وہ حیران تھیں کہ اچانک مان کیسے گئے؟
(ہو نہ ہو فیاض بھائی نے سمجھایا ہو گا۔ یا ہو سکتا ہے نجیب کے ابو اقبال بھائی نے کچھ کہا ہو۔)
“اب مراقبے سے نکل کر مجھے چائے بنا کر دو گی یا اپنا فیصلہ واپس لے لوں؟” شاہد کی آواز انھیں حقیقت کی دنیا میں لائی۔
“جی جی بنا رہی ہوں۔” چائے بنانے لگیں ساتھ ہی انھوں نے زردے اور پلاؤ کے لیے چاولوں کی مقدار بڑھا دی۔ شاہد کا مان جانا اتنی بڑی بات تھی کہ وہ رات کھانے پہ بہن کو بلانے کا فیصلہ کر چکی تھیں۔
“اماں۔! ابا جی مان گئے؟” شاہنواز کالج کے بعد ابھی گھر پہنچا تھا اور ماں کے چہرے سے کچھ کچھ اندازہ لگا ہی چکا تھا۔ فرط مسرت سے انھوں نے سر ہلایا اور پیالی میں چائے ڈالنے لگیں۔
“شاہنواز۔! ذرا خالہ کو فون کرکے کہہ دو کہ رات کا کھانا یہاں کھائیں۔” چائے ٹرے میں رکھتے اسے کہا تھا۔
“فون پر کیوں؟ میں ابھی جا کر خود خالہ کو بتاتا ہوں، لیکن مجھے پہلے چینی اور میدہ وغیرہ چیک کرنے دیں کہ ہے یا نہیں؟” وہ سبکتگین کی رکھی چیزوں والا کیبنٹ کھول کر چینی اور میدے کے ڈبے دیکھنے لگا۔
“ان سب کا کیا کرنا ہے تم نے؟” فوزیہ نے اسے گھورا۔۔
“بھائی نے کہا تھا کہ ابا جی مان گئے تو وہ مجھے چاکلیٹ کیک بنا کر کھلائیں گے۔ میں اسی کے لیے سامان دیکھ رہا ہوں کہ اگر کوئی چیز لانی ہے تو لا کر رکھ دوں۔” اس نے باری باری سارے ڈبے کھول کر دیکھے، سامان اچھا خاصا تھا۔ وہ چائے دے کر آئیں تو وہ ابھی تک کچن کیبنٹ میں منھ دیے کھڑا تھا۔
“آرام مت کرنے دینا بھائی کو تم۔” فوزیہ نے اس کے کندھے پہ ہلکی سی چپت لگائی۔
“آسٹریلیا چلے گئے تو نجانے کتنا عرصہ ان کے ہاتھ کے بنے کیک کھانے کا موقع نہیں ملے گا۔” فوزیہ اس کے جانے کا سوچ کر اداس ہوئیں لیکن اگلے لمحے ہر خیال کو ذہن سے نکالا اور اسے شازیہ کے گھر بھیجا۔
“اب جلدی جاؤ خالہ کی طرف، یہ نہ ہو کہ وہ رات کے کھانے کے لیے کچھ بنا ہی بیٹھیں۔” اسے باقاعدہ بازو سے کھینچ کر کچن سے نکالا تھا۔
“تو کیا ہوا اگر خالہ نے کچھ بنا لیا، وہ بھی یہیں اٹھا لائیں گے۔” شرارت سے کہتا وہ باہر بھاگا۔ اور فوزیہ پوری تندہی سے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئیں۔
“السلام علیکم خالہ جان۔!” وہ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی چلایا تھا۔
“کیوں کیا اس گھر میں صرف تمھاری خالہ جان ہی رہتی ہیں جو بس انھیں کو سلام کیا جا رہا ہے؟” اندرونی حصے کے جالی والے دروازے کے پاس کھڑی اریبہ نے اسے دیکھ کر چڑایا۔
“میں تو صرف خالہ جان سے بات کرنے آیا ہوں۔” ان کی پچھلے چند دنوں سے کسی بات پہ ناراضی چل رہی تھی۔
“جو بات ہے مجھے بتا دو، میں امی کو بتا دوں گی۔” وہ اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی
“واللہ۔! اگر مجھے اماں نے سمجھایا نہ ہوتا کہ بہنوں کو مارتے نہیں ہیں تو آج تم میرے ہاتھوں اپنی دو تین ہڈیاں تو تڑوا ہی لیتی۔” اس نے مکا ہوا میں لہرا کر دانت کچکچا کر کہا تھا۔
“کیا ہوا شاہنواز۔!” شازیہ اس کی آواز سن کر باہر ہی چلی آئیں۔
“اریبہ۔! ہر وقت ہی لڑتی رہا کرو۔” ساتھ ہی اریبہ کو لتاڑنا نہیں بھولی تھیں۔
“جی خالہ! یہ ہر وقت مجھ سے جھگڑتی رہتی ہے۔” شاہنواز کے تو گویا کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی تھی۔
“خالہ! اماں نے کہا کہ آپ سب لوگ رات کا کھانا ہماری طرف کھائیے گا۔”
“ہیں سچی!” اریبہ پوری بات سنے بغیر ہی خوشی سے چہکی۔
“اچھا، مگر کس خوشی میں؟”
“وہ ابا جی سبکتگین بھائی کے آسٹریلیا جانے کے لیے راضی ہو گئے ہیں نا! اسی خوشی میں۔”
“واہ۔!” اریبہ اچھلتی ہوئی یہ دھماکہ خیز خبر اقدس کو بتانے بھاگ گئی تھی۔
“یہ تو بہت ہی اچھا ہوا۔ آخر بھائی صاحب کو بچے کا خیال آ ہی گیا۔” شازیہ نے بھی شکر ادا کیا تھا۔
“چلو میں تمھارے ساتھ ہی چلتی ہوں۔ تمھاری اماں کا ہاتھ بٹاؤں گی۔” دوپٹہ پھیلا کر اوڑھتے، اقدس کو آواز لگائی۔
“اقدس! کنڈی لگا لو، میں تمھاری خالہ کی طرف جا رہی ہوں۔” وہ شاہنواز کے ساتھ ہی ان کے گھر داخل ہوئی تھیں۔ سامنے ہی کرسی پہ شاہد بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔
“السلام علیکم بھائی صاحب! کیسے ہیں آپ؟”
“وعليكم السلام! میری خیریت چھوڑو، کچن میں جا کر اپنی بہن کی خیریت دریافت کرو، دھیان رکھنا کہیں خوشی سے بےقابو ہو کر کھانا ہی خراب نہ کر دے۔” اخبار تہ کرکے میز پہ رکھا تھا۔ اور کھڑے ہوئے۔
“آج آپ دکان پہ نہیں گئے؟”
“تمھارے بھانجے کے کاموں میں الجھ کر اپنا کام بھی بھول گیا تھا” جیب سے موبائل نکال کر وقت دیکھا۔
“ابھی تو چار ہی بجے ہیں۔ میرا خیال ہے ایک چکر لگا ہی آؤں دکان کا۔”
“جا ہی رہے ہیں تو واپسی پہ آتے ہوئے ایک کلو دہی بھی لیتے آئیے گا۔” فوزیہ نے باہر آ کر کہا تھا۔ وہ محض منھ بنا کر، بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گئے۔ کہ جو بھی تھا آخر یہ کام ان کی ذمہ داری ٹھہرے، کرنے تو تھے ہی۔ کھانے کی تیاری کے دوران ہی شازیہ نے فیاض اور اقدس سے ہوئی ساری بات فوزیہ کو بتائی تھی۔
“کتنی سمجھ دار ہے میری بچی ماشاء اللہ۔” فوزیہ نے سن کے بےساختہ کہا تھا۔
“تم تو خواہ مخواہ ہی اس کے پیچھے پڑی رہتی ہو۔” شازیہ ہنس دیں۔
“جب اس کا ڈولا تمھارے گھر آئے گا اور تمھیں روزانہ اس کے پھوہڑ پن کے جلوے دیکھنے کو ملیں گے تب میں پوچھوں گی کتنی سمجھدار اور سیانی ہے تمھاری بچی!” دھنیا اور پودینہ صاف کر کے وہ چٹنی بنانے لگی تھیں۔
“تب تمھارا دل کیا کرے گا کہ اس چٹنی کی طرح اسے بھی پیس کر رکھ دو، جیسے میرا دل کرتا ہے۔”
“ہائے ہائے اللہ نہ کرے شازیہ۔!” فوزیہ تو سچ مچ دہل گئیں
“بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ یہ اتفاق اور سلوک ہمیشہ برقرار رکھے آمین۔” شازیہ بھی دل میں آمین کہتے چٹنی پیسنے لگیں۔ ان کے ہاتھ کی چٹنی کے سبھی دلدادہ تھے۔
“اور ہاں فوزیہ۔! ایک بار سبکتگین سے ضرور بات کرنا، میں ان کے ابو سے کہوں گی کہ ایک دو دن ٹھہر کر بات کریں بھائی صاحب سے۔ کل کو انھیں یہ اعتراض نہ ہو کہ اقدس سے پوچھا تھا تو سبکتگین سے کیوں نہیں پوچھا؟” پلاؤ کے لیے مسالہ بھونتے فوزیہ نے سر ہلایا تھا۔
“سبکتگین سے تو بات آج رات ہی کر لوں گی اور پھر ان شاء اللہ ہم خود آئیں گے تمھارے گھر مٹھائی لے کر۔” دونوں بہنیں آنے والے وقت کو لے کر ابھی سے بہت خوش اور پرجوش تھیں کہ برسوں پرانی خواہش اب پوری ہونے والی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کل ہی کی بات تھی جب سبکتگین چار سال کا تھا اور اقدس پیدا ہوئی تھی تو ان دونوں بہنوں نے چپکے سے آپس میں یہ عہد باندھا تھا کہ سبکتگین اور اقدس کی شادی کرنی ہے۔ دونوں نے اپنے شوہروں کو بھی اس بات کی بھنک تک نہیں پڑنے دی تھی کہ دونوں ہی وقت سے پہلے اس قسم کی باتوں کے سخت خلاف تھے۔ ہاں لیکن جب اقدس نے بارہویں پاس کی تھی تب شازیہ نے دبے دبے لفظوں میں فیاض کو اپنی خواہش سے آگاہ کر دیا تھا۔ لیکن فوزیہ نے کبھی شاہد سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا کیونکہ انھیں معلوم تھا، شاہد کو اپنی بھتیجی بہت عزیز ہے، تو انھیں بھلا کیا اعتراض ہونا تھا۔ شاہد، سبکتگین کو آسٹریلیا بھیجنے کے لیے راضی ہو گئے تھے، اقدس بھی مان گئی تھی۔ سبکتگین سے پوچھنا بھی محض خانہ پری ہی تھا۔ فوزیہ ماں تھیں اس کی، بیٹے کے جذبات سے پوری طرح آگاہ۔ دونوں ہی خوش تھیں، اس بات سے بےخبر کہ اکثر تقدیر، انسان کی سوچی ہوئی تدبیر کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
فوزیہ اور شازیہ کچن میں تھیں، اقدس اور اریبہ لاؤنج میں ٹی وی پہ کوئی پروگرام دیکھ رہی تھیں۔
“السلام عليكم۔!” سبکتگین بائیک لیے اندر آیا تو صحن میں چارپائی پہ بیٹھے شاہنواز سے پوچھا۔
“آج بڑی گہماگہمی ہے گھر میں۔” شازیہ اکثر ہی بچیوں سمیت وہاں آتی رہتی تھیں، ان کا آنا کوئی خاص بات بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں سبکتگین نے کچھ الگ محسوس کیا تھا۔
“ویسے ہی بھائی۔” اسے فوزیہ نے سختی سے منع کیا تھا کچھ بھی بتانے سے۔
“کہیں آج تمھاری سالگِرہ تو نہیں ہے؟ جو سب جمع ہوئے ہیں؟” اس کے سر کے بال بکھیرتے وہ کچن تک آیا۔
“کوئی خاص بات ہے اماں!” فوزیہ سے پوچھا پھر خالہ کی طرف متوجہ ہوا۔
“آپ کیسی ہیں خالہ؟ وہ دونوں جنگلی بلیاں بھی آئی ہوئی ہیں؟ انھیں کیوں نہیں لگاتیں ساتھ کام کے لیے۔۔؟” شازیہ ہنس دیں۔ وہ ایسا ہی تھا سب کے لیے فکرمند رہنے والا۔
“انھیں بھی لگا لیں گے، ابھی تم جاؤ جا کر نہا دھو لو۔” فوزیہ نے کہا تو وہ اندر آیا۔ لاؤنج سے گزر کر اپنے کمرے میں جانا تھا اسے۔
“السلام علیکم سبکتگین بھائی! کیسے ہیں آپ؟پانی لاؤں آپ کے لیے؟” اسے دیکھتے ہی اریبہ چہکی۔
“وعلیکم السلام! میں ٹھیک ہوں۔ بور نہیں ہوتی یہ اول فول شو دیکھ کر؟” سبکتگین نے حسب معمول اسے جان بوجھ کر چھیڑا تھا۔
“بور ہونے کے لیے ہی تو دیکھ رہی ہوں۔ امی نے ڈانٹ کر سلاد بنانے کے لیے بلایا تھا کچھ دیر پہلے، الیکن جب دیکھا کہ پیاز اور ٹماٹر کی مٹی پلید ہو رہی ہے تو ڈانٹ کر بھیج دیا۔” اریبہ ہنس کر اپنا کارنامہ بتانے لگی۔
“کیسی ہو اقدس؟” سبکتگین کی نگاہ اب اس پہ ٹھہری، سیاہ فریم کا نظر کا چشمہ لگائے وہ ہر بار دل میں ہی کیوں اترتی جاتی تھی؟ وہ خود سے ہر بار پوچھتا تھا لیکن کوئی جواب نہ پا کر چپ ہو جاتا تھا۔
“میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟” اقدس کو کبھی اس سے یوں شرم یا جھجک محسوس نہیں ہوئی تھی، لیکن آج شاید شازیہ کی کی گئی بات کا اثر تھا کہ وہ نظریں ہی نہیں ملا پا رہی تھی۔ جبکہ دوسری طرف اس کے منھ سے “آپ۔!” سن کر اریبہ تو اریبہ، خود سبکتگین کا منھ بھی حیرت سے کھل گیا تھا۔ دونوں نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا پھر اریبہ نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چیک کیا۔
“بھائی! بخار تو نہیں ہے اسے، جو ہم سمجھیں کہ بخار کا اثر دماغ پہ ہو گیا۔”
“کیا ہے تمھیں۔؟” وہ جو پہلے ہی اس کی نظروں سے گڑبڑا رہی تھی، اپنے منھ سے نکلے ایک چھوٹے سے لفظ کے پکڑے جانے پہ مزید خفت کا شکار ہوئی تھی۔
“تم ٹھیک ہو اقدس!؟” سبکتگین سے واقعی اس کا یہ چپ چپ سا، جھکجکا سا انداز ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
“ٹھیک ہوں میں۔ پتا نہیں کیا مسئلہ ہے آپ دونوں کے ساتھ۔” اتنا کہہ کر وہ اٹھی اور شازیہ کو آواز لگاتے باہر نکل گئی۔ اریبہ ہنستے ہوئے اس کے پیچھے بھاگی تھی۔
(کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ لازمی ہے، ورنہ اقدس کے یہ انداز۔۔) سبکتگین سوچتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
“آخر آج ہے کیا؟ اماں بھی کچھ نہیں بتا رہیں۔ لگ تو رہا ہے وہ کچھ چھپا رہی ہیں۔ لیکن۔۔۔” وہ سوچے جا رہا تھا لیکن سوچ کا سرا ہی نہیں مل رہا تھا۔ غسل لینے کے بعد وہ اوپر چلا آیا تھا تاکہ اس سامان کا جائزہ لے سکے جو کچن کی سیٹنگ میں استعمال ہونا تھا۔ وہاں رکھی کاپی سے سامان کی فہرست نکال کر سارا سامان چیک کیا، کہ کیا رہ گیا تھا، کیا نہیں۔ ابا جی مانتے یا نہیں، یہ تو بعد کی بات تھی کم از کم اپنا کام تو مکمّل کرے۔
“کہیں ابا جی مان تو نہیں گئے؟” اس کے دماغ میں ایک دم سے کلک ہوا تھا۔ تبھی کھٹکے کی آواز پہ وہ چونکا پلٹ کر دیکھا تو فوزیہ کھڑی تھیں۔ ہاتھ میں شربت کا گلاس لیے۔
“تمھارے کمرے میں گئی تھی۔ تم تھے نہیں، تو میں سمجھ گئی کہ یہیں ہو گے۔” اس نے مسکرا کر ماں کے ہاتھ سے گلاس لیا۔
“جی بس میں سامان چیک کرنے آیا تھا۔ کہ سامان مکمل ہو تو کام شروع کرواؤں۔ لیکن آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا اماں! اور خالہ کو اکیلا چھوڑ کر آ گئیں؟”
“شازیہ گھر گئی ہے، ابھی آ جائے گی، بچیاں اور شاہنواز نیچے ہیں، تو میں تم سے بات کرنے چلی آئی۔”فوزیہ اس کے ساتھ بیٹھیں اور لچھ توقف کے بعد بولیں:
“تمھیں اقدس کیسی لگتی ہے؟” وہ بچہ نہیں تھا جو ان کے سوال کا مطلب نہ سمجھ سکتا۔ لیکن اسے ان کا یہ سوال کرنا عجیب ضرور لگا تھا۔
“اماں۔! یہ آپ پوچھ رہی ہیں؟ حالانکہ اگر میں یہ کہوں کہ مجھے اندر تک جاننے اور سمجھنے والے میری زندگی میں دو ہی لوگ ہیں ایک میری ماں اور دوسرا میرا دوست نجیب، ان دونوں سے کچھ بھی چھپا نہیں ہے۔ تو آپ مجھے سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی یہ سوال کر رہی ہیں کمال ہے نا اماں!” شربت پی کر خالی گلاس ہاتھ میں گھما رہا تھا۔
“لیکن ایک بار تمھاری رائے لینا بھی ضروری تھا بیٹا۔”
“اپنے بیٹے کی پسند سے واقف ہونے کے باوجود بھی رائے لینا ضروری تھا؟؟” وہ ہنسا، شاید ان تحفظات کو لے کر۔
“مجھے وہ اچھی لگتی ہے اماں۔! پتا نہیں کب سے۔ اور میں تو کب سے اس دن کا انتظار کر رہا ہوں کہ کب اللہ اسے میرے نصیب کا حصہ بنائے گا۔”
“بہت جلد ان شاء اللہ۔!” فوزیہ اس کا ماتھا چوم کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
“اللہ تم دونوں کو آپس میں محبت اور سلوک دے آمیــــن۔” اسے جلدی نیچے آنے کا کہہ کر وہ چلی گئیں تو اسے کچھ دیر پہلے اقدس کے اس عجیب برتاؤ کی وجہ سمجھ میں آئی تو گویا خالہ نے اس سے بھی پوچھ لیا تھا۔ اس کی شرم، حیا اور جھجک یاد کرکے سبکتگین مسکرا دیا تھا۔ وہ اٹھنا ہی چاہتا تھا جب سامنے ابا جی کو دیکھ کر چونک گیا۔ جب سے اوپر کچن سیٹ ہونے کی بات ہوئی تھی وہ اوپر کم ہی آتے تھے۔ لیکن آج جیسے اس کے لیے حیران در حیران ہونے کا دن تھا۔
“ابا جی آپ۔!” وہ فوراً کھڑا ہوا تھا۔
“مجھے بلا لیا ہوتا۔” وہ اس کی بات نظرانداز کرکے کمرے میں رکھے سامان پہ نظریں دوڑا رہے تھے۔ چند ایک لکڑیوں اور سنگ مرمر کی سلیب کو ہاتھوں سے ٹھونک بجا کر بھی دیکھا تھا۔
“میں نے سوچا کہ تم آسٹریلیا چلے جاؤ گے تو پیچھے یہ کام مجھے ہی دیکھنا ہو گا۔ تو آج تمھاری موجودگی میں ایک مرتبہ سارے سامان کا جائزہ لے لوں۔” کہتے ہوئے وہ اس کے سامنے آئے اور جیب سے ایک لفافہ نکال کر اسے دیا۔
“جی ابا جی۔۔!” وہ ابھی تک حیرت سے گنگ تھا۔ کہ لفافہ پکڑنے کو ہاتھ نہیں بڑھایا تھا۔
“تمھارے آسٹریلیا جانے کا معاہدہ ہے۔”ان کے کہنے پر، اب اسے نے وہ لفافہ پکڑا۔ اور بےتابی سے کھولنے لگا تھا۔
“اس میں جو شرائط ہیں وہ یقیناً تمھارے حق میں، اور تمھارے لیے قابل قبول ہیں کیونکہ میں نے ہی طے کی ہیں۔” وہ خوشی سے جھومنا چاہتا تھا۔ لیکن ابا جی کا ادب ملحوظ خاطر تھا۔
“آج میں نجیب کے دفتر میں، حسین صاحب اور ان کی بیٹی سے ملنے گیا تھا۔” اس نے حیرت سے باپ کو دیکھا جو انکشاف پہ انکشاف کیے جا رہے تھے۔
“یہ سب شرائط میں نے طے کی ہیں کہ تم ان کے ساتھ اپنی اچھی خاصی نوکری چھوڑ کر جاؤ گے۔ تو کیا ضمانت ہے کہ واپس آ کر نوکری رہے یا نہ رہے؟” وہ کاغذ کھول رہا تھا۔
“وہاں آسٹریلیا، جتنا عرصہ تم اس مقابلے میں شرکت کے لیے رہو گے اس دوران مہینے کے حساب سے وہ تمھیں نا صرف تنخواہ دیں گے بلکہ اس مقابلے کی تیاری اور وہاں جانے کے سب اخراجات وہی برداشت کریں گے۔” وہ ایک ایک شق دھیان سے پڑھ رہا تھا۔
“اور واپس آنے پر، جب تک تمھیں کوئی اچھی نوکری نہیں مل جاتی وہ تمھیں اپنی کمپنی میں ملازمت دینے کے پابند ہوں گے” جو جو وہ بتا رہے تھے، ویسا ہی لکھا تھا آخر میں حسین اور عبیرہ کے علاوہ کمپنی کے دو معتبر افراد کے بطور گواہ دستخط بھی موجود تھے۔ اور ان کی کمپنی کے وکیل کا لکھا نوٹ بھی منسلک تھا کہ حسین یا عبیرہ کی غیر موجودگی میں کمپنی کے مینیجر اس پہ عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ آخر میں صرف ایک جگہ دستخط نہیں ہوئے تھے۔
“یہاں تمھارے دستخط ہوں گے۔” اس کی نظروں کے تعاقب میں پہنچتے، وہ بولے تھے۔
“اور یہ معاہدہ تبھی قبول ہو گا جب تم اس پہ دستخط کرو گے۔” اسے سب کچھ منظور تھا۔ بھلا اعتراض کرنے جیسا تھا بھی کیا؟ یقیناً ابا جی نے اس سے زیادہ سمجھداری کے ساتھ یہ معاہدہ لکھوایا ہو گا۔ اس کے ہاتھ پنسل اٹھانے کو بڑھے۔
“لیکن اس سے پہلے میری ایک شرط ہے۔” اس کا ہاتھ ساکت ہوا۔ وہ پلٹا اور سوالیہ نگاہوں سے باپ کو دیکھا۔
“میں جانتا ہوں کہ تمھاری اماں تمھارے لیے اقدس کو پسند کرتی ہیں۔ اور شاید شازیہ اور وہ دونوں آپس میں معاملہ طے کیے بھی بیٹھی ہیں لیکن۔۔!” سبکتگین دم سادھے انھیں سن رہا تھا۔
“لیکن!!؟” اسے لگا جیسے سانس سینے میں اٹکنے لگی تھی۔
“تمھیں آسٹریلیا جا کر شیف کا سرٹیفکیٹ لینے اور میری بھتیجی اقدس، دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔” سبکتگین کو یوں لگا زمین و آسمان گھوم گئے تھے۔
“ابا جی یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” پنسل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی۔ انھوں نے بغور اس کا حال ملاحظہ کیا تھا۔
“فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے۔”
“لیکن کیوں ابا جی!؟” وہ فقط اتنا ہی پوچھ سکا تھا۔
“بس سبکتگین! تمھاری اور تمھاری ماں کی ضد کے سامنے میں جھک تو گیا ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ مجھے اب بھی تمھارا شیف بننا سخت ناگوار ہے۔ لیکن بہرحال! تمھاری خوشی ٹھہری۔” اس نے ابا جی کو دیکھا تھا۔ (خوشی کا خیال تھا لیکن ایسا خیال کہ زندگی سے رنگ چھین رہے تھے۔)
“کل شام تک اچھی طرح سوچ کر بتا دینا۔”وہ جانے کو پلٹے تو وہ ان کے راستے میں آ گیا۔
“کیوں ابا جی؟” وہ اب بھی سراپا سوال تھا۔
“دیکھو سبکتگین! اقدس مجھے اپنی بیٹی کی طرح عزیز ہے یہ نہ ہو کہ کل تم مستقل طور آسٹریلیا رہ جاؤ اور یہاں میری بچی، تمھارے نام پہ، تمھارے انتظار میں ہی بیٹھی رہے۔ اس لیے تمھیں آسٹریلیا یا اقدس۔۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔” انھیں اس کے جذبات و احساسات کی کوئی پروا نہیں تھی، وہ اب بھی فیصلہ سنا کر جا چکے تھے۔
“اقدس یا آسٹریلیا جانا۔۔۔” وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔
“ایک طرف برسوں سے دل میں دبی محبت تھی تو دوسری طرف مدت سے آنکھوں میں سجا ایک خواب۔۔۔” زندگی نے اسے عجیب سے دوراہے پہ لا کر کھڑا کر دیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...