(Last Updated On: )
ہاں جھانک کے دیکھو کہ کوئی آ نہ گیا ہو
خلوت کا پتہ اور کوئی پا نہ گیا ہو
ویسے بھی مجھے شک تو نہیں ذوقِ عدد پر
چہ جائیکہ مجھ رہ پر وہ دیوانہ گیا ہو
کس طرح فضا بدلی، ہوا سرخ، زمیں زرد
اس سمت سے اے دوست اشارہ نہ گیا ہو
وہ راز جو سر بستہ ازل سے ہے سرِ بزم
وہ راز کہیں سب کو بتایا نہ گیا ہو
جن راہوں میں تھے نصب تھے نشاں میرے سفر کے
ان راہوں میں ہیجان بچھایا نہ گیا ہو
دروازہ کی آواز تھی، پھر ہلکی سی اک چاپ
کمرہ میں کوئی چپکے سے آج آ نہ گیا ہو
ہر حال میں آ پہنچے گا وہ بزمِ سخن میں
اشعار کا اسلمؔ جسے سودا نہ گیا ہو
٭٭٭