حایہ نے دوپٹے سے پسینہ پونچھا اور بے زاری سے کچن کی بکھری حالت کو دیکھا کھانا تقریباً تیار تھا مگر کچن سمیٹنا ابھی باقی تھا۔ زینیہ نے اسے کچن میں ہیلپ کے لئے بلاوایا تھا مگر بہانے سے اسے اکیلا چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اور وہ اکیلے ہی کھانا بنانے لگ گئی وہ جانتی تھی گھر میں سب چاہتے تھے کہ وہ اب گھر کے کاموں میں بھی دل چسپی لے وہ خود بھی مصروف رہنا چاہتی تھی تا کہ اپنے ذہن کو منفی سوچوں سے پاک رکھ سکے کیوں کہ آج کل باری کی بڑھتی ہوئی مصروفیات (پھوپھو اور انکی بیٹی) حنایہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔
اس وقت بھی وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی باری اور انشراح کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اور رگڑ رگڑ کر کچن کی سلیب کو صاف کر رہی تھی۔ زینیہ کچن میں داخل ہوئی تو حنایہ کو صاف سلیب رگڑتے ہوۓ دیکھا تو حیران ہوۓ بغیر نا رہ سکی۔
“حنایہ! کس سوچ میں گم ہو؟ ساری عمر کچن صاف کرنے کا ارادہ ہے؟” زینیہ نے لمبا سانس کھینچ کر کچن میں پھیلی اشتہاانگیز خوشبو کو محسوس کیا۔”آج ہمیں کچھ کھانے کو ملے گا بھی کہ نہیں؟”
“ہاں!” حنایہ نے چونک کر اسے دیکھا۔”سب تیار ہے بس پلاؤ دم پر ہے۔”
حنایہ کھانے کے برتن ٹرالی میں رکھ رہی تھی مگر اسکے چہرے پر گہری سوچ تھی۔ زینیہ نے اسکے چہرے پر چھائی سنجیدگی کو نوٹ کر لیا تھا۔ زہرہ بی اور اماں سائیں ڈائینیگ ٹیبل پر بیٹھیں اس شاہکار کا انتظار کر رہی تھیں جو حنایہ پچھلے دو گھنٹوں سے بنا رہی تھی۔ وہ دونوں بہنیں مل کر ٹیبل پر کھانا چن رہیں تھیں۔ سب کھانے کی تعریف کر رہے تھے اور وہ ہاں ، ہوں، کے سوا کوئی جواب نہیں دے رہی تھی۔
کھانا ختم کر کے وہ برتن سمیٹ کر کچن میں آگئی اور شیلف پر رکھے موبائل پر نظر پڑتے ہی اسکے چہرے کا رنگ ماند پڑ گیا۔
“باری ! آپ بہت برے ہیں آپ میرے ساتھ اچھا نہیں کر رہے۔ آپ مجھے نظر انداز کر رہے ہیں؟” بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔”آپ میرا وقت کسی اور کو دے رہے ہیں یہ میرے ساتھ زیادتی ہے۔”
وہ بڑبڑاتے ہوۓ برتن دھونے لگی۔
“ارے…اتنی رونی شکل بنا رہی ہو تم؟ تم کیوں برتن دھونے لگی میں آ تو رہی تھی۔” زینیہ نے حنایہ کے چہرے پر چھائی اداسی کو نوٹس میں لیتے ہوۓ کہا۔
“نہیں آپی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔” حنایہ نے بامشکل مسکرانے کی کوشش کی۔”ایک بات پوچھو آپ سے؟”
“پوچھو۔”
“آپ کی جب بھائی سے شادی ہوئی تھی آپ خوش تھیں؟ کیا بھائی آپکو پسند کرتے تھے۔”
حنایہ کے سوال پر زینیہ نے ٹھٹک کر اسے دیکھا۔
“تمھیں معلوم ہے حنایہ! یہاں بچپن سے ہی لڑکی کے ذہن میں بٹھا دیا جاتا ہے کہ اسکی شادی کس سے ہونی ہے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی مجھے بتا دیا گیا تھا کہ میں کس کے نام سے منسوب ہوں۔ میں نے انہیں نکاح والے دن دیکھا تھا میرے دل میں بہت سے خوف تھے مگر ان کی محبت نے سب ٹھیک کر دیا۔ وہ سنجیدہ مزاج کے ہیں مگر تمہارے بھائی بہت اچھے ہیں میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔”
زینیہ نے مسکرا کر اسکے رخسار کو چھوا۔
“باری بھائی تو ویسے ہی بہت اچھے ہیں تم دونوں بچپن سے ایک ساتھ ہو بھائی سے زیادہ اچھا انتخاب تمہارے لئے کوئی نہیں ہو سکتا۔ تم دونوں ہمیشہ خوش رہو گے۔ باری بھائی تو بہت ہی اچھے ہیں تمھیں تو ٹنشن لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔”
زینیہ اپنی دھن میں بولتی جا رہی تھی حنایہ خاموشی سے اپنا موبائل اٹھا کر روم میں آگئی۔ بیڈ پر لیٹ کر وہ چھت کو گھورنے لگی۔ اسکی سوچ زینیہ کی باتوں میں ہی الجھ گیا تھا۔
“سب کہتے ہیں باری میرے لئے بہتر ہیں کبھی کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ میں باری کے لئے بہتر ہوں؟ وہ مجھے خوش رکھیں گے کیا باری میرے ساتھ خوش رہ پائیں گے؟”
حنایہ خود سے مخاطب تھی۔
“کیا تم باری کے لئے بہتر ہو؟”
اس نے آنکھیں موند لیں۔ پھر اپنا سر کو دائیں سے بائیں حرکت دی۔
“یہ فیصلہ تو باری ہی کر سکتے ہیں!”
کتنے ہی لمحے یوں ہی گزر گئے وہ باری کے تصور سے تب باہر آئی جب موبائل کی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی۔ اس نے مسکرا کر موبائل کان سے لگایا۔
“میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟ کیا کر رہے ہیں آپ…”
“اچھا…”
حال احوال کے بعد جیسے جیسے باری بات کرتا گیا حنایہ کے جواب مختصر ہوتے گئے۔ ہاں، ہوں، اچھا! اسکے پاس بس یہی جواب تھے۔ وہ باری سے اپنی ذات کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھی مگر وہ پھوپھو اور انشراح کے قصے سنانے بیٹھا ہوا تھا۔ آج نہ جانے کیوں اسے باری سے بات کر کے اچھا نہیں لگ رہا تھا خوشی کے بجائے اس پر بے زاری چھا رہی تھی سر درد کا بہانہ کر کے اس نے کال بند کر دی۔
“آپ کیوں نہیں سمجھتے باری! مجھے اس بات میں دل چسپی بلکل نہیں ہے کہ انشراح کیسی ہے کیا کرتی ہے وہ کتنا پڑھنا چاہتی ہے آپ اسکی مدد کیسے کریں گے۔ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتی ہے یا نہیں!”
حنایہ نے اپنی شل ہوتی آنکھیں بند کی تو چند موتیوں نے اسکی آنکھ سے رخسار تک کا سفر طے کیا۔
“میں آپ کے منہ سے انشراح کا ذکر برداشت نہیں کر سکتی۔”
**************
شادی کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں مگر اس کا اضطراب کسی طرح کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ گھر میں مہمانوں کے سامنے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے گھومتی رہتی۔ سب سوچ رہے تھے وہ خوش ہے مگر وہ دل ہی دل میں گہری الجھن کا شکار تھی۔ اسکے دماغ میں یہ بات جڑ پکڑتی جا رہی تھی کہ باری اس سے شادی کر کے خوش نہیں رہیں گے۔ اسے خود میں کوئی خوبی نظر نہیں آرہی تھی جس کی بنا پر باری اسے بیوی کا درجہ دینا چاہتے تھے۔ وہ ایک عام سی لڑکی تھی میٹرک پاس! اور باری ایک ڈاکٹر تھا۔ اس نے خود کا موازنہ عبدالباری کے ساتھ کیا تو اس نے خود کو صفر پایا تھا کچھ بھی تو نہیں تھی وہ حویلی کی چاردیوادوں میں عمر گزارنے والی کنویں کی مینڈک! جبکہ باری شہری زندگی گزار رہا تھا۔ حنایہ کی نظر میں باری ہر لحاظ میں اس سے بہتر تھا۔
“اہم….ابھی سے ہی بھائی کے خیالوں میں کھو گئی ہو۔”
حنایہ کی ماموں زاد کزن فضا نے اسکے کندھے سے کندھا ٹکرایا تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔ اس نےاطراف میں نظر دوڑائی تو اسے اندازہ ہوا وہ اپنی کزنز کے جھرمٹ میں بیٹھی تھی جو اسکی شادی کے فنکشنز کی تیاریوں پر زور و شور سے تبصرہ کرنے میں مصروف تھیں۔
“میں بتا رہی ہوں یہ لڑکی اب ہمارے ہاتھ سے گئی!”
کسی نے لقمہ دیا تو وہ اپنی غائب دماغی پر شرمندہ ہوئی۔
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے میری طبیعت کچھ ناساز ہے اسی لئے…” حنایہ نے پہلو بدلہ تو سب اس کی گھبراہٹ پر ہنسنے لگیں۔
“سب پتا ہے ہمیں شادی کا سوٹ سامنے آتے ہی میڈم کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئی تھی۔ سب پتا ہے ہمیں تمہارے دل کا حال… اب تو بہانے نہ بناؤ…”
فضا نے اسے چھیڑنے کے لئے بات ادھوری چھوڑ دی۔وہ پہلے ہی الگ تھلگ رہنے کی عادی تھی اب انکی باتیں اسے مزید پریشان کر رہیں تھیں۔
“ہماری بہن کو نہ ہی ستایا جائے کیوں کہ ابھی شادی میں بہت دن ہیں۔ آج ہی ساری باتیں ختم کرنے کا ارادہ ہے کیا؟” زینیہ بھیڑ کو چیرتی ہوئی آئی۔ اسکے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں مشروب کے گلاس تھے۔ وہ جانتی تھی آج کل حنایا کا مزاج بدلتے ٹائم نہیں لگتا تھا اسی لئے وہ جلدی ہی کچن سے واپس آگئی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اتنے مہمانوں کے بیچ حنایہ اپنا کملی پنا شروع کر دے۔ زینیہ نے فضا سے پوچھا۔” تم لوگ یہاں آے کس لئے ہو؟”
“آج زہرہ پھوپھو نے ہمیں خاص طور پر ڈھولک میں انوائٹ کیا ہے۔” فضا نے اٹھلا کر کہا۔
“تو!!
‘ہاں ان مراسیوں کی ہی تو کمی تھی۔”حنایہ نے دل بی دل میں کہا وہ ان سب کی باتوں سے عاجز آچکی تھی۔ اس نے مدد طلب نظروں سے بہن کی طرف دیکھا مگر زینیہ نے اسے مکمل نظر انداز کیا۔
” ہاں تو پھر جس کام کے لئے آئے ہو وہ تو شروع کرو۔ میں تو بے تابی سے منتظر ہوں صبح سے رات ہو گئی اب اور کتنا انتظار کرواؤ گے؟”
زینیہ کی بات پر سب لڑکیاں جوش میں آگئیں۔ ڈرائنگ روم کے صوفے پیچھے ہٹا کر کارپٹ پر گاؤ تکیے لگا کر نشت تیار کر دی گئی تھی۔ اماں سائیں اور زہرہ بی سنگل صوفوں پر برا جمان تالیاں بجا بجا کر شادی کے گیت گاتی لڑکیوں کو دیکھ رہیں تھیں۔ حنایہ کو یہ سب بے مقصد لگ رہا تھا اپنی مسکراہٹ بے معنی لگ رہی تھی۔ جیسے وہ خود کو ایک حسین خواب دیکھنے پر مجبور کر رہی ہو۔
“آپی میں ابھی آتی ہوں۔” حنایہ اٹھی اور کچن میں آگئی۔ لمبی لمبی سانسیں لیں پھر ٹھنڈے پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔
“یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔”
وہ اپنے دل کی پل پل بدلتی حالت سے پریشان تھی۔ گھٹن بڑھنے لگی تو وہ سب سے نظر بچاتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی ایک یہی جگہ تھی جہاں اس کی روح سکون محسوس کرتی تھی اسکے جسم کا پور پور سانس لینے لگتا تھا۔ وہ اپنے بازوں پھیلائے بیڈ پر چت لیٹی تھی۔
“باری میں بہت الجھن کا شکار ہوں میں نہیں جانتی کیا بات ہے مگر مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے…” اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر انہیں تر کیا۔” جیسے آپ مجھے پسند نہیں کرتے۔”
آخر حنایہ نے اپنی الجھن کو الفاظ دے ہی دیے تھے۔ آج تک باری نے اسے چھوٹے بچے کی طرح ٹریٹ کیا تھا جیسا سب اسے ٹریٹ کرتے تھے۔ اس نے باری کے انداز میں کبھی کوئی ایسی بات نہیں دیکھی تھی جو اسے خوش فہمی میں مبتلا کر دیتی۔ عام سا انداز تھا جو اسے خاص لگتا تھا مگر اب اس مقام پر جب ان کے انجانے رشتے کو نیا نام ملنے والا تھا۔ اسے شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ وہ باری کے لئے ضروری تو نہ تھی باری اسکے لئے ضروری تھا۔ سوچتے سوچتے کب اسکی آنکھ لگ گئی اسے پتا بھی نہیں چلا جاگنے اور سونے کی درمیانی کیفیت میں اسکی نظروں کے سامنے باری بیٹھا اس سے کچھ کہہ رہا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر سر جھکائے بیٹھی حنایہ!
“مجھے اس سے محبت ہے!” اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پنجرے کو گود میں رکھ لیا جس میں چھوٹے طوطوں کا جوڑا تھا ۔”میں انہیں آزاد نہیں کروں گی۔”
“محبت میں قید نہیں ہوتی کملی! محبت تو آزادی کا نام ہے۔ کبھی خود کو کسی پر مسلط نہ کرو۔ کسی چیز کو اپنے ساتھ باندھ کر رکھنے کا فائدہ نہیں ہے۔ وہ آپکے ساتھ رہے گی تو ضرور مگر اسے حقیقی خوشی نہیں ملے گی۔ تم ان پرندوں سے محبت کرتی ہو نا؟” باری نے نرمی سے اسکے ہاتھوں سے پنجرا لیا اور اس کا دروازہ کھول دیا۔ اور وہ حیران نظروں سے اڑتے ہوۓ پرندوں کو دیکھتی رہی۔ ” محبت چھوٹی یا بڑی نہیں ہوتی محبت محبت ہی ہوتی ہے اور محبت انسان کو زندگی میں ایسے مقام پر ضرور لے آتی ہے جہاں وہ اس سے قربانی مانگتی ہے یا تو اسے محبت قربان کرنی پڑتی ہے یا اپنی خوشی! تم اپنی خوشی قربان کرنا سیکھ لو۔ میں چاہتا ہوں تم ہمیشہ خوشی قربان کرو کیوں کہ محبت قربان کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی حنایہ!”
تین سال پہلے کہی گئیں باتیں وہ آج سمجھ گئی تھی۔ باری اسے کیا سمجھانا چاہتا تھا کبھی وہ کہا کرتی تھی کہ اسے سمجھ نہیں آتی باتوں کی تو وہ کہا کرتا تھا کہ تم کبھی غور کرو گی تو ہی سمجھ آئے گی اور آج وہ ہر بات کی گہرائی تک جا کر سوچ رہی تھی۔
“حنایہ ! حنایہ…”
دروازے پر مسلسل دستک دی جا رہی تھی اس نے بامشکل اپنی خمار آلود آنکھوں کو کھولا۔ چکراتے سر کو ایک ہاتھ سے تھامے وہ دروازے تک آئی۔
“کب سے میں آوازیں دے رہی ہوں سب پریشان ہو رہے تھے۔”
“آپی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔”
زینیہ نے اسکے سرخ چہرے کو چھوا جو بخار سے تپ رہا تھا۔
“حنایہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے؟ کوئی کہہ سکتا ہے کہ چند دن میں تمہاری شادی ہے؟ دلہن کی حالت یہ ہے…” اس نے غصے سے اسے دیکھا۔ “کونسی سوچیں ہیں جو تمھیں سانس نہیں لینے دے رہیں خیر میں میڈیسن لے کر آتی ہوں دروازہ لاک نہ کرنا۔”
زینیہ کے جانے کے بعد اس نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور کال ملانے کی کوشش کرنے لگی۔پانچ منٹ کی کوشش کے بعد وہ باری کا نمبر ملانے میں کامیاب ہو گئی
*****************
“آخر تمھیں کال کرنی آ ہی گئی!”
باری کی آواز سنتے ہی اس نے سرد لہجے میں پوچھا۔
“آپ کب آ رہے ہیں؟”
“کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟”
“آپ کب آرہے ہیں!” حنایہ نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا۔
“تم جانتی ہو کملی میں ابھی نہیں آ سکتا میں پہلے ڈیڈ سے پھوپھو کا ذکر کر لوں میں چاہتا ہوں کہ انشراح کو بھی حویلی میں وہی مقام ملے جو تمہارا ہے۔”
“بس کر دیں باری! بہت ہو گیا۔” حنایہ نے چلا کر کہا انشراح کا نام سنتے ہی وہ آپے سے باہر ہو گئی تھی۔ “کیا ہو گیا ہے آپ کو ؟ آپ کو سب کی فکر ہے کبھی آپ نے میرے بارے میں سوچا ہے؟ میں کیا چاہتی ہوں کیا سوچتی ہوں آپ کو اگر کسی کی پروا ہے تو وہ ہے پھوپھو اور انشراح!”
“کملی! یہ تم کس لہجے میں بات کر رہی ہو؟ تم اتنی بدتمیز تو نہ تھی ایسی باتیں کرنے کا کیا مقصد ہے؟” باری نے حیرت سے پوچھا۔
“میں بدتمیز ہوں؟” حنایہ نے اپنی طرف اشارہ کیا۔”صحیح ہے! مجھے جواب مل گیا ہے۔ میں بدتمیز ہوں، بدلحاظ ہوں اور بات کرنے کا طریقہ بھی نہیں آتا۔ میں آپ کے لائق نہیں ہوں آپ یہی کہنا چاہتے ہیں؟ ٹھیک ہے۔”
اس نے کان سے موبائل ہٹا لیا “کملی…” باری کی آواز اسکے کان تک پہنچی مگر اس نے ایک نظر موبائل کو دیکھا پھر پوری قوت سے اسے دیوار پر دے مارا۔ غم و غصے کی کیفیت میں اس نے اپنی شال اٹھا کر اپنے گرد لپیٹ لی پھر کمرے سے مردان خانے تک کا سفر اس تیز تیز قدم اٹھاتے ہوۓ طے کیا۔
بابا سائیں کے کمرے پر دستک دیتے ہوۓ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ حویلی کے اس حصے میں وہ بہت کم آئی تھی۔ بابا سائیں سے اس کا سامنا بہت کم ہوتا تھا۔ عید تہوار پر ہی ان سے ملاقات ہو جاتی ان کی با رعب شخصیت کے سامنے کبھی اس نے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا اور آج وہ ان کے فیصلے پر سر اٹھانے والی تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔ سامنے عبدالصمد کھڑا تھا۔
“حنایہ تم اس وقت یہاں؟”
“وہ… بابا سائیں…” اس نے ڈرتے ہوۓ پوچھا۔
“بابا سائیں تو نہیں ہیں۔” عبدالصمد نے غیر محسوس طریقے سے اپنے عقب میں موجود دروازے کو بند کر دیا۔ حنایہ کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا۔” آپ نے جو بات کرنی ہے مجھے بتا دو میں بابا سائیں کو بتا دوں گا۔” مسکراتے ہوۓ اس نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور اپنائیت سے پوچھا تو حنایہ نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔ “ارے بیٹا آپ اتنا پریشان کیوں ہو؟”
“بب…بھائی!” حنایا نے ہمت کی اور آخرکار بات کہہ ہی دی۔ “مجھے باری سے شادی نہیں کرنی۔” اس نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔”مجھے شادی نہیں کرنی! ” ٹپ ٹپ کر کے اسکی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
“چلو کوئی بات نہیں آپ پریشان نہ ہو میں بابا سائیں سے بات کروں گا آپ کو باری نے کچھ کہا ہے کیا؟”
حنایہ نے نفی میں سر ہلایا اور وہاں سے جانے لگی۔ عبدالصمد حیران نظروں سے کملی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
“میں نے تمھیں آزاد کر دیا ہے باری!”
اسکی آنکھوں کے سامنے سایہ لہرایا۔ عبدالصمد نے اسے لڑکھڑاتے ہوۓ دیکھا وہ بھاگتا ہوا اس تک پہنچا مگر تب تک وہ بے سد ہو کر گر چکی تھی۔
“حنایہ…”
عبدالصمد نے اسے پکارا مگر وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔ وہ اسے اٹھا کر اسکے روم میں لے آیا۔ حنایہ کو بیڈ پر لیٹا کر اس نے اس پر چادر دے دی۔ وہ کمرے میں ٹہلتے ہوۓ بار بار حنایہ کو دیکھ رہا تھا۔ اسکی حالت صاف صاف بتا رہی تھی کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ عبدالصمد نے ڈاکٹر کو کال کر دی تھی۔
“حنایہ…”
زینیہ کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا۔
“اسے کیا ہوا ہے؟ اور آپ یہاں…” زینیہ نے دوائی سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔ اور حنایہ کو پکارا۔
“یہ بیہوش ہے! ڈاکٹر آتا ہی ہو گا۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔”
“کیسے پریشانی کی بات نہیں ہے۔” زینیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ ” میں ماما کو بلا کر لاتی ہوں۔”
“نہیں! کسی کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں باہر جا رہا ہوں ڈاکٹر آنے والا ہے اور اس بات کی کسی کوخبر نا ہو۔”
زینیہ نے شوہر کی بات پر اثبات میں سر ہلایا تو وہ تیزی سے کمرے سے باہر چلا گیا۔
**************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...