ایک تیز رفتار گاڑی غلط سمت سے آئی اور بائک سے بری طرح ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں بائک الٹ گئی اور بائک سوار دور جا گرا جبکہ گاڑی کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا تھا۔ چند لمحوں میں ہی سڑک پرلوگوں کا رش جمع ہونے لگا تھا۔ کچھ لوگ بائک سوار کو اٹھنے میں مدد دے رہے تھے جس کے گھٹنے اور بازؤوں پر چوٹیں آئی تھیں جبکہ کچھ لوگ بےحسی سے اس تمام منظر کی ویڈیو بنانے میں مصروف ہوگئے تھے۔ احد بھی اچک کر لوگوں کے ہجوم میں سے بائک سوار کی حالت دیکھنے لگا تھا جب کسی کا ٹھنڈا برف جیسا ہاتھ اس کی گرفت میں آیا تھا۔ اس نے ایک دم سے گردن گھما کر فاطمہ کو دیکھا تھا۔ فاطمہ سن کھڑی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سڑک کی جانب دیکھ رہی تھی۔ احد ایک دم سے کھٹک گیا۔ کچھ گڑبڑ تھی۔ فاطمہ اسے بلکل بھی نارمل نہیں لگ رہی تھی۔
“فاطمہ آر یو اوکے؟” وہ بے حد تشویش کے عالم میں کھڑا اس سے پوچھ رہا تھا مگر فاطمہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ چند لمحے یوں ہی مجسمے کی طرح ساکت کھڑی رہی اور پھر اچانک اسے اس کی بے حد ہلکی آواز میں بڑبڑاہٹ سنائی دی جو کہ واضح نہ تھی۔ اس نے اس کے قریب ہو کر سننے کی کوشش کی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔
” بائیک پر عمر تھا ناں۔ عمر مر جائے گا۔ عمر مر گیا۔”
احد کو اس کی بڑبڑاہٹ سمجھ آتے ہی ایک جھٹکا لگا تھا۔ اسے کیا ہوگیا تھا ایک دم سے؟ وہ کیوں ایسے کہہ رہی تھی جبکہ وہ جانتی تھی عمر سات ماہ پہلے ہی گزر چکا ہے؟
“احد! عمر مر جائے گا۔ جائو ناں اسے دیکھو ناں۔” ایک دم سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔
” جائو ناں احد۔ جائو ناں۔” وہ اب روتے ہوئے باقاعده اس کی منتیں کرتے ہوئے اس کا بازو پکڑ کر اسے بائیک سوار کے پاس جانے کا کہہ رہی تھی۔
“فاطمہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ وہ عمر نہیں ہے۔ عمر مر چکا ہے۔ وہ کوئی اور۔۔۔۔۔”
“نہیں وہ عمر ہی ہے۔ آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں آپ جائیں اس کے پاس۔” وہ درمیان میں اس کی بات کاٹتے ہوئے اب کے ذرا تیز آواز میں بولی تھی جس پر احد بھی کچھ خفا سا ہوگیا۔
اس نے بھی اپنے لہجے کو ذرا سخت کر کے کہنا شروع کیا۔ “دیکھو فاطمہ…..”
“آپ۔جائیں۔۔۔۔۔ جائیں۔۔۔ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جائیں” وہ اس کی بات ایک بار پھر کاٹ کر اب کے وحشیانہ انداز میں چیخنے لگی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس پر کوئی جنون سا سوار ہوگیا ہے۔ آس پاس کے لوگ بھی مڑ مڑ کر اسے دیکھنے لگے جو چیختے ہوئے احد کو دھکے دے کر بائیک سوار کے پاس بھیج رہی تھی۔ احد کے تو ہاتھ پائوں ہی پھول گئے تھے۔ اس سے فاطمہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ احد نے بڑی مشکل سے اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے اسے دونوں کندھوں سے تھاما اور ایک دم سختی سے کہا۔
“فاطمہ ہوش کرو! کیا ہوگیا ہے؟ لوگ دیکھ رہے ہیں ہمیں۔” فاطمہ ایک دم سے چپ ہوئی تھی اور اسے ایک ٹک دیکھنے لگی۔ احد کو اس کا اس طرح دیکھنا خوف میں مبتلا کررہا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی کی طرف لے جانے لگا جب اچانک فاطمہ بےہوش ہو کر اس کےہاتھوں میں جھول گئی۔
احد شاک سے اسے کے بے ہوش وجود کو دیکھتا تیزی سے ہسپتال کی جانب روانہ ہوا تھا۔
___________
“آپ کی وائف کا نروس بریک ڈائون ہوا ہے۔ آپ دعا کریں انہیں چوبیس گھنٹے کے اندر ہوش آجائے ورنہ ان کے کوما میں جانے کا خدشہ بھی ہوسکتا ہے۔”
ڈاکٹر کی بات سن کر احد کی پریشانی حد سے سوا ہوچکی تھی۔ وہ ایک بار پھر شدید اضطراب کے عالم میں ہسپتال کی راہداری ک کے چکر کاٹنے لگا۔
فاطمہ کے والدین اور احد کی خالہ (نجمہ خالہ) اس کی حالت کا سنتے ہی آناً فاناً ہسپتال پہنچے تھے اور اب ڈاکٹر کی بات سن کر بے اختیار ہی اس کی والدہ رونے لگی تھیں۔ نجمہ خالہ ان کے برابر بنچ پر آ بیٹھیں اور ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دینے لگیں۔
“اپ تسلی رکھیں۔ اللہ بڑا مہربان ہے۔ وہ سب بہتر کردے گا انشاءاللہ۔”
“نجانے کیسی آزمایش ہے میری بچی پر۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے شادی کو کہ بیوہ ہوگئی اور اب یہ۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ فاطمہ کے والد بھی سامنے رکھی کرسی پر بیٹھے بے حد پریشان لگتے تھے۔ یہ سب دیکھنا احد کے لئے کافی مشکل ہوگیا تھا۔ اسے لگا ایک بار پھر ماضی خود کو دوہرانے لگا تھا جب ہر آنکھ نم تھی اور ہر طرف دکھ کا سماں تھا۔ خود کو ان یادوں سے کچھ پل کے لئے آزاد کروانے اور اس منظر سے ہٹنے کے لئے وہ ہسپتال کی مسجد کی جانب چل دیا۔
مسجد میں داخل ہو کر اس نے صلواۃ الحاجات کے نوافل کی نیت باندھی اور پھر آنکھیں موند کر کچھ وقت کے لئے سب سوچوں کو ذہن سے جھٹک کر وہ اپنا دھیان نماز کی جانب لگانے لگا۔
___________________
سلام پھیر کر وہ چند پل یوں ہی جائے نماز پر بیٹھا رہا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ وہ یوں ہی نماز پڑھ کر چند منٹ جائے نماز پر بیٹھا رہتا اور پھر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا تھا۔ وہ جیسے خود کو اللہ سے ڈھیر ساری باتیں کرنے کے لئے تیار کرتا تھا۔
“یااللہ! میں ہر روز تجھ سے دعا کرتا ہوں۔ اور ہر روز میرے پاس تجھ سے باتیں کرنے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے۔ مگر آج میں بہت کنفیوز ہوگیا ہوں۔ اپنی دلی حالت پر پریشان بھی ہوں اور کچھ حیران بھی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا میں اتنا مضطرب کیوں ہوں۔ کیوں مجھے کسی پل چین نہیں آرہا؟ میں جانتا ہوں فاطمہ میری بیوی ہے اور بیوی کے لئے پریشان ہونا فطری ہے۔ مگر میرا دل ایسے کیوں تڑپ رہا ہے جیسے ہانیہ کے لئے تڑپتا تھا جب اس کی موت کی خبر آئی تھی۔ کیوں دل کی دھڑکن اس قدر تیز ہوگئی ہے؟ کیوں ایسا لگتا ہے جیسے دل خوف کے مارے پھٹنے کو ہے؟۔۔۔۔” وہ آنکھیں موندھے، سر جھکائے اللہ کو اپنے دل کا حال سنا رہا تھا۔
“اس کے ہونے یا نہ ہونے سے مجھے اس قدر فرق پڑنے لگا ہے؟ مگر کیسے؟ یہ کب ہوا؟ ابھی چند دن ہی تو ہوئے ہیں ہماری شادی کو۔ کیا تو نے نکاح کو بولوں میں اس قدر طاقت رکھی ہے یارب کہ میں اس سے محبت کرنے لگا ہوں اتنے کم وقت میں؟۔۔۔۔” وہ ایک بار پھر اپنی دلی کیفیت پر حیران ہوا تھا۔ کیا وہ واقعی اس سے محبت کرنے لگا تھا؟ کیا واقعی فاطمہ نے اس کی زندگی میں آکر اس کے دل کے زخموں پرمرہم رکھنا شروع کیا تھا۔ کیا واقعی وہ فاطمہ کو ہانیہ کی جگہ دے رہا تھا اپنے دل میں؟ نہیں! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ ہانیہ سے بے حد محبت کرتا ہے۔ وہ کیسے اس کی جگہ کسی اور کو دے سکتا ہے۔ مگر یہ ہو چکا تھا۔ ہانیہ کی محبت اس کے دل میں اب بھی قائم تھی مگر اب اس کے دل نے باآسانی دوسری محبت کی گنجائش بھی نکال لی تھی۔
________________
وہ دعا مانگ کر اور کچھ تسبیحات پڑھ کر مسجد سے باہر نکل کر ایمرجنسی وارڈ کی سمت بڑھنے لگا جہاں دونوں خواتین تسبیح ہاتھ میں پکڑے فاطمہ کی صحت یابی کے لئے دعائیں کررہی تھیں جبکہ اس کے والد درود شریف کا ورد کررہے تھے.
“عمر کون ہے؟ پلیز عمر کو بھیجیں۔ آپ کی پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے اوروہ بار بار عمر کا نام لےرہی ہیں۔”
نرس نے ایمرجنسی وارڈ میں آتے ہی ان سب کو مخاطب کر کے کہا تھا۔ فاطمہ کے ہوش میں آنے کا سن کر ایک طمانیت کی لہر تھی جو سب کے دلوں ِسے گزری تھی مگر ساتھ ہی ساتھ نرس کی دوسری بات سن کر وہ سب ایک عجیب سی آکورڈ سچیویشن میں بھی آگئے تھے۔ احد نے ایک دم اب اپنے لب بھینچ لئے۔ اسے نجانے کیوں فاطمہ کا یوں عمر کا نام لینا بے حد برا لگا۔ اس کے ماتھے پر بڑھتے بل دیکھ کر جلدی سے فاطمہ کے والد کھڑے ہوئے اور نرس کو دھیمی آواز میں کچھ سمجھایا جس پر نرس فوراً اندر کی طرف چل دی۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر اندر داخل ہوا تھا۔
“پیشنٹ کے شوہر کون ہیں؟” احد فوراً آگے بڑھا تھا۔
“آپ میرے ساتھ آئیں۔ آپ سے کچھ بات کرنی ہے پیشنٹ کی کنڈیشن کے بارے میں۔”
وہ یہ کہتے ہوئے اسے اندر ایک کمرے میں لے گئے تھے جو غالباً ڈاکٹر کا پرائویٹ روم تھا وہ خود ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور اسے بھی سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
اس کے بیٹھتے ہی انہوں نے کہنا شروع کیا۔
“آپ کی وائف غالباً یک شدید ٹراما سے گزری ہیں جس کےاثرات اب تک ان کے ذہن میں موجود ہیں۔ بس اسی لئے ایک معمولی سا ایکسیڈنٹ دیکھنا بھی ان کی یہ حالت کر گیا کہ انہیں ڈپریشن کا شدید دورہ پڑا اور وہ نروس بریک ڈائون کا شکار ہو کر اپنے حواس کھو بیٹھیں۔” احد ڈاکٹر کی بات سن کر مزید پریشان ہوگیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا فاطمہ اب تک خود کو اس ٹراما سے باہر نکال نہیں پائی ہے جبکہ اس کی اپنی ذہنی حالت وقت کے ساتھ قدرے بہتر ہو چکی تھی۔
ڈاکٹر اب اس سے ماضی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں پوچھ رہے تھے جس پر وہ انہیں اس بدترین حادثہ کے بارے میں سب کچھ بتاتا چلا گیا۔
“مجھے بے حد افسوس ہورہا ہے یہ سب سن کر اور اب میں پیشنٹ کی ذہنی حالت کو بہتر طریقے سے جج کر پارہا ہوں۔” وہ اس کی بات سن کر تاسف سے کہہ رہے تھے۔
“تو ڈاکٹر اب ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟” احد کے لہجے سے فکرمندی صاف ظاھر ہورہی تھی ۔
“انہیں زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ کوشش کریں انہیں ایسی ہر چیز سے دور رکھا جائے جو انہیں ماضی کی یاد دلائے۔ اور ایک اور بات۔ میں جانتا ہوں یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے مگر جیسا کہ ابھی آپ نے بتایا کہ آپ دونوں کی شادی بھی اچانک ہوئی ہے تو ہوسکتا ہے وہ اس رشتے کو اب تک ذہنی طور پر قبول نہ کر پائی ہوں۔ ان کا بار بار عمر کا نام پکارنا اس بات کی نشانی ہے کہ وہ اب تک اس چیز سے باہر نہیں نکل پائیں تو میرا آپ کو یہی مشورہ ہے کہ آپ لوگ انہیں کسی بھی ریلیشن شپ کے لئے فورس نہ کریں جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوجاتیں۔ باقی ظاھر ہے آگے آپ لوگوں کی جو مرضی۔” ڈاکٹر کی بات سن کر ایک دم سے اس کا رنگ فق ہوا تھا۔ اس نہج پر تو اس نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ آیا فاطمہ بھی اس رشتے کو قبول کیا ہے کہ نہیں۔ اس نے خود اس رشتے کو تسلیم کر لیا اور مطمئن ہوگیا۔ اس نے تو دوسرے فرد کے بارے میں سوچا ہی نہیں کہ وہ کیا محسوس کررہا ہے ۔ مگر اب جب وہ سوچ رہا تھا تو اس کا دل ڈوبے جارہا تھا۔ کیا واقعی فاطمہ اس رشتے کو قبول نہیں کر پائی؟ کیا واقعی وہ اس کا ساتھ نہیں چاہتی؟ اب کیا ہوگا؟ ابھی تو محبت کی کلی اس کے دل میں کھلی تھی۔ ابھی تو فاطمہ کی محبت کا انوکھا احساس اس کے دل میں جاگا تھا اور اب ایک دم ڈاکٹر کی باتوں نے جیسے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔
فاطمہ کیا فیصلہ کے گی وہ نہیں جانتا تھا مگر اب وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا!!
____________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...