“باری! باری!”
حنایہ آوازیں دیتی ہوئی کچن سے باہر نکلی۔ ڈرائینگ روم میں اماں سائیں، زہرہ بی اور زینیہ اسکی منتظر تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ عبدالباری یہاں نہیں ہے مگر پھر بھی ہمیشہ کی طرح وہ اسے آواز دے رہی تھی پھر کچھ یاد آنے پر عادتاً سر پر ہاتھ مارا۔
“میں بھی کتنی بیوقوف ہوں”
کچھ یاد آنے پر وہ کچن میں واپس گئی۔ سامنے صوفوں پر بیٹھیں خواتین کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
“ہمیں نہیں لگتا ہماری کملی کو کبھی عقل آنے والی ہے۔” زینیہ نے سر دائیں بائیں ہلایا۔
“اس کے سامنے کملی نا کہہ بیٹھنا۔” اماں سائیں نے تنبیہ کرنے والے انداز میں کہا تو کیک لے کر آتی حنایہ نے اپنی آنکھیں میچ کر بہن کو دیکھا۔ “خبر دار! جو آپ نے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔”
“باری نہیں آئے؟”حنایہ نے کیک ٹیبل پر رکھتے ہوۓ کہا۔
“کتنی دفعہ کہا ہے حنایہ بیٹا باری نہ کہا کریں۔” زہرہ بی نے بیٹی کو سمجھانے کی نا کام کوشش کی کیوں کہ وہ گھر میں کسی کی سنتی ہی نہ تھی۔
“ماں جی جب باری مجھے کملی کہتے ہیں تب تو کوئی کچھ نہیں کہتا جب کہ میں کہہ چکی ہوں کہ اب میں بڑی ہو گئی ہوں اور سمجھدار بھی تو مجھے کملی نہ کہا جائے مگر نہیں کوئی سنتا ہی نہیں!”
“نظر آرہا ہے کتنی بڑی ہو گئی ہو۔”
زہرہ بھی نے تاسف سے اپنی صاحبزادی کو دیکھا جو انکی بات نظر انداز کر کہ وہاں سے چلی گئی تھی۔ کہنے کو تو آج وہ اٹھارہ برس کی ہو گئی تھی مگر اسکی عقل گھٹنوں میں تھی۔
“اماں سائیں! یہ لڑکی میری کوئی بات نہیں مانتی میں سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں مگر یہ اتنی ڈھیٹ ہے اتنی ضدی کہ میں کیا بتاؤں آپکو!” زہرہ بی کی بات پر اماں سائیں کے چہرے پر افسردہ سی مسکراہٹ آ ٹھہری۔
“اسے ضدی بنانے کے پیچھے ہاتھ بھی تو بھائی کا ہے اسکی ہر بات مان جاتے ہیں۔ ایک ہماری قسمت ہے حق ہا!” زینیہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ایسا نہیں تھا کہ عبدالصمد اسکی بات نہیں مانتے تھے وہ اپنے بابا سائیں کی پرچھائی تھے اسی لئے سنجیدہ مزاج رکھتے تھے۔
“کیا برائی ہے تمہاری قسمت میں؟” زہرہ بی اسکی بات سن کر بھڑک اٹھی مگر اماں سائیں کے احترام میں اسے کچھ کہہ نہ پائیں ورنہ انکا بس چلتا تو جوتا اتار کر اسکو ابھی سیدھا کر دیتی۔
“کچھ نہیں!” زینیہ نے منہ بنا کر جواب دیا۔
“کیا ہوا اماں سائیں؟” زہرہ بی نے اماں سائیں کی طرف دیکھا جن کے چہرے کا رنگ ماند پڑ چکا تھا جیسے وہ صدیوں سے یہاں بیٹھی ہوں۔
“جتنی محبت ہم فاطمہ سے کرتے تھے اس محبت کا ایک حصہ بھی ہم حنایہ فاطمہ کو نہیں دے پا رہے۔ میں جب بھی اسے دیکھتی ہوں ہمارے چہرے کے سامنے فاطمہ آ جاتی ہے دونوں کے چہروں میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر…” اماں سائیں نے نم آنکھوں سے اپنی بہو کو دیکھا۔”اسکی موت کو آج اٹھارہ سال ہو گئے ہیں۔”
“آپ کو کہا بھی تھا نہیں مناتے سالگرہ مگر آپ ہر سال بیٹھ جاتی ہیں۔نہ آپ بھولتی ہے اور نا ہی عبدالباری کسی کو بھولنے دیتا ہے۔”
“ہماری بیٹی کی غلطی اتنی بڑی تو نہ تھی جو اسے موت کی سزا سنا دی گئی۔”
اماں سائیں ہمیشہ کی طرح آج اپنی اکلوتی بیٹی کا سوگ منا رہی تھی جو اس حویلی کی روایات کی بھینٹ چڑھادی گئی۔ جس دن حنایہ پیدا ہوئی اس دن ہی حویلی میں صف ماتم بچھ گیا تھا حویلی کے دروبام نے حیرت سے بابا سائیں کو دیکھا جن کے چہرے پر بیٹی کی موت کی خبر سن کر ایک شکن بھی نہیں آئی تھی۔ جب کے اماں سائیں کی حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو خون نہیں! انہوں نے اپنی اس بیٹی کو کھو دیا تھا جس کو ہزاروں منتوں مرادوں کے بعد پایا تھا جو پورے خاندان بھر کی لاڈلی تھی جس کی آنکھ کا ایک آنسو ٹپکنے سے پہلے اس کے بھائی اس چیز کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے تھے جس کی وجہ سے انکی بہن کی آنکھ میں آنسو آیا ہو مگر اس بار اس کو دکھ پہنچانے والا شخص اس کا سگا باپ تھا۔ اور موت کی خبر لانے والا اسکا بڑا بھائی! زہرہ بی نے بڑی مشکل سے اماں سائیں کو سنبھالا تھا۔ عبدالباری جسے اپنی پھوپھو سے بے انتہا محبت تھی وہ بھاگتا ہوا آیا تھا اور جھولے میں پڑی ننھی سی بچی کو اٹھا کر لے گیا تھا۔
“میں اس کو نہیں دوں گا ورنہ آپ سب اسکو بھی مار دیں گے۔ میں کسی کو نہیں دوں گا۔”
اور آٹھ سالہ عبدالباری حنایہ کو گھر سے باہر لے گیا اسکی آنکھوں میں خوف تھا وہ اس وقت بچہ تھا مگر گھر کے حالات اس سے چھپے ہوۓ نہ تھے وہ اپنی عزیز جان پھوپھو کو کھو بیٹھا تھا اسے اپنی پھوپھو سے بے انتہا محبت تھی اور اب اسے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں وہ اس ننھی پری کو نہ مار دیں وہ اسے سب سے بچا لینا چاہتا تھا اسکا ہر فیصلہ وہ کرے گا اسے ہمیشہ خوش رکھنے کا عہد وہ آٹھ سال کی عمر میں کر چکا تھا۔ عبدالباری نے اسکا نام حنایہ رکھا تھا جبکہ اماں سائیں اسے فاطمہ کہتی تھیں۔ اس واقعے کے بعد عبدالباری نے اماں سائیں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنی دادی کے آنسوں پونچھتا اور ان کا غم بانٹتا۔ حویلی میں وہ واحد لوگ تھے جو فاطمہ کو نہیں بھولے تھے اور نہ ہی کسی کو بھولنے دیتے تھے۔ جیسے جیسے عبدالباری بڑا ہوتا گیا حویلی میں بابا سائیں کا بنایا ہوا ہر اصول توڑتا گیا۔ انہیں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا پسند نہ تھا اور فاطمہ والے واقعہ کے بعد تو انہوں نے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ حنایہ اور زینیہ میں سے کوئی بھی حویلی سے باہر نہیں جائے گا۔ زینیہ کی بات اور تھی مگر حنایہ کو عبدالباری نے پرائیویٹ میٹرک تک تعلیم دلوا دی تھی۔ آہستہ آہستہ بابا سائیں نے عبدالباری کی مخالفت کرنا بند کر دی تھی۔
“اماں سائیں! اللّه کو یہی منظور تھا۔” زہرہ بی نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ اپنے ماضی کے دریچے بند کر آئیں تھیں۔
“کیا اللّه یہی چاہتے تھے کہ ہماری معصوم سی بچی کو یوں مار دیا جائے کہ اسکا آخری دیدار بھی ہمیں نصیب نہ ہو؟ ہم صغیر کوکبھی معاف نہیں کریں گے چاہے اس کی سزا میں اللّه ہمیں موت نہ دیں۔ ساری عمر ہم تڑپتے رہیں مگر ہم اپنی بیٹی کے قاتل کو معاف نہیں کریں گے۔” اماں سائیں نے چادر سے اپنے آنسو پونچھے۔
جب سے صغیر ہمدانی نے انہیں انکی بیٹی کی موت کی خبر سنائی تھی انہوں نے اسے بلانا چھوڑ دیا تھا اگر وہ سامنے آ جاتے تو وہ اپنا رخ دوسری طرف موڑ لیتی۔ حویلی دو حصوں میں بٹ چکی تھی ایک حصہ جو کہ کسی وقت میں زنان خانہ ہوا کرتا تھا اب اماں سائیں اپنے چھوٹے بیٹے اور بہو زہرہ بی کے ساتھ اسی حصے میں رہتی تھیں جب کہ صغیر ہمدانی اپنے دو بیٹوں کے ساتھ دوسرے حصے میں رہتے تھے۔ اماں سائیں کا بوڑھا وجود سرد جنگ لڑ لڑ کے تھک چکا تھا مگر بابا سائیں نے اپنی بیوی کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا تھا انکے لئے انکی روایات زیادہ ضروری تھیں۔ وہ اپنے اصولوں پر قائم تھے اور اپنے کسی بھی فیصلے پر شرمندہ نہ تھے۔
***************
وہ فرش پر اماں سائیں کے قدموں میں بیٹھی تھی وجود سفید چادر میں چھپا ہوا تھا اور وہ انکی گھود میں سر رکھے رو رہی تھی اسکی زندگی میں اب آنسوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ اماں سائیں اپنی جوان بیٹی کی حالت پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔
“اماں میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟”
فاطمہ کے سر کو سہلاتے ہاتھ رک گئے یہ تو وہ خود نہیں جانتی تھیں انکی بیٹی کے سامنے پوری زندگی تھی جسے اس نے سوگ کی چادر اوڑھ کر گزارنی تھی۔
” سب کہتے ہیں میں منحوس ہوں کوئی مجھ سے بات نہیں کرتا۔”
فاطمہ کو اپنی سہیلیوں کے بدلتے رویے نے پریشان کیا تھا مگر وہ نہیں جانتی تھی ابھی تو اسے اپنے اصل غم کا اندازہ ہی نہیں!
” تمھیں کسی کی ضرورت کیوں ہے؟” زہرہ بی کمرے میں داخل ہوئی تھی اسکی گود میں ایک سالہ عبدالباری تھا۔ ” یہ ہے نا؟ تمہارا کھیلونا تم اس سے دوستی کر لو کوئی تمھیں اس سے دور نہیں کرے گا۔”
روتی ہوئی فاطمہ نے عبدالباری کو جب اپنی گود میں لیا اسے واقعی ایک کھیلونا مل گیا تھا باری اسکے لئے ایک کل وقتی سہیلی تھی۔ وہ سارا سارا دن اسے لیے گھومتی رہتی جس عمر میں لڑکیاں خواب دیکھنے شروع کرتی ہیں اس عمر میں وہ ایک ماں کی طرح باری کا خیال رکھ رہی تھی۔ اماں سائیں اسے دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو روتی انہیں کہاں معلوم تھا جس بیٹی کے لیے انہوں نے اتنی منتیں مانگی تھیں اس کا یہ وقت بھی دیکھنا پڑے گا۔ اماں سائیں چاہتی تھیں کہ وہ مزید پڑھے ایک کامیاب انسان بنے جب کبھی اس کے سر پر ماں باپ کا سایہ نہ رہے تو وہ اپنا سہارا خود بن جائے۔
فاطمہ باری کی زمہ داری کے ساتھ ساتھ بارہ جماعتیں بھی پڑھ چکی تھی مگر اماں سائیں کی پریشانی دن با دن بڑھتی جا رہی تھی فاطمہ انکے لیے چلتا پھرتا روگ تھی صرف اب بھائی کے بچے سنبھالے گی اسکا اپنا گھر نہیں ہو گا نہ ہی کوئی زندگی! یہ سوچ انہیں دن رات پریشان رکھتی تھی۔ اور اس سوچ نے انہیں بابا سائیں کے حضور جھولی پھیلانے پر مجبور کر دیا۔
“سائیں…”
اپنے شوہر کے سامنے وہ کسی سائل کی طرح حاضر تھیں جو اپنی خوشیوں کی بھیگ مانگ رہا ہو۔
“میں یہ نہیں کر سکتا!”
“ایسا مت کہیں میں نہیں چاہتی کہ وہ اپنی باقی زندگی دوسروں کے ٹکروں پر گزار دے۔ اسے اس قابل بنا دیں کہ وہ کسی سہارے کے بغیر زندگی گزار سکے۔”
“اسے جتنا پڑھا دیا ہے اتنا بہت ہے!” سخت الفاظ میں کہتے ہوۓ وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوۓ۔ اماں سائیں نے آگ بڑھ کر انکا راستہ روک دیا۔
“باپ بن کر سوچیں سائیں! میں مر جاؤں گی آپ بھی نہیں رہیں گے کب تک ؟ آخر کب تک کوئی کسی کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ سب اپنی زندگی میں مگن ہو جائیں گے آج وہ عبدالباری کو سنبھال رہی ہے کل کو اس کے بچوں کو سنبھالے گی۔”
“تو کیا چاہتی ہیں آپ؟ میں اپنے اصول بدل دوں؟ اپنے سر میں خاک ڈال لوں؟”
اماں سائیں خاموش ہوگئیں۔
“میں باپ ہوں اکلوتی بیٹی کا دکھ مجھے بھی ہے مگر میں دنیا سے ڈرتا ہوں۔ میرے کندھوں پر پورے گاؤں کی ذمہ داری ہے فاطمہ کی ذرا سی غلطی…”
بابا سائیں کی دور اندیشی انہیں کوئی فیصلہ نہیں کرنے دے رہی تھی۔
“بابا سائیں فاطمہ کی ذمیداری میری ہے!”
صغیر ہمدانی بھی اپنی بہن کے حق میں اگے بڑھے تھے۔ وہ جو اماں سائیں کو واپس لینے آئے تھے باپ کی بات سن کر بول پڑے۔
“اگر کوئی غلطی ہوئی تو اپنی بندوق کی گولی سے میں فاطمہ کو اسکی غلطی سمیت ختم کر دوں گا۔”
صغیر ہمدانی بہن کے مان و غرور میں الفاظ ادا کر بیٹھے تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ انکے لیے فاطمہ کی تعلیم کا خواب بہت مہنگا پڑنے والا تھا انہیں اپنے ادا کئے گئے ایک ایک لفظ پر عمل کرنا پڑے گا۔
***************
عبدالباری الماری کے دونوں پٹ کھولے کھڑا تھا۔ وہ اپنے کپڑے پیک کر رہا تھا کل صبح اس نے ہوسٹل پہنچنا تھا۔ اس کا زیادہ وقت ہوسٹل میں ہی گزرتا تھا ویسے بھی حویلی میں اسکا دم گھٹتا تھا اسے حویلی کے دروبام سے خون ٹپکتا ہوا دکھائی دیتا ناجانے کتنے لوگوں کی قربانی کے بعد بابا سائیں نے یہ مقام حاصل کیا تھا۔ جب تک وہ چھوٹا تھا اس نے کبھی ان سب باتوں کے بارے میں نہیں سوچا تھا مگر جیسے جیسے اس نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھے تھے اس پر بہت سی حقیقتیں کھل گئیں تھیں۔ کیوں کہ گاؤں کے سب لوگ بابا سائیں کے سامنے سر جھکا کر چلتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کے لئے بابا سائیں اک پیر کی حیثیت رکھتے تھے لوگوں کے عقیدت سے جھکے سروں کو احسانات کے بھوج نے مزید جھکا دیا تھا گاؤں میں بابا سائیں کی اجازت کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ سب لوگ بابا سائیں کو مانتے تھے گاؤں کا ہر فیصلہ وہ کرتے تھے۔ مگر حویلی کے معاملات اب بابا سائیں کے ہاتھوں میں نہیں تھے۔ بابا سائیں ایسی ریاست پر راج کر رہے تھے جس میں غلاموں کے سوا کچھ نہ تھا۔
“بابا سائیں آپ کریں جو آپکو کرنا ہے اور میں وہ کروں گا جو میں چاہتا ہوں۔” اس نے خود کلامی والے انداز میں کہا۔ اسکے لہجے میں چٹانوں جیسی مظبوطی تھی۔
اس کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ کبھی اس حویلی کا رخ نہ کرتا مگر اماں سائیں کا بوڑھا وجود اور کملی کی محبت اسے کھینچ لاتی تھی۔ کچھ دن میں اسکی ہاؤس جاب شروع ہو رہی تھی اور جیسے ہی وہ شہر میں اپنے قدم جما لے گا وہ کملی اور اماں سائیں کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔ کپڑے بیگ میں ڈالتے ہوۓ وہ آنے والے وقت کے بارے میں سوچنے لگا۔
“باری! آپ کو کتنی دفعہ کہا ہے کبھی بلائے بغیر بھی آ جایا کریں مگر نہیں جب تک میں نہ آوں مجال ہے جو آپ ایک قدم بھی کمرے سے باہر نکال لیں۔” کملی نے کمرے میں آتے ہی بولنا شروع کر دیا۔” مجھے نہیں معلوم اس کمرے میں رکھا کیا ہے۔”
ڈارک کلر کے کپڑوں میں اسکی رنگت مزید دمک رہی تھی اس نے ہم رنگ دوپٹہ سر کے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ باری نے مسکرا کر اسے دیکھا جو چہرے پر ناراضگی سجائے کھڑی تھی۔
“آپ پیکنگ کیوں کر رہے ہیں؟” حیرانی سے اسکی بڑی بڑی آنکھیں مزید کھل گئیں۔
“مجھے جانا ہے کملی!” بیگ کی زپ بند کر کے وہ اسکے مقابل آ کھڑا ہوا۔
“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔
“بچوں والی باتیں نہ کرو۔”
“باری! آپ بہت بدل گئے ہیں۔” آنکھوں میں نمی لئے وہ کہہ رہی تھی اور اب حیران ہونے کی باری عبدالباری کی تھی۔ پھر کمرے میں ایک قہقہ بلند ہوا۔
“میں جب بھی آتا ہوں ایک نئی کملی میرے سامنے ہوتی ہے۔ تم یہ سب باتیں سیکھ کہاں سے رہی ہو؟”
اسکی بات پر حنایہ کی آنکھوں میں ٹھہرے آنسووں نے فرار کا راستہ تلاش کر لیا تھا اور چھم چھم ایک دو تین… سفید موتیوں نے اپنا اصل چھوڑ دیا تھا۔
“اب تم نے رونا کیوں شروع کر دیا؟” باری کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے حنایہ کی آنکھ میں آنسو اس سے کب برداشت ہوتا تھا۔ اس نے اسے بیڈ پر بیٹھایا اور ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اسے تھما دیا۔ حنایہ نے پانی پی لیا وہ جیب سے رومال نکالنے ہی والا تھا کہ ہمیشہ کی طرح وہ اپنے دوپٹے سے آنسو صاف کرنے لگی۔
“آپ بہت برے ہیں میری ہر بات کا مذاق اڑاتے ہیں آج میری سالگرہ ہے مگر نہیں آپ نے آج بھی مجھے رلایا۔ پہلے آپ میری ہر بات مانتے تھے میں بلاتی تھی آپ آجاتے تھے میں جو کہتی تھی کوئی سوال کیے بغیر مان جاتے مگر اب…” حنایہ نے اپنی پلکیں اٹھائیں اور سامنے بیٹھے عبدالباری کو دیکھا۔ جبکہ باری سانس لینا بھول چکا تھا اسے نہیں معلوم تھا اسکی کملی کو اس سے اتنی شکایات تھیں۔
“اب آپ پہلے جیسے نہیں رہے اب آپکو شہر کی ہوا لگ گئی ہے آپکو اب کہاں میں اچھی لگتی ہوں میں تو کملی ہوں جھلی ہوں۔ شہر میں تو سمجھدار لڑکیاں ہوں گی جائے چلے جائے دو دن کے لئے بھی نہ آیا کریں۔ یہاں میں ایک ایک دن گن گن کر کاٹتی ہوں جانتے ہیں آپ کتنے دن بعد آئیں ہیں؟” حنایہ بیڈ سے اٹھی۔
“آٹھ مہینے اور دس دن بعد!” حنایہ نے دونوں ہاتھوں کو اسکے سامنے کیا۔” کتنے دن سے میں انتظار کر رہی تھی کہ باری آئیں گے ہم لوگ اتنی زیادہ باتیں کریں گے مگر نہیں آپ کی تو پڑھائیاں ہی ختم نہیں ہو رہی۔ اور اب آپ کہیں گے ڈاکٹری آسان تھوڑی ہے ہاں میں تو جاہل ہوں نہ میں کہاں سمجھوں گی”
“کملی! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو”
باری نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر حنایہ وہاں رکی نہیں وہاں سے چلی گئی۔ اور عبدالباری بھی اسکے پیچھے پیچھے باہر آیا۔ مگر اسکے پہنچنے سے پہلے ہی حنایہ نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔
“کملی میری بات تو سنو۔” عبدالباری نے دروازے پر دستک دی تو اندر سے حنایہ نے چلا کر کہا۔
“باری مجھے پریشان نہ کریں۔”
عبدالباری کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کملی کو اچانک ہو کیا گیا ہے۔
“کیا ہوا بیٹا؟” اماں سائیں زہرہ بی کا ہاتھ تھامے اسکے پاس آئیں۔
“پتہ نہیں اماں سائیں کیا آپ سے کملی نے کچھ کہا تھا؟” اس نے اپنے ماتھے کو چھوا۔
“نہیں یہاں سے تو بڑی خوش خوش گئی تھی تم نے تو کچھ نہیں کہہ دیا میری بچی کو؟”
“نہیں اماں سائیں آپ چلیں میرے ساتھ آپ تھک جائیں گی۔” وہ انہیں سہارا دیتا ہوا واپس صوفے تک لے آیا۔ انکے چہرے پر پریشانی دیکھ کر وہ وہیں انکے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اور انکے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔
“کملی ناراض ہو گئی ہے کہ میں کل واپس شہر جا رہا ہوں۔ پتہ نہیں کس نے اسے…” عبدالباری نے گردن موڑ کر زہرہ بی کے ساتھ کھڑی زینیہ کو دیکھا۔ پھر کھڑا ہو گیا اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوۓ اس نے اپنے چہرے کے تاثرات ہر ممکن حد تک نارمل رکھنے کی کوشش کی۔
“کملی کو آپ نے شہر کے بارے میں کیا کہا ہے؟”
اس کے اچانک سوال پر زینیہ نے سر جھکا لیا۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں پسینہ آگیا۔
“بب…بھائی!” زینیہ نے تھوک نگلا۔ ” میں تو بس ٹی وی دیکھ رہی تھی تو حنایہ نے پوچھا تو میں… میرا وہ مقصد نہیں تھا۔”
“جو بھی مقصد تھا آپکا اب کملی ٹی وی نہیں دیکھے گی اور آپ سب سے گزارش ہے کہ اسے کملی ہی رہنے دیں سمجھدار کرنے کی کوشش نہ کریں۔” عبدالباری نے ایک جملے میں ہی اپنی بات کر دی اور وہاں سے چلا گیا جب کہ زینیہ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا زہرہ بی نے بند کمرے کی جانب دیکھا پھر زینیہ کی طرف! “میں اپنی دونوں بیٹیوں کا کیا کروں دونوں ہی عقل سے معذور ہیں!” انہوں نے ٹھنڈی سانس خارج کی۔
**************