ہانیہ چلتے ہوۓ خوبصورت مناظر کو اپنے آنکھوں میں۔ قید کر رہی تھی ۔ ہر چیز روشنی میں نہا چکی تھی ۔۔ درختوں پر لگی برقی قمقمیں ٹمٹما رہی تھیں ۔ملینیم ویل کو بھی روشنیوں سے سجایا گیا تھا ۔
یہ سب دیکھتے ہانیہ کی نظر آسمان پہ چاند پر پڑی پھر ان ستاروں پر جو چاند کے پاس تھے ۔وہ بھی چاند کی طرح بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے تھے ۔۔
قدرت کی خوبصورتی دیکھ کر یہ مصنوعی حسن ماند پڑ گیا
ادھر وجدان نے اپنے آس پاس ہانیہ کو نہ پا کر اپنی نظریں اٹھا کر روح میں دبے پاؤں اترنے والے کو ڈھونڈنے لگا
پھر وہ اسے آسمان پر کچھ ڈھونڈتی دکھائی دی ۔۔اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ ۔۔۔
وہ اس کی سمت چل پڑا ۔۔
مگر کسی اور کی۔ نظروں نے بھی نہ پسندیدگی سے یہ منظر دیکھا تھا ۔۔حسد تھی یا جانے کیا تھا جو ان آنکھوں میں چنگاری جلا گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا ڈھونڈھ رہی ہو ہانیہ ۔۔ ” وجدان نے اس کے پاس جا کر پوچھا
"کچھ نہیں بس آسمان کو دیکھ رہی ہوں ۔۔ کتنا خوبصورت ہے نہ۔ ۔۔ یہ آسمان کی روشنیاں ہیرے کو مانند لگتی ہیں آؤ آپ بھی دیکھ لو ۔۔ بز نس مین ۔ کے یہ منظر ان مصنوعی روشنیوں سے زیادہ دلکش ہے "۔۔ ہانیہ اپنی آنکھوں کو تھوڑا سا پھیر کر ڈرامائی انداز میں بولی
پیچھے گانے کی دھن کی آواز آ رہی تھی
Yellow diamonds in the sky ,
We are standing side by side ,
As your shadow crosses mine,
What It takes to come alive ,
وجدان اس کے انداز پر مسکرایا ۔۔ نیلی آنکھوں میں چمک ابھری ۔۔
"ہاں!! آپ ٹھیک کہہ رہی ہو۔بہت دلکش منظر ہے "اس نے ہانیہ کے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا جس پر پڑتی قمقموں کی روشنی اس کو اور خوبصورت بنا رہی تھی ۔۔
جو اس کے دل پر اپنا نام روشن سیاہی سے لکھ چکی تھی ۔۔جو اس کے دل۔ پر جگمگا رہا تھا
کچھ دیر خاموشی سے کھڑے بادلوں اور چاند ستاروں کی آنکھ مچولی دیکھتے رہنے کے بعد وجدان کسی سحر کے زیر اثر بولا
"کیا تم اس بز نس مین کے ساتھ پوری زندگی یوں ستارے دیکھنا پسند کرو گی ” وجدان کی دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی ۔۔اس کے ہاتھوں کی کپکپا ہٹ واضع تھی ۔
۔ہانیہ ۔کچھ دیر یونہی آسمان کی طرف فریز ہو کر دیکھتی رہی ۔پھر اس کی نظروں نے وجدان کے چہرے کا احاطہ کیا "ک۔ کیا۔ ” بس اتنا بول کر وہ خاموش ہو گئی ۔ہانیہ کے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا ۔۔
"کیا تم میرے ساتھ بوڑھا ہونا پسند کرو گی۔۔”اس نے اس ے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا
ہانیہ کو سمبھلنے میں کچھ دیر لگی ۔۔پھر اس نے رخ وجدان کی طرف موڑا ۔۔چہرے سے اس کے جذبات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ۔۔
"وجدان !!میں آپ کو بس یہ ہی بتا سکتی ہوں کے میں آپ کو پسند کرتی ہوں ۔۔ مگر آپ اور میں بقول آپ کے اس دنیا کے دوسرے کونے سے ہیں ۔۔ تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔۔مگر میرے پرنٹس کا فیصلہ بہت ضروری ہے ۔۔ آپ ان سے بات کر لیں میں ویسے بھی دو ہفتے بعد پاکستان واپس جا رہی ہوں "۔۔ ہانیہ نے ہلکا سا مسکرا کر جواب دیا
ہانیہ ۔کوئی بھی فصیلہ کرنے سے پہلے میں آپ کو اپنے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کے میں نے اپنے پرنٹس کے بعد زیادہ وقت یہاں گزارہ ہے ۔۔
یہاں کی زندگی سب کو متاثر کر تی ہے مجھے بھی کیا تھا بس میں بتانا چاہتا ہوں کے آپ میرے بارے میں سب جان کر فصیلہ کریں مگر ایک بات میں پوسسییو سا انسان ہوں ۔آپ میرے لئےبہت اہمیت رکھتی ہیں۔تو شاید میں آپ کے ارد گرد زیادہ فراینک ہوتے لوگوں کو پسند نہ کروں ۔ اس کے علاوہ ۔۔ وہ کچھ دیر روکا
میں بزنس میٹنگ یا پارٹیز میں شراب پینے کو برا نہیں سمجھتا تھا ۔آرام سے پی لیتا تھا ۔۔ہر طرح کا برانڈ میرے پچھلے پینٹ ہاؤس میں موجود تھا پھر ایک دن ایک پارٹی کے دوران ایک لڑکا بیٹھا تھا مسّلم تھا جمال نام تھا ۔۔
وہ ماضی کی دھند میں کہیں کھویا
” کیا تم نے وہ قول پڑھا ہے ”
"کے بزدل اپنی موت سے پہلے گئیں بار مرتا ہے ”
"تم یہ مجھے کیوں بتا رہے ہو "۔۔وجدان۔ نے وائن کا سپ لیتے ہوۓ پوچھا
"کیونکہ تم بزدل ہو۔”۔ وہ مسکرایا ۔۔وجدان کے چہرے پر سختی ابھری
"ہم سو بہانے گڑ لیں کے سب پیتے ہیں فر سودہ روایات۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔ہمیں نہ پینے کا کہا گیا ہے وجدان شاہ ہمیں بہا نے گھڑ نے کا اختیار نہیں ۔۔ آپ میری بات سے شدید بور ہو رہے ہوں گے ”
"آپ یہ مجھے کیوں بتا رہے ہیں؟ "۔۔وجدان نے بیزار ہو کر کہا
وہ سامنے لڑکا دیکھ رہے ہیں اس نے ایک انگریز کی طرف اشارہ کیا
"میں نے جب شراب سے منا کیا کے میں نہیں پیتا ۔ اس نے آپ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ مجھے آپ لوگوں کی منتق سمجھ نہیں آتی” ۔ وہ کچھ شرمندہ سا بولا
"آپ نے کبھی اس کو چھوڑنے کی کوشش کی "وہ لڑکا بولا
"ہاں!! کی تھی پر کر نہیں پایا "۔۔وجدان نے کندھے اچکا کر کہا
"گناہ میں ان لوگوں کو لذت محسوس ہوتی ہے جن کا نفس کمزور ہو ورنہ گناہ سے روکنا مشکل نہ ہوتا ۔جہاد نفس کو اس ہی لئے مشکل جہاد کہتے ہیں خود سے لڑنا بہت مشکل ہوتا ہےجب آپ کسی سے زیادہ ترقی کر جایئں تو خود کو اکھڑ کے چلنے سے اور غرور کرنے سے روکنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
۔آپ خود کو بہت کنٹرولڈ اور منر ڈ کہتے ہیں بہت غرور کرتے ہیں آپ تو اتنی طاقت نہیں رکھتے کے اپنے آپ سے لڑ سکیں ۔۔ غرور کس چیز کا طاقت کونسی ۔۔ اپنے غم کو روکنے کے لئے اپنا دماغ سن کر لینا ۔۔اس لئے ہی کہتے ہیں غرور کا سر نیچا ۔۔لوگ آپ کو بڑا بز نس مین سمجھتے ہیں آپ خود کو کیا سمجھتے ہیں؟” ۔یہ کہتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔اس کا لہجے ہر طنز سے پاک تھا
"چلتا ہوں کسی زمانے میں آپ کا فین تھا ۔”وہ کہتے ہوۓ موڑ گیا
پر وجدان کی غرور کی عمارت کو زمین بوس کرکے ۔۔
وجدان ٹرانس کی کفیت سے باہر نکلا
"اب فصیلہ آپ کا ہے ہانیہ "۔۔اس نے ہانیہ کی طرف دیکھ کر کہا
"مجھے خوشی ہوئی کے اپنے مجھے یہ بتایا برا بھی لگا کے آپ کو شراب نہیں پینی چاہیے تھی پر میں آپ کے پاسٹ کی وجہ سے آپ کو جج نہیں کر سکتی ۔ غلطیاں تو ہم سب ہی کرتے ہیں میں بھی اچھی نہیں اتنی کبھی حسد مجھ میں بھی آ جاتا ہے ۔میں بھی کبھی کبھی چگل خوری کرتی ہوں ۔کوشش کرتی ہون نہ کروں پر خود سے لڑنا آسان نہیں ہوتا ۔ گناہ تو پھر گناہ ہی ہوتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا لیکن ۔”۔اس نے جیس کی طرف دیکھ کر کہا
"ایسا کچھ نہیں ہے۔آپ کو ایسی کسی سچو اشن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا” ۔وجدان اس کی آنکھوں کا مفہوم سمجھ کر بولا
"آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں "۔وہ ہلکا سا مسکرائی ۔
"اب میں گھر چلتی ہوں کافی دیر ہو چکی ہے ۔۔ایک گھنٹے کا کہا ہے گھر میں ۔ساڑھے آٹھ تک گھر پہنچنا ہے مجھے” ۔۔
اس نے اک بار پھر چاند کی طرف دیکھا چہرے پر آتے بالوں کو کان کے پیچھے اڑیسا اور کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے میلوڈی کی طرف چل دی ۔۔
وجدان کی آنکھیں مسکرا رہیں تھیں ۔۔وہ بھی ان لوگوں کی طرف چل پڑا
وہ میلوڈی ہانیہ باقی سب لوگوں کے پاس پہنچا تو ہانیہ جیس کو گھورنے میں مشغول تھی اور جیس وجدان کو ۔۔
وجدان نے ہانیہ کی نظروں کے تعقب میں دیکھا تو بات سمجھ میں آنے پر اپنے چہرے پر در آنے والی مسکراہٹ کو با مشکل روک کر رخ پھیر لیا ۔۔
"ہانیہ آپ ان سکیور فیل نہ کریں ایمان میری دوست ہے بس جبکہ ۔۔جیس جیسے لوگ میں روز دیکھتا ہوں اگر مجھے آپ پسند نہ ہوتیں تو شاید میں آپ سے بات بھی نہ کرتا "۔ پھر ذرا شرارت سے مسکرایا ۔۔”ویسے جیلیس ہونا بنتا بھی ہے بندا اتنا ہنڈسم ہو تو ۔۔”
وجدان نے ہانیہ کو ٹیکسٹ کیا ۔جس کے جواب میں ہانیہ نے اپنا چہرہ اٹھا کر اپنی آنکھیں چھوٹی کر کے ایک زبردستی کی جیلس سی مسکراہٹ اس کے جواب میں دی اور منہ بنا لیا
اس بار وجدان نے دانتوں کو نما ئش کی تھی اس کی معصوم سی حرکت دیکھ کر
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﻮﻟﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﺟﮭﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭼﻠﻮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﺭﺑﻂ ﮬﮯ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺧﺮﺍﺏ ﺣﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ
ﺳﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮯ ﺗﺘﻠﯿﺎﮞ ﺳﺘﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺟﮕﻨﻮ ﭨﮭﮩﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﺍُﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺷﻌﺮ ﻭ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺳﮯ ﺷﻐﻒ
ﺳﻮ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺠﺰﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﮬُﻨﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﮔﺎﮨﮓ ﮨﮯ ﭼﺸﻢِ ﻧﺎﺯ ﺍُﺱ ﮐﯽ
ﺳﻮ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﮔﻠﯽ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﺣﺸﺮ ﮨﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻏﺰﺍﻝ ﺳﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﮨﺮﻥ ﺩﺷﺖ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﺭﺍﺕ ﺍُﺳﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﺗﮑﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺑﺎﻡِ ﻓﻠﮏ ﺳﮯ ﺍُﺗﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
اور میلوڈی کے ساتھ کیپ میں۔ بیٹھ گئی ۔وجدان کی آنکھوں نے دور تک تعقب کیا
۔اور وجدان کے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ کسی کی آنکھوں میں زہر گھول گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال ۔تین سال بعد
شاہ ویلا میں کل ہو نے والی تکریب کے لئے تیاری زورو شور سے جاری تھی ۔۔بی جان نے زیادہ رشتہ داروں کو اس تکریب نہیں بلایا تھا ۔۔ سب اپنی اپنی تیاریوں میں لگے تھے کسی کا جوتا میچ نہیں کر رہا تھا تو کسی کو اپنی جیولری کی فکر تھی ۔۔
"میں نے کہا تھا کے مکس مٹھائی ہو ۔۔یہ تم گلاب جامن اور برفی الگ لے اور لڈو لائے ہی نہیں ۔۔” زرینہ بیگم شایان شاہ کی کلاس لیتے ہوۓ کہا
"کہا بھی تھا کے اپنے کپڑے ساری چیزیں تیار کر کے رکھو کل شام سے بول رہی ہوں پر نہیں جو ان کے کان پر جوں بھی رینگے ۔۔” شازمہ بیگم گھڑ میں داخل ہوتے ہوۓ بولیں
"رینگے گی بھی نہیں "۔۔۔زرینہ اور شازمہ بیگم نے اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا
"جتنا یہ منہ پر پلا ستر کر چکی ہیں ہے ۔۔چھوٹے سے چھوٹے جراثیم بھی ان کیمکلز کے وجہ سے اس در فانی سے کوچ کر چکے ہوں گے” ۔۔ شایان کا یہ کہنا تھا عنایا کی گنگی اس کے کندھے پر آ کر لگی
"تم کس خوشی میں نشانے باز بن کر گھوم رہی ہو "۔۔۔ شایان نے اپنا کندھا سہلا تے ہوۓ کہا ۔۔
"تم کیا ہوتا ہے تمیز سے بات کرو بڑی بہن ہوں تمہاری ۔۔”۔عنایا چڑ کر بولی
"ملکہ الیہ ڈرٹی آپ نشانے باز بنی کیوں گھوم رہی ہیں” ۔۔شایان نے اپنی آواز تھوڑی بھاری کر کے کہا
"ماما!!! آپ دیکھ رہی ہیں کتنی بد تمیز ی کر رہا ہے "۔۔عنایا زرینہ بیگم کی طرف متوجہ ہو کر کہا
"چپ کرو تم لوگ دماغ ہی خراب کر دیتے ہو” شازمہ بیگم بولیں اس بار ۔۔
"عنایا تم نے ہانیہ کو فون کیا تھا ۔”۔دعا نے پوچھا
"ہاں !!اس کے پاپا کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے پرسوں چلیں گے ۔جبکہ شیزہ اور رباب آ رہیں ہیں کل ۔”اس نے خبر ڈی
"ہاں !!ٹھیک ہے "دعا نے پھیکے سے لہجے میں کہا
تب ہی وجدان جینز اور بلیو رنگ کی شرٹ پہنے فون پر بات کرتے ہوۓ گزرا ۔۔
"وجدان بچے” ۔۔زرینہ بیگم نے اس کو روکا
اس نے ایک منٹ کا اشارہ کیا ۔۔پھر فون پر جی اچھا ٹھیک ہے کہہ کر بند کردیا ۔۔اور ان کی طرف متوجہ ہوا
"بچے ۔تمہارے کپڑے میں نے تیار کر وا دیے ہیں ۔اور جو تمہاری دلہن کے لئے سیٹ خریدا ہے وہ بھی ایک بار دیکھ لو ۔۔کہ ٹھیک ہے یا نہیں "۔زرینہ بیگم بولیں
"اچھا لگے گا اس پر سب "اس نے بے دھیانی سے بولا
"میرا مطلب اچھا ہی ہے۔ ہو گا ۔۔مجھے کام ہے میں چلتا ہوں "وہ گڑبڑا کر بولتا باہر چل دیا ۔زرینہ بیگم اور شازمہ بیگم مسکرائیں ۔۔
جب سب ہونقوں کی طرح یہ سب دیکھ رہے تھے ۔۔۔
"وجی بھائی کا بھی نکاح ہے "۔۔سب نے ایک ساتھ بولا
"ہاں ۔اب جاؤ سب تیاری کرو "۔شازمہ بیگم بولیں
"لڑکی سے کل مل لینا ۔۔”
"مگر آپ نے بتایا ہی نہیں” ۔۔دعابولی
"تو تم لوگوں نے کونسا سن لینا تھا اب دماغ نہ کھاؤ جاتے ہو یا جوتا اٹھاؤں ” ۔جس پر سب نے اپنے اپنے کمرے کا رخ کیا
” چھپے رستم !!!”یہ کہتے ہی شایان نے خبر رساں ادارہ ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے اوپر کی منزل کی طرف دوڑ لگائی
"جتنے بڑے ہو رہے ہیں اتنا ہی دماغ گھٹ رہا ہے ان کا” ۔زرینہ بیگم بولیں ۔
"ارے!! لڑکے نیچے آؤ مٹھائی کون لائے گا” ۔وہ پیچھے سے بولیں
"اس لڑکے سے کوئی کام نہیں ہو گا میں ارباز سے کہتی ہون "انہوں نے کہتے ہوۓ فون اٹھا کر ارباز کو ھدایات دینا شروع کر دیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...