چیخ سنتے ہی ٹاہلی والی سرکار کے چہرے پر استہزائیہ مسکراہٹ تیرنے لگی اور وہ مجھے دیکھ کر بولے ”بھاگ گیا ہے“
”کون بھاگ گیا ہے سرکار“ میں نے پوچھا
وہ قہقہ لگا کر بولے ”کالی داس بڑا کمینہ ہے وہ۔ شیطان کا پجاری ہے۔ ان کے ہاتھ سے آج پھر نکل گیا ہے“ اس دوران غازی آ گیا۔ اس نے اپنے ہاتھ میں ایک تھیلا پکڑا ہوا تھا جس میں کوئی شے بری طرح تڑپ رہی تھی۔ اس نے تھیلا ٹاہلی والی سرکار کے سامنے رکھ دیا تو تھیلا پھدکنے لگا۔ چیخوں کی آواز اس تھیلے میں سے آ رہی تھیں۔
ٹاہلی والی سرکار نے غازی کی طرف دیکھا اور بولے ”تو اسے کیوں پکڑ لایا ہے۔ لے جا اسے اور کسی قبر میں اسے دفن کر دے“
”سرکار یہ کالی داس کا چیلا ہے کتا بن کر اس نے ہی گاﺅں کے سارے کتے اکٹھے کئے تھے۔ آپ کی اجازت ملتے ہی جب ہم نے ان کے گرد گھیرا ڈالا تو یہ کتے کی شکل میں ہی بھاگنے لگا تھا لیکن بابا جی نے اسے پہچان لیا اور مجھے کہا کہ اسے پکڑ کر آپ کے پاس لے جاﺅں۔ وہ خود کالی داس کے پیچھے گئے تھے لیکن وہ ان کے ہاتھ نہیں آیا“
”وہ بڑی حرامی شے ہے۔ اتنی آسانی سے ہاتھ نہیں آنے والا غازی“ ٹاہلی والی سرکار نے کہا۔
ان کی بات سن کر مجھے تعجب ہوا اور میں نے کہا ”سرکار آپ جیسے اللہ والے درویش اور بابا جی سرکار کے ہوتے ہوئے وہ کیسے بھاگ سکتا ہے“
ٹاہلی والی سرکار کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی ”تم نہیں جانو گے یہ راز کی باتیں“ انہوں نے اپنی کھڑاﺅں اتاری اور تھیلے میں بند کالی داس کے چیلے کے سر پر مارنے لگے تو وہ چیخنے چلانے لگا اور ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا
”سرکار آپ کچھ بتائیں گے تو میں کچھ جان پاﺅں گا ناں“ میں نے کہا
”دیکھو میاں“ انہوں نے کھڑاﺅں پاﺅں میں پہنیں اور بولے ”یہ جو شے ہے ادھر“ وہ دل کے مقام پر انگلی رکھ کر بولے ”ایک طاقت ادھر ہے اور ایک طاقت ادھر“ انہوں نے دوسرا اشارہ دماغ کی طرف کیا۔
”ان دو مقامات پر نیکی اور بدی …. حق و باطل کی قوتیں جمع ہوتی ہیں۔ حق پرست کے پاس ان دل و دماغ کی قوتیں ہوتی ہیں اور اس کا دل نور الہٰی سے بھرا ہوتا ہے۔ یہ عطا اور قوت صرف اللہ کے بندوں یعنی صرف انسانوں کے پاس ہے جنات کو بھی علم و حکمت پر قدرت حاصل ہے مگر جو علم الہٰی انسانوں کو عطا کیا گیا ہے اس نے کائناتوں کی تمام مخلوق کو انسان سے کم تر بنایا ہے۔ یہ جنات …. تماہی نظریں بہت طاقتور ہیں ان کے پاس بھی علم کی قوت ہے مگر ان کے قلوب میں وہ گزرگاہ نہیں ہے جو ایک انسان کے دل کو مسخر کئے ہوئے ہے۔ تمہارے بابا جی بلاشبہ بہت طاقتور ہوں گے مگر ان کی قوتیں بھی محدود ہیں۔ کالی داس کے پاس بھی علم کی قوتیں ہیں۔ وہ برابری کرتا ہے تمہارے بابا جی کی …. مگر اس کا علم باطل ہے‘ وہ اندھیروں کا مسافر ہے۔ تمہارے بابا جی کا علم حق ہے‘ وہ روشنی کے سفیر ہیں مگر افسوس …. جنات صاحب علم ہونے کے باوجود غضب کے ہاتھوں مار کھا جاتے ہیں۔ تمہارے بابا جی بڑی کڑوی اور جلالی طبیعت کے مالک ہیں۔ وہ جب کالی داس کو مارنے گئے تھے تو کالی داس کو ان کی ذرا فکر نہیں تھی۔ وہ مکر و فریب سے ان کو جل دے گیا اور تمہارے بابا جی مات کھا گئے۔ مگر اب دیکھو ایک قلندر کیا کرتا ہے“ یہ کہہ کر ٹاہلی والی سرکار نے اپنی سوکھی استخوانی انگشت شہادت تھیلے میں بند کالی داس کے چیلے کے سر کے اوپر رکھ دیں تو اس کی چیخ و پکار بند ہو گئی۔ انہوں نے تھیلے کا منہ کھول دیا اور اس کے چیلے کو باہر نکالا یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ اس کی شکل انتہائی بدہیبت اور کراہیت آمیز تھی۔ اس کا دھڑ کتے کی طرح تھا مگر چہرہ کسی بگڑے ہوئے خدوخال والے انسان جیسا تھا۔ سر سے گنجا‘ سر زبان باہر کو نکلی ہوئی تھی اور وہ کتے کی طرح ہانپ رہا تھا۔ منہ میں صرف دو دانت تھے جو باہر نکلے ہوئے تھے۔ آنکھیں کتوں جیسی تھی مگر پیشانی اندر کو دھنسی ہوئی تھی۔ ناک چپٹی تھی جس کی کوئی تمیز نہیں کی جا سکتی تھی کہ یہ انسان کی ہے یا کسی جانور کی۔
”سرکار شما کر دیں۔ میں تو ابھی بالکا ہوں۔ آپ مہان ہستی ہیں۔ مجھے شما کر دیں میں آپ کی سیوا کروں گا سرکار …. مجھے پہلے ہی اس نے بہت مارا ہے“ اس نے رونی صورت بنا کر غازی کی طرف دیکھا تو غازی کی ہنسی چھوٹ گئی۔
”سرکار …. یہ بڑا بکواسی اور چاپلوس ہے۔ مجھے راستے بھر کہتا رہا کہ ا گر میں اسے معاف کر دوں تو یہ مجھے اپنے قبیلے کی خوبصورت لڑکیاں لا کر دے گا“
ٹاہلی والی سرکار کی بھی ہنسی چھوٹ گئی اور وہ بولے ”اوئے کم ذات تم کافروں کے پاس خوبصورت لڑکیاں کہاں سے آ گئیں۔ تم پر تو میرے اللہ کی مار ہے۔ تمہاری شکلیں اتنی کریہہ ہوتی ہیں کہ خود جنات تمہارے لوگوں کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے۔ اوئے یہ جو کتے جیسی شکلیں بھرتے پھرتے ہو اسے تم خوبصورتی کہو گے“
”نہیں …. نہیں سرکار …. میں اپنی مخلوق کی بات نہیں کر رہا۔ اگر آپ مجھے شما کر دیں تو میں غازی کو ان لڑکیوں تک پہنچا دوں گا جو کالی داس مہاراج سے شکتی لینے مندروں میں آتی ہیں“ کالی داس کے چیلے کی بات سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے اور میں ٹاہلی والی سرکار کی طرف دیکھنے لگا۔
”حرام خور …. ہم لوگ ان عیاشیوں سے بے نیاز ہوتے ہیں اور پھر یہ غازی تو ابھی بچہ ہے“
”یہ بچہ ہے“ اس کا چیلا رونی صورت بنا کر کہنے لگا ”اس نے مار مار کر میری کھال ادھیڑ دی ہے“
”بکواس کرتا ہے۔ ابھی میں نے اس کو ایک تھپڑ بھی نہیں مارا اور یہ چلانے لگا تھا۔ مکار اور فریبی اسی طرح رو رو کر یوں دہائی دیتے ہیں جیسے انہیں بہت مارا پیٹا گیا ہے۔ میں نے تو ا س کو صرف چٹکیاں کاٹی ہیں اور یہ کتے کی طرح بھونکنے لگا تھا“
غازی کی بات سن کر میری بھی ہنسی نکل گئی ”تمہاری چٹکی بھی تو کھال ادھیڑ دیتی ہے غازی“
”حرام خور“ ٹاہلی والی سرکار نے اسے مخاطب کیا ”تم نے جن لڑکیوں کا ذکر کیا ہے وہ مسلمان ہیں یا کافر“
”مسلمان بھی ہیں اور کافر بھی“ اس نے بتایا
”تمہارا نام کیا ہے“ انہوں نے پوچھا
”مرلی …. مجھے مرلی کہتے ہیں“
”کالی داس نے تجھے کیا کام سونپا ہوا ہے“ ٹاہلی والی سرکار نے پوچھا
”مہاراج نے …. “
”لعنت تیرے مہاراج پر …. خبردار میرے سامنے اس کو مہاراج نہ کہنا“ ٹاہلی والی سرکار نے مرلی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اچھا سرکار …. اب کالی داس مہاراج کو مہاراج نہیں کہوں گا“ اس کی بات سن کر میں ہنسنے لگا تو غازی میری طرف دیکھنے لگا
”کیا ہوا بھیا“
”کچھ نہیں“ میں نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا
مرلی دوبارہ بولا ”جی سرکار تو مہاراج۔ نہیں نہیں وہ کالی داس مہاراج“ میں نے ہنسی بمشکل ضبط کرتے ہوئے دوبارہ غازی کی طرف دیکھا تو وہ غصے میں آ گیا اور اس نے ایک زوردار تھپڑ مرلی کے سر پر مارا تو وہ بلبلانے لگا
”خبردار اب کالی داس کو مہاراج کہا ورنہ چٹکیاں کاٹ کاٹ کر تری کھال کاٹ ڈالوں گا“ غازی اب میرے ہنسنے کی وجوہ جان گیا تھا
”یہ باز نہیں آئے گا۔ یہ کالی داس ہے۔ اس نے خود اسے تیار کیا ہے“
”سرکار یہ موکل کیا ہوتا ہے“ میں نے یہ لفظ کئی جگہ پڑھا تھا اور اس کے بارے میں بہت سی عجیب و غریب باتیں بھی سن رکھی تھیں۔
”میاں …. یہ موکل وغیرہ جو ہوتے ہیں ناں …. عامل لوگ تیار کرتے ہیں۔ جادو اور اپنے علم کے زور پر ایک انڈہ تیار کرتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں۔ یہ علم بڑی ظالم شے ہے میاں۔ حق اللہ جو حق کی طرف گیا اسے موکلوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور جو یہ کام کرتے ہیں اللہ کی ان پر پھٹکار ہوتی ہے۔ ہاں تو مرلی۔ تو کیا بتا رہا تھا“
”میں عرض کر رہا تھا کہ ان لڑکیوں میں مسلمان بھی ہیں اور یہ کالا علم سیکھنے کے لئے کالی داس کے پاس آتی ہیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں سرکار کے مندروں میں پوجا کرنے والے پنڈت کالا علم سیکھتے ہیں۔ ادھر اس شہر میں رہنے والے پنڈت جی کے پاس کالی داس اور ہم سب چیلے موجود ہوتے ہیں۔ کالی داس نے ہی پنڈت کو کالا علم سکھایا ہوا ہے“ اس نے شہر کا نام بتایا تو میں چونک گیا اور پھر جب اس نے باقی تفصیلات بھی بتائیں تو میں حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اس نے جس پنڈت کا ذکر کیا تھا وہ بظاہر بڑا پرامن ہندو تھا۔ وہ زیادہ معروف تو نہیں تھا لیکن مٹھی بھر کمیونٹی کا مذہبی رہنما ہونے کی وجہ سے اس کی شخصیت نمایاں تھی۔ مرلی کی زبانی یہ سن کر مجھے بے حد دکھ ہوا کہ بعض مسلمان لڑکیاں اور عمر رسیدہ عورتیں بھی مکروہ علم سیکھنے میں دلچسپی لیتی ہیں اور ان علوم کو سیکھتے ہوئے انہیں اپنی عزت و آبرو سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ کالا علم سیکھنے والے کو شیطانی احکامات پر عمل کرنا ہوتا ہے اور ان احکامات میں سب سے نمایاں حکم یہی ہے کہ وہ جنس و ہوس کا غلام بن کر زندگی گزارے گا۔ اس کی نظر میں خونی اور انسانی رشتوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ اگر وہ کسی مقام پر ان احکامات سے روگردانی کرے تو اس سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں کف افسوس مل رہا تھا کہ اللہ نے انسانوں کو کیسی کیسی نعمتوں سے سرفراز کیا ہوا ہے مگر وہ شیطانی احکامات پر عمل کرکے غلیظ ترین جانوروں سے بدتر ہو جاتے ہیں۔ کالا علم کرنے والوں کی بھی یہی زندگی ہوتی ہے۔
ٹاہلی والی سرکار نے میرے چہرے کے تغیر و تبدل کو دیکھا تو بولے ”تو ٹھیک سوچ رہا ہے۔ ہم انسانوں کی بستیوں میں جانوروں جیسے کام ہی کرتے ہیں۔ میں تو جدھر دیکھتا ہوں مجھے انسان کم کم نظر آتے ہیں اور چاروں طرف خونی بھیڑئیے‘ کتے‘ بندر‘ لومڑ‘ گیدڑ اور سور نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاتھ پاﺅں ٹانگیں انسانوں جیسی ہیں مگر چہرے جانوروں جیسے ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ ان کا کوئی فعل انسانوں جیسا نہیں ہے اور پھر ان کافروں کو تو ویسے ہی اللہ کی مار ہے یہ اپنے بھگوان پوجتے ہیں۔ ان کے بھگوان اوتار تو شیطان کے تراشے ہوئے خدا ہیں ظاہر ہے یہ شیطان پوجیں گے تو گندے کام ہی کریں گے۔ مگر دکھ ہوتا ہے بہت دکھ ہوتا ہے جب کسی مسلمان کو کافروں سے بدتر دیکھتا ہوں۔ اللہ نے مسلمانوں کو کتنی محبوب امت بنایا ہے لیکن یہ مسلمان اللہ سے طلب کرنے کی بجائے ان شیطانوں کے در پر جا کر غلامی اختیار کرتے ہیں۔ کوئی جنات سے مانگتا ہے اور کوئی شیطان سے۔ کوئی دریشوں کے در پر آتا ہے تو کوئی پنڈتوں کی سیوا کرکے اپنی مرادیں پانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہائے یہ مسلمان کتنے کمزور ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس اللہ کا کلام ہے۔ اس سے بڑی طاقت دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔ یہی علم کی وہ کتاب ہے جس نے دین و دنیا میں کامیابی اور خوشیوں کے دروازے کھولنے ہیں۔ مگر کوئی اسے کھول کر تو دیکھے“ میں تو ٹاہلی والی سرکار کو ایک ملنگ اور درویش سمجھتا تھا ایک ایسا ملنگ جس کی زندگی قرآنی تعلیمات سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ اس کی اپنی دنیا اور اپنا فلسفہ ہوتا ہے۔ اس کا علم رمز و کنایہ میں پوشیدہ ہوتا ہے مگر اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ ہماری جیتی جاگتی دنیا کا ہی فرد ہے۔ میں بڑا گنہگار ہوں میاں“ وہ مجھے گم صم دیکھ کر بولے ”میں واقعی تمہاری دنیا کا آدمی تھا۔ میں نے چار ایم اے کئے تھے لیکن کیا ہے کہ جب میں نے اللہ کی کتاب سے لو لگائی تو میں دنیا کے قابل نہیں رہا تھا۔ میں نے قرآن کو سمجھ کر حفظ کیا تھا لیکن میں پھر بھی دنیا سے کنارہ کر گیا۔ یہ میرے والد صاحب کی محبت کا اثر تھا یا درویش ہستیوں کا قرب کہ اللہ کی راہ پر چلتے چلتے میں شہروں سے نکل کر ان قبرستانوں میں پہنچ گیا۔ مجھے ان منزلوں اور راستوں کی تلاش تھی جو جاگتی آنکھوں سے نظر نہیں آتے اور اندھیرے جن کی آنکھوں میں روشنیاں کر دیتے ہیں۔ پس میں ان راستوں پر چلتا رہا اور ان ہستیوں نے میرا سپنہ قرب الہٰی کی مٹھاس سے بھر دیا جو اس شہر کی حفاظت پر مامور ہیں۔ میاں تمہاری اس دنیا کے اوپر بھی ایک غلاف ہے اور اس غلاف کے پیچھے اللہ کی محبوب ہستیاں پہرے دیتی ہیں۔ اچھائی کا پرچار کرتی ہیں۔ میں تو بہت معمولی انسان ہوں۔ ابھی تک قبرستانوں میں بھٹکتا رہتا ہوں۔ تمہارے جیسے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ہمارے جیسے مجذوب لوگ قبرستانوں میں ڈیرے کیوں لگاتے ہیں۔ تو سنو میاں یہاں انہیں پہچان ملتی ہے۔ دنیا کی حیثیت یہ جادہ حشمت اور دولت کی ہوس کا اندازہ انہیں یہاں آ کر ہوتا ہے جب گوشت اور ہڈیاں مٹی میں خاک ہو جاتی ہیں تو تب احساس جاگتا ہے کہ ہم جس دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اس کا انجام تو یہ مٹی کی ڈھیری ہے۔ پس یہ اللہ والے ان قبرستانوں میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں“
باتیں کرتے ہوئے ٹاہلی والی سرکار کے چہرے پر عجیب طرح کا تناﺅ تھا۔ وہ کہہ رہے تھے ”اگر یہ اللہ کے بندے ان قبرستانوں اور غلاف کی دنیا میں مامور نہ ہوں تو یہ شیطان ان بستیوں کو تاراج کر دیں۔ تمہارے بابا جی جیسے نیک جنات ان بدکاروں کا قلع قمع کرتے رہتے ہیں مگر جب کالی داس جیسے حرام خور حد سے بڑھتے ہیں تو ہمیں بھی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ پس آج اس کا یوم آخرت آ پہنچا ہے“
یہ کہہ کر ٹاہلی والی سرکار نے مرلی کے سر کے اوپر اپنی انگشت شہادت رکھی تو اس کا بدن شاخ بید کی طرح لرزنے لگا ”اے کالی داس میں ترے داس کے ذریعے تجھ تک پہنچوں گا“ یہ کہہ کر انہوں نے غازی کی طرف دیکھا اور کہا ”جاﺅ اپنے بابا جی کو بلا کر لاﺅ اور ہاں اپنے شاہ صاحب کو بھی لیتے آﺅ اور نذر نیاز کا سامان جلدی سے لے آﺅ۔ ہمارے بہت سے مہمان آنے والے ہیں“ یہ سنتے ہیں غازی غائب ہو گیا۔ میرے احساسات پر ایک طرح سے نشہ سا طاری تھا۔ میں اللہ کی بنائی ہوئی اس مخلوص کو جو اسرار کے پردوں میں پوشیدہ ہے اسے بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ میں اس عطا پر مسرور تھا کہ دنیا میں میرے جیسے کتنے لوگ ہیں جو ایسے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھتے ہوں گے جن کے سامنے کائنات اپنے حجاب اٹھا لیتی ہے۔
ٹاہلی والی سرکار نے مرلی کے سر پر ہنوز انگلی رکھی تھی اور وہ تڑپتا جا رہا تھا۔ وہ زیر لب بھی کچھ پڑھ رہے تھے۔ چند ثانئے بعد انہوں نے کچھ پڑھا اور مرلی کے سر پر پھونک ماری تو اس کی اذیت ناک کراہ نکل گئی۔ ٹاہلی والی سرکار کی آنکھوں کا رنگ سرخ ہوتا جا رہا تھا اور پورے بدن میں اکڑاﺅ سا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ تن کر بیٹھ گئے تھے انہوں نے ایک بار پھر مرلی پر پھونک ماری تو اس بار اس کی کراہ آخری ثابت ہوئی۔ وہ تڑپنے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے وجود سے دھواں اٹھنے لگا۔ مرلی بری طرح تڑپ رہا تھا۔ میں خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا تو ٹاہلی والی سرکار نے غضب ناک نظروں سے میری طرف دیکھا اور اسی جگہ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میری نظریں مرلی پر جمی ہوئی تھیں جس کی شکل تیزی سے بدل رہی تھی۔ اس کا چہرہ اب کتے جیسا ہو گیا تھا مگر اس کا بدن پگھل کر دھوئیں میں تحلیل ہو رہا تھا۔ چند لمحوں میں ہی جہاں کچھ دیر پہلے مرلی بیٹھا تھا وہاں دھوئیں کا ایک غبار بیٹھتا ہوا نظر آیا اور جب یہ غبار بھی چھٹ گیا تو وہاں تھوڑی سی راکھ نظر آئی۔ ٹاہلی والی سرکار نے راکھ اپنی ہتھیلی پر رکھی اور پھر دری کے نیچے سے ایک پرانے کپڑے کا ٹکڑا نکالا اور راکھ اس میں باندھ کر کپڑے کو مٹھی میں دبا کر بولے ”اب دیکھتا ہوں کالی داس …. تو کہاں تک بھاگے گا“
اس دوران غازی شاہ صاحب اور بابا جی کو بھی اپنے ساتھ لے آیا۔ بابا جی اور شاہ صاحب ٹاہلی والی سرکار کے ساتھ ایک مختلف زبان میں باتیں کرنے لگے۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ کون سی زبان بول رہے ہیں۔ نہ عربی‘ نہ فارسی‘ نہ سنسکرت‘ نہ اردو نہ جانے کون سی زبان تھی مگر مجھے احساس ہو رہا تھا کہ وہ جو بھی زبان بول رہے تھے اس میں عربی فارسی جیسی نرمی اور فصاحت و بلاغت بھی تھی اور کسی قبائلی علاقے کی زبان جیسی کرختگی بھی تھی۔ گفتگو کے دوران وہ زلیخا کا نام بھی لیتے تھے۔ ان کے چہروں کے تاثرات سے لگتا تھا کہ وہ کسی بات پر پریشان بھی ہیں اور ان کے اندر تناﺅ پایا جاتا ہے مگر میں نہیں سمجھ سکا کہ انہیں یہ تشویش کس بات کی ہو سکتی تھی۔ خاصی دیر بعد وہ میری مانوس زبان میں بولنے لگے تھے۔ شاہ صاحب نے نذرانے کی تمام اشیا ٹاہلی والی سرکار کے سامنے رکھوا دی تھیں جنہیں دیکھ کر وہ بولے
”ہمارے مہمان بہت زیادہ آنے والے ہیں ان سے کیا بنے گا“
شاہ صاحب بولے ”سرکار فی الحال تو اتنا ہی بندوبست ہو سکا ہے“
”خیر …. آئندہ خیال رکھا کرو ہمارے مہمانوں کے لئے تمہارا ہاتھ تنگ نہیں ہونا چاہئے“ ٹاہلی والی سرکار کے چہرے پر قدرے خفگی نظر آ رہی تھی۔ ”میں نے مرلی کا مسان پکڑ لیا ہے اور اب کالی داس کو حاضر کرنے لگا ہوں۔ تم لوگ اپنے اپنے حصاروں میں چلے جاﺅ نہ جانے وہ غیرت مرتے مرتے کس کو مار ڈالے۔ شاہ صاحب اس کو اپنے ساتھ ہی بٹھائیں“ انہوں نے میری طرف اشارہ کیا تو شاہ صاحب نے کچھ پڑھ کر میرے اور اپنے گرد ایک دائرہ کھینچ دیا اور ہم حصار میں بیٹھ کر ٹاہلی والی سرکار کی طرف دیکھنے لگے۔ انہوں نے ہتھیلی کھولی اور راکھ کپڑے سے نکال کر خالی آب خورے میں ڈال دی اور پھر زیر لب ایک غیر مانوس سی زبان میں کچھ پڑنے لگے۔ معاً مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی زبان ہے جو شاہ صاحب کبھی کبھار بابا جی سرکار کی حاضری کے لئے بولتے تھے۔ ٹاہلی والی سرکار بھی اسی زبان میں بڑی تیزی سے مگر جلالت آمیز انداز میں بلند آواز میں پڑھنے لگے اور پھر کچھ دیر بعد انہوں نے آب خورے کے اوپر اپنی ہتھیلی رکھی اور دوسرا ہاتھ شاہ صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ شاہ صاحب نے اپنی جیب سے ایک چھری نکال کر انہیں پکڑا دی۔ ٹاہلی والی سرکار نے چھری کی نوک آب خورے پر ہتھیلی میں چبھوئی تو خون کی چند بوندیں ٹپک کر اس میں گرنے لگیں اور اسی لمحہ پورے قبرستان میں شدید زلزلے کا احساس پیدا ہوا۔ یوں لگتا جیسے قبروں میں دفن سارے مردے جیسے یک دم قبریں پھاڑ کر باہر نکل پڑے ہوں۔ ہر طرف مکروہ خوفناک اور لرزہ خیز قہقہے سنائی دینے لگے۔ خون کی بوندوں سے آب خورے میں نارنجی رنگ کا شعلہ سا بلند ہونے لگا تھا اس لمحے میرے کانوں کی لوئیں جھلسنے لگی تھیں۔ میں نے عجیب نظروں سے اپنی اس کلائی کی طرف دیکھا جس کو کاٹ کر شاہ صاحب نے خون نکالا تھا اور ایک کالا علم پڑھ کر زلیخا کو چڑیلوں کے حملہ سے بچایا تھا۔ میں نے شاہ صاحب کی طرف دیکھا تو مجھے ان کا چہرہ دھندلا دھندلا سا نظر آنے لگا۔ ان کے چہرے پر مجھے کسی انسان کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ان کا دھڑ تو انسان کا تھا مگر چہرہ ایک ہیبت ناک درندے کا تھا۔
٭٭٭
شاہ صاحب کے چہرے کو دیکھ کر مجھے ٹاہلی والی سرکار کی باتیں یاد آنے لگی تھیں اور میرا ذہن بڑے ملک صاحب کی دوراندیشی کو داد دینے لگا تھا۔ مگر یہ سمے داد واد دینے کا نہیں تھا۔ میں تو ایسے لوگوں میں گھر چکا تھا جو اپنی ہی دنیا کے باشندے تھے۔ ہیں کواکب کچھ …. نظر آتے ہیں کچھ کے مصداق صورتحال تھی۔ میں حیران تھا کہ ٹاہلی والی سرکار کے بقول اگر اس دنیا میں انسانوں کا قحط الرجال تھا تو وہ اپنے شاہ صاحب بھی ان میں شامل تھے اور پھر یہ ٹاہلی والی سرکار جنہیں میں ایک بہت ہی بزرگ ہستی سمجھنے لگا تھا وہ خود بھی تو اسی صف میں کھڑے نظر آ رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کسی اللہ والے کو دنیاوی اور سفلی علوم کی ضرورت نہیں ہوتی مگر یہ ٹاہلی والی سرکار بھی تو میرے نزدیک ایک پارسا ہستی تھی لیکن وہ بھی سفلی علم کی طاقت سے مرلی کی راکھ پر کوئی عمل کر رہے تھے۔ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور میرا ایمان ڈگمگانے لگا تھا۔
دراصل جب آپ کسی معتبر اور پارسا ہستی کی باتوں سے گھائل ہو جاتے ہیں لیکن جب اس کے قول فعل میں تضاد پاتے ہیں تو آپ کے ذہن میں بارود پھٹنے لگتا ہے۔ قلب و نظر میں کہرام مچ جاتا ہے اور آپ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ یا الہٰی یہ کیسا اسرار ہے۔اس جیسے یہ تیرے بندے جو سب کے سامنے نیکی و پارسائی اور تیری طاقتوں کی تبلیغ کرتے ہیں مگر جب ان کو عملی زندگی میں دیکھتے ہیں تو ان کا کردار بہت ہی پست نظر آتا ہے۔ ایک بے عمل عالم اور مبلغ یقیناً بہت سے لوگوں کے عقائد اور ایمان کو متاثر کر دیتا ہے۔ قول و فعل کا تضاد میرے جیسے کچے ذہنوں کو بے رحمی سے کچل دیتا ہے۔ میری یہ کیفیت ان بہت سے نوجوانوں سے مختلف نہیں تھی جو سچائی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو گمراہی کے گڑھوں میں گرا دئیے جاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جنہیں معتبر سمجھ کر ان کی تقلید میں لگ جاتا ہے وہ کس قدر حقیر ہوتے ہیں۔ میں اگر صحافی نہ ہوتا تو شاید میرے ذہن پر ٹاہلی والی سرکار اور شاہ صاحب کے متعلق بدگمانی اور شکوک و شبہات پیدا نہ ہوتے۔ میں شاہ صاحب اور ٹاہلی والی سرکار کی حقیقتوں کو پا چکا تھا مگر پھر بھی ایک لمحہ کے لئے میرے دل میں خیال آیا کہ کہیں میں مسمریز تو نہیں ہو چکا۔ میں نے اپنے بدن پر زوردار چٹکیاں کاٹ کر اپنے ہوش و حواس کو چیک کیا اور ایک بار پھر ماحول کا اندازہ کرنے لگا تو میرا گماں ایک تلخ حقیقت اور پختہ یقین کی طرح سچ ثابت ہوا۔ شاہ صاحب کا چہرہ کسی ہیبت ناک اور سفاک بن مانس جیسا تھا۔ میں نے ٹاہلی والی سرکار کے چہرے کو دیکھنے کی کوشش کی تو اس لمحے ان کے گرد گہرے دھوئیں کا غبار سا پیدا ہو چکا تھا اور دھوئیں کی ایک گہری چادر نے ان کا چہرہ ڈھانپ لیا تھا۔
خوف سے میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور کن پٹیوں پر سنسنی رینگتی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے اس وقت خود کو بہت تنہا محسوس کیا اور دل میں آیت الکرسی پڑھنے لگا۔ دل ہی دل میں اللہ سے دعا کرنے لگا یا اللہ یہ تیری دنیا کے کیسے اسرار ہیں اور یہ لوگ کون ہیں۔ یا اللہ میں تجھ سے رہنمائی چاہتا ہوں اگر یہ لوگ واقعی میرے یقین کے مطابق برے ہیں تو مجھے ان سے تو ہی بچا سکتا ہے۔ مجھے ان کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دینا۔ میں جوں جوں آیت الکرسی پڑھ رہا تھا میرے اندر ایک قوت سی بیدار ہو رہی تھی۔ رگ و پے میں جیسے اطمینان عود آیا تھا اور نظروں کے سامنے بے نقاب ہونے والے حجاب اور گہرے ہوتے چلے گئے۔ اب مجھے ٹاہلی والی سرکار کا چہرہ بھی دکھائی دینے لگا تھا۔ ان کے چہرے پر اب تازگی اور نورانیت سی نظر آنے لگی تھی۔ دھواں غائب ہو چکا تھا اور ان کے سامنے اس کے پیالے میں نارنجی شعلے اب بلند ہو رہے تھے۔ میں قدرے حیران ہوا کہ ٹاہلی والی سرکار کا چہرہ ہنوز ایک مطمئن بزرگ کا تھا مگر جب ریاض شاہ کی طرف دیکھا تو انکے چہرے پر ابھی تک بن مانس کا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ میرے دل سے اب ٹاہلی والی سرکار کے بارے پیدا ہونے والے شکوک شبہات ختم ہونے لگے تھے اور میں یہ سوچنے لگا تھا کہ نہ جانے انہوں نے کس ضرورت کے تحت یہ عمل کیا تھا اور انہیں کیا مجبوری تھی۔ اور پھر میرے ذہن میں یہ بھی خیال آیا کہ میں جس عمل کو ایک کالا علم سمجھ رہا تھا نہ جانے وہ عمل واقعی سفلی علم میں سے تھا یا کوئی اور تھا۔ اس تاویل کے باوجود میرے ذہن میں یہ تکرار بار بار پیدا ہو رہی تھی کہ کسی اللہ والے کو روحانیت کے ماہر کو ہرگز ہرگز کالا علم نہیں کرنا چاہئے نہ ہی اس کا سہارا لینا چاہئے خواہ اسے کیسی ہی مجبوری کیوں نہ ہو۔ میں اپنے اندر اٹھنے والے ہیجان و تذبذب میں مبتلا تھا کہ ٹاہلی والی سرکار کے آب خورے میں پیدا ہونے والی آگ کے شعلے بلند ہو کر گہرے دھوئیں میں تبدیل ہونے لگے اور قبرستان میں شدید قسم کی آندھیاں چلنے لگیں۔ میرے بہت ہی قریب بہت سی قبریں ایک دھماکے سے شق ہو گئیں اور ان میں سے گہرا دھواں نکلنے لگا ۔ میں چاروں طرف دیکھنے لگا۔ قبروں سے نکلنے والا دھواں بلند ہوتا چلا گیا اور پھر اس نے ہماری طرف رخ کر لیا۔ دھوئیں کی شکل کسی بے ڈھنگے اور ڈیل ڈول والے انسان جیسی تھی۔ جوں جوں وہ دھواں پوش عفریت قریب آ رہے تھے ان کے چہرے نمایاں ہو رہے تھے جب وہ ہمارے حصار کے قریب پہنچے تو ٹاہلی والی سرکار کی آواز بلند ہوئی۔
”ریاض شاہ دیگیں ان کے سامنے پہنچا دو غازی بکرے بھی لے آﺅ“
شاہ صاحب اٹھے اور دائرے سے باہر قدم رکھنے ہی لگے تھے کہ ٹاہلی والی سرکار کی دھاڑ سنائی دی“ ریاض شاہ یہ حماقت نہ کرنا اپنے حصار میں بیٹھ کر یہ کام کرو“
”جی سرکار“ شاہ صاحب بولے ” لیکن کیسے؟“
ٹاہلی والی سرکار نے میری طرف گہری نظروں سے دیکھا تو شاہ صاحب کی بھنویں تن گئیں۔ ان کا چہرہ اب عام انسانوں جیسا ہی تھا
شاہ صاحب تو ٹاہلی والی سرکار کی بات سمجھ گئے تھے لیکن مجھے اس وقت سمجھ آئی جب شاہ صاحب نے مجھے مخاطب کیا۔
”شاہد میاں اٹھو اور دیگیں ان کے سامنے رکھ دو“
”مم …. میں“ میں گھبرا کر بولا اور ان دھواں پوش عفریتوں کو دیکھنے لگا جن کے چہرے گز گز لمبے ہو گئے تھے اور جن کی سیاہ رنگ کی زبانیں ہانپتے کتوں کی طرح باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔ ان کی زبانوں سے بچھوﺅں جیسے کیڑے ٹپک ٹپک کر نیچے گر رہے تھے۔ میںنے یہ منظر دیکھا تو کر جھرجھری لے کر رہ گیا۔
”ہاں تم“ یہ کہہ کر شاہ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا اور کچھ پڑھنے کے بعد مجھ پر پھونک مار دی اور ایک کند سی چھری میرے ہاتھ میں پکڑا دی۔ ”جاﺅ اور دیگیں ان کے سامنے رکھ دو“ میرے ذہن میں سوالوں کا طوفان اٹھا کہ دیگیں جب ان کے سامنے پڑی ہیں تو یہ عفریت خود آگے بڑھ کر دیگیں چاٹ کیوں نہیں لیتے۔ اسی اثنا میں ٹاہلی والی سرکار کی سنسناتی آواز سنائی دی۔
”دیر نہ کرو میرے بیٹے۔ جلدی سے یہ دیگیں ان کے سامنے رکھ دو“
”مگر سرکار میں دیگ کیسے اٹھا سکتا ہوں“ میں نے اپنی کمزوری کو بہانہ بناتے ہوئے کہا
”تمہارے اندر اتنی قوت ہے۔ ایک ایک دیگ اٹھا کر ان کے سامنے رکھ دو وقت ضائع نہ کرو“ ٹاہلی والی سرکار کا لہجہ تیز مگر گھمبیر ہو گیا تھا۔
میں نے دوبارہ دھواں پوش عفریتوں کی طرف دیکھا تو وہ اب کی بار اپنے بازو اوپر اٹھا کر چیخنے لگے تھے ۔ ان کے بدن سے بھی بچھو نما کیڑے گرنے لگے تھے۔ میں نے ان کے پیروں کی طرف دیکھا جہاں ان کیڑو ں کا ایک ہجوم ہوتا جا رہا تھا
”اگر تم نے دیر کر دی تو یہ زہریلے کیڑے ہمیں کھا جائیں گے“ شاہ صاحب نے میرے بہت قریب آ کر کہا ”یہ ماس خورے ہیں انہیں انسانوں کا گوشت بہت پسند ہے۔ یہ ہڈیاں بھی چبا ڈالتے ہیں۔ اب جلدی سے اٹھو“ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور پھر جونہی میں نے حصار سے باہر پاﺅں رکھے ماس خورے میری طرف بھاگے اور میں ان سے بچنے کے لئے دیگوں کے پاس جا پہنچا۔
دیگیں چند قدم پر اونچی قبر کے پاس رکھی تھیں۔ وہاں ایک بڑا سا کپڑے کا ڈھیر بھی پڑا تھا جس میں ہلچل سی ہو رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر کوئی شے موجود ہے۔ میں نے ایک دیگ کو پکڑا اور اسے اٹھانے لگا تووہ میرے حساب سے خاصی وزنی ثابت ہوئی۔ میں نے اس کو اوپر سے پکڑا اور دیگ کو پہئے کی طرح گھما کر دھواں پوش عفریتوں کے پاس لے گیا۔ ایک آدھ ماس خورہ دیگ کے نیچے آ گیا اور اس کی کربناک چیخ بھی سنائی دی۔ میں نے جلدی سے دیگ چھوڑ دی اور بھاگ کر دوسری دیگ بھی دھکیلتا ہوا لے گیا۔ دیکھا تو سارے ماس خورے پہلی دیگ پر چڑھ گئے تھے اور جب تک میں دوسری دیگ لے کر پہنچا وہ ساری دیگ چٹ کر چکے تھے وہ دیگ پر جس دھینگا مشتی کے ساتھ یلغار کرتے تھے اس سے عجیب سا شور بلند ہو رہا تھا۔ میں نے جب تک دس دیگیں ان تک پہنچا دیں اس وقت تک غازی بھی بکروں کو لے کر آ گیا تھا۔ سارے بکرے سیاہ رنگ کے تھے۔ وہ خوف سے منمنا رہے تھے۔ ایک طرف ماس خور کیڑوں کا شور اور دوسری جانب بکروں کی منمناہٹ سے قبرستان میں ایک طلسم کا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔
میں جب آخری دیگ دھکیل کر واپس حصار میں جانے لگا کسی نے پیچھے سے میری قمیض کا کونہ کھینچ لیا اور میری قمیض پھٹ گئی۔ اسی لمحہ ایک زوردار تھپڑ کی آواز گونجی اور ساتھ ہی کوئی خوفزدہ بچے کی طرح چلایا تھا۔ میں جلدی سے حصار میں بیٹھ گیا ۔میری سانس پھول گئی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے کسی پہاڑ کو سر کرکے میں آیا ہوں۔ میں نے اس طرف جدھر دیکھا میری قمیض کھینچی گئی تھی وہاں اب غازی کھڑا تھا۔ پاس ہی کپڑوں کی وہ ڈھیری پڑی تھی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میری قمیض کس نے کھینچی تھی۔ شاہ صاحب نے میرا یہ مسئلہ حل کر دیا بولے
”اس حرام خور نے تمہیں پکڑنے کی کوشش کی تھی“ انہوں نے کپڑوں کی ڈھیری کی طرف اشارہ کیا ”غازی اور بابا جی سرکار نے کالی داس کے بہت سے چیلوں کو پکڑ کر بوری میں بند کیا ہے۔ اس میں سے ایک نے تمہیں پکڑنے کی کوشش کی تھی۔ غازی نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا تھا“
اس دوران غازی نے سارے بکرے دھواں پوش عفریتوں کے سامنے کھڑے کر دیئے تو وہ ندیدوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑے۔ بکرے منمناتے ہی رہ گئے۔ عفریتوں نے درندوں کی طرح بکروں کو چیڑ پھاڑ کھایا اور ان کی کھینچا تانی میں بہت سے بکروں کے لوتھڑے دور دور تک جا گرے تھے ۔ ماس خورے ان لوتھڑوں کی طرف بھاگ گئے۔
اس لمحہ غازی کی حسرتناک آواز بلند ہوئی۔
”آہ …. ہم سے تو یہ بھوت اچھے ہیں“
”منہ بند کرکے بیٹھ غازی“ بابا جی سرکار کی آواز سنائی دی
”جی بابا جی“ یہ کہہ کر غازی میرے حصار میں آ بیٹھا اور منہ میرے کان کے قریب لا کر بولا ”ایک آدھ بکرا مجھے دے دیتے تو میں ان کے سارے کام کر دیتا“
”غازی …. غازی“ بابا جی کی آواز اب بہت قریب سے آئی تھی۔ میں نے اس جانب دیکھا تو وہ ٹاہلی والی سرکار کے عقب میں کھڑے تھے۔ غازی نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ اس قدر خوف و ہراس کے باوجود میں مسکرا دیا اور اس ایک لمحے کی مسکراہٹ نے مجھے بے حد تقویت دی۔ غازی دوبارہ سرگوشی کرنے سے باز نہیں آیا ”بھیا اب تو طبیعت ٹھیک ہو گئی ہے ناں …. میں تو آپ کو نارمل کرنے کے لئے بول رہا تھا“ غازی کا نسخہ واقعی میرے لئے جانفزا ثابت ہوا تھا۔
دھواں پوش عفریت بکرے اور دیگیں چٹ کر چکے تھے اور دوبارہ اپنے ماس خور کیڑوں سمیت قبروں میں چلے گئے تھے۔ قبرستان پر اب خاموشی طاری ہو رہی تھی۔ قرب و جوار میں صرف جھینگروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں یا پھر غازی کی بھاری بھرکم سانسوں کا زیر و بم محسوس ہو رہا تھا۔ جنات کی خاصیت ہے کہ جب یہ انسانی وجود میں متشکل ہوتے ہیں تو ان کی سانسیں بھاری اور گرم ہو جاتی ہیں اگر آپ نے کسی ہائی بلڈ پریشر کے مریض کی بگڑتی ہوئی حالت کو قریب سے دیکھا ہے تو یہ جان جائیے کہ جنات کا یہ روپ اس سے سو گنا زیادہ بگڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر وہ قریب نہ بھی بیٹھے ہوں تو ان کی بھاری اور گرم سانسوں کی حدت یوں محسوس ہوتی ہے جیسے کوئی انسان تندور کے قریب بیٹھا ہوا اس کی تپش کو محسوس کرتا ہے۔ غازی جب بھی میرے قریب آتا تھا تو مجھے پسینہ آ جاتا تھا۔
”یار غازی مجھے گرمی لگ رہی ہے“ میں نے اسے ذرا پرے ہٹاتے ہوئے کہا ”اگر میرے پاس بیٹھے رہے تو میں جل جاﺅں گا“ وہ میری بات سمجھ گیا اور بولا
”تو پھر آپ شاہ صاحب کی حالت کا اندازہ لگا لیں۔ بیچارے ایک نہیں سینکڑوں جنات کی قربت برداشت کرتے ہیں۔ اب تو وہ بھی کندن بن گئے ہیں۔ اس تندور کی طرح جو روٹیاں سینکتا ہے اور خود بھی جل رہا ہوتا ہے لیکن اپنا روپ کبھی نہیں کھوتا“ غازی ایک عجیب ماہر نفسیات ثابت ہوا تھا۔ اس نے مجھے یہ ایک بات سمجھانے کے لئے بہت ہی پرلطف طریقہ اختیار کیا تھا اور میں واقعی اس بات کو سمجھ گیا کہ عملیات کی پراسرار دنیا میں رہنے والے اتنے جلالی کیوں ہوتے ہیں۔ دراصل ان کا اندر بھی تپ چکا ہوتا ہے۔ آگ سے کھیل کھیل کر ان کے پورے بدن کا لہو آتش نوا ہو چکا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کا نفس اسی آگ سے بھڑکتا رہتا ہے۔ روحانیت آگ نہیں ہوتی ایک نور کی ٹھنڈی کرنوں جیسی قوت ہوتی ہے۔ اس میں جلال ہوتا ہے لیکن یہ جلال قہر کی صورت میں متشکل نہیں ہوتا۔ نفس اس ٹھنڈی آگ کے ہاتھوں بے موت مر جاتا ہے۔
جب غازی مجھے یہ سمجھا رہا تھا تو اس لمحہ ٹاہلی والی سرکار کی مسرت آمیز آواز سنائی دی ”لو بھئی ہم کامیاب ہو گئے“
آب خورے پر بلند دھواں اب سمٹنا شروع ہو گیا تھا اور اس کے اندر ایک کوتاہ قامت انسان مینڈک کی طرح پھدکتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ وہ دھوئیں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس کی تمام کوششیں بے سود تھیں۔
”تو اب بھاگ نہیں سکے گا کالی داس“ ٹاہلی والی سرکار نے چھری کی نوک دھوئیں میں گھسیڑ دی تو کالی داس نے پھدکنا بند کر دیا ۔ اس کی باریک لرزتی ہوئی آواز سنائی دی۔
”سرکار …. میں وچن دیتا ہوں آج کے بعد میں کبھی غلط کام نہیں کروں گا مجھے شما کر دیں“
”سرکار …. اس کو معاف نہیں کرنا“ بابا جی کی غصہ میں بھری ہوئی آواز سنائی دی۔
”سنو ذرقان شاہ مجھے مروا کر تمہیں کچھ نہیں ملے گا اگر تم بھی مجھے شما کر دو تو میں کبھی تمہارے راستے میں نہیں آﺅں گا“ میری بات یاد رکھنا ذرقان شاہ ۔ابلیس کی نسل سے ہوں اورتم بھی اسی میں سے ہو ۔میں تم نے جوبہروپ بھرا ہے یہ کھل کررہے گا“۔
اس لمحے میں نے ریاض شاہ کے چہرے پر خوفزدگی کے سائے محسوس کئے اور وہ تیزی سے بولے ”سرکار اس کو جلدی سے جہنم واصل کر دیں یہ بکواس کررہا ہے “
”ریاض شاہ خاموش بیٹھو۔ میں سمجھتا ہوں تمہیں کس بات کا خوف ہے تم بھی ایک عامل ہو اپنے اندر صبر کرنا سیکھو۔ اس نے اگر تمہارے بابا جی کو ان کے اصلی نام سے پکار لیا ہے تو تمہیں کیا پریشانی ہے۔ زیادہ پریشان ہونے سے اب کچھ نہیں ہو گا‘
ریاض شاہ خاموش تو ہو گئے مگر ان کی ہیجانی کیفیت ختم نہ ہوئی انہوں نے کن اکھیوں سے میری طرف بھی دیکھا تھا مگر میں یوں صم بکم ہو گیا تھا جیسے مجھے گرد و پیش کی خبر ہی نہیں تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔کالی داس کے الفاظ میرے ذہن میں گھوم رہے تھے اور بابا جی کا تقدس سے بھرا نورانی چہرہ میری نظروں کے سامنے آکر ٹھہرگیا۔
”کالی داس میں دشمنوں اور برے لوگوں کو مارنے کے آداب بھی جانتا ہوں لیکن افسوس میں گندگی کو پاکیزگی کی جگہ پر نہیں رکھ سکتا۔ میں تمہیں معاف نہیں کر سکتا“ یہ کہہ کر ٹاہلی والی سرکار نے چھری کالی داس میں گھسیڑ دی تو آناً فاناً قبرستان کے اوپر بجلیاں سی کڑکنے لگیں۔ درخت طوفانی انداز میں ہلنے لگے اور ہر سو بین کرتی آوازیں سنائی دیں۔
”او بابا …. تم نے کیا کر دیا۔ ہمارے پربھو کو مار دیا۔ ہم کو بھی مار دے“ بین کرتی آوازیں کبھی درختوں سے آ رہی تھیں اور کبھی قبروں سے۔ اب میں خاموش تماشائی کی طرح بیٹھا تھا مجھے اس صورتحال کی خاصی سمجھ آ چکی تھی اور مجھے تحفظ کا بھی احساس تھا کہ یہ طاقتیں میری حفاظت کریں گی۔ یہ شور خاصی دیر تک برپا رہا۔ کالی داس اب دھوئیں میں تحلیل ہو گیا تھا اور جوں جوں دھواں سکڑتا ہوا آب خورے میں واپس جا رہا تھا بین کرتی بدروحوں کی آوازیں بھی کم ہو رہی تھیں۔ کچھ ثانئے بعد دھواں آب خورے میں بیٹھ گیا اور وہاں چٹکی بھر خاک نظر آ رہی تھی۔ ٹاہلی والی سرکار نے وہ راکھ پوٹلی میں باندھ لی تو اس کے ساتھ ہی قبرستان میں سکون لوٹ آیا۔ سب کے چہرے مسرور تھے۔ شاہ صاحب نے کالی داس کی راکھ لینے کے لئے ٹاہلی والی سرکار کے آگے ہاتھ بڑھا دیا تو بابا جی (ذرقان شاہ) کی آواز سنائی دی۔
”ریاض شاہ ندیدے نہ بنو جو کچھ تمہارے پاس ہے اگر اسے ہی سنبھال کر رکھ لو تو بہت بڑی بات ہے“
”یہ ٹھیک کہتا ہے“ ٹاہلی والی سرکار نے کہا ”ریاض شاہ تم پر کچھ قوتیں مہربان ہیں تو اس کی لاج رکھو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمہارا مقدر اچھا ہے
آﺅ…. ہم اور تم نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہ اپنی عبادت کر چکے ہیں۔ اس وقت وہ استراحت فرما رہے ہیں….“ شاہ صاحب نے کہا اور ہم دونوں نے باغیچے میں نماز فجر ادا کی۔
”آج صبح مجھے پرچہ دینے جانا ہے….“ میں نے نماز کے بعد انہیں بتایا
”اللہ تمہیں کامیابی عطا فرمائے…. شاہ صاحب نے پرخلوص انداز میں دعا فرمائی۔ ان کا رویہ اب تبدیل ہو گیا تھا۔ ٹاہلی والی سرکار کی سرزنش نے انہیں صراط مستقیم کی راہ پر ڈال دیا تھا اور لگتا تھا کہ اب وہ کبھی سفلی علم کو استعمال نہیں کریں گے۔ انہوں نے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کی اور پھر مجھے اپنے ساتھ مہمان خانے میں لے گئے۔ کمرے میں گہرے سبز رنگ کا زیرو کا بلب روشن تھا۔ ان کے بستر پر بابا جی سرکار دراز تھے۔ باہر کی نسبت اندر خاصی گرمائشتھی۔
مجھے اندر آتے ہوئے دیکھ کر بابا جی سرکار کے بدن میں جنبش ہوئی۔ انہوں نے اپنے سر سے کپڑا سرکایا تو ان کی روشن روشن آنکھیں مجھ پر مرکوز ہو گئیں۔ شاہ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے بابا جی کے بستر کی پائنتی جانب لے گئے۔ وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گئے اور ان کے پاﺅں دبانے لگے۔ بابا جی کی آنکھوں میں طلسمات کے سارے چراغ روشن تھے۔ ان کی نظریں مجھے اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور میرے دل کے راستوں پر جمی کرچیاں پگھلنے سی لگیں۔ میری آنکھیں ان کی عقیدت کے خیال سے جھک گئیں اور میں بھی شاہ صاحب کی تقلید کرتے ہوئے ان کے پاﺅں دبانے لگا۔
بابا جی کے پاﺅں انتہائی نفیس تھے۔ پاﺅں کی انگلیاں برابر تھیں۔ پیر آئینے کی طرح شفاف نظر آتے تھے۔ رگوں میں دوڑتا ہوا گرم گرم لہو پارے کی طرح رواں دکھائی دیتا تھا۔ ان کے پیروں پر جب میں نے ہاتھ رکھا تو یوں لگا جیسے کسی تپے ہوئے فولاد پر انسانی گوشت کی کھال چڑھا دی گئی ہے۔ ان کے پیر دباتے ہوئے بڑا عجیب سا سکون محسوس کر رہا تھا۔
”آج چائے نہیں پلاﺅ گے ہمیں….“ بابا جی نے مجھے مخاطب کیا۔
”جی سرکار…. میں ابھی لاتا ہوں….“ یہ کہہ کر میں اندر گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ چاچی اس وقت اٹھ پڑتی ہیں اور دودھ بلو رہی ہوتی ہیں۔ وہ باورچی خانے میں ہی تھیں۔ حویلی کی بوڑھی نوکرانی اوپلوں کو انگیٹھی میں ڈال کر پھونکنی سے آگ دہکا رہی تھی چاچی رنگیلڑی چوکی پر بیٹھی دودھ بلو رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی چاچی بولیں۔ ”بسم اللہ۔ پتر خیر ہے آج سویرے سویرے۔ بھوک لگ گئی ہے….“
”نہیں چاچی…. وہ بابا جی چائے مانگ رہے ہیں….“
”میں صدقے جاﺅں۔ سرکار نے چائے مانگی ہے۔ لیکن پتر۔ ابھی تو بھینسوں کا تازہ دودھ بھی نہیں آیا۔ رات کے دودھ کو میں نے جاگ لگا دی تھی۔ اب کیا کروں…. حمیداں دیکھ ادھر کٹورے میں دودھ رکھا ہوا ہے کہ نہیں….“ بوڑھی نوکرانی کی آنکھیں آگ سلگاتے ہوئے اوپلوں کے دھوئیں سے سرخ ہو رہی تھیں۔
”اچھا ملکانی جی دیکھتی ہوں….“ وہ اٹھی اور کٹورے کو دیکھ کر بولی۔ ”دودھ کا ایک گھونٹ بھی نہیں ہے۔“
”اچھا تو پھر…. حمیدے کو ڈیرے پر بھیج اور اسے کہو کہ بھوری بھینس کا دودھ دھو کر لائے۔ جلدی کرو….“
حمیداں باہر کو لپکی اور میں بھی واپس ہونے لگا تو چاچی کہنے لگی۔
”پتر باباجی کو لسی میں مکھن ڈال کر کیوں نہیں دیتے…. یہ لو اور سرکار سے کہو کہ تازہ لسی پی لیں….“ چاچی نے بڑے سے پیالے میں تازہ بنی ہوئی لسی میں تازہ مکھن کا پیڑہ ڈال کر مجھے دیا۔ میں نے مہمان خانے میں پہنچ کر بابا جی کو صورتحال بتائی تو وہ مسکرانے لگے۔
”میاں۔ ہم ٹھنڈی اور بادی اشیا کھا ہی نہیں سکتے…. چائے بن جائے تو لے آنا….“
یہ سن کر غازی بھی اسرار کے پردوں سے باہر نکل آیا اور بولا۔ ”سرکار اگر اجازت ہو تو میں پی لوں….“
”تو کبھی سدھر نہیں سکے گا غازی….“ بابا جی ہنس دئیے۔ ”کبھی تو جلیبیاں کھاتا ہے اور کبھی آئس کریم…. جس دن تو پکڑا گیا اس دن پٹے گا….“
”بابا جی سرکار…. آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی فکر نہیں ہے۔“ غازی نے میرے ہاتھ سے لسی کا پیالا لیا اور گھونٹ بھر کر بولا۔ ”سواد آ گیا سرکار….“
”شاہد میاں….“ بابا جی نے مجھے مخاطب کیا۔ ”ہم جیسے جنات یہ چھوٹی چھوٹی عیاشیاں کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیں اسکی اجازت ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے لئے تمہاری دنیا کی غذائیں جنت کی غذاﺅں جیسا درجہ رکھتی ہیں۔ ہمیں ان کی اشتہابہت تنگ کرتی ہے۔ ہائے۔ تمہیں کیا بتاﺅں میاں…. اللہ نے جب بنو اسرائیل کو من و سلویٰ عطا کیا تھا تو اسکی لذت کس درجہ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ مگر افسوس اس بدبخت قوم نے اس جنتی غذا کو ٹھکرا دیا۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ جنات بھی من و سلویٰ کھاتے تھے۔ وہ بڑے فخر سے ہمیں بتاتے تھے کہ من و سلویٰ حاصل کرنے کے لئے وہ کیا کیا طریقے اختیار کرتے تھے۔ میں تمہیں ایک راز کی بات بتا دوں۔ اس من و سلویٰ کی ایک جھلک عربوں کے کھانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر رسول اکرم کی امت اور سرزمین کو من و سلویٰ کی لذت سے بھی آشنا کیا تھا۔ کیا تم نے کبھی عربوں کے روایتی کھانے کھائے ہیں….“
میں نے انکار میں سر ہلایا۔
”نہیں کھائے ہوں گے۔ اگر تم کھا بھی لو تو ہضم نہ کر سکو گے۔ تم آج کل کے ان انسانوں میں سے ہو جو خالص غذا نہیں کھا سکتے….“ بابا جی کہہ رہے تھے۔ ”یہ چائے جو تم یہاں پیتے ہو اس میں کسی قسم کی لذت نہیں ہے۔ …. تمہیں کیا بتاﺅں ….بڑی سرکار…. میرے پیر و مرشد بتایا کرتے تھے کہ فرعونوں کے محلات میںجو قہوہ پکتا تھا آج کی دنیا اس کی لذت سے محروم ہے۔ یہ قہوہ جڑی بوٹیوں کو شہد میں گھول کر پکایا جاتا اور پھر یہ مہمانوں کو پینے کے لئے دیا جاتا تھا۔ فرعون جس پر مہربان ہوتے یہ قہوہ اسکو پلاتے تھے۔ میری بڑی سرکار صاحب ایمان ہونے سے پہلے مشرک تھے اور وہ ایک فرعون زادی کے عشق میں مبتلا ہو کر اس کے محل میں رہتے تھے۔ یہ داستان بڑی رنگین اور دلچسپ ہے میاں…. کبھی وقت ملا تو ہم تمہیں سنائیں گے۔ تم داستان گو ہو۔ تمہارے لئے یہ داستان بڑی اہم ہو گی۔ زلیخا کی شادی ہو لینے دو…. اگر تم نے ہمارے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائی تو ہم تمہیں یہ داستان ضرور سنائیں گے….“
بابا جی کی باتوں میں اس قدر سحر اور اثر تھا کہ میں ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
”سرکار…. مجھے آپ پر اعتماد ہے اور میں آپ کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچاﺅں گا….“
”ٹھیک ہے۔ پرسوں رات کے بعد ہم تمہیں اپنے پیر و مرشد کی یہ داستان سنائیں گے۔ اب تم جاﺅ اور چائے لے آﺅ…. حمیدا دودھ لے آیا ہے….“ میں باورچی خانے میں گیا تو واقعی حمیدا واپس آ چکا تھا۔ چاچی نے مجھے چائے بنا کر دی میں نے بابا جی کو اپنے ہاتھوں سے چائے پلائی۔ یہ بڑا دلچسپ تجربہ تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی چسکیاں بھرنے لگے۔
”تمہاری حاچی اس میں الائچی ڈال دیتی تو زیادہ لطف آتا….“ بابا جی کہنے لگے ”بہرحال تازہ اور خالص دودھ میں بنی چائے کا بھی اپنا ہی لطف ہے۔“
بابا جی چائے پی چکے تو میں ان سے اجازت لیکر شہر جانے کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ رات تیزی سے گزر گئی تھی۔ مجھ پر جگ رتے کا ذرا بھی اثر نہیں تھا۔ اس روز میرا پرچہ بہت اچھا ہوا۔ میں اس روز بہت زیادہ مضطرب تھا۔ رات کو مجھے ٹاہلی والی سرکار سے بھی ملنا تھا اور اگلے روز زلیخا کی شادی کا بھی بندوبست کرنا تھا۔ شادی میں صرف گھر کے ہی لوگوں نے شریک ہونا تھا۔ میں جب واپس آیا تو بڑے ملک صاحب کو بہت زیادہ غمگین پایا۔ ان کے کاندھے جھکے ہوئے تھے اور وہ ایک دو راتوں میں ہی بوڑھے ہو گئے تھے۔
”ٰپتر تم بھی میری مدد نہیں کر سکے۔ میں تو تمہیں اپنا ہمدرد سمجھتا تھا….“
چاچا جی کی بات سن کر میں مجرموں کی طرح سر جھکا کر خاموش کھڑا رہا۔ میرا دل چاہا کہ یہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں غرق ہو جاﺅں۔ بے کسی سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں منہ موڑ کر بھاگ گیا۔
”پتر کب تک یونہی بھاگتے رہو گے….“ مجھے چاچا جی کی آواز سنائی دی…. میرے پاس ان کی کسی بات کا جواب نہیں تھا۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ میں خود کن حالات سے گزر رہا ہوں۔ اور میرے بس میں اب کچھ نہیں رہا۔
میں ڈیوڑھی سے گزر رہا تھا کہ مجھے عقب سے زلیخا کی آواز سنائی دی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ اس نے سرخ رنگ کا جوڑا پہنا تھا اور زنان خانے کی دہلیز پر کھڑی تھی۔
”شاہد۔ میرے لئے شہر سے گلاب کے پھول منگوا دینا….“
میں کسی ساکت شے کی طرح اسکو دیکھتا رہ گیا۔ ”اور یہ پھول کل میری تربت پر ڈال دینا…. اپنے ہاتھوں سے….“
”زلیخا….“ میرے اندر رواں کرچیاں دوبارہ اکٹھی ہو کر میرے حلق میں پھنس گئیں اور میری رگ و پے زخم زخم ہو گئی…. کوئی بہت ہی اذیت سے میرے اندر چیخا تھا….
میں نے اسکی طرف سے رخ موڑ لیا اور ڈیوڑھی میں بھاگتا ہوا حویلی سے باہر نکل گیا۔ عقب سے زلیخا کی آواز میرا تعاقب کرتی رہی۔ ”شاہد یہ پھول تم میری تربت پر ڈال دینا….“
میں حویلی سے بھاگتا ہوا ہانپتا کانپتا ہوا قبرستان کی طرف دوڑتا چلا گیا ۔میرا پورا وجود زخموں سے چور چور تھا۔ میری سانسیں بھی اکھڑ چکی تھیں۔ میں سیدھا ٹاہلی والی سرکار کے والد گرامی کی قبر کے پاس جا گرا۔ میرا دل چاہا کہ یہ قبر شق ہو جائے اور میں اسکے اندر دفن ہو جاﺅں۔ ابھی تک چاچا جی اور زلیخا کی آوازیں میرا تعاقب کر رہی تھیں۔ میں نے شدت سے مغلوب ہو کر اپنے کان بند کر لئے اور زور زور سے چیخنے لگا۔
”خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو…. میں بے بس ہوں۔ میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے…. کچھ نہیں ہے میرے اختیار میں….“
میں روتا جا رہا تھا اور میری چیخوں سے قبرستان کے مردے بھی عاجز آ گئے تھے۔ معاً کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور دہشت زدہ ہو کر نم آنکھوں سے پلٹ کر دیکھنے لگا۔ ٹاہلی والی سرکار کھڑی تھی۔ انکے ہاتھ میں دانوں کی ایک بڑی سی مالا تھی۔
”پتر۔ تم بھول گئے۔ ہم نے کہا تھا جب دکھ بڑھ جائیں تو اللہ کو یاد کرنا۔ تمہاری ساری آزمائشیں وہی ذات کامل آسان کر سکتی ہے۔ آﺅ۔ میرے پاس بیٹھ جاﺅ اور اپنے اسم اعظم کو پڑھو۔ خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے قلب کے اندر عشق حقیقی کا چراغ روشن کرو اور اپنی ساری ذہنی قوتیں اس چراغ کی لو پر مرکوز کر دو…. اور دل و جان سے یکتا ہو کر پڑھو۔ پھر دیکھنا عبادت و ریاضت کا اثر…. آﺅ…. اچھے مرد روتے نہیں ہیں….“
”مرد کیوں نہیں روتے۔ مرد تو بہت روتے ہیں سرکار….“ میں گلوگیر لہجے کے ساتھ بولا۔ ”سرکار جب مرد آہ زاری کرتے ہیں تو سمندروں اور پہاڑوں میں جوار بھاٹا اٹھتے ہیں۔ زمین کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ سرکار جب مرد روتا ہے تو آسمان بھی اسکے ساتھ روتا ہے۔ اس وقت مرد بڑا بے بس ہوتا ہے سرکار۔ بڑا دکھی ہوتا ہے….“
”ہاں…. مگر یہی دکھ اور بے کسی اسے اپنے کمزور ہونے اور اس ذات کامل کی طرف راغب کرتا ہے۔ مرد ہمیشہ اپنی طاقت کے زعم میں رہتا ہے مگر جب اس کا زعم ختم ہوتا ہے تو وہ عشق حقیقی کی آغوش میں پناہ لیتا ہے۔“
ٹاہلی والی سرکار کی باتیں میرے دل پر اثر کرنے لگیں اور میں نے انکی ہدایت پر اپنے دل کو ذکر الٰہی سے معمور کرنا شروع کر دیا۔ میں اپنے دل میں عشق حقیقی کا چراغ روشن کرنے لگا۔ میری باطنی دنیا کے گہرے اندھیروں میں ذکر الٰہی کے نور سے سیاہی چھٹنے لگی۔
٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...