنے نکتہ چینوں میں شمارکرتا ہے۔ اقبال نے خوداپنی کردارنگاری کی ہے اور اس بارے میں بھی حقیقت پسندی سے کام لیا ہے۔ اس بارے میں نظم’زہد اور رندی‘ مکمل طورپرپڑھنی چاہیے اور اقبال کے پورے کلام میں وہ اشعارتلاش کرنے چاہئیں جن میں وہ واحدمتکلم کے طورپراپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں ؎
ہیں ہزاروں اس کے پہلو، رنگ ہر پہلو کا اور
سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں
دل نہیں شاعر کا ہے کیفیتوں کا رست خیز
کیا خبر تجھ کو درونِ سینہ کیا رکھتا ہوں میں
( کلیاتِ اقبال،ص149- )
لیکن ان سارے پہلوئوں کے ہوتے ہوئے بھی اقبال جذبات کی رو میں بہناایک کھرے حقیقت نگار کی طرح نہیں جانتا اور بہرطور اپنی شخصیت اور اپنی فکر میں توازن قائم کرنے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ نظم’شکوہ‘ کے بعد’جواب شکوہ‘ اس کی ایک واضح مثال ہے۔اگرچہ اقبال کی شاعری کی ابتداء کلاسیکیت سے ہوئی تھی اور اس میں نوجوانی کے دور کی رومانویت بھی ملتی ہے لیکن دیکھئے کہ اس میں بھی وہ انسانی فطرت کے کس قدر قریب رہتے ہیں ؎
حسن کی تاثیر پر غالب نہ آسکتا تھا علم
اتنی نادانی جہاں کے سارے دانائوں میں تھی
( کلیاتِ اقبال،ص165- )
اقبال نے خود اپنی شخصیت کو دو حصوں میں بانٹ رکھاتھا۔ ان کا کہناتھا کہ ’’میری ذات میں دو شخصیتیں جمع ہیں۔ ظاہری شخصیت عملی اور کاروباری ہے، اور باطنی شخصیت ایک فلسفی، صوفی اور خواب دیکھنے والے کی ہے۔‘‘(27) ڈاکٹرافتخاراحمدصدیقی نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ’’اگرچہ بقول اقبال ان کی ظاہری شخصیت کا تعلق مادی زندگی کے حقائق وواقعات سے اور باطنی شخصیت کا تعلق زندگی کے اعلیٰ نصب العین و تصورات سے ہے لیکن ان دونوں پہلوئوں میں بڑی حد تک ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ظاہری شخصیت کی حقیقت پسندی باطنی شخصیت کے تصورات کے لیے ٹھوس بنیادیں مہیا کرتی ہے…اسی طرح باطنی شخصیت کا سوزوساز، مادی زندگی کی تلخیوں کو گوارابناتا ہے۔‘‘(28)
مندرجہ بالا اقتباس اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اقبال ہیں تو حقیقت پسند لیکن اوروں سے ذرا مختلف قسم کے حقیقت پسند ہیں۔ ان کے لیے کوئی اور اصطلاح وضع کرنا پڑے گی جس میں حقیقت نگاری کا حوالہ بھی موجود ہو۔ زندگی کے اعلیٰ نصب العین اور تصوریت اقبال کو’ مثالیت پسند حقیقت نگار‘کے درجے پر فائز کرتی ہے کہ جو دنیاوی حقائق کے ادراک کے ساتھ انسان کوارتقاء کے اعلیٰ ترین مدارج پر دیکھنا چاہتا ہے ؎
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے
( کلیاتِ اقبال،ص87- )
یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن، محبوبِ فطرت ہے
( کلیاتِ اقبال،ص100- )
رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
( کلیاتِ اقبال،ص421- )
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
( کلیاتِ اقبال،ص428- )
ایک مثالیت پسندحقیقت نگار کے طورپراقبال بطور شاعر اپنی ذمہ داری اور مقام سے آگاہ تھا۔ ’شاعرِ رنگین نوا‘کو ’دیدۂ بینائے قوم‘سمجھنے کے علاوہ بھی اسے شعر کی دسترس اور شاعر کے مقام کی حساسیت کا ادراک تھا۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ ایک انحطاط پسندفن کار کسی قوم کے لیے چنگیزاور ہلاکو کی فوجوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔وہ شعری تجربے کوالہامی قراردیتے ہوے قوموں کی روحانی صحت اس ’الٰہام‘کی نوعیت کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ جس کا نزول اس قوم کے شاعروں اور فنکاروں پرہوتا ہے۔
یعنی اقبال کے نزدیک شاعرکاکردار دوسروں کے لیے مثالی ہوناچاہیے تاکہ قوم کی زندگی اس کے افکار کی روشنی میں پروان چڑھے۔ ان کے خیال میں شاعری زندگی اور شخصیت کا محض اظہار ہی نہیں اس کے تابع ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اقبال خود بھی شاعراور شاعری کو مثالیت اور حقیقت کا امتزاج سمجھتے تھے ؎
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفس ہندی ، مقامِ نغمہ تازی
نگہ ، آلودۂ اندازِ افرنگ
طبیعت غزنوی ، قسمت ایازی
( کلیاتِ اقبال،ص407- )
اقبال کا ایقان تھا کہ صداقت اور حقیقت فن کے لیے لازمی ہیں۔ ان کے ہاں اسی لیے بناوٹی باتیںاور ملمع کاری نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو شاعری کا مخاطب اس شاعری سے متاثرنہیں ہوتااور اگرہوتا بھی ہے تو وقتی طورپر۔ اس کا اثر دائمی نہیں ہوتا۔ اقبال کی نظم ’شمع و شاعر‘کانفسِ مضمون یہی ہے کہ شاعرکے لیے ضروری ہے کہ وہ جس خیال کو منظوم کرے، اس کی حقیقت کو واضح کردے اور جو کچھ کہے دردمندی سے کہے۔ بانگِ درا کی نظموں ’تصویردرد‘ اور ’صدائے درد‘اسی دردمندی اورسوزساز کا مرقّع ہیں ؎
سرزمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا یاں تو اک قربِ فراق انگیز ہے
( کلیاتِ اقبال،ص74- )
اقبال نے صدائے درد میں’شاعرِ معجز نما‘کو’دانۂ خرمن نما‘ کہا لیکن خرمن کے بغیر شاعرکی ہستی سے ہی انکارکردیا اور اس نظم کا اختتام اس شعر پر کیا ؎
کب زباں کھولی ہماری لذّتِ گفتار میں
پھونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے
( کلیاتِ اقبال،ص74- )
’تصویردرد‘دراصل صدائے درد ہی کا تسلسل ہے۔ اس نظم میں بھی شاعر نے خودکواس مے خانۂ ہستی میں ہرشے کی حقیقت کہا ہے۔ یہ نظم اقبال کے اس دور کی ہے جب اقبال حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ وہ فطرت کے بہت سے راز ہائے سربستہ کو سمجھنے کا آرزومند تھا۔قدرتی مناظر اور مظاہرِ فطرت کے اسرارسے وہ تقریباًگزرآیا تھا۔ اب اسے انسان کی بے بسی کا احساس بھی ستانے لگا تھا اور وہ دستور زباں بندی کی شکایت کرنے لگا تھا اور اسی نظم میں وہ یہ بھی کہتے سنائی دیتا ہے کہ ؎
سکوت آمیز طولِ داستانِ درد ہے ورنہ
زباں بھی ہے ہمارے منھ میں اور تابِ سخن بھی ہے
( کلیاتِ اقبال،ص103- )
خودکوحقیقت نگاروں کی طرح سراپا درد اوراپنی داستاں کو حسرت بھری کہتے ہوئے اقبال کو’حیاتِ جاوداں‘اور’مرگِ ناگہاں‘ دونوں کے حوالے سے اپنی لاچاری کے اس احساس کے باجود خیال ہے کہ ؎
جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں
( کلیاتِ اقبال،ص264- )
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
خوگرِ پرواز کو پرواز پر ڈر کچھ نہیں
موت اس گلشن میں جز سنجیدنِ پر کچھ نہیں
( کلیاتِ اقبال،ص263- )
اقبال اپنی نظم تصویردرد کے ایک بند میں اپنے عزم کا اظہارایک مثالیت پسنداور صاحبِ فکر وعمل کے طورپرکرتا ہے۔ اس بند کی ردیف’کرکے چھوڑوں گا‘ ان کی بطورشاعراپنی شخصیت پر یقین کی غماز ہے ؎
جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل میں سوزِ پنہاں کو
تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
( کلیاتِ اقبال،ص100- )
حقیقت کی تلاش کے لیے یہ تجسس ان کی پہلی نظموں’پرندے کی فریاد‘اور’ایک آرزو‘میں بھی نمایاں ہے۔
اقبال رنج و غم سے طبیعت کوبوجھل نہیں کرتا بلکہ دکھوں اورتلخیوں کے ادراک سے ان میں رفعتوں کا احساس پیداہوتا ہے۔ اپنی نظم نوائے غم میں وہ کہہ اٹھتا ہے کہ ع
میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے
بلکہ وہ تو درد کے حوالے سے ابدیت اور ہمیشگی کے حصول کی خواہش رکھتا ہے ؎
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب! وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
( کلیاتِ اقبال،ص349- )
انسان کے حالات کی سختی اس کے نزدیک ایک حقیقت ضرور ہے ؎
کوئی نہیں غم گسارِ انسان
کیا تلخ ہے روز گارِ انسان
( کلیاتِ اقبال،ص153- )
لیکن وہ غم کو اپنے حواسوں پر طاری ہونے نہیں دیتا اور انھیں بعض اوقات صرف چھُو کر ہی گزر جاتا ہے۔ نوائے غم میں ہی وہ کہہ رہا ہے کہ ع نغمۂ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے اور دوسری طرف ایک غزل میں اس کا مصرع ہے کہ ع اک ذرا افسردگی تیرے تماشائوں میں تھی(کلیاتِ اقبال، ص165-)پہلے مصرعے میں یاس کی صدا دھیمی ہے اور دوسرے میں افسردگی بس اک ذرا سی ہے اور توجہ تماشو ںپر ہے یعنی ایک نوع کی اثباتیت اقبال کے ہروقت زیرِ نظر رہتی ہے اور اسی رو میں اقبال اللہ تعالیٰ سے بھی یہ سوال کربیٹھتا ہے ع
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟
( کلیاتِ اقبال،ص356- )
شاید اثباتیت بھی حقیقت پسندی ہی کا ایک پہلو ہے کہ اس کے بغیر زندگی لایعنی ہوجاتی ہے جبکہ حقیقت پسندی بہرحال زندگی آمیزاور زندگی افروز ہوتی ہے یا اسے ایساہوناچاہیے لیکن استثنائی طورپر کہیں ایک آدھ بار اقبال کی حقیقت پسندی سفاک بھی ہوجاتی ہے جیسا کہ اس کے اس خیال سے ظاہر ہورہا ہے:
’’انصاف ایک بیش بہاخزانہ ہے لیکن ہمیں لازم ہے کہ اسے رحم کی دستبرد سے محفوظ رکھیں۔‘‘(29)
لیکن اس خیال میں بھی معاشرے کو کسی نظم و ضبط کے تابع رکھ کر اسے مستحکم و مربوط رکھنے کی اثباتیت (Positvism) اورعملیت پسندی (Pragmatism) جھلکتی ہے۔ اس قول پر ذرا سا اور غورکیاجائے تو اس میں معاشرے کے حوالے سے اجتماعی فلاح اور خیرکی برتری کی خواہش بھی زیریں رو کے طورپرموجود ہے اور اس طرح یہ اندازِ نظر مثالیت پسندانہ حقیقت نگاری کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔
ترقی پسندوں کے ہاں جس طرح کی سماجی حقیقت نگاری کا چرچا رہا ہے اس طرف بھی اقبال کی توجہ اسی حوالے سے رہی ہے کہ معاشرے میں کسی طرح معاشی انصاف اور مساوات کا بول بالا ہوسکے۔ شعراء میں اس طرف اغلباً اقبال نے ہمارے ہاںسب سے پہلے توجہ کی تھی اور اس کی سب سے پہلی تصنیف یا تالیف ہی ’علم الاقتصاد‘ہے جو اردو میں بھی اس مضمون کی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب میں قومی معیشت، زمین، محنت، سرمایہ، مسئلہ قدر، منافع، اجرت، مالگزاری، لگان، سود، آبادی اور بین الاقوامی تجارت جیسے موضوعات پرقلم فرسائی کی گئی ہے۔یہی موضوعات اقبال کی شاعری میں کس قدر سرایت کرچکے تھے اس کا اندازہ اقبال کی نظموں کے عنوانات ہی سے لگایاجایاسکتا ہے۔خضرِراہ کے ذیلی عنوانات میں’سرمایہ و محنت‘شامل ہے۔ پیامِ مشرق کے حصے ’نقشِ فرنگ‘میں بھی قسمت نامہ’ سرمایہ دار و مزدور‘اور’نوائے مزدور‘کے نام سے دو نظمیں شامل ہیں۔ ہیگل اور موسیولینن و قیصرولیم بھی اقتصادیات اور اس کے ذریعے معاشرتی انصاف میں اقبال کی دلچسپی کوظاہرکرتی ہیں۔ ’جاویدنامہ‘میں’ فلک عطارد‘کے تحت’اشتراک و ملوکیت‘بھی اسی رجحان کی عکاس ہے اور اقبال میں یہ رجحان ابتداہی سے تھا جیسا کہ ’علم الاقتصاد‘کے سنِ اشاعت سے ظاہر ہے اور بانگِ درا کے ظریفانہ کلام سے بھی جہاں اقبال ہماری توجہ اس امر کی طرف دلاتا ہے کہ ع ’دیکھیے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک‘اور محنت و سرمایہ کی دنیا میں صف آرائی کا تذکرہ کرتا ہے۔ اسی حصے میں مزارع و مالک میں تکرار بھی اقبال کی نگاہ میں ہے اور اس کی نگاہ ایک متوازن حقیقت پسند کی نگاہ ہے۔ ’بالِ جبریل‘میں’لینن(خدا کے حضورمیں)، ’فرمانِ خدا (فرشتوں سے)‘، ’پنجاب کے دہقان سے‘اور’ضربِ کلیم میں سیاسیاتِ مشرق و مغرب کے حصے میں اشتراکیت، کارل مارکس کی آواز اور بلشویک روس کے ساتھ ساتھ، ابلیس کی مجلسِ شوریٰ بھی اسی سلسلے کی نظم ہے جس سے ’ارمغانِ حجاز‘کاآغازہوا ہے۔
اقبال کی مندرجہ بالانظموں اور دیگرنثری آثار میں سے بہت سے اقتباسات اقبال کے اشتراکیت اور اس حوالے سے سماجی حقیقت نگاری کی مثالوں کے طورپر پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن اقبال بطور حقیقت نگار مثالیت پسند ہوتے ہوئے بھی شدت پسند نہ تھے۔ ان کی رائے معتدل اور ان کا اندازِ نظر متوازن رہتاتھا۔ وہ بغیرکسی عقلی توجیہہ کے کسی بھی نظریے، رجحان یا تحریک کو من و عن یا جزوی طورپربھی قبول نہیں کرتے تھے۔ حقیقت پسندی کی تعریف میں یہ پہلو شامل ہے کہ کوئی امر یا کوئی مظہرجوایک شخص کی نظر میں حقیقت ہو اسے ساری دنیا کاحقیقت تسلیم کرناضروری نہیں ہے۔ یہ حقیقت پسند مظاہر، عناصر، امور، معاملات اور واقعات اپنی نظر سے دیکھ سکتا ہے اور چاہے تو دنیاکی توجہ اس طرف مبذول کرواسکتا ہے۔ چنانچہ اقبال بھی دنیا کی حقیقتوں کو اپنی نظر سے دیکھتا، ان کا تجزیہ کرتااور اپنے انداز میں پیش کرتا ہے۔ اشتراکیت کے نظریے کے غیرجانبدارانہ تجزیے اور اس کے بار ے میں اپنا نتیجہ اخذ کرنے کی مثالیں آپ کو اقبال کے کلا م، خطبات ، تقاریر اور مکالموں میں مل جاتی ہیں۔ ان کا ذکراشتراکیت کے حوالے سے اسی باب میں ہوجائے گا بہرحال یہ طے ہے کہ اقبال کی حقیقت پسندی میں غیرجانبداری، صداقت شعاری، انصاف پسندی، حق گوئی اور بے باکی بھی داخل ہے اور وہ بلندبانگ نعروں، مشینی رجحانات اور گمراہ کن تاویلات سے متاثرہوئے بغیر اپنا نکتۂ نظرسرِ عام بیان کرتا ہے اور دہراتارہتا ہے ؎
زمامِ کار اگرمزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
( کلیاتِ اقبال،ص374- )
o
الٰہی تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے درویشی بھی عیاری
( کلیاتِ اقبال،ص372- )
بالِ جبریل میں اقبال کی ایک بے مطلع غزل ع یارب! جہانِ گزراں خوب ہے لیکن،سے شروع ہوتی ہے اور ؎ چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبال، کرتاکوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند‘پرختم ہوتی ہے ۔یہ غزل اقبال کی اسی حق پرستی اور صداقت شعاری کا اظہار ہے ؎
درویشِ خدا مست ، نہ شرقی ہے ، نہ غربی
گھر میرا ، نہ دلی ، نہ صفاہاں نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات ، سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلۂ مسجد ہوں ، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دما وند
( کلیاتِ اقبال،ص356-357- )
حقیقت پسندی یوں تو روزِ ازل سے انسانی اظہار و بیاں کے ہرانداز میں پائی جاتی ہوگی تاہم باقاعدہ تحریک کے طورپر حقیقت پسندی ابتداً افسانہ نویسوں اور ناول نگاروں نے شعوری طورپر اسلوب کے طورپراختیارکی تھی۔ عالمی فکشن میں حقیقت نگاری پلاٹ یعنی واقعات اور کرداروں کے حوالے سے پروان چڑھی۔ پہلے کردار نگار ی کے حوالے سے اقبال کی شاعری کا جائزہ لیں تو خوداقبال ہی اپنی شاعری کا واحدمتکلم ہے اور ایک حقیقی کردار ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب آپ اقبال کی نظموں اور یہاں تک کہ غزلوں کا بنظرِغائر جائزہ لیں تو ان گنت تاریخی اور حالیہ حقیقی کرداروں کا ذکر ہی نہیں ملے گا بلکہ وہ انفرادی طورپر اور مشترکہ طورپرکئی نظموں کے محرّک ہوں گے۔ان میں سے چند کردار بانگِ درا کے حوالے سے ترتیب وار یوں ہوں گے: مرزاغالب، سرسیداحمدخان، بلالؓ، داغ، سوامی رام تیرتھ، عبدالقادر، رام، فاطمہ بنت عبداللہ، غلام قادر روہیلہ، شبلی و حالی، صدیق ؓ، والدہ مرحومہ، عرفی، نانک، شیکسپیئر، ہمایوں، معتمد اور طارق بن زیاد ۔
بالِ جبریل میں ترتیب وار ان کرداروں پرنظمیں ہیں:
جاویداقبال، نپولین، مسولینی، نادرشاہ افغان، خوشحال خان خٹک، خاقانی، مرزابیدل، ابوالعلیٰ معرّی اور قارون۔
ضربِ کلیم میں بھی کرداروں کے حوالے یوں ہیں:
محمدعلی باب، سلطان ٹیپو، حکیم نطشہ، جاوید، رومی، مرزابیدل، کارل مارکس، مسولینی، محراب گل خان۔
ارمغانِ حجاز میں بھی سراکبرحیدرآبادی، مسعودمرحوم، حسین احمد کے نام سے تین کرداری نظمیں موجود ہیں۔
کلیاتِ اقبال فارسی میں بھی افلاطون، علی مرتضیٰؓ، سیدمخدوم علی ہجویریؒ، میرنجات نقشبند المعروف باباجی صحرائی، شہنشاہ عالمگیر، بوعبیدہ وجابان، سلطان مراد، فاطمۃ الزہراؓ، مصطفیٰ کمال پاشا، شوپن ہائر، ہیگل، برگساں، لینن وقیصرولیم، زرتشت، گوتم، مسیحؑ، طالستائی، محمدؐ، ابوجہل، حلّاج، طاہرہ، سیدعلی ہمدانی ؒ، ملا طاہرغنی کشمیری، ابدالی، نادر سلطان شہید، جاوید ، حکیم سنائی اور سلطان محمودغزنوی کے کردارملتے ہیں۔
ان کرداروں کے علاوہ غزلوں، رباعیوں، قطعات اور مثنویوں میں اظہار میں دلائل و براہین کی خاطر یا علامتوں کے طورپر جابجا نہ صرف انسانی کردار بلکہ ماورائی کرداروں کے ساتھ ساتھ دنیابھر کے ممالک یا تہذیبوں، شہروں، مقامات اور عمارات کا تذکرہ اقبال کا روز مرّہ اور محاورہ ہیں۔ جس طرح اشخاص پر نظمیں ہیں اسی طرح عمارات پر بھی اقبال نے بہت سی نظمیں لکھی ہیں جن میں سے مسجدِقرطبہ پر ان کی نظم شاہکارسمجھی جاتی ہے جس کی دوسری مثال اردوشاعر ی میں نہیں ملتی۔
اقبال کے کرداروں میں پرندے بھی بطورعلامت شامل ہیں۔ شاہین، اقبال کاایک لافانی کردار ہے جس کی خوبیاںنقا دانِ فن بار بار اپنے مضامین میں دہرا چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کبوتر، کنجشکِ فرومایہ، گلہری، جگنو، بلّی، مکڑا اور مکھی، گائے ، بکری، پروانہ، شیر، خچر، چیونٹی بھی اپنے کرداروں کی خوبیوں اور خامیوں سمیت موجود ہیں۔ اقبال کی حقیقت نگاری کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایسے کرداروں کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جو صرف کردار ہیں۔ ایسے کردار جن سے اقبال نے خطاب کیا ہے یا ان کے کردار پرعلامتی انداز میں دردمندی سے قلم اٹھایا ہے۔ ایسے کرداروں میں خودشاعر، طفلِ شیرخوار، آدم، مسافر، طلبائے علی گڑھ ، وہ جس کی گو دمیں اقبال نے بلی دیکھ کر نظم کہی، سلیمیٰ،عاشقِ ہرجائی، انسان، وہ جس سے پھول کا تحفہ ملا، مدینے کے راستے میں ایک حاجی، جوانانِ اسلام، سلطان، درویش، فقیر، پھولوں کی شہزادی، دریوزۂ خلافت، ایک نوجوان، ملّا، پیر، مرید، دہقان، تاتاری، پیرزادے، شیخِ مکتب،فلسفہ زدہ سید زادہ، ہندی مسلمان، صوفی، مردانِ خدا، کافر، مومن، پنجابی مسلمان، امرائے عرب، زمانۂ حاضر کا انسان، اقوام مشرق، مصلحینِ مشرق، طالبِ علم، مہمانِ عزیز، اساتذہ، مردِ فرنگ، عورت، اہلِ ہنر، یہود، ابلیس کے مشیر، بڈھابلوچ، معزول شہنشاہ، دوزخی،لردِفرنگی اور اس کا پسر اور بحری قزاق شامل ہیں جن کی اقبال نے شاعر ہوتے ہوئے بھی تخلیقی سطح پر سچی تصویریں کھینچی ہیں۔ اقبال نے نظموں کے موضوعات انھی حقیقی، جیتے جاگتے، چلتے پھرتے کرداروں، تاریخ کے اتارچڑھائو، روزمرہ واقعات اورفطرت کے عناصر سے کشید کیے ہیں اور انھیں کے گرداپنے کلام کا تانابانا مرتب کیا ہے۔
حقیقت نگاری اور واقعیت نگاری کو اردو میں ایک دوسرے کے متراد ف اور ہم معنی سمجھاجاتا ہے۔ فکشن کی بنیاد بھی حقیقی واقعات ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ شاعری میں عام طورپر تاریخی واقعات کو نظم کرتے ہوئے شاعر اپنی عمومی تخلیقی سطح برقرارنہیںرکھ پاتااور اس طرح اس کی شاعری صحافیانہ یا ہنگامی بن جاتی ہے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ اس نے تاریخی کرداروں، تاریخی واقعات، تاریخی مقامات اور تاریخی عمارات پرجونظمیں لکھیں انھیں بھی وہ تخلیقی ترفع اور فنی عظمت عطا کی کہ اس کی نظمیں شاعری کے اعلیٰ معیاروں پربھی پورااتریں۔ اقبال نے واقعیت نگاری کا کمال جن نظموں میں دکھایا ان میں فاطمہ بنت عبداللہ، محاصرۂ ادرنہ، غلام قادرروہیلہ، جنگ ِیرموک کا ایک واقعہ، شکوہ، جوابِ شکوہ، قیدخانے میں معتمدکی فریاد، عبدالرحمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت، سرزمینِ اندلس میںطارق کی دعا، خوشحال خان خٹک کی وصیت، تاتاری کا خواب، ہارون کی آخری نصیحت، آزادیٔ شمشیر کے اعلان پر، سلطان ٹیپو کی وصیت، بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو اور معزول شہنشاہ شامل ہیں۔ ان نظموں سے پتاچلتا ہے کہ اقبال نے بھی حقیقت نگار فکشن سے براہ ِراست متاثر ہوئے بغیرحقیقی واقعات کو نظم کیااور اس بات سے کوئی نقاد بمشکل انکارکرے گا کہ حقیقت نگاری میں افسانوں اور ناولوں کے پلاٹ حقیقی واقعات پراستوار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ حکایات بھی جن میں لوک دانش اورسماجی مسائل بیان ہوئے ہیں فکشن میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں بہت سی حکایات کو بھی منظوم کیا ہے۔ ان حکایات کو بھی اقبال نے تخلیقی سطح پر اپنے مفاہیم اور اندازِ نظر کی تشریح، توضیح اور تفسیر کے لیے برتا ہے۔ ان حکایات کے کردار بھی حقیقی ہیں اور ان کے سبق بھی قرینِ قیاس ہیں۔ اردو شاعری میں ایک مکڑااورمکھی، ایک پہاڑاورگلہری، ایک گائے اور بکری، ایک پرندہ اور جگنو، خضرِراہ، شیراور خچر اورچیونٹی اور عقاب ایسی ہی حکایات ہیں۔
اقبال حکایات کو حقیقت نگاری کے لیے ایک کارآمد اور مؤثر ذریعۂ اظہار سمجھتا ہے۔ البتہ شاعرکویہ ذریعہ استعمال کرنے کاسلیقہ ہوناچاہیے۔لینن کا کہنا تھا کہ زندگی کی عمیق ترین حقیقتوں کو سادہ حکایتوں اور تمثیلوں کی صورت میں واضح کرنے کے لیے غیرمعمولی خطابت درکارہے۔
اقبال نے اس ضمن میں شیکسپیئر، مولاناجلال الدین رومی اور حضرت عیسیؑ کو ایسی نادرالوجود فطانت کی ہی مثالیں قراردیا ہے۔ اقبال کو اس سلسلے کی چوتھی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔
فارسی کلیات میں ایسی سات حکایات ’اسرارورموز‘میں شامل ہیں۔ مثنوی اور طویل نظمیں اقبال کی محبوب اصناف ہیں اور اس صنف کی ایک خصوصیت ان کاکسی وقوعے یا واقعے کا بیان بھی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ منظوم قصے کے طورپر فکشن کے قریب بھی آجاتی ہیں یا آسکتی ہیں۔ حقیقی واقعات یا وقوعے اقبال کی بہت سی نظموں کے محرک ہیں اور ان کی نشاندہی اقبال کے مجموعوں کی فہرستوں کے سرسری مطالعے سے ہی ہوجاتی ہے۔ صرف بانگِ درا ہی لے لیجئے تو اس میں پرندے کی فریاد، خفتگانِ خاک سے استفسار، سید کی لوح تربت، رخصت اے بزمِ جہاں، داغ، التجائے مسافر، طلبۂ علی گڑھ کے نام‘ …کی گود میں بلی دیکھ کر، عبدالقادرکے نام، پھول کا تحفہ عطاہونے پر، ایک حاجی مدینے کے راستے میں، موٹراور عیدپر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں اقبال کی زندگی کے اپنے واقعات پرمبنی ہیں۔ تاریخی واقعات پرنظموں کا ذکرپہلے آچکا ہے۔
اقبال شناس جانتے ہیں کہ تاریخی حوالوں کو تخلیقی سطح پر برتنے کے حوالے سے بھی اقبال ماضی پرستی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے آئندہ کے لیے منطقی نتیجہ نکالتا ہے اور مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ یاد دلاکرانھیں پھر سے وہی عروج پانے کاسبق دیتا ہے۔ اقبال نے اس بارے میں کہاتھا کہ:
’’اگرقوم کے زوال و انحطاط کو روکنا ہے تو اس کا یہ طریق نہیں کہ ہم اپنی گزشتہ تاریخ کو بے جا احترام کی نظر سے دیکھنے لگیں یا اس کا احیاء خودساختہ ذرائع سے کریں۔‘‘(30)
اس ضمن میں وہ تاریخی حوالے سے یوں بات کرتے ہیں:
’’ماضی کا غلط احترام علیٰ ہٰذا ضرورت سے زیادہ تنظیم کا وہ رجحان جس کا اظہار تیرہویں صدی اور بعد کے فقہا کی کوششوں سے ہوتا ہے اسلام کی اندرونی روح کے منافی تھا۔‘‘(31)
اقبال نے یوں تو سارے کلام میں اسی خیال کو برتا ہے البتہ اس کی نظم’مسلم ‘ (جون1912 ئ) خاص طورپر اسی مضمون کی ہے اور اس کے آخری تین شعر تو ماضی کو یادکرنے کی توجیہ بلکہ صفائی کے مصداق ہیں ؎
ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہدِ کہن رکھتا ہوں میں
اہلِ محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں
یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اس دورِ نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں
( کلیاتِ اقبال،ص224- )
اقبال نے تاریخ کا صرف مطالعہ ہی نہیں بلکہ تاریخی حالات، واقعات اور کرداروں کااپنے علم و فضل کی روشنی میں تجزیہ بھی کررکھاتھا۔ انھوں نے تاریخ ِہند کے نام سے ایک درسی کتاب بھی لکھی تھی جو1913-1914 ء میں مڈل کی سطح کے نصاب میں شامل تھی۔ اس کتاب کا خلاصہ امرتسر کے ایک پبلشر نے 1914 ء میں شائع کیاتھا۔ اصل کتاب نایاب ہے جبکہ خلاصہ محفوظ ہے۔(32) تاہم اس کتاب کے بارے میں بعد کی تحقیق سے یہ کتاب اقبال کی ثابت نہیں ہوتی۔(33) اس پر مزید تحقیق درکارہے۔
یہ تمام مثالیں اور حوالے اقبال کی واقعیت نگاری کا پتادیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک تو شعری تجربہ بظاہر ناقابل یقین یا غیرمرئی عقلی تجربات کو واقعیت میں بدل دیتا ہے:
’’فلسفہ انسانی عقل کی خنک تیرگی میں ٹھٹھرتے ہوئے تجربات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ شاعر آتا ہے اور اپنے سوزِ دل سے انھیں گرماکر واقعیت میں بدل دیتا ہے۔‘‘(34)
اور کسی تجربے کو کوئی شاعریوں پیش کرے کہ وہ اصلی، سچااورحقیقی لگے تو ایسے شاعر کو حقیقت نگاروں میں شامل کرلیاجائے گا۔ اس طرح صوفیانہ واردات یا روحانی تجربے کو بھی تخلیقی فنون میں پیش کرنے کی راہ نکل آتی ہے جسے مابعدالطبیعاتی یا روحانی حقیقت نگاری بھی کہاجاسکتا ہے۔ اسے اس لیے بھی حقیقت پسندی ہی کہناچاہیے کہ اسے بیان کرنے والا اسے صدق دل سے حقیقی، کھرااور اصلی سمجھتا ہے اور وہ اپنے زورِ بیان سے اور سوزِ دروں سے اسے اس طرح پیش کرنے پر قادر ہوتا ہے کہ وہ اصلی اور حقیقی معلوم ہوجیسے ؎
وقت کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
( کلیاتِ اقبال،ص420- )
اس طرح کا ایک تجربہ ہے جس پراقبال نے بہت غورکیا ہے اور اس مفروضے کا بھی تجزیہ کیا ہے کہ’’زمانِ تسلسل ہی حقیقی زمانہ ہے‘‘ لیکن اقبال نے اس خیال کا یہ مطلب نکالا ہے کہ’’اگر زمانے کے تصور کو ماضی، حال اور مستقبل کا تصورملتزم ہے تو ہم اس کا قیاس ایک خطِ مستقیم ہی پر کریں گے جس کا ایک حصہ طے ہوچکا ہے یعنی ہم اسے پیچھے چھوڑآئے ہیں اور ایک ہمارے سامنے ہے لہٰذا اس کا طے کرناباقی ہے لیکن جس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمانہ کوئی زندہ اور تخلیقی حرکت نہیں بلکہ ایک سکونِ مطلق ہے جس میں ہر طرح کے ڈھلے ڈھلائے حوادث پہلے سے جمع ہیں اور اب یکے بعد دیگرے ویسے ہی ہمارے سامنے آرہے ہیں جیسے خارج میں بیٹھے ہم کسی فلم کا تماشاکررہے ہوں۔‘‘اس کے بعد اقبال نے پروفیسر براڈ(Broad) کے حوالے سے کہا ہے کہ’’ہم مستقبل کے کسی حادثے کو حادثے سے تعبیر ہی نہیں کرسکتے‘‘اور اپنی رائے دی ہے کہ’’زمانہ حقیقتِ مطلق کا ایک جزوِلاینفک ہے اگرچہ’’حقیقی زمانہ متصل نہیں‘‘اور اس میں’’ماضی، حال اور مستقبل میں امتیاز ناگزیرہے۔‘‘(35) اقبال کی نظم’زمانہ’ کو اقبال کے زمانے کے بارے میں خیالات کا خلاصہ کہنا چاہیے ، ع طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ ،(کلیات اقبال، ص459- ) مابعدالطبیعاتی حقیقت نگاری دراصل حقیقت ِمطلق کے ادراک کی سعی ہے۔
اس ضمن میں علم بالحواس اور علم بالوحی پربحث ہوتی رہی ہے۔ علم بالحواس کی بنیاد تجربات پرہے اور علم بالوحی کی اساس روحانی واردات،مکاشفے، فیضان، عرفان یا القا ہونے پر ہے لیکن مقصددونوں طرح کے ذرائع کا حقیقت کی تلاش اور اس کا ادراک ہی ہے۔ اقبال تو تجربے کو بھی محسوسات اور مدرکات کہتا تھا۔ اقبال جب یہ کہتا ہے کہ ؎
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیازمیں
( کلیاتِ اقبال،ص302- )
تو دراصل وہ بطور شاعر حقیقتِ مطلق یعنی سادہ لفظوں میں حق تعالیٰ کے عرفان کے خواہش مند ہیں اور ایسا ہوبھی جاتا ہے یعنی حق تعالیٰ کی ذات ان کے حیطۂ ادراک میں آبھی جاتی ہے ع ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں مجاز رختِ سفر اٹھائے( کلیات اقبال،ص164- )یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا۔روزگارِ فقیر میںذکر ہے کہ وہ ایک مقام پرخدا کی ہستی کو ایک ناقابل انکار حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کوئی فلسفیانہ دلیل دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس پر ممتازحسن نے اقبال کو کہا کہ’’آپ اتنے بڑے مفکراور فلسفی ہیں‘‘ پھرآپ کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ خداکے وجود پرعقلی دلیل دینے کی بجائے خوش اعتقادی کے ساتھ اس کا ذکرکریں؟‘‘ اس پر اقبال نے یہ جواب دیا تھا کہ’’خدا کے متعلق پوچھتے ہو؟ میں نے اسے دیکھا ہے…انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ خدا کو دیکھ سکتا ہے لیکن یہ لمحے کم نصیب ہوتے ہیں…بہت ہی کم‘‘(36) اقبال کی زبان میں دراصل ایسے محسوسات اور مدرکات الفاظ سے بھی ماورا ہوجاتے ہیں ؎
حقیقت پہ ہے جامۂ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ ، گفتار زنگ
( کلیاتِ اقبال،ص457- )
اسلام میں خدا کے اسمائے صفت کی تعداد ننانوے ہے، یوں بھی اللہ تعالیٰ کو مسلمان مشیت، ارادہ، حکمت، محب، محبوب، جمال، حقیقت، خیروغیرہ کہتے ہیں، وہ ذاتِ واحد، حقیقت اخریٰ اور اِلایتجزیٰ ہست ہے۔ محی الدین عربی خدا کو حقیقت نفسی الامری کے طورپیش کرتا ہے جو تصوف کی حدود میں آتی ہی نہیں اور ہر کوئی اس کا تصور اپنی دینی،اخلاقی اور علمی اہلیت کے مطابق کرتا ہے۔ حق، حسنِ ازل، ہستیٔ مطلق، یزداں، ذاتِ الٰہی سب الفاظ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ سامی مذاہب میں خدا کا تصور شخصی اورمجرد ہے۔ اس لیے اقبال نے خدا کے لیے الٰہ کے لفظ کو ترجیح نہیں دی کیونکہ اس کی جمع آلہ کی صورت میں موجود ہے۔ وہ اللہ کا لفظ مناسب سمجھتا ہے جس کی’’انفرادیت ان صفات سے مترشح ہوتی ہو جوسورہ اخلاص میں بیان کیے گئے ہیں کہ وہ واحد اور صمد ہے۔ تولید کے انداز کی آفرینش نہ اس کے جوہر اور ماخذ میں ہے اور نہ ہی اس سے سرزد ہوتی ہے اور موجودات کی کوئی شے اس کے مماثل یا اس کی ہمسر نہیں۔‘‘(37)
اقبال نے اپنے دوسرے خطبے مذہبی وجدان کی فلسفیانہ جانچ میں ہستیٔ باری تعالیٰ کے ادراک کے لیے تین دلائل کا ذکرکیا ہے۔ ایک، کائنات سے استدلال دوسرے غایتی استدلال اور تیسرے وجودیاتی استدلال۔ پھرخودہی ان دلائل کو اس طرح رد کیا ہے کہ کائنات کے مظاہر میں علّت و معلول کے سلسلے میں علّت العلل کاتصور لابدی ہے جو کسی اورعلّت کا معلول نہیں ہوتا جسے ذاتِ واجب الوجود یا ہستیٔ مطلق سمجھنا چاہیے۔لیکن قانونِ تعلیل کے آخر میں یہی اصول ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں معطّل کردیاگیا ہے۔ علّت اور معلول کا ایک دوسرے پرانحصار خداکو کائنات کا محتاج کردیتا ہے اور اس طرح خدا ہستیٔ مطلق نہیں رہتا۔ کائنات کی تنظیم اور اس کے مقصد سے صانع اورمصنوع کا تصورابھرتا ہے اور اس سے خدا کی خالقیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ وہ کائنات کے کارخانے کے باہرایک صنّاع ،کاریگریا ناظم ہوکررہ جاتا ہے وجودیاتی استدلال میں ہستیٔ کامل کے تصور میں اس کے وجود کا فقط تصور کیاجاتا ہے ضروری نہیں کہ تصوراتی خدا کو حقیقت میں موجودثابت کیاجاسکے۔ تصوراور وجود میں ہمیشہ ایک ناقابلِ عبورخلیج حائل ہوتی ہے۔ یہ تینوں دلائل اس لیے خدا کے اثبات سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ عقل و فکر کو موجودات پرخارج سے عائدکیاجاتا ہے۔ حالانکہ فکر اپنا موضوع اور مواد خودبھی پیداکرسکتی ہے۔ فلک مظاہر کے اندر اساسی اور تخلیقی قوت کا نام ہے۔ اصل شہودوشاہد و مشہودایک ہیں لیکن فکر کا اندازانھیں علیحدہ علیحدہ کردیتا ہے۔ صحیح نظریۂ وجود وفکرقرآن کی اس تعلیم سے مرتب ہوتا ہے کہ’’ایک ہی ہستی واحد ہے جو ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور اس ظاہروباطن میں دوئی نہیں‘‘ہوالظاہر ، ہوالباطن، ہوالاول، ہوالآخر۔(38) اس کے بعد اقبال نے اپنے اس خطبے میں ہستی کی تین سطحوں مادہ، حیات اور نفس یا شعور کے حوالے سے طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات جیسے جدید علوم کی روشنی میں ذات باری تعالیٰ کے ادراک کے لیے مدلّل بحث کی ہے۔(39)
ذاتِ باری کے بارے میں ابتدائے آفرینش سے دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک ماورائی یعنی خدا کائنات سے ماوراء اور سریانی جس کی رو سے خدا کائنات میں جار ی و ساری ہے۔(40) اقبال عنفوانِ شباب میں وحدت الوجود کے معروف نظریے کے قائل تھے اور نفیٔ ہستی اور فنافی اللہ پر یقین رکھتے تھے ؎
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں
( کلیاتِ اقبال،ص132- )
وہ حسنِ ازل کو ہمہ گیر اور کائنات کے مظاہر میں جاری و ساری سمجھتے تھے۔ ان کی بانگ ِدرا کی شاعری اسی خیال سے لبریز ہے ؎
دل میں ہو سوزِ محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کی ملے سازِ حقیقت کی خبر
( کلیاتِ اقبال،ص81- )
دلِ ہر ذرّہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
( کلیات اقبال،ص143- )
بعدازاںنطشے، شوپنہار، جیمزوارڈ، وائٹ ہیڈ، برگساں اور دیگرمغربی مفکرین کے افکارونظریات کے مطالعے نے ان کے تصورِ ذات باری کو ازسرِنو ترتیب دینے میں اپنے اثرات ظاہرکیے۔ برگساںباطنیت اور ارتقائی تخلیق کا ترجمان تھا۔ دوسری طرف ارتقائے بروزی کے شارحین لائڈمارگن اور الیگزینڈر نے بھی اقبال کو متاثرکیاجن کے خیال میں ارتقاء کا عمل لامتناہی اور مسلسل ہے اور کسی خاص نقطے پرپہنچ کر اس کے رک جانے کا امکان نہیں ہے۔ اقبال کا تصورِ ذات باری سریانی اور ماورائی خدا کے نظریات کا امتزاج ہے۔ ان کے معترضین کا کہنا ہے کہ’’اقبال اپنے فکرونظر کے کسی دورمیں ماورائی نہیں تھے۔ شروع شروع میں وہ وجودی سریانی تھے بعدمیں ارتقائی سریانی ہوگئے۔(41) لیکن اقبال کا کہنا یہ ہے کہ حقیقتِ مطلقہ جو کائنات میں ساری و جاری ہے انائے مطلق ہے لیکن ذاتِ باری کے مذہبی تصور کے لیے ضروری ہے کہ خدا کائنات سے ماورا ہواور شخصی ہو۔ اس کے نزدیک شخصیت اور ماورائیت لازم و ملزوم ہیں۔(42) تاہم’’فردِکامل صرف خدا ہے جس کے اندر سے اس کا غیرصادرنہیں ہوسکتا…الٰہی زندگی ایک ناقابلِ تقسیم کل ہے جو معرضِ شہود میں آکر تقسیم پذیردکھائی دیتی ہے‘‘(43) لیکن’’خدا کے ہاں فکروارادہ ،فعل اور شیٔ مخلوق سب ایک ہیں…ہستیٔ مطلق ایک معقول اور منظم نظام ہے جس کے اندر ایک ضوی وجود کی طرح ہر حصے کی ہستی دوسری ہستی سے منسلک اوراس میں مدغم ہے اور اس تمام کل کی ایک مرکزی انا ہے۔‘‘ خداکاادراک اگرانسان مظاہرِفطرت سے کرنے کی کوشش کرے تو کامیاب نہیں ہوگا اس لیے’’جس چیز کوہم فطرت کہتے ہیں وہ حیات الٰہی کا ایک تیز رولمحہ ہے…قرآن کے نگاریں الفاظ میں وہ عادت اللہ ہے‘‘(44) یہ صرف وجدان ہی سے معلوم ہوسکتا ہے کہ’’حیات ایک مستجمع انا ہے‘‘(45) اس مستجمع، مختتم انااور اس کی تخلیق شدہ کائنات میں کہیں رخنہ نہیں۔’’فطرت کا علم خدا کی سیرت یاسنّت کا علم ہے، مشاہدہء فطرت میں اہم انائے مطلق کے ساتھ ایک گہرا رابطہ پیداکرتے ہیں۔‘‘(46) اگر وقت کی ماہیت پرغورکیاجائے تو حقیقتِ مطلق اور زمان ِمطلق ایک نظرآتے ہیں جس کے اندر فکرِحیات و کائنات ایک دوسرے میں داخل اور پیوست ہیں۔‘‘(47) شخصی تصورِ ذاتِ باری میں انسان خداکواپنی شکل و صورت پرقیاس کرتا ہے۔عہدنامۂ قدیم میں بھی ایک آیت ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پربنایا۔ علم الکلام کے مطابق یہ تشبیہہ ذاتِ الٰہی پرزندگی کے حوالے سے وارد نہیں ہوتی۔ زندگی کے تمام کوائف اسی سے مترشح ہوتے ہیں اس کا کمال اس کی لامختتم خلاقی میں سے ہے۔ یہ کسی ایسے نصب العین کے حصول کی کوشش سے عبارت نہیں ہے جوخداکی ذات سے باہرہو۔ انسان اپنی سعی میں ناکام ہوسکتا ہے جبکہ خدا اپنے تخلیقی امکانات میں ناکامی سے ناآشنا ہے۔ اس کی ہستی کی جامعیت اور اس کا کمال تخلیقِ مسلسل میں ہے۔(48) ’’خدا اولاًخالق ہے لیکن ایسا خالق جو پہلے سے مقرر کردہ نقشے کے مطابق تخلیق کرے وہ صحیح معنوں میں خالق نہیں رہتا۔‘‘(49) ’’ اسلام کے مطابق خدا ایک زندہ اورمتحرک ہستی ہے جو اپنی مرضی بدل بھی سکتی ہے…انائے مطلق کا لاانتہا ہونا اس کی تخلیقی اہلیتوں کے لامحدود ہونے سے عبارت ہے جس کا اظہارجزوی طورپر ہماری کائنات میں ہوا ہے…اس سے لامحدود سلسلے پیداہوتے ہیں لیکن وہ خودان میں محدود نہیں۔ خدا کی سرشت تخلیق ہے۔ انائے مطلق سے صرف انا ہی پیدا ہوتے ہیں خدا اشیاء نہیں تخلیق کرتا بلکہ افراد یا انا تخلیق کرتا ہے۔ الٰہی قوت کا ہر ذرہ خواہ وہ درجۂ حیات میں کتنا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو ایک انا ہے خدا ایک دکی سیلان ہے، کل یوم ہوفی شانo اور اس کے تمام مظاہراور مخلوقات اس لیے ہیں کہ وہ بھی اپنے طورپر تخلیق کریں۔عشقِ حیات ہرچیز سے صادرہورہا ہے۔ افلاک میں بھی وہی ہے جوخاک میں ہے اوراپنی تمام تغیر پذیراورتمام جدوجہد کے باوجود خدا کی ذات کے اندر ایک سکون ِازلی ہے۔‘‘(50)
اقبال کی ابتدائی نظموں میں تصوف اور خصوصاً اس کے اہم نظریے’’وحدت الوجود‘‘کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ تصوف ان کے گھریلوماحول میں رچا ہوا تھا۔ اس امر کے شواہد بھی موجود ہیں کہ وہ خود سلسلۂ قادریہ سے بیعت تھے۔ بعدازاں تعلیمی مراحل اور تحقیق نے بھی انھیں تصوف سے بہت قریب کردیا۔ ان کے ابتدائی اشعار ہیں کہ ؎
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
( کلّیاتِ اقبال،ص111- )
منصور کو ہوا لبِ گویا پیامِ موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
( کلّیاتِ اقبال،ص128- )
بعد میں تحقیقی مقالہ فلسفۂ عجم پرمزید مطالعے اور غوروفکر سے تصوف کے مروجہ عقائد کے بھیانک اثرات منکشف ہوئے تو وہ اسرارِ خودی کے اوّلیں دیباچے میں ان مہلک اثرات کے خلاف احتجاج پرمجبورہوگئے۔ وحدت الوجود کے مطابق خدا اور کائنات ایک ہی ہیں کیونکہ وجودِ حقیقی صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو حاصل ہے۔ کائنات میں جو کچھ نظرآتا ہے وہ صفاتِ خداوندی کی تجلّی ہے اور تجلّی کا اپنی جگہ کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ اس شے کا حصہ ہوتی ہے جس کا عکس ہو اس لیے کائنات میں کوئی بھی چیز خدا کے وجود سے الگ نہیں۔ اس فلسفۂ وحدت الوجود سے اقبال کے اختلاف کی حدود اس طرح متعین کی جاسکتی ہیں:
۱۔ فلسفۂ وحدت الوجود حقیقت کا ایک تکمیل شدہ تصور پیش کرتا ہے جب کہ فلسفۂ اقبال میں یہ کائنات ابھی تکمیلی مراحل سے گزررہی ہے۔
۲۔ فلسفۂ وحدت الوجودجیسا کہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے ایک فلسفۂ وحدت ہے جبکہ اقبال کا نقطۂ نظر کثرت کا ہے۔
۳۔ فلسفۂ وحدت الوجودمیں انسانی ارادہ کی آزادی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اقبال انا کی حقیقی آزادی کو تسلیم کرتا ہے۔ (51)
مثنوی اسرارِخودی کے دیباچے میں جو اس کے اوّلین ایڈیشن میں شامل تھا۔ اقبال نے سری شنکر کی تعلیمات کا ذکرکیا ہے جو ترکِ عمل کو ترکِ کل نہیں سمجھتا بلکہ ’’عمل اور اس کے نتائج سے بے نیازی کا قائل ہے۔سری شنکر نے اس تصور کو منطقی طلسم میں الجھادیا۔ محی الدین ابن عربی اور سری شنکر کی تعلیمات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے مسئلہ وحدت الوجودکے اثرات کے لیے دماغی قوتوں سے کام لیا ہے۔ ایرانی شعراء نے اس معاملے میں دل کو رہنما کہا ’’انھوں نے جُزو اور کُل کا دشوار گزاردرمیانی فاصلہ تخیل کی مدد سے طے کرکے رگِ چراغ میں خونِ آفتاب کا اور شرار ِسنگ میں جلوۂ طورکا بلاواسطہ مشاہدہ کیا…ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخرکار نتیجہ یہ ہوا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباًتمام اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کردیا ‘‘جبکہ’’ مغربی ایشیا میں اسلامی تحریک ایک نہایت زبردست پیغامِ عمل تھی گو اس تحریک کے نزدیک اناایک مخلوق ہستی ہے جو عمل سے لازوال ہوسکتی ہے۔‘‘(52) اقبال انسانی انا کے ارتقاء کے قائل ہیں تاحدیکہ انسانی انا ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ انائے مطلق سے ہم کلام ہوجائے۔ عجمی صوفیا کی طرح وہ تکمیلِ ذات اسے نہیں کہتے کہ انسانی انا ایک قطرۂ حقیر کی طرح انائے مطلق کی وحدت کے بحرِ بے پایاں میں جذب ہوجائے بلکہ اسے کہتے ہیں کہ اپنے اندر جہاں تک ہوسکتا ہے صفاتِ ربانی پیداکرے، تسخیرِ کائنات کا فریضہ انجام دے اور تخلیق میں خدا کا ہم باز ہو۔‘‘(53) گویا اقبال کے خیال میں وحدت الوجود کافلسفہ ایک طرف توہندوفلسفہ کا عکس ہے اور دوسری طرف ایرانی شعراء کے تخیلات کا کارنامہ ہے۔ اقبال نے خواجہ حسن نظامی کے نام خط میں لکھا ہے کہ’’ حضرت امام ربّانی مجدّدالف ثانی ؒنے مکتوبات میں ایک جگہ بحث کی ہے کہ گستن اچھا ہے یا پیوستن یعنی فراق اچھا ہے یا وصال۔میرے نزدیک گستن عین اسلام ہے اور پیوستن رہبانیت یا غیراسلامی تصوف ہے اور میں اس غیر اسلامی تصوف کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔‘‘(54) اقبال وحدت الوجود کے نظریے کی مخالفت اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ قطعاً غیراسلامی ہے۔محی الدین ابن عربی کا قدیم ارواح اور تنزلاتِ ستہ کے مسائل بھی اسی سے منسلک ہیں۔ اخبار’ وکیل ‘امرتسر کے15 جنوری1916 ء کے شمارے میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ’’مسئلہ وحدت الوجود گویا مسئلہ تنزلاتِ ستہ کی فلسفیانہ تکمیل ہے بلکہ یوں کہیے کہ عقلِ انسانی خودبخود تنزلات ِستہ سے وحدت الوجود تک پہنچتی ہے، اکثرصرف اس مسئلے کے قائل ہیں بعض اس طرح کہ وحدت الوجود ایک حقیقت نفس الامر ہے اور بعض اس طرح کہ یہ محض ایک کیفیت قلبی کا مقام یانام ہے۔‘‘(55) پھراقبال نے اس مسئلے پراپنا نقطۂ نظر اس طرح پیش کیا ہے کہ’’ میرا مذہب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نظامِ عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ نظامِ عالم کا خالق ہے اور اس کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے۔ وہ جب چاہے گا اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔‘‘(56)
اقبال کو صوفیا کے زہدوتقویٰ سے اختلاف نہ تھا بلکہ وہ تصوف میں شامل اس مابعدالطبیعاتی عنصراور غلوفی الزہد کے خلاف تھا جسے وہ اسلام دشمنی سمجھتاتھا۔ ایسا تصوف ایک نظامِ تمدن اور نظامِ فکر کی صورت اختیارکرگیاتھا اور زہدوارتقاء کے دائرے سے نکل کر ایک نظریہ، ایک فلسفہ بن گیاتھا جس میں ناتوانی مسلمان کے لیے حسین و جمیل تھی اور ترکِ دنیا موجبِ تسکین ہوگیاتھا۔ اس خانقاہی اورترکِ دنیا کے تصورات میں ضعیف اقوام اپنی ہستیٔ کامل اور شکست خوردگی کا جواز ڈھونڈتی ہیں۔ ایسے تصوف کا اظہار جب شاعری اور ادب میں ہوتا ہے تو طبیعتو ں کو پست کردیتا ہے۔ جبکہ اسلامی تصوف دلوں کو تقویت دیتا ہے اور حوصلوں کو بلندرکھتا ہے اور اس کے مثبت افکار ادب اورشاعری میں بھی اپناجلوہ دکھاتے ہیں اور ایسے تصوف کے اثرکو دوچندکردیتے ہیں۔
اقبال قرآن سے روشنی حاصل کرتاہے اور پوری دینی بصیرت کے ساتھ صوفیاء کے ان عقائد سے اتفاق کرتا ہے جنہیں اسلام کے مطابق سمجھتاہے اور ان عقائد سے اختلاف کا اظہارکرتا ہے جو غیراسلامی ہیں۔
صوفیااور اقبال کا پہلا مشترکہ نظریہ ادراکِ حقیقت کانظریہ ہے۔ دونوں کے خیال میں ادراکِ حقیقت کا ذریعہ عقلی استدلال نہیں بلکہ وجدانِ عشق اور عشق سے پیدا شدہ وجدان ہے۔ یہاں دونوں ایک ہی راہ پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک جذبۂ پیچ و تاب اور عشق و ایمان ہی نصب العین تک پہنچاتے ہیں۔
دوسرا اشتراک نظریۂ مقامِ آدمیت اور شرفِ انسانیت کا نظریہ ہے۔ صوفیوں کے نزدیک بھی انسان بہت بڑا ہے اور اشرف المخلوقات ہے۔ اقبال کا بھی یہی نظریہ ہے کہ انسان بہت بڑا درجہ رکھتا ہے لیکن بڑائی کی وجوہات دونوں کے نزدیک مختلف ہیں۔ صوفیوں کے نزدیک انسان اس لیے بڑا ہے کہ اپنی ابتدا میں ازل سے پہلے کائنات وجود میں نہ آئی تھی۔ یہ بھی خدا کا ایک حصہ بلکہ خدا ہی تھا۔اقبال کے خیال میں یہی مخلوق ترقی پذیر ہے اور اس کی خودی سب سے زیادہ فطرت کی تسخیر کی قوت رکھتی ہے اور انسان اپنی پستیوں سے نکل کر ربوبیت تک پہنچ جاتا ہے جو طلسمِ گنبدِ گردوں کو توڑسکتا ہے۔ جس کی نگاہ سے تجلّیات میں خلل پڑ سکتا ہے اور جس کے عشق کی ایک جست زمین و آسماں کی بے کرانی کا قصّہ تمام کرسکتی ہے۔
ایک اور نظریہ جس میں اقبال اور صوفی تھوڑی دور تک ساتھ چلتے ہیں وہ نیچر کا تصور ہے۔ شروع شروع میں اقبال کا نیچر کا تصور بھی صوفیوں سے ملتا جلتا تھا۔ابتدا میں وہ فطرت کی ہر چیز میں حسنِ ازل کی جھلک دیکھتا تھا۔ اقبال کے بعد کے تصور کے مطابق کائنات مادی وجود ہے۔ جو انسان کی کوشش، علمی چھیڑچھاڑ اورانسان کے تصرف کے لیے تخلیق ہوا ہے۔ اگرچہ ان مادی پہلوئوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی پہلوبھی شامل ہے جس میں وہ تھوڑی دیر تک صوفیوں کے ساتھ چلتا ہے۔اقبال ان بزرگان دین اور صوفیاء سے گہری عقیدت رکھتا ہے جنہوں نے اسلام کا دائرہ وسیع کیااور جو گمراہی کے اندھیروں میں ہدایت کے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ ان کے کلام میں جابجاان صوفیا مثلاسنائی، عطارؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ اور حضرت ربانی مجددالف ثانیؒ سے عقیدت اور محبت کا اظہار ہوتا ہے اور وہ خود کو مولانا روم کا مرید کہتے ہیں اور ان سے اکتسابِ فیض کا برملا اعتراف کرتے ہیں ؎
صحبتِ پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش
لاکھ کلیم سر بجیب، ایک کلیم سر بکف
( کلّیاتِ اقبال،ص373- )
اقبال ڈرامے کا کوئی خاص حامی نہ تھا کیونکہ ان میں کرداروں کی نقالی کی جاتی ہے لیکن اس نے اپنے مجموعۂ کلام میں کئی نظمیں تمثیل کے پیرائے میں لکھی ہیں جن میں مکالمہ نگاری کے فن کا مؤثر استعمال کیاگیا ہے اور اس میں کردار بھی موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر کردار وہ ہیں جو مذہبی اور قرآنی حوالوں سے ہمارے مدرکات اور محسوسات کا حصہ بن چکے ہیں جیسے حضرت خضر ؑ، ابلیس، ابلیس کے مشیریاچیلے، روحِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، مہدی، مولانارومی اور مریدہندی وغیرہ، شکوہ اور جوابِ شکوہ بھی توخدااوربندے کے درمیان مکالمے کی ہی صورت میں ہے۔ فردوس میں ایک مکالمہ بھی ہاتف اوراقبال کے درمیان ہے۔ شبِ معراج بھی تو ایک روحانی واردات ہے ؎
رہِ یک گام ہے ہمت کے یے عرشِ بریں
کہہ رہی ہے یہ مسلماں سے معراج کی رات
( کلّیاتِ اقبال،ص278- )
اور یہ شعر تو زبان زدِ عام ہے ؎
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
اور تکوینِ کائنات کا واضح حوالہ اس شعر میں آیا ہے جو اس پوری غزل میں شامل ہے ؎
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں
( کلیاتِ اقبال،ص364- )
اور اب تو دنیا جان گئی ہے کہ کائنات واقعی ابھی ناتمام ہے اور اس میں کئی اور کائناتوں کا اضافہ ہوتاچلا جارہا ہے۔ اس خیال کی بنیاد بگ بینگ کااور Push اورPull کا نظریہ ہے۔ اقبال نے تشکیل ِجدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے دیباچے میں اس امرکی طرف اشارہ کیا تھا کہ ’’وہ دن دور نہیں کہ مذہب وسائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہوجوسرِدست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔(57) خطبات میں ہی کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیاگیا ہے کہ محسوس بے شک حقیقی ہے لیکن حقیقت محسوسات تک محدود نہیں۔(58) البتہ اقبال تو مابعدالطبیعیاتی کرداروں کو بھی اپنی شاعری کے حوالے سے حقیقی زندگی کے ارتقا کا وسیلہ بنانے کی خواہش رکھتے ہیں ؎
دنیا کو ہے اس مہدیٔ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار
( کلیاتِ اقبال،ص557- )
یہ بیان بھی اقبال کے اس خیال سے مطابقت رکھتا ہے:
پیکرِ قوتِ مہدی کا انتظار چھوڑو،جائو اور مہدی کی تخلیق کرو (59)
جنت، دوزخ، برزخ، نبوت، رسالت، معرفت اور سلوک کے کتنے ہی مقامات ہیں جو مادی بھی نہیں ہیں مگر ہم انھیں حقیقی سمجھتے ہیں اور یہ معاملات اقبال کے قلم کی دسترس میں رہے۔ یعنی مابعدالطبیعاتی حقیقت نگاری بھی ممکن ہے۔ دوسری طرف اقبال کا یہ خیال بھی ہے کہ شاعری کا منطقی ہوناضروری نہیں۔ حالانکہ شاعری رفعتِ تخیل کی پیداوار ہے اس لیے اس کا جمالیاتی پہلو زیادہ پیشِ نظر رہناچاہیے۔ کسی شاعر کی عظمت ان اشعار سے طے نہیں ہوتی جن میں سائنسی صداقتو ں کی ترجمانی ہوئی ہو بلکہ اقبال نے شاعری میں کسی قدر ابہام اور مخفی پیرائے کی قدردانی کا سبق دیا ہے، کیونکہ اس طرح وہ جذبات کے لحاظ سے زیادہ عمیق ہوتا ہے۔ دوسری طرف اقبال معاشرتی ارتقاء کی خاطر معجزات پرایمان کوبڑی حد تک لازمی محسوس سمجھتا ہے کیونکہ ’’اس قسم کا اعتقاد مافوق الفطرت احساس کو شدیدترکردیتا ہے…اور اس سے معاشروں کے اتحادکو تقویت ملتی ہے۔‘‘(60)
اقبال کا مزاج چونکہ حددرجہ تجزیاتی، عقلی اور استدلالی رہاتھا اس لیے ایک مرحلے پر وہ مابعدالطبیعیات سے کچھ اکتاہٹ بھی محسوس کرنے لگتا تھا کیونکہ اس سے اسے مسائل کی عملی صورتوں میں ان معاملات کی اصل قدروقیمت جانچنے کے لیے نظری تحقیق کی طرف رجوع کرناپڑجاتاتھا لیکن اس کے باوجود وہ یہ کہنے پر مجبور تھا کہ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مابعدالطبیعیات سے مطلق پیچھاچھڑالینا ناممکن ہے۔‘‘(61)
مندرجہ بالا تمام تصریحات، حوالہ جات اور مثالوں سے واضح ہے کہ اقبال واقعی ترجمانِ حقیقت کہلانے کا حق دار تھا۔ اس کی فکراور اس کی شاعری سراسر حقیقت کی تلاش بلکہ حقیقتِ اولیٰ تک رسائی سے عبارت تھی ؎
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
( کلیاتِ اقبال،ص458- )
اقبال کی زندگی کا کوئی لمحہ بے کار نہیں گزرا اس لیے اس کے ہاں افکار، نظریات اور خیالات کی کثرت ہے لیکن اس کے افکار کی کثرت میں ایک وحدت بھی مضمر ہے اور وہ ہے حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری۔ اقبال نے صرف حقیقت نگاری ہی نہیں کی بلکہ اس تصور میں براہِ راست شعور ی اور غیرشعوری طورپرگراں بہا اور قابل قدر اضافے کیے ہیں کیونکہ وہ صحیح معنوں میںایک آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور محققانہ نظررکھتا ہے۔ وہ کسی کی اندھادھند تقلید نہیں کرتا بلکہ حقیقتوں کو اپنی نظر سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ وہ ایک حقیقت نگار ہے مگر مثالیت پسندبھی ہے۔ تاہم اس کی مثالیت پسندی میں انتہاپسندی نہیں، توازن پایاجاتا ہے۔
حواشی و حوالہ جات
1- Professor Mumtaz Ahmed: Literary Criticism, Ch.Ghulam Rasool and Sons, Lahore, 1989; P.598
-2 ( ڈاکٹر)سہیل احمدخان،محمد سلیم الرحمن(مؤلفین):منتخب ادبی اصطلاحات؛شعبۂ اردو، جی سی یُونیورسٹی ،لاہور ،2005 ، ص162-163-
-3 قومی انگریزی- اردو لغت؛مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،طبع پنجم، 2002 ،
ص967-
-4 ایضاً:ص967-
-5 ایضاً:ص468-
-6 ایضاً:ص1240-41-
-7 ایضاً:ص1255-
-8 (i)(پروفیسر)ممتازاحمد:کتاب مذکور:ص598-
(ii)لغت مذکور؛ص1696-
-9 (i)ایضاً:ص586-
(ii)ایضاً:ص1370-
10. J.A. Cuddon: The Penguin Dictionary of Literary
Terms and Literary Theroy; Penguin Books;
London; 1999; P.728
11- Professor Mumtaz ahmed: op.cit. P.598.
-12 جامع اردو انسائیکلوپیڈیاجلد1-(ادبیات)قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان
نئی دہلی،2003 ء ص224-
-13 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان۔محمدسلیم الرحمن(مؤلّفین):کتاب مذکور،ص۔164-165
-14 جامع اردو انسائیکلوپیڈیاجلد1-(ادبیات)مذکور،ص42-
-15 ایضاً:ص
-16 ایضاً:ص411-412- ۔
-17 ایضاً:ص ۔98-99۔
-18 (فقیر)سیدوحیدالدین:روزگارِفقیر(جلددوم)،فقیرسیدوحیدالدین ،کراچی، باردوم،
1965،ص94- ۔
-19 ایضاً:ص91- ۔
-20 بحوالہ محمدرفیق افضل(مرتب):گفتارِاقبال،ادارہ تحقیقاتِ پاکستان،لاہور،
طبع سوم1986 ئ،ص254-255-
-21 (فقیر)سیدوحیدالدین:کتاب مذکور،ص۔102-103
-22 ایضاً:ص۔108-109
-23 بحوالہ ڈاکٹر جسٹس جاویداقبال(مرتب)(ڈاکٹرجسٹس):شذراتِ فکرِاقبال،
مجلس ترقیٔ ادب،لاہور،طبع دوم، 1983،ص89- ۔
-24 محمدرفیق افضل(مرتب):کتاب مذکور؛ص85- ۔
-25 ایضاً:ص86- ۔
-26 (i)بحوالہ اقبال :شذراتِ فکرِاقبال،مذکور،ص90-
(ii)محمدرفیق افضل(مرتب):کتاب مذکور،ص240-
-27 عطیہ بیگم؛اقبال، اقبال اکادمی، لاہور،1981 ء ص15-۔1981۔
-28 (ڈاکٹر)افتخاراحمدصدیقی:دیباچہ شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص5-
-29 اقبال:شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص84- ۔
-30 اقبال:تشکیلِ جدیدالٰہیاتِ اسلامیہ ( مترجم سید نذیر نیازی)؛بزمِ اقبال،لاہور، طبع سوم، 1986 ئ،
ص233- ۔
-31 ایضاً:ص233- ۔
-32 (فقیرسید)وحیدالدین:کتاب مذکور؛ص64-
-33 (پروفیسرڈاکٹر)رفیع الدین ہاشمی:اقبالیات:تفہیم و تجزیہ:اقبال اکادمی پاکستان:
لاہور،طبع اوّل2004 ئ،ص۔155-169
-34 (ڈاکٹر)اقبال: شذراتِ فکرِ اقبال مذکور، ص۔149 ۔
-35 اقبال: تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ مذکور،ص88-89-
-36 فقیر سیدوحیدالدین:کتاب مذکور،ص۔89-90 ۔-
-37 اقبال: ’’تصورِ باری تعالیٰ اور دعاکامفہوم‘‘تیسراخطبہ؍فکرِاقبال ازڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم،
بزمِ اقبال،لاہور ،طبع چہارم ، 1968 ء ، ص721 –
-38 اقبال:مذہبی وجدان کی فلسفیانہ جانچ’’دوسرا خطبہ؍کتاب مذکور،ص۔693-695 ۔
-39 اقبال:ایضاً،ص696-720 ۔
-40 (سید)علی عباس جلالپوری:اقبال کا علم الکلام، مکتبۂ فنون، لاہور،طبع اول،
1972،ص61- ۔
-41 ایضاً:ص73-
-42 ایضاً:ص73-
-43 اقبال:تیسراخطبہ و کتاب مذکور،ص721- اور727
-44 ایساندروبوزانی :اقبال کا فلسفۂ مذہب اور یورپ،مشمولہ ماہِ نو ستمبر1977 ئ،
ص141-
-45 اقبال:دوسرا خطبہ وکتاب مذکور،ص717-
-46 ایضاً:ص715-
-47 ایضاً:ص719-
-48 (ڈاکٹر)خلیفہ عبدالحکیم:اقبال کا تصورالٰہ،مشمولہ ماہِ نوستمبر1977 ئ،ص136-
-49 ایضاً:ص137-
-50 اقبال:دوسرا خطبہ و کتاب مذکور،ص720-
-51 منظوراحمد:اقبال اور تصوف:چندتنقیحات:مشمولہ منتخب مقالاتِ اقبال ریویو،
مرتبہ:ڈاکٹروحیدقریشی، اقبال اکادمی پاکستان،لاہور،طبع اوّل 1983 ء ،ص37-
-52 اقبال: دیباچہ اسرارخودی اوّلین ایڈیشن مشمولہ مقالاتِ اقبال، مرتبہ:
سیدعبدالواحد معینی،آئینۂ ادب ،لاہور،ص195-196-
-53 (سید)عابدعلی عابد،شعرِاقبال،بزم ِاقبال،لاہور، طبع دوم،1977 ، ء ص۔230-231
-54 اقبال:مکتوب بنام حسن نظامی مشمولہ انوارِاقبال،مرتّبہ: بشیراحمدڈار، اقبال اکادمی، لاہور،
طبع دوم1977 ئ، ص181-
-55 اقبال:اسرارِخودی اور تصوف مشمولہ مقالاتِ اقبال،مرتّبہ:سیدعبدالواحدمعینی،
آئینہ ادب،لاہور،1982 ئ،ص۔202-203- ۔
-56 اقبال: مضمون و کتاب مذکور،ص203- ۔
-57 اقبال:خطبات مذکور، مترجمہ سید نذیر نیازی،ص40- ۔
-58 ایضاً:ص323-
-59 (ڈاکٹر جسٹس)جاویداقبال(مرتب):(ڈاکٹر)افتخاراحمدصدیقی(مترجم):
کتاب مذکور،ص67- ۔
-60 ایضاً:ص145- ۔
-61 ایضاً:ص80- ۔