اب تو وہ منزہ کے ساتھ ساتھ اپنی مرحومہ خالہ کے نام سے بھی بے زار ہونا شروع ہو گئی تھی اور وہ خود پہ حیران تھی کہ آ خر منزہ کا بے ضرر وجود اس کے لیے نا قابل برداشت کیوں ہے؟
اصغر کے نکلتے ہی سب نے اپنے اپنے کمروں کا رخ کیا تھا وہ بھی عرینہ اور مرینہ کے ہمراہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور سیدھی بستر میں گھس گئی تھی۔اس کو نیند نہیں آ رہی تھی لیکن وہ سب سے چھپ کر الگ ہو کر رہنا چاہتی تھی ان آخری لمحوں میں اس کی نگاہوں نے اس شخص کو پورے کا پورا خو د میں سما لیا تھا۔ اس ایک نظر میں اس نے اس شخص کو خو د میں بسا لیا تھا زندگی میں پہلی بار دینا نے اس کو اتنی گہری نظروں سے دیکھا تھا اور اب اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی الگ انسان نہیں اس کے وجود کا حصہ ہوجیسے وہ اس سے الگ کبھی تھاہی ہیں جیسے وہ ہمیشہ سے اس کا ہو لیکن پھر بھی۔۔۔۔اسے اپنے ہاتھ سے کوئی چیز پھسلتی ہوئی محسوس ہوئی ریل گا ڑی نے جیسے رینگتے رینگتے اسے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہو ، کشتی کے ملاح نے جیسے اسے بیچ منجدھار میں لا کر چھوڑ دیا ہو” ہاں پھوپھی انگلستان کی حسینائوں کا کیا کہنا!” کوئی اس کے کان میں سرگوشی کر رہا تھا اس نے کمبل اپنے وجود سے ہٹا لیا اور برآمدے میں سے آتی زرد رنگ کی بلب کی مدھم روشنی میں اس نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کا جائزہ لیا” تو جو شخص میرے دل میں ہے وہ میرے ہاتھ کی لکیروں میں نہیں؟ یا پھر میں نے خود اسے پرایا کردیا ؟ کوئی وعدہ کیوں نہیں لیا میں نے اس سے؟” آنکھیں گرم گرم اشکوں سے بھر گئیں۔ ”پر میں کیا وعدہ لیتی اس سے؟ کیا کہتی کہ وہ محبت نہ کرے ؟ تو کیا مجھے وعدہ لینے کا حق تھا؟ پر مجھے تو اپنا حق استعمال کرنا کبھی نہیں آیا۔۔۔ وہ ۔۔۔ چلا گیا۔۔۔ مجھ سے کوئی بھی وعدہ کئے بغیر۔۔ اب ۔۔۔جب کہ میں اس سے محبت کرنے لگی ہوں۔۔۔ زندگی میں پہلی بار کوئی خواب دیکھنے لگی ہوں ۔۔۔۔” اسکی آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں رواں تھیں۔
اس رات اس نے دل کی گہرائیوں سے اس حقیقت کا اعتراف کرلیا تھا ” انسان خواب دیکھتا نہیں اسے خواب آ تے ہیں اور محبت کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے۔”
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پہ یہ حقیقت آشکار ہوتی گئی کہ منزہ کو دیکھ کر اس پہ ایک قسم کا جنونی دورہ آتا ہے اور پھر وہ منزہ سے دور رہنے لگی تھی لیکن اس کی یہ کوشش ناکام اس لیے تھی کہ وہ اس کے ساتھ اس کے کمرے میں رہتی تھی، اس کے ساتھ اس کے بیڈ پہ سوتی تھی اور حمائل اصغر نا چاہتے ہوئے بھی دن میں کئی بار اس دورے کا شکار ہوتی جس میں منزہ کے ساتھ ساتھ اس کا اپنا بھی بے پناہ نقصان ہوا کرتا تھا۔وہ اتوار کی شام تھی جب حمائل اپنے کمرے میں بیٹھی سر یوسف کے دیئے ہوئے ہوم اسائنمٹ مکمل کر رہی تھی منزہ لائو نج میں بیٹھی امی جی کا سر دبا رہی تھی۔وہ اپنا ہوم ورک مکمل کر رہی تھی ۔
“بس بیٹا! تم جا کے سٹڈی کرو میں ٹھیک ہوں اب۔” اس نے امی جی کی آواز سنی تھی اور وہ یقیناً منزہ سے مخاطب تھیں ان کے لہجے کی مٹھاس نے ایک بار پھر حمائل کے اندر وہ انجانی سی تلخی بھر دی۔” تو منزہ مجھ سے میرا بھائی ، میری امی جی ، میرے ابو جی کو لے لے گی؟پھر میں کیا کروں گی؟ ” اس خیال سے وہ اچھل پڑی ۔۔ جل گئی۔جل جل کے راکھ ہوتی گئی پر کیا تھا اس کے بس میں ؟ اپنی کس کس چیز ، کس کس رشتے کو وہ منزہ علی کی پہنچ سے دور رکھتی؟ وہ خا موش لڑکی کچھ نا مانگ کے بھی سب کچھ ہتھیا لیتی تھی اور حمائل کے ذہن پہ ایک بوجھ اور ایک نا ٹلنے والے طوفان کی طرح سوار تھی۔ وہ کرسی سے اٹھ کر منزہ کے بیگ کے پاس آئی تھی۔اس کے بیگ سے کیمسٹری کی نوٹ بک نکال کر وہ دیکھنے لگی۔ منزہ بڑی نفاست سے اسائنمنٹ مکمل کر چکی تھی ۔ حسد کا بھڑکتا شعلہ حمائل کے وجود کو جلانے لگا۔ دیوانگی کی اسی حالت میں اس نے منزہ کی نوٹ بک سے اسائنمنٹ والے صفحات پھاڑ دئیے اور پھر وحشیانہ انداز میں قالیں پر ٹانگیں پھیلا کر اس نے کاغذ کے ان صفحات کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے کردئیے اور قہر بھری نظر سے ان کاغذ کے ٹکروں کو دیکھتی گئی جس کو اس نے خو د پھاڑا تھا۔کاغذ کے ان پرزوں کو اس نے قالین سے سمیٹ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا اور پھر وہ ہنسنے لگی، بے تحاشا ہنسنے لگی، اتنی ہنسی کہ ہنستے ہنستے اس کا منہ دکھنے لگا۔
بوجھل سے قدموں سے اس نے سٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھ کر اپنی نوٹ بک کھول لی اور اپنی ہوم اسائنمنٹ مکمل کرنے لگی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” سلطانہ آرہی ہے” بڑے ابا نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
” کب آرہی ہے” ؟ بڑی اماں نے آلو سے چھلکا ہٹاتے ہوئے پوچھا۔
” شام تک پہنچ جائے گی۔ تم رات کے کھانے پہ اچھا اہتمام کرلینا۔ بہت لمبے عرصے بعد آ رہی ہے۔” کرسی کی پشت پرٹیک لگاتے ہوئے بڑے ابا بولے۔
” ہاں۔ اللہ بخشے سعید کی فوتگی پہ آئی تھی اس کے بعد نہ ہم گئے نہ وہ آئی” بڑی اماں آلو کاٹنے لگیں۔
” یہ سلطانہ کون؟ کہاں سے ؟ ” مرینہ نے عرینہ سے پوچھا۔
” تمہارے ابا کے ماموں کی بیٹی ہے۔پھوپھی ہوتی ہے تمہاری ۔” اماں نے پیاز کاٹتے ہوئے مرینہ کو جواب دیا۔
” لو ایک اور پھوپھی کا اضافہ ۔۔۔۔” عرینہ نے بے زاری سے کہا۔
” یار ایک بات تو مجھے سمجھ نہیں آتی ۔ ” مرینہ نے عرینہ کے کندھے پر بازو جما تے ہوئے کہا۔
” کس بات کی” ؟عرینہ نے دلچسپی سے مرینہ کو دیکھا۔
” یہی کہ ہماری ہر پھوپھی رات کے کھانے پر کیوں پہنچ جاتی ہیں۔” ؟؟؟مرینہ نے معصومیت سے کہا تو عرینہ نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
کرسی پر بیٹھے ابا نے نیم وا نکھوں سے عرینہ کو دیکھا ور پھر سے آنکھیں بند کرلیں۔۔ ان کے پاس ہی بیٹھی اماں نے قہرناک نظروں سے عرینہ اور مرینہ کو باری باری دیکھا۔
ہر وقت پاگلوں کی طرح ہنسنا اچھی بات نہیں ہے۔ تم دونوں جائو با ورچی خانے میں۔چائے بنا کے لائو۔صالحہ اور صابرہ دونوں چائے کی شوقین ہیں ۔ ان کو بھی دے آئواور تیرے ابا بھی تھک کر آئے ہیں۔ چلو جائو تم دونوں۔” اماں نے لمبی سی تقریر سنا دی اور عرینہ چہرے پہ ناگواری کے تاثرات لئے اٹھی۔ “چائے تو بنا لیں گے لیکن ساتھ میں فضول تفصیلات بتانے کی کیا ضرورت؟ ” عرینہ بڑ بڑائی اور مرینہ کے ساتھ باورچی خانے کے اندر چلی گئی۔
” کاش میری ماں تیری ماں کی طرح شریف ہوتی۔” عرینہ نے حسرت سے کہا ۔
” میری اور اپنی ماں کی بات چھوڑو۔اپنی فکر کرو!کل کو تیرے بچوں کو تجھ سے یہ شکایت ہوئی تو؟” دینا نے باورچی خانے کے اندر آتے ہوئے کہا۔” تم خدارا اپنی بکواس نہ شروع کرنا” عرینہ سخت بے زار تھی۔
دینا مسکراتی ہوئی باورچی خانے سے نکل کر صحن میں چلی گئی۔
چولہے پر پڑی کیتلی میں پانی ابل رہا تھا۔عرینہ بد حواسی سے ادھر ادھر چائے کا ڈبہ ڈھونڈ رہی تھی اور مرینہ کو چینی کا ڈبہ نہیں مل رہا تھا۔دودھ کہاں پر پڑا تھا؟یہ بھی ان کو معلوم نہ تھا۔
صحن کی مشرقی کیاری سے تھوڑی سی مٹی اپنی ہتھیلی پر رکھ کردینا کو کچھ یاد آرہا تھا۔” جو ملتان والی پھوپھی آج آرہی ہیں۔انہی کا بیٹا تھا جسے میں گھوڑا بناتی تھی۔اصغر کسان تھا اور میں کسان کی بیوی۔۔۔وہ اسی کیاری اسی مٹی کی گوڈائی کیا کرتا تھا۔” اس نے اپنی ہتھیلی پر پڑی مٹی کو اپنی آنکھوں کے قریب کرلیا۔ “کسی کے چلے جانے سے باہر کے ماحول پہ کوئی اثر نہیں پڑتا۔اندر کا ماحول خراب ہو جاتا ہے سارا۔ اس نے اپنی ہتھیلی سے مٹی پھینک دی۔ اور محبت کا اظہار بہت ضروری ہوتا ہے کیا؟بنا اظہار کے محبت نہیں کی جاسکتی کیا؟ جو وہ جاتے جاتے مجھے درد سر دے گیا ” اس نے جھنجلاتے ہوئے سوچا ۔ اچانک اس کو عرینہ اور مرینہ کا خیال آگیا اور اس کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ چھا گئی۔
” بڑی ماں بہت کام کرواتی ہیں بے چاریوں سے ۔۔۔” وہ باورچی خانے کی سمت چلی گئی ” چائے بن بھی گئی ہو گی کہ نہیں ؟ وہ باورچی خانے کے اندر چلی گئی ۔ وہ دونوں وہاں نہیں تھیں ” مطلب چائے بن گئی ہے مگر کیسے؟؟!وہ تعجب کے عالم میں باورچی خانے سے نکل آئی ۔ عرینہ اور مرینہ کے ہاتھوں بنی چائے کو چکھنے کا اشتیاق اسے ہال تک گھسیٹ لایا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
رات کا کھانا کھالینے کے بعد وہ دونوں ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں ۔ حمائل بیڈ پر بیٹھ کر ڈائری لکھنے لگی اور منزہ کالج کے لیے اپنا بیگ ٹھیک کررہی تھی جب اس کو اپنی کیمسٹری کی کاپی میز پر پڑی نظر آئی۔ “میں نے اسائنمنٹ کمپلیٹ کر کے اس کو بیگ میں رکھ دیا تھا ۔” اس نے میز پر سے اپنی کاپی اٹھا لی اور اسے کھول کر اس نے اپنے مکمل کیے ہوئے اسائنمنٹ پر ایک سرسری نگاہ دوڑائی پر ۔۔۔ وہاں وہ صفحات موجود نہیں تھے بلکہ ان کی بجائے پھٹے ہوئے صفحوں کے نشان تھے۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ یہ حرکت کس نے کی تھی ؟ یہ پوچھنے کا حق منزہ علی کو اس گھر میں نہیں تھا کیوں کہ یہ اس کا نہیں حمائل اصغر کا گھرتھا اور وہ اس کے ساتھ جو بھی الٹی سیدھی حرکت کرتی منزہ نے بہر حال وہ برداشت کرنی تھی کیوں کہ اس کے پاس برداشت اور صبر کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
وہ اپنی نوٹ بک اٹھا کر سٹڈی ٹیبل کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔ حمائل اپنی ڈائری سائیڈ ٹیبل پر رکھ چکی تھی۔ منزہ کو کاپی کھولتے دیکھ کر وہ ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گئی ” لائٹ آف کر دو، مجھے سونا ہے۔” اس کے لہجے میں اجنبیت اور حقارت سمیت بے زاری بھی تھی ۔
” ٹھیک ہے حمائل ! تم نے اچھا کیا میرے ساتھ اور تم وہ لڑکی ہو جس نے میرے گھر آکر میری پسندیدہ گڑیا پر انگلی رکھ کے کہا تھا کہ ” یہ مجھے اچھی لگی ہے ” اور میں نے خاموشی سے وہ گڑیا تمہیں تھما دی تھی اور۔۔۔۔ پھر میں کئی راتوں تک اپنی گڑیا کے پیچھے چپکے چپکے روئی تھی۔ ” لائٹ آف کر کے منزہ سٹڈی لیمپ کی روشنی میں اسائنمنٹ مکمل کرتے ہوئے سوچتی رہی ۔” لیکن میں پھر بھی تمہاری احسان مند ہوں کہ تم نے مجھے اپنے گھر اور اپنے کمرے میں رہنے کی اجازت دی ہے ورنہ تو میں کہاں جاتی ؟ تم چاہو تو بدل جائو لیکن میں وہی منی رہوں گی جس کے ساتھ تم گڑیوں کا کھیل کھیلتی تھی ۔” اس کی آنکھیں بھر آئیں اور اس کے سامنے پڑی کاپہ لکھا ہر لفظ دھندلا نے لگا۔اس کا ہاتھ لکھتے لکھتے تھک چکا تھا لیکن وہ پھر بھی کافی دیر تک اسائنمنٹ مکمل کرنے میں لگی رہی ۔
اسائنمنٹ مکمل کرکے وہ اپنی کاپی بیگ میںرکھ رہی تھی جب لیمپ کی مدھم روشنی میں اس نے سٹڈی ٹیبل کے پاس بڑے ڈسٹ بن میں پڑے کاغذ کے ٹکڑوں کو دیکھ لیا ۔ کاپی بیگ میں رکھ کے وہ واش روم کے اندر گئی تھی اور سنک کا نلکا کھول کر اس نے ہاتھوں کے پیالے میں پانی بھرا اور زور زور سے اپنے چہرے پر دے مارا” آپ کا مرنا کیا بہت ضروری تھا امی” ؟سامنے دیوار پہ لگے آئینے میں اپنے بھیگے چہرے کو دیکھ کر اس نے تاسف سے سوچا اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔اپنے اشکوں کو خشک کرنے کے بہ جائے اس نے انہیں آزادی سے بہنے دیا تھا ۔اس کو اپنے آنسو بہانے کا بھر پور حق حاصل تھا اور وہ اپنے اس حق کا استعمال اکثر تنہائی میں کرتی تھی ۔ واش روم سے نکل کر وہ حمائل کے پاس جا کے لیٹ گئی ۔ تھوڑی دیربعد وہ گہری نیند سو رہی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
پھوپھو جی پہنچ گئیں اور سب باری بار ی ان سے گلے مل رہی تھیں ۔
” اصغرکے چلے جانے کی خبر ہوتے ہی یہاں آنے کی تیاریوں میں لگ گئی ۔ سوچا تم لوگ اداس ہورہے ہوں گے”۔ پھوپھو جی پلنگ پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔ ” تو آپ کون سا عید الاضحی ساتھ لائی ہیں جواب ہم خوش ہو جائیںگے۔” عرینہ بڑ بڑائی تو دینا نے جواباً اسے گھورا۔
” ہاں اچھا کیا ناں جو تم آگئی ۔ اتنا لمبا عرصہ ہوا تم کو یہاں سے گئے ہوئے۔ ” بڑی ماں نے نرمی اور عقیدت سے کہا ۔
” ہاں ! واقعی لمبا عرصہ ہوگیا ہے اب ان بچیوں کو دیکھو کتنی بڑی ہو گئی ہیں ۔” پھوپھی جی نے پیا ر بھری نظروں سے دینا ، عرینہ اور مرینہ کو دیکھا۔
” اری فرحت ! تم ویسی ہی کم گو ہو؟ انہوں نے تبسم کے قریب خاموش بیٹھی فرحت کو دیکھا ” وہ اللہ بخشے سعید اکثر کہتا تھا ” آپا! جب تک میں خود کچھ نہ لائوں یہ نہیں مانگتی ۔ حد سے زیادہ شرافت بھی اچھی نہیں ہوتی۔” ان کی اس بات سے فرحت کے لبوں پر ایک کھوٹی سی مسکراہٹ لہرائی ۔” جب وہ تھا تو مجھے کبھی مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔۔۔ ” ماضی کی حسین یادیں ان کے ذہن میں موجود تھیں ۔ زندگی میں ہم سفر کی ضرورت تو ہمیشہ ہوتی ہے ۔ اس کٹھن سفر کو طے کرنے کے لیے کسی کا ساتھ ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے یہ وہ جانتی تھی ۔اس گھر کے ہر فرد نے ان کو بے پناہ اہمیت اور پیار دیا تھا لیکن ان سب کے بیچ سعید کے مسکراتے چہرے کی کمی وہ ہمیشہ محسوس کرتی تھی ۔ وہی واحد شخص تھا جس کو وہ دل کی گہرائیوں سے اپنا مانتی تھی ۔جس کو وہ کچھ بھی نہ بتاتی بس اس کے سامنے بیٹھ جاتی تو وہ لمحوں کے حساب سے اس کو سمجھ لیتا تھا، جو باقی سب کے لیے مرحوم لیکن ان کے لیے زندہ تھا ۔۔۔ ان کا شوہر ، ان کا ہم سفر ان کا سب کچھ تھا۔ ان کا مان تھا، ان کی خوشیاں ،شادمانیاں ، چاہتیں ، محبتیں اس کی ذات سے جڑی تھیں اور پھر کس قدر اچانک اس نے آنکھیں موڑ لی تھیں ۔ ان کو زندگی کے کٹھن سفر میں اکیلا چھوڑ دیا تھا اور ان میں بھی شاید تنہا سفر کی سکت نہ تھی۔ اسی مقام پر چلتے چلتے رُک گئیں جہاں وہ انہیں چھوڑ گیا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
لائٹ آف ہونے کے باوجود اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے کافی دیر تک مکر کیے پڑی رہی ۔ کروٹیں بدلتی رہی اور وقفے وقفے سے آنکھیں کھول کر وہ منزہ کو دیکھ لیتی، جو سٹڈ ی چیئرپہ بیٹھی سر جھکائے اپنے کام میں مگن تھی ۔ حمائل پھر سے آنکھیں بند کر لیتی، تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا منزہ اپنی ہتھیلیوں سے اپنے آنسو خشک کررہی تھی ۔ حمائل کو بے اختیار اس پہ تر س آگیا ۔ اس نے پچھتاوے سے آنکھیں بھنچ لیں ۔ نہ جانے کیوں اس کو منزہ سے نفرت تھی ؟ وہ اپنی مرضی سے تو نہیں آئی تھی یہاں اور کوئی کب چاہتا ہے کہ اس کی ماں مرجائے اور وہ بے سہار ا ہو کے خالہ کے گھر رہنے لگے ؟ حمائل کے دل میں پچھتاوئے کا سمندر ہچکولے کھارہا تھاپر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ اس کو اب نیند بھی نہیں آرہی تھی ۔ وہ آنکھیں بند کرکے خود کو ملامت کرتی رہی۔ کافی دیر تک اپنے آپ سے لڑتی رہی اور پھر اس نے دھیرے سے آنکھیں کھول دیں ۔ منزہ واش روم سے نکل کر اس کے پاس آکر لیٹ گئی ۔ حمائل دم سادھے پڑی رہی ۔ وہ اپنے کیے پہ سخت شرمندہ تھی ۔” فضول میں بے چاری کو رلا دیا ” ۔ اس نے کروٹ بدلتے ہوئے خود کو ملامت کیا ۔
کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی اسے نیند نہیں آئی تو اس نے سر اٹھا کر منزہ کو دیکھا وہ بڑے آرام سے سورہی تھی ۔ حمائل دھیرے سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔چہرہ اسے کے چہرے کے بالکل نزدیک لا کر اس نے بہ غور منزہ کے سوئے ہوئے چہرے کا جائزہ لیا ۔ اس چہرے پہ اس وقت طمانیت کے سوا کسی قسم کی افسردگی کا سایہ تک نہ تھا ۔وہ لڑکی جوکچھ دیر پہلے بڑی بیچارگی سے روئی تھی اس وقت وہ بڑے آرام سے سو رہی تھی۔ وہ واقعی در گزر کرنے والی لڑکی تھی ۔ حمائل کو اب اس پہ بے پناہ پیار آرہا تھا ۔ اس نے جھک کر منزہ کا بوسہ لیا اور دوبارہ لیٹ گئی لیکن باوجود کوشش کے وہ سو نہیں پائی ۔ ایسا ہی ہوتا تھا کہ منزہ کو نقصان پہنچانے کے چکر میں وہ اپنا بھی بے پناہ نقصان کر دیا کرتی تھی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” پھوپھی جی ! وہ سلیم کیسا ہے ؟ اور زیبا؟ دینا نے پھوپھی کی ٹانگیں دباتے ہوئے پوچھا ۔” دونوں اچھے ہیں ۔ سلیم تمھارا او ر اصغر کا دوست تھا ناں ۔۔۔اکثر تم دونوں ہی کی باتیں کرتا ہے ۔” پھوپھی جی نرمی سے بولیں ۔
” ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں ۔؟ ہمار ا تو کوئی بچپن کا دوست بھی نہیں جس کو بیٹھ کے یاد کریں ۔” عرینہ نے مرینہ کے کان میں سرگوشی کی ۔
” تم دونوں چلو آئو میرے ساتھ۔ بڑی ماں نے کمرے سے نکلتے ہوئے سختی سے کہا اور وہ دونوں منہ بسورتی ہوئی کمرے سے نکل گئی تھیں ۔
” زندگی اپنی جب اس طور سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے ۔
” عرینہ نے حسرت سے کہا اور دستر خوان بچھانے لگی۔
” بڑی ماں کو ناں ہم دونوں بے روز گار لگتی ہیں ۔ ہر وقت ہمارے لیے روز گار کی تلاش میں رہتی ہیں ۔” مرینہ نے ناراضگی سے کہا ۔
” ہاں ہم بے روز گار ہیں تو وہ دینا جناح کون سی برسرِروزگار ہے ؟ عرینہ نے غصے سے جواب دیا ۔
کھانا کھالینے کے بعد بڑی ماں نے ان دونوں کو پانچ منٹ بھی آرام سے بیٹھنے نہیں دیا تھا ۔
“تم دونوں جا کے قہوہ بنا لو سب کے لیے ۔ صالحہ میٹھا نہیں پیتی اس کے لیے الگ سے بنا لو اور صابرہ کو اس وقت چائے کی طلب ہوتی ہے ۔ اس کے لیے چائے بناکر لے آئو ” اور وہ دونوں دانت پیستی ہوئی اٹھی تھیں۔
“یہ تو پیچھے ہی پڑ گئیں۔” عرینہ نے باورچی خانے کے اندر جاتے ہوئے غصے سے کہا ۔ آج ہمارے گھر سے پھوپھی گھر بن گیا ہے ۔ ” مرینہ نے پانی کی کیتلی چولہے پر رکھ دی ۔” ہاں پھوپھیوں کی بارش ہوئی ہے اور ساری ہمارے گھر آبرستی ہیں جن سے ایک قہوہ بڑے شوق سے پیتی ہیں ۔ دوسری اس سے بھی زیادہ شوق سے پیتی ہیں لیکن میٹھا نہیں کیوں کہ ان کو شوگرکا مرض لاحق ہوا ہے اور تیسری پھوپھی صاحبہ جو ہے سرے سے قہوہ ہی نہیں پیتیںبلکہ رات کے وقت ان کو چائے کی طلب ہوتی ہے اس لیے ان کے لیے چائے بنانی پڑے گی ۔ ” عرینہ مسلسل بولے جارہی تھی ۔ جتنا وہ کاموں سے بے زار تھی اتنا ہی اماں اس سے کام کروا رہی تھیں اور اس کا دل کررہا تھا وہ باری باری سب گھروالوں کو چبا جائے۔
” بھئی ! یہ ہمارا گھر ہے یا چائے کا ہوٹل ؟ بلکہ مجھے تو لگتا ہے یہ سرائے ہے ۔ جہاں لو گ جب تک چاہیں رہ لیتے ہیں اور اپنی پسند اور فرمائیشو ں سے چائے ، قہوہ جو بھی ہو کھا پی لیتے ہیں ۔” دو قسم کا قہوہ بن چکا تھا اور مرینہ اب چائے بنا رہی تھی اور ساتھ ساتھ بولے جارہی تھی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اگلے دن کالج میں بریک کے وقت حمائل اپنے دوستوں کے پاس جانے کے بہ جائے منزہ کے ساتھ بیٹھی رہی ، جو اس کے ساتھ ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھی لیکن حمائل کے برعکس منزہ کا کوئی دوست نہیں تھا ۔
تابندہ اور فضہ اسے بلانے آئی تھیں کہ سب اس کو ڈھونڈ رہے ہیں لیکن اس نے درد سر کا بہانہ بنایا تھا ۔ وہ اپنی ندامت کے احساس کو کم کرنے کے واسطے منزہ کے پاس بیٹھی رہی ۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ اس خاموش طبع لڑکی پہ اس کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں پڑنا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے کھنکار کر کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن اس کو بات کرنے کے لیے کوئی موضوع نہیں مل رہا تھا ۔ یہ وہ لڑکیا ں تھیں جو بنا موضوع کے اتنی باتیں کرتیں ، اتنا بولتیں کے گھر والوں کے سروں میں درد کردیتی تھیں ۔
تم مجھ سے بات کرنے کے لیے موضوع ڈھونڈرہی ہو ؟پر جب نفرتیں اور دوریاں درمیان میں آجاتی ہیں تو۔۔۔ پھر ڈھونڈنے سے بھی موضوع نہیں ملتا اور تم میری وہی دوست ہو جس کو مجھ سے بات کرنے کے لیے کبھی کسی موضو ع کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔ ” کلاس میں کرسی پہ بے انتہا خاموش بیٹھی وہ سوچتی رہی۔” بدلتا وقت اپنے ساتھ ساتھ انسانوں کو کس قدر بدل جاتاہے ۔ ” اس نے تاسف سے سوچا تو اس کی آنکھوں میں اشک منڈلانے لگے۔ وہ دوسری طرف منہ کرکے دیکھنے لگی ” تم یہی کہنے کے لیے یہاں بیٹھی ہو ناں کہ تمہیں اپنے کیے کا پچھتاوا ہے ۔ پر سچ کہوں تو یہ سب کرنا تمھارا حق ہے میں جو مفت میں تمہارے گھر ، تمہاری چیزوں اور تمہارے رشتوں پر قابض ہو گئی ہوں اور میں اس کو تمہاری اعلیٰ ظرفی سمجھتی ہوں کہ جیسے بھی ہو ، بہر صورت تم میرے ناقابل برداشت وجود کو برداشت کرہی رہی ہو ۔ ” اپنی عمر اور تجربے سے قدرے بڑی سوچ رکھنے والی اور خاموشی سے درگزر کرنے والی منزہ علی نے فراخ دلی سے سوچا تھا ۔ اس وقت حمائل باوجود کوشش کے بھی اس زہر گھولتی خاموشی کو توڑ نہیں پائی ۔۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” ہاں تو بھئی ! ختم ہو گئے تمہارے بچپن کے دوستوں کے تذکرے؟ عرینہ نے دینا کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ۔
” ہاں ۔ ” دینا نے مسکراتے ہوئے مختصر سا جواب دیا اور اپنے پلنگ پہ دراز ہو گئی پتا نہیں کیوں اس کو عرینہ کی تلخی پہ کبھی غصہ نہیں آیا ؟ بلکہ اس کو تو کبھی کسی کی تلخی پر غصہ نہیں آتا تھا ۔ غصے کا عنصر شاید اس کی ذات میں شامل ہی نہیں تھا ۔
” مجھے تو بھائی جان ہمیشہ بھکارن ہی بناتے تھے ۔ مجال ہے جو کھیل میں مجھے کوئی اچھا کردار ملتا ہو کبھی۔” عرینہ نے خفگی سے کہا ۔
” ہاں تو وہ شکل دیکھ کے کردار دیا کرتے تھے ناں ۔” مرینہ نے جھٹ سے کہا ۔
” تو تمہیں کون سا ملکہ بناتے تھے ؟تم بھی تو کسان کی ” بلی ” ہوتی تھی ۔” عرینہ نے مرینہ کو ٹوکا۔ دینا ان کی بحث پر خاموشی سے مُسکراتی رہی ۔ اس کو یہ دونوں بے دھڑک سی لڑکیا ں کتنی اچھی لگتی تھیں ۔ وقت بولتے رہنے والی اس کی بہن اور تا یا کی بیٹی اس کے لیے ایک دل چسپ فلم کی طرح تھیں جس سے وہ جب چاہتی مفت میں لُطف اندوز ہوتی۔
” عرینہ بجیا! ایک بات بولوں؟” تھوڑی دیر بعد مرینہ کی آواز ابھری ۔
” ہائے ہائے اتنی عزت ؟ اتنا احترام؟” عرینہ نے طنز کیا ۔
” آپ کو میری بہن ہونا چاہیے تھا ۔” عرینہ نے بات کہہ ڈالی ۔
” کیوں تمہیں میں اتنی اچھی لگتی ہوں؟” عرینہ اب غور اور دلچسپی سے مرینہ کو دیکھ رہی تھی ۔
” نہیں اصل میں آپ میری طرح بدتمیز ، اور گستاخ ہیں ۔ ” مرینہ کی اس بات سے عرینہ اچھل پڑی ” کمینی” مجھے نوازنے کے لیے کیا تجھے یہی القابات ملے تھے؟عرینہ اب اس کو ڈانٹ رہی تھی ۔ دینا نے کروٹ بدلی ۔ وہ دونوں جو پورا دن کام کرتے کرتے تھک گئیں تھیں اب لڑنے میں مصروف تھیں اور وہ جو پورا دن فارغ تھی اس کو نیند آرہی تھی ۔ اس نے آنکھیں بند کردیں ۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں بھی آرام سے اپنے اپنے بستروں میں سورہی تھیں ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” امی جی ! میں ہوسٹل شفٹ ہونا چاہتا ہوں ۔” رات کا کھانا کھاتے ہوئے شہروز نے سنجید گی سے امی کی طرف دیکھا ۔
” کیوں؟ گھر میں سٹڈی نہیں کرسکتے کیا ؟ امی کے کچھ بولنے سے پہلے ابو بول پڑے تو شہروز نے ناگواری سے حمائل کی طرف دیکھا ۔” یہ فیٹی ماں جب بھی لائونج میں بیٹھتی ہے، تو ٹی وی کا والیم اتنا تیز کردیتی ہے کہ میں تو کیا پوری کالونی والے سنتے ہیں ۔
” تو کیوں میں ٹی وی نہیں دیکھوں گی کیا ؟ آپ چاہیں تو بے شک ہوسٹل شفٹ ہو جائیں ۔ ” حمائل نے سر د مہری سے کہا ۔
” چلو ایسا کرتے ہیں میں رشید سے کہتی ہوں تمہارے لیے اوپر کا کمرہ صاف کردے ۔ تم اوپر شفٹ ہو جانا۔” امی نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی ۔
” جی بہتر!” شہروز سر جھکا کر خاموشی سے کھانا کھانے لگا اور حمائل سوتے وقت سوچتی رہی اب مجھے کوئی نہ کوئی توایسا چاہیے کہ جس سے میں لڑ سکوں ۔ اپنی نیگیٹو فیلنگز کو نکالنے کابھی تو کوئی راستہ ہونا چاہیے ۔” اس نے کروٹ بدلی ۔ ” اور یہ معافی مانگنا کس قدر مشکل کام ہے ۔ ” اس وقت اس نے دل میں طے کیا کہ وہ منزہ کو کبھی بے جاتنگ نہیں کرے گی ۔ معافی مانگنے کے مشکل اور قدرے شرم ناک تجربے سے بچنے کے لیے اس نے اپنے منفی جذبات کو بہر حال قابو کرنا ہی تھا اور وہ کافی حد تک اس کوشش میں کامیاب رہی تھی ، کیوں کہ وہ آئندہ کسی بھی صورت منزہ کو رلانا نہیں چاہتی تھی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...