“ہانیہ… میری فائل نہیں مل رہی یار… تمہیں دی تھی… کہاں رکھ دی ہے…؟؟” حسن کی جھنجھلائ ہوئ سی آواز ابھری… ہانیہ جو کچن میں اس کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی, سینڈوچ میکر کا سوئچ آن کرتی جلدی جلدی کمرے میں آئ…
“کونسی فائل کی بات کر رہے ہیں آپ…؟؟” حسن کو مختلف دراز کھنگالتے دیکھ کر ہانیہ نے پوچھا…
“بلیک کلر کی فائل پرسوں تمہیں دی تھی… اور ساتھ تاکید بھی کی تھی کہ بہت ضروری پیپرز ہیں اس فائل میں… سنبھال کر رکھنا اسے… لیکن اب مل نہیں رہی… ” حسن نے پیشانی مسلی…
“وہ میں نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے دراز میں رکھی تھی… میں دیکھتی ہوں وہاں…” وہ کہہ کر آگے بڑھی…حسن بھی اس کے ساتھ ہی بیڈ کی جانب بڑھا یہ آس لیے کہ شاید فائل وہیں ہو گی…
ہانیہ نے پورا دراز کھنگال لیا… لیکن فائل وہاں نہیں تھی جبکہ اسے اچھی طرح یاد تھا فائل اس نے خود یہاں رکھی تھی… بار بار پاگلوں کی طرح اس دراز کو چیک کرتی وہ ادھر سے ادھر ہاتھ مار رہی تھی جیسے وہ فائل نہیں کوئ سوئ ہو…
“انتہائ غیر ذمہ دار عورت ہو تم ہانیہ… ایک فائل تک سنبھال کر نہیں رکھ سکتی تم… گھر اور شوہر کیا خاک سنبھالو گی… ” حسن اس کی غائب دماغی سے ویسے ہی چڑنے لگا تھا… اب جب وقتاً فوقتاً اس کی ضرورت کی چیزیں بھی غائب ملنے لگیں تو وہ اپنے غصے کا بلا جھجھک اظہار کر جاتا…
“حسن… بلیو می… میں نے فائل یہیں رکھی تھی… ” ہانیہ رونے والی ہو گئ…
“یہاں رکھی تھی تو کہاں گئ… ہاں…؟؟ زمین کھا گئ…؟؟ یا آسمان نگل گیا…؟؟ یا کوئ بھوت آیا تھا ہمارے گھر جو فائل اڑا لے گیا… تم جانتی بھی ہو کتنے اہم ڈاکومینٹس تھے اس فائل میں… سر نے میرے ہینڈ اوور کی تھی وہ فائل… آج کیا جواب دوں گا میں انہیں جا کر… کہ میری بیوی کہیں رکھ کر بھول گئ ہے فائل کو… ہانیہ کبھی گھر کے کاموں میں اپنے دماغ کو حاضر بھی رکھ لیا کرو… پتا نہیں سارا دن گھر میں رہ کر تم کرتی کیا ہو…کن خیالوں میں کھوئ رہتی ہو کہ میری چند چیزیں تک سنبھالی نہیں جاتیں تم سے… ” حسن اس پر چلا رہا تھا… جبکہ وہ بے بسی سے سر جھکاۓ لب کاٹ رہی تھی… آنکھوں میں آۓ آنسوؤں کو پیچھے دھکیل رہی تھی کہ اگر حسن یہ آنسو دیکھ لیتا تو مزید غصہ آتا اسے…
“اب یوں بت بن کر کھڑی رہنے کا ارادہ ہے…؟؟ آفس بھی بھوکا ہی جانا پڑے گا کیا…؟؟ تاکہ وہاں جا کر سر کی ڈانٹ سے ہی پیٹ بھر لوں… ” اسے یوں کھڑے دیکھ کر حسن کو مزید تپ چڑھی… ہانیہ ضبط کرتی مڑی اور کچن میں آئ… تبھی عجیب سی بد بو نے اسے بوکھلا کر رکھ دیا…
وہ تیزی سے سینڈوچ میکر کی طرف آئ… سوئچ آف کرنے کے بعد دیکھا تو سینڈوچز جل چکے تھے اور اس کی بدبو پورے کچن میں چکرا رہی تھی…
“اف… ایک تو آج پہلے ہی اتنا لیٹ ہو چکا ہوں… اوپر سے فائل بھی نہیں ملی… آج کلاس تو پکی لگے گی… ہانیہ جلدی ناشتہ…” حسن بولتا ہوا کچن میں ہی چلا آیا جہاں ہانیہ پریشان سی انگلیاں مروڑ رہی تھی… حسن پہلے سمیل پر چونکا… پھر ہانیہ کے انداز پر… اور جو نگاہ سینڈوچ میکر پر پڑی تو سرد آہ بھر کر رہ گیا… ایک قہر بار نگاہ ہانیہ کے سراپے پر ڈالی…
“کل سے تم ایسا کرنا یوں صبح سویرے اٹھنے کی زحمت مت کرنا… بہت شکریہ اب تک کی نوازشات کا… لیکن میں اپنے سب کام خود ہی کر لیا کروں گا… کم از کم اس طرح کی خواری سے تو بچ پاؤں گا…” تلخ لہجے میں کہہ کر وہ کچن سے بھی جا چکا تھا… کچھ دیر بعد گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائ دی… وہ تیزی سے دروازے کی طرف آئ… حسن گاڑی گیٹ سے نکال رہا تھا… آج اسے گیٹ تک کھولنے کو نہ کہا تھا… گاڑی گیٹ سے نکال کر اب وہ خود گیٹ بند کر رہا تھا… ہانیہ دکھ بھری نگاہوں سے اسے دیکھے گئ جو مڑ کر اس کے وجود پر ایک نظر ڈالے بغیر جا چکا تھا…
💝💝💝💝💝
چھ ماہ پو چکے تھے انہیں کراچی آۓ… بظاہر زندگی نارمل تھی… لیکن سب نارمل ہوتے ہوۓ بھی کچھ نارمل نہ تھا… خصوصًا ہانیہ کے لیے… اس کا اور حسن کا رشتہ خاصا کمپلیکیٹڈ ہو چکا تھا… ان چھ ماہ میں بہت عجیب و غریب واقعات ہوۓ تھے ہانیہ کے ساتھ… دن میں حسن کے جانے کے بعد کام کرنے والی ماسی آتی… ایک ڈیڑھ گھنٹے میں کام ختم کر کے وہ چلی جاتی… اس کے بعد ہانیہ بالکل اکیلی ہوتی اس گھر میں… لیکن پھر بھی اسے ہر پل گھر میں کسی اور وجود کا گمان ہوتا…حسن رات گۓ آتا اور تب تک ہانیہ ایک انجانے سے خوف کی لپیٹ میں رہتی… رات کو حسن کے آنے پر وہ سکون کا سانس لیتی…
اس گھر میں تنہا رہتے رہتے وہ تنہائ کی عادی ہوتی جا رہی تھی… ہنسنا بولنا کم کر دیا… اکیلی بیٹھی گھنٹوں نہ جانے کیا سوچتی رہتی… حسن جب کبھی اسے باہر لے جانا چاہتا تو وہ ہمیشہ انکار کر دیتی… وہ لوگوں کو فیس کرنے سے, دنیا کا سامنا کرنے سے ڈرنے لگی تھی… نہ جانے کیسا احساس کمتری تھا جو اس کے دل میں اپنی جڑیں مضبوط کرتا جا رہا تھا… اس نے سجنا سنورنا بھی چھوڑ دیا… اپنے وجود پر دھیان دینا ترک کر دیا… یوں گھر میں اسے اکیلے دیکھ کر کسی بدروح کا گمان ہوتا…
پھر اچانک ان کے گھر سے مختلف چیزیں غائب ہونے لگیں… خاص طور پر حسن کی ضرورت کی چیزیں… ہانیہ جہاں کوئ چیز رکھتی تو ضرورت کے وقت وہ چیز اس جگہ موجود نہ ہوتی… شروع شروع میں حسن نے اگنور کیا… پیار سے ہانیہ کو سمجھایا کہ وہ اپنا دھیان رکھے… اور حسن کی چیزوں کا خیال رکھے… لیکن کوئ رزلٹ نہ پاکر وہ چڑنے لگا.. ہانیہ کی اس سردمہری اور سرد مزاجی پر غصہ کرنے لگا… اور ہانیہ بے قصور ہوتے ہوۓ بھی مجرموں کی طرح سر جھکاۓ کھڑی رہتی…
حسن اپنے کام کی لگن میں اتنا محو ہو چکا تھا کہ اس کے پاس ہانیہ کے جذبات و احساسات کی فکر کرنے کا وقت ہی نہ تھا… وہ اتنا تو سمجھ پایا تھا کہ ہانیہ بدل رہی ہے… لیکن اس بدلاؤ کی کیا وجہ ہے یا کونسے محرکات اس کے پیچھے چھپے ہیں یہ سب جاننے کی فرصت ہی نہ تھی اس کے پاس… ہانیہ کے دل کی باتیں سننے کا, اپنے دل کی باتیں کہنے کا, اپنی بیوی سے پیار اور محبت کا اظہار کرنے کا وقت ہی نہ نکال پاتا تھا وہ… کام کی دھن اور پرموشن کے دکھاۓ گۓ خواب نے اسے دن اور رات کی تمیز تک بھلا دی تھی… اس کی اس بے نیازی اور بے فکری پر ہانیہ اپنے ہی خول میں قید ہوتے ہوۓ مزید تنہا ہوتی چلی گئ… اب تو یہ عالم تھا کہ حسن اسے بالکل اجنبی لگنے لگا تھا… اپنا اور اس کا رشتہ کھوکھلا محسوس ہونے لگا تھا… جس مین محبت و انسیت نام کا کوئ جذبہ موجود ہی نہ تھا…
💝💝💝💝💝
مغرب کے بعد اندھیرا پھیلنے لگا تھا…وہ چھت پر اداس سی بیٹھی تھی… مما بابا کی شدت سے یاد آ رہی تھی… تایا جی, تائ جی اور محسن کو بھی مس کر رہی تھی وہ… جب وہاں تھی تو اس کے آس پاس کتنی رونقیں تھیں… ہر وقت شرارتیں… ہنسی مذاق…تب حسن کا اور اس کا رشتہ بھی بہت اچھا تھا.. لیکن یہاں آنے کے بعد ہر معاملہ بگڑتا جا رہا تھا… اسے سمجھ ہی نہ آتی کہ اس کے اور حسن کے ریلیشن شپ کے خراب ہونے میں غلطی کس کی تھی… اس کی یا حسن کی… وہ ہر ممکن کوشش کرتی تھی کہ حسن کو کوئ شکایت نہ ہو اس سے… لیکن ہر بار جب وہ دونوں کچھ قریب آنے لگتے تبھی کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا کہ دوریاں مزید بڑھ جاتیں…
اپنے ہی خیالوں میں ڈوبی وہ مختلف سوچوں کے گھیرے میں تھی جب ایک دم اسے تیز خوشبو کا احساس ہوا…وہ چونکی… خوشبو اچھی تو تھی لیکن اتنی تیز تھی کہ اس کے حواس مختل ہونے لگے… اور پریشانی کی بات یہ تھی کہ یہ خوشبو آ کہاں سے رہی تھی… وہ پرفیوم یوز کرتی نہیں تھی… حسن پرفیوم استعمال کرتا تھا لیکن وہ کمرے سے ہی تیار ہو کر جاتا تھا… اور اس کے پرفیوم کی خوشبو بالکل مختلف تھی… پھر یہ چھت پر خوشبو کیسی… اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا…لیکن وہاں اس کے علاوہ کسی وجود کا نام و نشان تک نہ تھا…
وہ الجھ رہی تھی تبھی کہیں سے ایک باز کے سائز جیسا عجیب سا پرندہ اڑتا ہوا اس کی طرف آیا…. اس کا سارا رنگ سفید تھا جبکہ گرن سے چونچ تک وہ سرخ رنگ کا تھا… اس کے وجود سے عجیب سی روشنیاں پھوٹ رہی تھی… دکھنے میں وہ پرندہ خاصا خوبصورت لگ رہا تھا لیکن ہانیہ اس کے اپنی جانب بڑھنے پر خوفزدہ ہوتی نیچے بیٹھ گئ… وہ پرندہ اس کے سر کے اوپر آ کر منڈلانے لگا… ساتھ ہی عجیب سی آوازیں نکال رہا تھا… ہانیہ کانپتی ہوئ گھٹنوں میں منہ چھپا گئ… لرزتے ہونٹوں سے مختلف دعائیں نکل رہی تھیں… اس پرندے نے تین چکر کاٹے اس کے سر کے اوپر… اور پھر اڑتا ہوا دور آسمان میں غائب ہو گیا… ساتھ ہی خوشبو کا وہ احساس بھی ختم ہونے لگا… بہت دیر بعد ہانیہ نے سر اٹھایا تو وہاں اس پرندے کو نہ پا کر کچھ تسلی ہوئ… وہ اٹھ کر تیزی سے نیچے بھاگی… حلق خشک ہو رہا تھا… کچن میں آ کر پانی پیا… تبھی گیٹ کی بیل نے اسے مزید سہما کر رکھ دیا… وہ ہمت مجتمع کرتی باہر آئ… گیٹ کے پاس آئ تو گیٹ کی درزوں سے حسن کی گاڑی کی جھلک دکھائ دی… وہ حیران ہوتی گیٹ کھول گئ… پہلے حسن نو بجے کے بعد گھر آتا تھا… لیکن آج چھ بجے سے پہلے ہی اس کی آمد ہو گئ تھی…
گیٹ کھولتے ہی اسے حسن کی جھلک دکھائ دی… جس کے چہرے سے ہی اس کا موڈ خاصا خوشگوار لگ رہا تھا…
گیٹ کھلنے پر جب اس کی نگاہ ہانیہ پر پڑی تو وہ حیران ہوا…
“تم تیار نہیں ہوئیں…؟؟” لہجے میں بھی حیرت کا عنصر نمایاں تھا…
“تیار…؟؟ کیوں…؟؟” ہانیہ الجھی…
“یار… میں نے کال پر کہا بھی تھا تم سے کہ شام کو پارٹی پر جانا ہے ہمیں… ریڈی رہنا… ساڑھے پانچ بجے تمہیں پک کرنا تھا… لیکن میں لیٹ ہو گیا… سوچا تم ریڈی ہو گی تو فوراً نکل جائیں گے… اور تم ابھی تک وہی سر جھاڑ منہ پھاڑ حلیہ لیے گھوم رہی ہو…” حسن کا موڈ پھر بگڑنے لگا… جبکہ ہانیہ اسے دیکھے گئ…
“لیکن…مم.. مجھے تو کوئ کال نہیں آئ آپ کی حسن… نہ ہی مجھے کسی پارٹی کے بارے میں پتا تھا… ” ہانیہ اس کے پیچھے چلتی ہوئ اندر آئ…
“واٹ…؟؟ تمہارا دماغ ٹھیک ہے ہانی…؟؟ تم نے خود کال پک کی تھی… اور تم کہہ رہی ہو کہ تمہیں کال کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں… اب یہ باتیں بھی بھولنے لگی ہو کیا…؟؟ ہوتا کیا جا رہا ہے تمہاری یادداشت کو…؟؟ ” حسن نے ملامت کرنے والے انداز میں کہا…
“حسن… سچ میں… میں نے آج آپ کی کوئ کال نہیں سنی… میں تو…” وہ منمناتی ہوئ کہہ رہی تھی جب حسن طیش سے مڑا…
“اسٹاپ اٹ ہانیہ… اسٹاپ دس نان سینس… آخر کہاں رہتی ہو تم… دماغ کہاں ہے تمہارا…؟؟ اور کوئ تیسرا بندہ ہے ہمارے گھر جو تمہارے سیل سے میری کال پک کرے…تمہاری آواز میں مجھ سے بات کرے…؟؟ بولو…” اس کی کلائ تھام کر جھنجھوڑتے ہوۓ وہ اس سے مخاطب تھا…
“مم… مجھے نہیں پتا حسن… لیکن میں نے آپ کی…” وہ روتے ہوۓ کچھ کہہ رہی تھی جب حسن لاؤنج سے اس کا موبائیل پکڑ کر اس کی طرف آیا… کال لاگ کھول کر سب سے اوپر جگمگاتا اپنا نمبر اسے دکھایا جس سے ہانیہ کے سیل پر کال آئ تھی… کال ڈیوریشن دس منٹ اور کچھ سیکنڈز تھی…
“یہ دیکھو… کچھ یاد آیا…؟؟ پورے دس منٹ تم سے بات ہوئ ہے میری… اور تم ہو کہ… ” حسن نے لب بھینچے… جبکہ ہانیہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے سیل فون کی اسکرین کو تکے جا رہی تھی…
“ایسا… ایسا کیسے ہو سکتا ہے… مم… میں نے تو آج… سیل فون ہی نہیں پکڑا… پھر یہ…” وہ اٹک اٹک کر کہہ رہی تھی جب کمرے کی جانب جاتا حسن مڑا…
“فار گاڈ سیک ہانیہ… بند کر دو یہ تماشے… تمہیں اگر نہیں جانا تھا میرے ساتھ تو صاف منع کر دیتی مجھے… میں تمہاری طرف سے ایکسکیوز کر لیتا اپنے دوست سے… جو وقت یہاں آنے میں ضائع ہوا وہ تو نہ ہوتا… لیکن اتنا خوار ہو کر یہاں آیا ہوں تو یہاں نۓ شوشے سننے کو مل رہے ہیں… نہ جانے کیا ملتا ہے تمہیں یہ سب کر کے… میں ہی پاگل ہوں جو ہر بار تم سے دماغ کھپانے آ جاتا ہوں… دنیا سے تو یوں چھپتی ہو تم جیسے پتا نہیں کیا گناہ کر دیا ہو تم نے… کہیں باہر لے جانے کی بات کر دوں تو یوں ہو جاتی ہو جیسے موت کا پروانہ جاری کر دیا گیا ہو… کسی دن مجھے بھی کہہ دینا کہ میں گھر نہ آؤں… میرا سامنا بھی نہ کرنا پڑے تمہیں… اکیلی رہ کر ہی خوش ہو تم… ” حسن تن فن کرتا کمرے میں گیا… کچھ ہی دیر بعد زور سے دروازہ بند کرتا اپنے غصے کا اظہار کرتا وہ گھر سے ہی نکل گیا… بغیر یہ دیکھے کہ اس کی باتوں کے تیروں نے کیسے ہانیہ کے دل کو چھلنی کر کے رکھ دیا ہے…
💝💝💝💝💝
وہ ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھی حسن کا انتظار کر رہی تھی… کھانا بنا کر کچن میں ہی ڈھک کر رکھا تھا جو یقیناً اب تک ٹھنڈا بھی ہو چکا ہو گا… بار بار وال کلاک کی جانب نگاہ دوڑاتی… رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے… اور حسن ابھی تک گھر نہیں آیا تھا… گو کہ اس نے آٹھ بجے کال کر کے کہا تھا کہ وہ آج لیٹ آۓ گا… شاید بارہ بجے تک… لیکن اب تو بارہ سے اوپر وقت ہو گیا تھا… ہانیہ کو پریشانی ہونے لگی… آج اس نے حسن کی پسند کا کھانا بنایا تھا کہ پچھلے چند دنوں سے ان کے درمیان جو کشیدگی کی فضا قائم تھی شاید وہ ختم ہو جاۓ… اور حسن کا موڈ کچھ بہتر ہو جاۓ… خود بھی بھوکی بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی… لیکن وہ نہ جانے کہاں رہ گیا تھا… ہانیہ کی آنکھوں میں نیند کا خمار تھا… لیکن وہ جاگنے کی کوشش کر رہی تھی…
ایک بار پھر دیوار گیر گھڑی کی جانب دیکھا… پھر سامنے ٹیبل پر پڑے سیل فون کی اسکرین روشن کی… کہ شاید حسن کا کوئ میسیج آیا ہو… واٹس ایپ پہ اس کا لاسٹ سین دیکھا… دس بج کر پچیس منٹ کا لاسٹ سین تھا… وہ آفس کے وائ فائ پر ہی واٹس ایپ یوز کرتا تھا… اور اس کا لاسٹ سین بتا رہا تھا کہ اسے آفس سے نکلے ہوۓ دو گھنٹے سے ذائد ہو چکے ہیں… جبکہ یہاں سے آفس تک کا فاصلہ پون گھنٹے کا تھا… پھر اب تک وہ گھر کیوں نہیں آیا… ہانیہ پریشانی سے سوچتی رہ گئ… کبھی دل چاہتا خود اسے کال کر لے… لیکن پھر رک گئ… کہ اسے وقت بے وقت ہانیہ کا کال کرنا پسند نہ تھا… شاید ابھی بھی وہ کسی کام میں ہی الجھا ہو… اور ایسے میں ہانیہ کا کال کرنا کہیں اس کے غصے کو مزید بڑھا ہی نہ دے… وہ بے بسی کی عملی تصویر بنی انگلیاں چٹخانے لگی… کبھی لب کاٹنے لگتی… کبھی ڈائیننگ ٹیبل پر سر رکھ دیتی… بھوک بھی اب مرنے لگی تھی… تقریباً ایک بجے اس نے سر اٹھایا… کوئ فیصلہ کرتے ہوۓ سیل فون اٹھایا… کانٹیکٹ لسٹ میں سے حسن کا نمبر نکالا… ابھی ڈائل کرنے ہی لگی تھی کہ کال آنے لگی… حسن کا نام سامنے جگمگا رہا تھا… ایک پل کا توقف کیے بغیر ہانیہ نے کال ریسیو کی…
“ہیلو… حسن کہاں ہیں آپ… کب سے ویٹ کر رہی ہوں… وقت دیکھا ہے آپ نے…؟؟ کب تک آئیں گے گھر…؟؟” بنا سانس لیے اس نے سوالات کا انبار لگا دیا…
“ہاں ہانی… یار گاڑی خراب ہو گئ ہے روڈ پر… یہی بتانے کے لیے کال کی تھی تمہیں… یہاں اس وقت کسی ٹیکسی تک کا نام و نشان نہیں ہے… نہ ہی کوئ ورکشاپ ہے نزدیک… آفس کے قریب ہی گاڑی خراب ہوئ ہے تو میں اب واپس آفس جا رہا ہوں پیدل… رات وہیں گزار لوں گا… کل بھی ورکنگ ڈے ہے تو کل رات کو گھر آ جاؤں گا… تم پریشان مت ہونا… اور میرا انتظار مت کرنا… سو جاؤ… ٹھیک ہے…؟؟” حسن نے تفصیلاً اسے صورتحال سے آگاہ کیا… ہانیہ دل مسوس کر رہ گئ… کیا کیا نہیں سوچا تھا اس نے… کہ پیار سے حسن کو مناۓ گی… اپنے اور اس کے درمیان کی ان دوریوں کو مٹاۓ گی… لیکن سب کچھ خاک میں جا ملا تھا…
“ہیلو….ہانی تم سن رہی ہو…؟؟” اس کی طرف سے کوئ جواب نہ پا کر حسن نے اسے مخاطب کیا…
“ہ… ہاں… اوکے…” اس نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ اس کے لہجے میں آنسوؤں کی جھلک ظاہر نہ ہو… اور شاید حسن نے بھی ضرورت محسوس نہ کی تھی اس کی حالت جاننے کی… تبھی الوداعی کلمات کہہ کر فون رکھ دیا… فون بند ہونے کے بعد وہ خود پر ضبط نہیں کر پائ تھی… تبھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی…
بہت دیر تک رونے کے بعد خود ہی اپنے آنسو پونچھے اور اٹھی… کچن میں گئ… اپنے ہی بناۓ گۓ کھانے پر ایک غلط نگاہ تک نہ ڈالی تھی اس نے… واش بیسن سے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے… جلتی آنکھوں کی سرخی قدرے کم ہوئ تھی… پانی کے چند گھونٹ لینے کے بعد وہ گلاس وہیں چھوڑ کر کمرے کی جانب بڑھ گئ… دل ویران سا ہو کر رہ گیا تھا… ڈھیلے قدموں سے چلتی ہوئ وہ بیڈ پر گر سی گئ… تکیے کو بازوؤں میں بھینچا اور چہرہ سرہانے میں چھپا لیا… جیسے تمام سوچوں سے بچنے کی کوشش کر رہی ہو… آنسو پھر سے پلکوں کی باڑ پھلانگنے کو بے تاب ہونے لگے… روتے روتے کب اس کی آنکھ لگی کچھ خبر نہ ہوئ…
کسی کھٹکے پر اس کی آنکھ کھلی… نیم خوابیدہ حواس کے ساتھ اس نے ادھر ادھر دیکھا.. جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو کہ کیا چیز اس کی نیند میں مخل ہوئ… چند لمحوں بعد ذہن بیدار ہوا تو اسے یاد آیا وہ کانچ کے ٹوٹنے کی آواز تھی شاید… آنکھیں مسلتے ہوۓ وہ اٹھی… گھڑی کی جانب دیکھا… اڑھائ بجے کا وقت تھا… اسے یاد آیا اس نے عمارت کا داخلی دروازہ تو بند ہی نہ کیا تھا… شاید کوئ بلی وغیرہ آ گئ ہو گی گھر میں… یہی سوچ کر اس نے دوپٹا اٹھایا… کندھوں پر دوپٹا پھیلا کر وہ کمرے سے باہر آئ… لاؤنج میں داخل ہوئ تو نگاہ کچن کی جانب اٹھی… وہ دنگ رہ گئ… کچن میں سلیب پر جتنے بھی برتن تھے سب کے سب نیچے گرے ہوۓ تھے… صرف برتن ہی نہیں اس کا بنایا سارا کھانا بھی زمین بوس ہو چکا تھا… وہ حیران ہوتی آگے آئ… کچن میں اور کوئ وجود نہ تھا… فرش پر کانچ ادھر سے ادھر بکھرا پڑا تھا… رات کے اس پہر اس افتاد پر وہ ہڑبڑا کر رہ گئ… تبھی اسے لاؤنج میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا… وہ تیزی سے کچن سے باہر آئ… وہ سایہ اسے داخلی دروازے سے باہر نکلتا دکھائ دیا…
“کک…کون ہے…” خوف سے اس کی آواز لرز کر رہ گئ… دروازہ کھلا پر کر کہیں کوئ چور اچکا تو گھر میں نہیں گھس آیا… اس کے ذہن میں یہ خیال دوڑ گیا…
وہ بغیر نتائج کی پرواہ کیے دروازے تک آئ… پھر دور جاتے سایے کے عقب میں لپکی…
“رکو… کون ہو تم…؟؟؟” نہ جانے کیوں اس پل اس کا دل خوف و ڈر کے ہر احساس سے مبرا ہو گیا تھا… یہ بھی ذہن میں نہ رہا کہ گھر میں وہ اکیلی ہے… حسن بھی موجود نہیں آج…
وہ سایہ چلتا جا رہا تھا… ہانیہ کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں اس کے پیچھے پیچھے چلتی گئ… پھر ایک دم وہ سایہ غائب ہو گیا… ہانیہ ٹھٹھک کر رکی… پھر حیرت سے ادھر ادھر دیکھا… وہاں اب کوئ بھی موجود نہ تھا…
ہانیہ نے سامنے دیکھا تو پرانی حویلی کا دروازہ دکھائ دیا… اس کے پورے وجود میں سرد سی لہر دوڑ گئ… اس نے مڑنا چاہا تھا.. وہ وہاں سے, اس حویلی سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی… لیکن کسی احساس کے تحت اسے رکنا پڑا…
ہانیہ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس دروازے کا قفل اپنے آپ کھلا… پھر ہلکی سی آواز پیدا کرتا دروازہ بھی کھل گیا… ہانیہ کو عجیب کشش محسوس ہو رہی تھی… دل اس حویلی کی جانب کھنچتا چلا گیا… اور وہ… اس پر تو گویا سحر طاری کر دیا گیا تھا… بے خود ہوتی وہ قدم بڑھاتی گئ… جیسے ہی اس نے دروازے سے اندر قدم رکھے… اس کی آنکھوں پر ایک دم سفید پٹی باندھ دی گئ… اس نے تیزی سے ہاتھ آنکھوں کی جانب بڑھاۓ تاکہ پٹی ہٹا سکے لیکن کسی کے ہاتھوں کی آہنی گرفت نے اس کے ہاتھوں کو جکڑ لیا…
“ریلیکس…” اس کے کان کے قریب, بہت قریب سرگوشی کی گئ تھی… ہانیہ کے ہاتھ نیچے گر گۓ… وجود میں جو اضطراب و بے چینی تھی وہ بھی ختم ہونے لگی…
چند ہی لمحوں بعد خود بخود اس کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دی گئ… اور سامنے کا منظر دیکھ کر وہ دم بخود رہ گئ تھی… شاید یہ پھر سے وہی خواب تھا جو بارہا دیکھ چکی تھی وہ… یا شاید وہ خواب اب مجسم حقیقت کی صورت اس کے سامنے تھا…
وہ کوئ پہاڑ نما جگہ تھی… جس کی چوٹی پر وہ کھڑی تھی… اس کی نظروں کے بالکل سامنے نیچے کھلا سا میدان تھا… رات کا وقت… سامنے آسمان پر چمکتا مکمل چاند… جبکہ آج کل تو اسلامی مہینے کا آغاز تھا اور چاند آدھا بھی نہ ہوتا تھا آسمان پر… لیکن یہاں… مکمل چاند تھا… میدان کے اردگرد بے شمار درخت تھے… جو ماحول کو خاصا ہیبت ناک بنا رہے تھے… ہانیہ کے قدموں کے بالکل نزدیک ایک پل کا کنارہ تھا… جس پر دور تک سرخ گلاب ہی گلاب بچھے دکھائ دے رہے تھے… اور اس پل کے دونوں اطراف مشعلیں رکھی گئ تھیں… جو فی الحال جل نہیں رہی تھیں… ہانیہ کے لبوں پر دلکش سی مسکراہٹ بکھری…اس نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا… اس پل کا اختتام ایک سفید رنگ کی چوکور چھت پر ہوتا تھا جو پلرز کے سہارے کھڑی تھی… اس چھت سے بہت خوبصورت سفید روشنی نکل رہی تھی… جو ماحول کو سحر ذدہ کر رہی تھی… اس پل کے نیچے جھیل تھی جس کا نیلے رنگ کا پانی ماحول کو خوبصورت بنا رہا تھا… اور اس جھیل میں نظر آتا چاند کا عکس… وہ خوبصورت عکس… زمین پر واقعی دو چاند اتر آۓ تھے… دور جھیل میں سفید رنگ کے بگلے نظر آ رہے تھے… جن کے وجود سے بھی روشنیاں پھوٹ رہی تھیں…
ہانیہ نے آنکھیں سیکڑ کر دیکھا… دور اس چوکور چھت کے نیچے کسی وجود کی موجودگی کا گمان ہوا تھا… ہانیہ کی نگاہ اپنے وجود پر گئ… اسے جھٹکا لگا… عام لباس کی جگہ وہ سفید خوبصورت میکسی میں ملبوس تھی… جس کی پچھلی سائیڈ پر دور تک سفید کپڑا بچھا تھا… جیسے وہ کوئ پری ہو… جیسے کوئ شہزادی ہو… اس کے سر پر تاج تھا… جیسے کسی ملکہ کا تاج ہو… اتنی سجاوٹ اپنے لیے دیکھ کر اس کا دل خوشی سے بھر گیا…
اس نے قدم بڑھاۓ… جیسے ہی پہلا قدم پل پر رکھا پہلی مشعل خود بخود جل اٹھی… ہانیہ نے اس مشعل کی جانب دیکھا… پھر فخر سے گردن اکڑاۓ آگے بڑھنے لگی… اس کے بڑھتے قدموں کے ساتھ ساتھ مشعلیں بھی روشن ہوتی چلی گئیں… اداۓ بے نیازی سے چلتی ہوئ وہ اس چوکور چھت کے پاس پہنچی… اس چھت کے اردگرد بہت سے جگنو اڑتے پھر رہے تھے جن کی روشنی ماحول کو عجب طلسم بخش رہی تھی… بلاشبہ وہ بے حد خوبصورت منظر تھا…
“تیرے خوابوں میں ہی کھوۓ رہیں ہم…
کہ تیری سوچ میں ہی راحتیں ہیں…
نہیں ہیں اجنبی تیرے لیے ہم…
کہ صدیوں سے تجھے ہی چاہتے ہیں… ”
کیسی آواز تھی وہ… بے حد پرکشش, خوبصورت مردانہ آواز… آواز تھی یا سماعتوں میں رس گھولتا امرت… جس نے اس پر سحر طاری کیا تھا… وہ بے خود ہوتی اس چھت کے نیچے آئ جہاں ایک بینچ پر کوئ وجود بیٹھا تھا… اس چھت کے نیچے کانچ کا فرش تھا… صاف شفاف کانچ… جس کے نیچے سے جھیل کا پانی بہہ رہا تھا… یوں گمان ہوتا تھا جیسے وہ پانی کی سطح پر قدم جماۓ کھڑی ہو…
“میں آ گئ…” اسے خود اپنی آواز اجنبی سی محسوس ہوئ… اس کے لہجے میں عجب سی خوشی تھی…
“تمہیں آنا ہی تھا ہانیہ… میں نے کہا تھا نا کہ تم ایک دن ساری دنیا کو چھوڑ کر میرے پاس آؤ گی… خود اپنی مرضی سے…” وہ آواز ہی نہیں بلکہ وہ جملہ بھی ہوبہو وہی تھا جو اس نے خواب میں سنا تھا…
چند لمحوں بعد وہ وجود پلٹا… اور ہانیہ اسے دیکھتی ہی رہ گئ… کیا اس سے زیادہ خوبصورت انسان اس کرۂ ارض پر موجود ہو سکتا تھا…؟؟ کیا کسی اور وجود کے پاس ایسی دلکشی ہو سکتی تھی جیسی اس میں تھی… وہ جو بھی تھا… ہینڈسم, ڈیشنگ, خوبرو, وجیہہ جیسے الفاظ اس کے سامنے بہت چھوٹے پڑ جاتے تھے… اس کی ہیزل گرین آنکھوں کی وہ چمک… جو مقابل کو پل میں زیر کر دے… اس کی سفید رنگت… کہ اتنا سفید رنگ شاید ہی کسی کا ہو… اس کے ماتھے پر بکھرے بھورے بال… اور لبوں کی دلکش مسکراہٹ…وہ کوئ شہزادہ تھا غالباً… نہیں شہزادہ نہیں… دنیا کے تمام شہزادے اس کے سامنے پانی بھرتے نظر آئیں گے… وہ تو شہزادوں کا بھی شہزادہ تھا… ہانیہ اس پر سے نگاہ تک نہ ہٹا پا رہی تھی… نگاہیں بے اختیار اسے تکے جا رہی تھیں…
“ہیلو… میں اشھب…” وہی خوبصورت مردانہ آواز ابھری… ساتھ ہی اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا… ہانیہ نے بے خودی کی کیفیت میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا… “ہانیہ…” اس کے لبوں سے سرسراہٹ کے سے انداز میں برآمد ہوا…
“جانتا ہوں… ” وہی دلکش مسکراہٹ اس کے چہرے پر اپنی جھلک دکھلا گئ… ہانیہ نے سٹپٹا کر نگاہوں کا رخ بدلا… اشھب نے اپنے ہاتھ کی گرفت میں موجود اس کے ہاتھ کو دیکھا… پھر جھک کر پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھا… دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی کو ہوا میں پھیلایا تو اس پر ایک چھوٹی سی ڈبیا آ گئ… اس ڈبیا کو کھول کر اس میں چمکتی خوبصورتی انگوٹھی نکالی… جس کے اوپر فقط ایک نگ تھا اور اس نگ میں سے بہت سی روشنیاں منعکس ہو کر اپنی شعائیں ادھر ادھر بکھیر رہی تھیں…
“ایک چھوٹا سا گفٹ… تمہارے لیے… ” اس کی انگلی میں وہ انگوٹھی پہنائ تھی… ہانیہ سحر ذدہ سی اپنا ہاتھ دیکھے گئ جسے اب اشھب اپنے لبوں سے لگا رہا تھا… اس کے لب ہاتھ سے مس ہوتے ہی ہانیہ کو لگا جیسے کسی انگارے نے اس کے ہاتھ کو چھو لیا ہو… اتنی تپش تھی اس کے ہونٹوں کی… ہانیہ نے فوراً ہاتھ کھینچا…
اشھب اب اٹھ کھڑا ہوا… نگاہیں اس کے چہرے پر ہی جماۓ رکھیں… جو اب نظریں چراتی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی… جیسے یوں ہاتھ کھینچنے پر شرمندہ ہو…
“کوئ بات نہیں… آہستہ آہستہ عادی ہو جاؤ گی…” وہ جیسے بن کہے اس کے دل کی بات جان گیا تھا… ہانیہ حیران سی اسے دیکھے گئ…
ہانیہ کا ہاتھ پکڑے اب وہ کانچ کے فرش پر چلتا جھیل کنارے بیٹھ چکا تھا…. یوں کہ ان دونوں کے پاؤں اب جھیل کے پانی میں ڈوب رہے تھے…
ہانیہ اس کے کہے بغیر اس کے دل میں موجود اپنے لیے محبتیں, اس کی شدتیں محسوس کرتی اس کے کندھے پر سر رکھ چکی تھی… اس پل وہ یکسر بھول چکی تھی یا شاید دانستاً یہ یاد نہیں رکھنا چاہتی تھی کہ وہ آج سے پہلے حسن سے محبت کی دعویدار تھی… اسے بھول چکا تھا کہ وہ حسن کے نکاح میں ہے… اس کی بیوی ہے اور اس کے سوا دنیا کا ہر مرد اس کے لیے نامحرم ہے… وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو جانا چاہتی تھی کہ اس کا دل اشھب کی محبت پر لبیک کہہ رہا تھا… بالآخر وہ جن ذادہ اشھب اسے اپنی محبت کے ذندان میں, اپنے سحر میں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا…
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...