ہانیہ وجدان کے ساتھ ہسپتال پہنچی تھی ۔ رو نے کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا ۔ وجدان کو سٹریچر پر ڈال کر ایمرجنسی روم میں لے جایا گیا ۔
لیکن ڈاکٹر نے پولیس کے آنے تک علاج کرنےسے منع کر رہے تھے ۔ اور فیس جمع کروانے کا کہا جا رہا تھا
"آپ لوگوں کو ذرا اس چیزکا خیال نہیں ہے کے کسی کی ذندگی کا معملہ ہے آپ کو تو بس اپنی نوکری سے مطلب ہے ۔میں اس ہسپتال کو ہو بند کروا دوں گی جو آپ نے علاج نہ کیا وجدان کا ۔۔” ہانیہ پاگلوں کی طرح چلائی ۔اس کی آنکھوں سے پانی بہ رہا تھا ۔تبھی خیام صاحب بھی وہاں پر پہنچے
"میں پولیس میں ہوں آپ علاج شروع کریں ہم پیمنٹ کر دیتے ہیں ۔” خیام صاحب بولے
تھوڑی دیر میں وجدان کا علاج شروع ہو چکا تھا
۔ مسز خیام نے سمیہ بیگم کو فون کیا تو شاہ ویلا میں بھی خبر پہنچ چکی تھی ۔
بی جان کا بی پی شوٹ کر گیا جس کی وجہ سے وہ گھر پر ہی رہ گئیں جبکہ زمان ، زین، زرینہ اور شازمہ بیگم اور ان کے شوہر دلاور شاہ ہسپتال پہنچے ۔دعا اور عنایا ارباز اور باقی لوگ گھر پر ہی رہ گئے ۔
"ہانیہ بچے حوصلہ کرو ۔” سمیہ بیگم نے اس کی ابتر حالت دیکھ کر بولا
"ہانیہ کی ہچکی بند چکی تھی ۔ ” آنکھیں رونے کو شدت سے سرخ ہو چکی تھیں ۔
تبھی ایک نرس اور ڈاکٹر باہر آئے ۔
"آپ میر وجدان شاہ کے ساتھ ہیں؟ ۔” انہوں نے باہر آ کر پوچھا
"جی ۔ ” زمان بولا
"ہم ان کو او ٹی میں شفٹ کر رہے تاکہ ان کو لگی گولی۔ نکال سکیں ۔ گولی ان کے پھپھڑوں میں نہیں کندھے میں لگی ہے ۔مگر بائینے کندھے میں لگی ہے تو اپر یشن پچید ہ ہو گا ۔ ہم کوشش کریں گے کے گولی نکالی جا سکے پر ہم یقین نہیں دلا سکتے ۔ کیونکہ خون کافی بہ چکا ہے اس اوپرشن کی وجہ سے ان کے بائینے کندھے میں ہمیشہ کے لئے کھچاؤ پیدا ہو سکتا ہے ۔”
” اور بہت سی اہم آرٹریز بھی بائیں جانب ہوتیں ہیں تو آپ دعا کریں۔ اس پیپر پر سائن کر دیں تاکہ آپریشن شرو ع کیا جا سکے ۔ ڈاکٹر کے بتانے کے بعد ہانیہ نے سائن لئے گئے ۔ جو وہ ہی جانتی تھی کے کس دل سے کر رہی تھی”
وجدان کا آپریشن شروع ہو چکا تھا سب دعا کرنے میں مشغول تھے ۔ زین زمان سب کی حالت ابتر تھی ۔ وجدان زین کے والد خضر صاحب کے بعد ان کے گھر کا بڑا مرد تھا ۔ کبھی کوئی بات ہو کوئی مسلہ ہو ان کے وجی بھائی نے اپنی سنجیدہ طبیعت کے باوجود ان کی بات سنتا تھا ۔
ادھر ہانیہ کا دل بیٹھا جا رہاتھا ۔ کبھی وہ آپریشن تھیٹر کے باہر چکر کاٹتی کبھی چیئر پر بیٹھ جاتی ۔ بار بار وجدان کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا ۔
کبھی اس کے ساتھ شاپنگ کرتے ہوئے ، کبھی یونیورسٹی میں بات کرنے کی خاطر بے وجہ تنگ کرتے ہوئے ، اور کبھی ستاروں سے روشن شام میں زندگی ساتھ گزارنے کی باتیں کرتے ہوئے ۔ اندھیرے اندھیرے تھے جو اس کی آنکھوں میں سما رہے تھے ۔
تکریبا آٹھ گھنٹے بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا ۔ ڈاکٹر اوٹی ڈریس میں باہر آیا ۔سب لوگ ڈاکٹر کی طرف متواجہ ہوئے
"وج۔ ۔دان ۔ کیسا ہے ؟” ہانیہ نے با مشکل الفاظ یہ اپنی زبان سے ادا کئے ۔
"آپ لوگ حوصلے سے سنیں ہم نے پوری کوشش کی ہے ۔ ان کو بچانے کی ۔ آپریشن مکمل ہو گیا ہے گولی بھی نکل گئی ہے ۔ لیکن خون کا کافی زیاں ہو چکا ہے اور یں کا بلڈ گروپ بی نیگیٹیو ہے ۔بہت مشکل سے یہ گروپ ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کو آئی سی یو میں شفٹ کر دویا جائے گا
اور ان کو ونٹیلیٹر (VENTILATER) پر شفٹ کر رہے ہیں ”
"ہم نے ایک بوتل کا انتظام تو کر لیا تھا لیکن اور بلڈ بینک میں میسر نہیں ۔ایک دو گھنٹے کے اندر اندر انتظام کریں ۔ورنہ ۔۔” ڈاکٹر نے گویا ایک اور بم ان کے سر پر پھوڑا
ہانیہ کو اپنے ارد گرد ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہوئی ۔وہ اپنے چکراتے سر کو پکڑ کر زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔
"ہانیہ !!!! ” سمیہ بیگم نے پکار ا لیکن وہ بیہوش ہو چکی تھی ۔اس کے ناک سے نکلنے والی خون کی نکیر نے سب کو اور پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
تکریبا ایک گھنٹے کے بعد خون کا انتظام ہو گیا تھا ۔ جو وجدان کو لگادیا گیا تھا ۔
ہانیہ کو بھی پرائیویٹ روم میں انڈر اوبزر ویشن رکھا گیا تھا ۔اس کا بلڈ پریشر جو ایک دم ہائی ہو کر ایک سو ستر تک جا پہنچا تھا اب تیزی سے گر رہا تھا ۔
محبت تو دونوں نے کی تھی پھر ایک اکیلا کیوں تکلیف کاٹتا ۔ باہر ہونے والی ہلکی بارش بھی شائد دلوں کے حال سے واقف ہو گئی تھی ۔ آج دونو ں کی آنکھیں بند تھیں ۔ آج قوس قزا کے رنگ نہیں بکھرے تھے ۔ ویرانی سی ویرانی تھی ۔
رات اپنے پر پھیلارہی تھی ۔
کہ پھول پھر سے رنگینی کی طرف مائل ہوئے ۔ شائد رات آنے والی سحر کا پتا دے رہی تھی ۔
شام کو وجدان کی حالت سمبھلنے کی اطلاع دے دی گئی تھی ۔اور اس کو وینٹ سے ہٹا دیا گیا تھا
رات کے پہر وجدان آہستہ سے ہوش میں آیا ۔اس نے بامشکل اپنی آنکھیں واہ کی ۔اور اٹھنے کی کوشش کی
"یا اللہ ” تکلیف سے اس کی آہ نکلی ۔
اس کوشش میں ناکامی کے بعد اس نے اپنے آس پاس دیکھا ۔ سفید دیوارں تھیں ۔ اس نے کچھ نا سمجھتے ہوئے آس پاس دیکھ تو تھوڑی دیر کے بعد کچھ کچھ یاد آنا شروع ہوا
ایمان کا گولی چلانا ۔وجدان کا ہانیہ کو بچانے کی کوشش میں زخمی ہونا ۔ پھر یا اسے اپنا درد سے کر ہنا یاد تھا ۔یا پاس بیٹھی ہانیہ ۔
"ہانیہ ۔” وہ آواز سن کر بولا ۔ تب ہی نرس اندر داخل ہوئی ۔
وہ وجدان کو دیکھ کر ڈاکٹر کو بلانے چل دی ۔ ڈاکٹر نے چیک کر کے اس کو خطرے سے باہر قرار دے دیا تھا ۔
"مسٹر وجدان کو ہوش آ چکا ہے ان کو پرائیویٹ روم میں شفٹ کر رہے ہیں ۔ کچھ دیر میں آپ ان سے مل سکتے ہیں پر دو سے زیادہ لوگ نا ہوں ۔ وہ بار بار اپنی مسز کو بلانے کا کہ رہے ہیں ۔سو آپ ان کو ان کی طبیعت کے بارے میں دھیان سے بتائیں ” نرس ان لوگوں کو بتا کر چل دی
وجدان ہوش میں آ چکا تھا ۔پر ہانیہ کو طبیعت کی خرابی کی وجہ سے بیہوشی کا انجیکشن دیا گیا تھا ۔
زین اور زمان وجدان سے اندر ملنے گئے ۔
وہ دروازہ کھولنے کی آواز پر چونکا ۔ پر زمان اور زین کو دیکھ کر کوفت کا شکار ہوا ۔
"وجی بھائی ہانیہ ! میرا مطلب ہانیہ بھابی بہت پریشان تھیں تو ان کو نیند کی دوا دی ہے ۔ آپ بھی تو یہی چاہیں گے وہ زیادہ روئیں نا اور پریشان نا ہوں ۔ ” زین نے وجدان کو دروازے کی طرف دیکھ کر کہا
"تم سچ کہ رہے ہو ۔” وجدان نے پوچھا
"جی ! ڈاکٹر نے ان کو دوا دی ہے” ۔زمان بولا
جس سے اس کو کچھ اطمینان ہوا ۔ صبح تک سب اس کو مل چکے تھے لیکن ہانیہ نہیں آئی تھی اب اس کی تشو یش بڑھ رہی تھی ۔۔
"ہانیہ کہاں ہے ۔اب تک آئی کیوں نہیں "۔ اب اس نے تھوڑا اونچا بولنے کی۔ کوشش کی
"بیٹا وہ بس تھوڑی دیر میں آ رہی ہے ۔” اب کے سمیہ بیگم نے کہا
"مجھے جانا ہے اس کے پاس "اس نے ڈراپ اتارنے کی کوشش کی ۔ پر زین نے ایسا کرنے سے روک دیا ۔
"مجھے ہانیہ سے بات کرنی ہے اسے دیکھنا ہے آپ لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آ رہا ۔” وجدان نے بے بسی سے ان کی طرف دیکھا
"بیٹا بس آدھا گھنٹے تک آجاے گی ۔ ” دلاور صاحب بولے ۔
"ٹھیک ہے صرف ادھے گھنٹے اور انتظار کروں گا پھر اٹھ کر خود چلا جاؤں گا ۔ ” وجدان نے دروازے کو گھورتے ہوئے کہا
ادھر ہانیہ کو ہوش آیا تو جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی لیکن چکر آنے سے واپس بیڈ پر گر گئی ۔
"میم دھیان سے "۔ نرس نے پاس آتے ہوئے کہا
"آپ پلیز وہیل چیئر منگوا دیں مجھے اپنے ہسبنڈ کو دیکھنا ہے کیا وہ ٹھیک ہے؟” ۔ ہانیہ نے پوچھا
"دونو ں میاں بیوی ایک جیسے ہی ہیں ۔ ” وہ بڑبڑائی
"جی میم وہ ٹھیک ہیں آپ آرام کریں میں وہیل چیئر منگواتی ہوں ” ۔ وہ کہتے ہوئے باہر چلی گئی
کچھ دیر بعد ہانیہ وجدان کے کمرے کی طرف گامزن تھی
دروازہ کھولنے کی آواز پر وجدان مڑا تو ہانیہ آ رہی تھی لیکن اسے وہیل چیئر پر دیکھ وجدان کے اوسان خطا ہو گئے ۔ اس کی وہیل چیئر وجدان کے بیڈ کے ساتھ آ کر رکی
"میں تھوڑی دیر کے لیے بیہوش کیا ہوا میری بیوی کا حال کیا ہو گیا ہے ۔” وجدان نے اس کی زرد رنگت دیکھ کر کہا
"برخودار یہ آپ کی بیہوشی کا نتیجہ ہے ۔آپ ہماری طرف مت دیکھئے چلیں سب باہر چلتے ہیں ان کو بات کرنے دیں تھوڑی دیر "۔ دلاور صاحب بولے اور سب کو لئے باہر چل دیے
"آئی ام سوری ۔ میں بیہوش ہو گیا اب پکا کوشش کروں گا بیہوش نا ہوں ۔” شازمہ بیگم جو پانی کا گلاس ہانیہ کو دے رہیں تھی ۔ وجدان کے اس طرح کہنے پرمسکراتے ہوئے باہر چل دیں ۔
ہانیہ نے خهجل ہو کر اس کے بازو پر تھپڑ رسید کر دیا
"ارے ظالم لڑکی ۔ ” وجدان مسکراتے ہوئے بولا
"اب بیہوش ہو کر دکھاؤ تو سہی ۔” ہانیہ نے اپنی پلکیں اٹھا کر کہا
اب کہیں جانا مت ۔ اس نے ہانیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں لیا ۔۔مسکرا کر آنکھیں بند کی
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...