“ہانیہ…ابھی بھی وقت ہے…میں کہتی ہوں یہیں سے مڑ جاتے ہیں یار… خدانخواستہ کچھ برا نہ ہو جاۓ ہمارے ساتھ… جن بھوت سے بچ بھی گئیں ہم دونوں تو بھی آج کل کے حالات سے تم بھی واقف ہو نا… زمانہ کتنا خراب ہے… یہ نہ ہو کہ تمہاری اس طرح کی اوٹ پٹانگ حرکتیں بعد میں مہنگی پڑیں ہمیں… ” عمارت کے سامنے کھڑی ہانیہ بغور اس عمارت کا جائزہ لے رہی تھی جب ربیعہ نے ایک بار پھر اسے سمجھانے کی کوشش کی…
ہانیہ جو عمارت کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی اس کی بات پر اسے گھور کر رہ گئ…
“ربیعہ.. تمہیں کہا تھا نا کہ تمہیں میرے ساتھ نہیں آنا تو مت آؤ… میں اکیلی بھی آ سکتی تھی… یہاں آنا تمہارا اپنا فیصلہ ہے… میں نے فورس نہیں کیا تمہیں… اگر اب بھی تم واپس جانا چاہ رہی ہو تو جا سکتی ہو… میں تو اس عمارت کے اندر ضرور جاؤں گی… ” وہ اٹل انداز اختیار کرتے ہوۓ کہہ گئ… پھر ذرا سائیڈ پر ہو کر اطراف سے عمارت کو دیکھنے کی کوشش کی…
دِکھنے میں عمارت خاصی پرانی اور بوسیدہ لگ رہی تھی… جیسے صدیوں سے یہاں کوئ آیا ہی نہ ہو….کسی زمانے میں وہ عمارت خاصی شاندار رہی ہو گی… لیکن اب تو کسی بھوت بنگلے کا منظر ہی پیش کر رہی تھی… اجڑی حالت, اکھڑا پلستر, خراب ہوا رنگ و روغن…. اوپر سیکنڈ فلور کی نظر آتی کھڑکیوں کا کانچ بھی ٹوٹا ہوا تھا…
ہانیہ نے اس عمارت کی طرف آتی سڑک پر نگاہ دوڑائ… کافی فاصلے پر بند سا باندھ کر اس راستے کو بند کیا گیا تھا… اوپر بہت سی کانٹے دار جھاڑیاں رکھی گئ تھیں کہ وہاں سے گزرنا مشکل تھا… سڑک کے ایک جانب ایک بورڈ لگا تھا جس پر سرخ رنگ سے کراس کا بڑا سا نشان بنایا گیا تھا اور نیچے “ممنوع علاقہ” درج تھا… ہانیہ نے آنکھیں سیکڑ کر اس بورڈ پر لکھے الفاظ پڑھے… پھر بغور عمارت کو دیکھا… مغرب کا وقت بھی نکل چکا تھا… اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا… ہانیہ نے جلدی سے اپنے فون کی ٹارچ آن کی…
“ربیعہ… تم بھی اپنے فون کی ٹارچ آن کر لو… اور چلو اندر سے دیکھیں عمارت کیسی دِکھتی ہے اندر سے…. ” وہ پرجوش سی کہہ کر اندر کی جانب بڑھنے لگی تھی جب عمارت کے پیچھے سے پاگل سا شخص اچانک سامنے آیا… ایک لمحے کو ہانیہ اور ربیعہ اسے دیکھ ششدر سی رہ گئیں… دھڑکنیں اتھل پتھل ہو کر رہ گئی تھیں اس شخص کو دیکھ کر… لمبے ملگجے سے بال… میلا اور پھٹا ہوا لباس… چہرے اور ہاتھوں پر لگی مٹی… اور بے ڈھنگی چال چلتا وہ کوئ بوڑھا آدمی تھا…
“سب ختم ہو جائیں گے… فنا ہو جائیں گے سب… کوئ زندہ نہیں بچے گا… وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے… کسی کو نہیں چھوڑیں گے وہ… ” وہ پاگل آدمی عجیب سے انداز میں الٹی سیدھی باتیں کرتا زور زور سے ہنسنے لگا… ربیعہ نے خوف کے مارے ہانیہ کا ہاتھ تھاما…
“ہانیہ پلیز چلو یہاں سے…. یہ علاقہ سیف نہیں ہے… دیکھو وہ آدمی بھی کہہ رہا ہے نا… ہمیں یہاں نہیں رکنا چاہیے… تم یہ ایڈوینچر پھر کبھی دن کی روشنی میں پورا کر لینا… پلیز…” ربیعہ نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر منت کی تھی اس کی…
“ارے چپ کرو یار… دِکھ نہیں رہا… پاگل ہے وہ آدمی… اور جسے خود کا ہوش نہیں اسے کیا پتا کہ کیا بات کرنی ہے کیا نہیں… تم بھی بیوقوفوں کی طرح اس کی باتوں میں آ گئ… صرف پانچ منٹ کی بات ہے…چلو اب… پھر گھر بھی جانا ہے… زیادہ اندھیرا ہو گیا تو کنوینس ملنا بھی مشکل ہو جاۓ گا پھر…”
ہانیہ کہہ کر اس بغیر دروازہ لگی عمارت میں داخل ہو گئ…
ربیعہ نے ایک نظر دور پگڈنڈی پر جاتے اس پاگل شخص پر ڈالی… پھر دل میں اللّہ کا نام لے کر اپنے سیل فون کی ٹارچ آن کرتی ہانیہ کے پیچھے چل دی… یہ غور کیے بغیر کہ عمارت میں داخل ہوتے ہی ان کے موبائیل کے سگنلز غائب ہو چکے تھے…
💝💝💝💝💝
“بھابھی… حسن کہاں ہے… ؟؟ گھر میں ہی موجود ہے یا کہیں باہر گیا ہے…؟؟” مہرالنسا اپنی جٹھانی کے گھر داخل ہوئیں… انہیں کچن میں پا کر سیدھی وہیں جاتے ہوۓ پریشان سے لہجے میں پوچھا…
“ارے آؤ مہرالنسا… کیا ہوا…؟؟ سب خیریت ہی ہے نا…؟؟ حسن اپنے کمرے میں ہے… کچھ دیر پہلے ہی آیا ہے…. تم کیوں پریشان دکھائ دے رہی ہو…؟؟” بشریٰ بیگم نے جلدی جلدی پیڑے بناتے ہوۓ ایک نظر مہرالنسا کی طرف دیکھا…
“بھابھی… ہانیہ ابھی تک گھر نہیں آئ… پیپر تو کب سے ختم ہو چکا ہے اس کا… نہ جانے کہاں رہ گئ ہے… میرا دل بہت گھبرا رہا ہے… حسن سے کہیں پلیز اسے دیکھ آۓ ذرا… اس کے بابا بھی آج لیٹ آئیں گے…ورنہ میں ان سے کہہ دیتی…” مہرالنساء روہانسی ہو کر بولیں… نہ جانے کیوں ان کی چھٹی حس کسی خطرے کی پیشین گوئ کر رہی تھی… دل بیٹھا جا رہا تھا بس…
“ہا ہاۓ… ابھی تک گھر نہیں لوٹی وہ…؟؟ ارے کہاں رہ گئ ہے بچی… دیکھو تو باہر کیسا اندھیرا پھیل رہا ہے… اچھا تم ایسا کرو حسن اپنے کمرے میں ہو گا اسے جا کر کہو کہ پہلے ہانیہ کو لے کر آۓ گھر… جب تک وہ آۓ گا تب تک میں کھانا بھی تیار کر لوں گی… ” بشریٰ بیگم نے تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوۓ انہیں جواب دیا… وہ بھی قدرے پریشان سی ہو گئ تھیں…
مہرالنسا سر ہلاتی حسن کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں….دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوئیں تو حسن بیڈ پر نیم دراز لیب ٹاپ پر کچھ ضروری میلز چیک کر رہا تھا…
“السلام علیکم چچی جان…” مہرالنسا کو اندر داخل ہوتا دیکھ کر وہ سیدھا ہو کر بیٹھا اور ادب سے سلام کیا… ساتھ ہی لیب ٹاپ کی اسکرین بھی فولڈ کرتے ہوۓ اسے ایک جانب کھسکا دیا…
“وعلیکم اسلام… حسن بیٹا… ہانیہ ابھی تک گھر نہیں آئ… تم پلیز جا کر دیکھو ذرا کہاں رہ گئ ہے وہ… میں اسے کال بھی کر رہی ہوں لیکن فون ہو ہی نہیں رہا… شاید نیٹ ورک کا کچھ مسئلہ ہے… ” مہرالنسا نے آتے ہی حسن سے اپنی پریشانی شئیر کی… ان کی بات پر حسن نے ایک نگاہ گھڑی پر ڈالی…
“میری اس سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے بات ہوئ تھی چچی جان… تب وہ کہہ رہی تھی کہ بس کا انتظار کر رہی ہے… میں نے اسے کہا بھی تھا کہ میں آ جاتا ہوں لینے لیکن اس نے منع کر دیا….ویسے بھی اب تک تو اسے آ جانا چاہیے تھا… نہ جانے کہاں رہ گئ ہے… میں کال کرتا ہوں اسے…” حسن ایک دم بے چینی کا شکار ہوتے ہوۓ ہانیہ کا نمبر ملانے لگا… لیکن بے سود… جواب ہی موصول نہیں ہو رہا تھا اس کے نمبر سے….
مہرالنسا جو آس بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں اس کے بار بار کوشش کرنے پر مایوس سی ہو گئیں…. حسن نے ان کے پریشان چہرے کو دیکھا تو فون چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوا…
“آپ پریشان مت ہوں چچی جان… میں جاتا ہوں… راستے میں ہی ہو گی کہیں… میں خود لے کر آتا ہوں اسے…” انہیں تسلی دیتا ہوا وہ خود پریشان سا فون جیب میں اڑستا بائیک کی چابی لے کر باہر نکل گیا…
💝💝💝💝💝
وہ دونوں احتیاط سے پھونک پھونک کر قدم رکھتی آگے بڑھ رہی تھیں… اس عمارت کی اندرونی حالت باہر سے کہیں زیادہ خستہ تھی… ہر طرف جالے لگے تھے…. اور اس پر یہ دھول مٹی… کھانس کھانس کر برا حال ہو رہا تھا ان کا… لیکن ہانیہ کی ضد تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی… وہ دوپٹے کا پلو ناک پر رکھے ٹارچ کی روشنی میں آگے بڑھ رہی تھی…..ساتھ ساتھ مختلف کمروں کا جائزہ لیتی جا رہی تھی… عمارت کے اندر گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا… اور ایسے میں ٹارچ کی ذرا سی روشنی بھی خوفناکی کو بڑھا رہی تھی…
عمارت کے اندر فرنیچر موجود تھا جو اب مٹی کی طرح بھربھرا ہوتا اپنی بے قدری کو رو رہا تھا… دیواروں پر مختلف پینٹنگز آویزاں تھیں… جن پر پڑی دھول ان کی اصل شکل کو بھی دھندلا کر چکی تھی…
یونہی ادھر ادھر ٹارچ کی روشنی گھماتے ہوۓ ربیعہ ایک دم ٹھٹھکی… اس کے سیل فون کی روشنی ایک دیوار پر پڑی تھی جہاں ایک بڑی سی پینٹنگ آویزاں تھی… جس چیز نے ربیعہ کو چونکایا وہ تھی اس پینٹنگ میں بنی اس کی اور ہانیہ کی تصویر… وہی لباس جو ان دونوں نے آج پہنا تھا, وہی حلیہ جو آج ان کا تھا, وہی بیگز جو آج وہ دونوں لے کر آئ تھیں سب کچھ وہی تھا اس پینٹنگ میں… فرق تھا تو صرف اتنا کہ ان دونوں کی گردنیں کٹی ہوئ تھیں… جن سے خون بہہ رہا تھا… گردن کا کٹ بہت واضح تھا… اس پینٹنگ نے اسے ششدر کر دیا تھا… اس کی تو گویا سانسیں ہی تھمنے لگی تھیں…. منہ پر ہاتھ رکھے وہ بے یقینی سے پیچھے ہونے لگی… پیچھے موجود دیوار سے ٹکراتے ہی اس کی جان حلق میں آ گئ… منہ سے ہلکی سی چینخ برآمد ہوئ تھی… لیکن پیچھے دیوار کو دیکھ کر جان میں جان آئ… تبھی ایک دم اسے ہانیہ کا خیال آیا… وہ وہاں نہیں تھی… نہ جانے چلتی چلتی کہاں پہنچ گئ تھی… اور یہ خیال ہی جان لینے کو کافی تھا کہ وہ دونوں الگ الگ ہو چکی تھیں… اکیلی… تنہا…
“ہ…ہانیہ… ” اس نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتے ہوۓ آواز دینی چاہی…
“ہانیہ کہاں ہو تم…؟؟” اب کی بار تھوڑی بلند آواز میں پکارا تھا… ساتھ ہی وہ اندازے سے آگے بڑھنے لگی جس طرف ہانیہ کے جانے کی امید تھی…
“ہانیہ پلیز جواب دو… دیکھو مجھے پتا ہے تم جان بوجھ کر چھپی ہو مجھے ڈرانے کے لیے…..فار گاڈ سیک ہانیہ… میری جان چلی جاۓ گی… سامنے آ جاؤ…” وہ بھیگی آواز میں کہہ رہی تھی… لیکن کوئ جواب سنائ نہ دیا… معمولی سی آہٹ بھی سنائ نہ دے رہی تھی وہاں…
“ہانیہ… میں واپس چلی جاؤں گی اگر تم سامنے نہ آ ئ تو… بہت ہی گھٹیا مذاق…” اس کی بات ابھی ادھوری تھی جب ہانیہ کی دلخراش چینخ سنائ دی جس نے ربیعہ کے رہے سہے حواس بھی سلب کر لیے…