وہ بے آواز آگے بڑھنے لگا ۔۔
یونہی چلتے چلتے وہ اچانک اپنا روپ بدل گیا ۔۔
اب ایک وہ سیاہ بلا تھا جو آرام سے درخت کی ٹہنیاں چڑھتا اس گیلری کی دیوار پر چڑھ گیا ۔۔
اس کی سرخ آنکھوں میں موجود سیاہ دائروں کا سائز بہت چھوٹا تھا ۔۔
یہ اس کی ناگواری ۔۔
غصے ۔۔
اور سنجیدگی کا سائن تھا ۔۔
شہلا کوئی تصویر سینے سے لگائے اس کے خوفناک وجود سے بلکل بے خبر اپنی سسکیاں روکنے کی کوشش میں ہلکان تھی ۔۔
اس تصویر میں سب ہی تھے ۔۔
چاچی ۔۔ اس کے تینوں کزنز ۔۔ اور وہ خود ۔۔
یہ کسی جاننے والے کی شادی میں لی گئی ان سب کی پہلی اور آخری تصویر تھی ۔۔
اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اس تصویر کو سینے سے لگا کر اس طرح ماتم کرے گی ۔۔
اس کے دل کو کسی طور قرار نہیں آ رہا تھا ۔۔
وہ بھری دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی ۔۔
اس کی زرا سی نیکی نے سب کچھ چھین لیا تھا اس سے ۔۔
شہلا کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ذہن کو کنٹرول کر کے اس سے وہ “نیکی” کروائی گئی تھی ۔۔
دو سرخ آنکھیں اس کے رو رو کر سرخ پڑتے چہرے پر جم سی گئی تھیں ۔۔
“یا اللہ ۔۔
جنہیں جانا تھا وہ تو چلے گئے ۔۔
لیکن یہ میرا دل ۔۔
اسے کیوں قرار نہیں آ رہا ۔۔
میرے دل کو اس کا سکون لوٹادیں اللہ پاک ۔۔
احساس گناہ میری جان نہیں چھوڑتا ۔۔
میری وجہ سے میرے اپنوں نے تکلیف اٹھائی ہے ۔۔
سزا دے دیں یا سکون لوٹادیں مجھے ۔۔
میرے اللہ ۔۔
میری مدد فرمائیں ۔۔
مجھے کوئی راستہ دکھائیں ۔۔
قسمت مجھے وہاں لے آئی جہاں کا کبھی وہم و گمان بھی نہیں تھا ۔۔
اس انجانے سفر میں میری رہنمائی فرمائیں ۔۔
مجھ میں مزید ایک غم اور سہنے کی ہمت نہیں ہے ۔۔
میری زندگی میں آسانیاں اور سکون پیدا کر دیں یا اللہ ۔۔”
وہ روتے روتے زمین پر گھٹنے ٹیک کر گر گئی ۔۔
سر گیلری کی جالی سے ٹکا کر وہ سسکتی رہی خدا کو پکارتی رہی ۔۔
جبکہ وہ بلا جیسے خاموشی سے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا ۔۔
اگر شہلا اس وقت اس بلے کو وہاں دیکھ لیتی تو خوف سے یقیناً مر جاتی یا اس بلے کو ہی مار دیتی ۔۔
ایسی ہی ذہنی اذیت میں تھی وہ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اسے زبردستی سب کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر ناشتے کے لیئے بلوایا گیا ۔۔
وہ تنہائی چاہتی تھی لیکن وہ اس وقت ان کی حویلی میں رہائش پزیر تھی سو ان کے احساسات کا خیال رکھنا اس پر فرض تھا ۔۔
خوبصورت جدید لباسوں میں ملبوس خواتین میچنگ جوتے ہلکے سے میک اپ ۔۔ جویلری اور اچھے سے بندھے بالوں کے ساتھ ناشتہ تیار کرتی اسے حیران کر رہی تھیں ۔۔
ان خواتین نے بھارتی ڈراموں کی بھابیوں کو مات دے دی تھی ۔۔
وہ تو صرف نک سک سے تیار کھانے بنانے کی ایکٹنگ کرتی تھیں لیکن اس حویلی کی خواتین ایسا سچ مچ کر رہی تھیں ۔۔
شہلا حیرت سے انہیں دیکھے جا رہی تھی جب اچانک اسے تیمور آفندی کی بات یاد آئی کہ ان کے ہاں ملازم کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔۔
اس کی حیرت کچھ کم ہوئی اور وہ بھی ناشتے میں مگن ہوگئی ۔۔
اس کے ایک طرف ہانیہ بیٹھی تھی کالج یونیفارم میں جبکہ دوسری طرف تیمور آفندی کی بیٹی امتل بیٹھی تھی ۔۔
اچانک اسے غیر معمولی پن کا احساس ہوا تو اس نے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔
سب کی نظریں ڈائننگ ہال کے دروازے پر جمی تھیں جہاں گرے ٹریک سوٹ میں وہ نہ جانے کون تھا جو سب کے سب اسے یوں گھور رہے تھے ۔۔
ایمانداری سے کہا جائے تو ۔۔
نفرت سے گھور رہے تھے ۔۔
“شمعون میری جان ۔۔”
تیمور آفندی اچانک اپنی جگہ سے اٹھے اور بانہیں پھیلا کر اس کی طرف بڑھے جس کے لبوں پر ہمیشہ قائم رہنے والی مسکان کچھ گہری ہوگئی تھی ۔۔
وہ بھی بے جھجک ان کے گلے لگ گیا ۔۔
“آگیا یہ گند کا پوٹلا ۔۔”
تیمور آفندی کی تین بھابیوں میں سے نہ جانے کس بھابی نے یہ باآواز بلند کہا تھا ۔۔
پھر ساری خواتین تیمور آفندی کے پلٹ کر گھورنے پر آگے پیچھے کچن میں گھس گئیں ۔۔
شہلا بلاوجہ کھسیا گئی ۔۔
تیمور آفندی نے پھر شمعون کا چہرہ دیکھا جہاں اب بھی وہ مسکراہٹ اور بے رونق آنکھوں میں “کوئی بات نہیں” واضع تھا ۔۔
شہلا نے دیکھا سب کے منہ بن گئے تھے بشمول امتل ہانیہ اور حمزہ کے ۔۔
اس نے الجھ کر پھر سے شمعون کی طرف دیکھا جو عین اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ رہا ۔۔
شہلا بے ارادہ اسے دیکھے چلی گئی جیسے سب کے رویئے کی وجہ جاننے کی کوشش کر رہی ہو ۔۔
بے تاثر چہرہ ۔۔
ہونٹ جامد تھے لیکن پھر بھی لگتا ایک پراسرار سی مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کر رکھا تھا ۔۔
ویران سیاہ آنکھیں ۔۔
سفیدی مائل گندمی رنگت ۔۔
کسرتی جسم اور چھ فٹ سے نکلتا قد ۔۔
قد تو اس حویلی میں لڑکیوں سمیت سب ہی کے اونچے تھے ۔۔
پانچ فٹ چار انچ کی شہلا خود کو ناٹی محسوس کر رہی تھی ۔۔
خیر ۔۔
بہت غور و خوض کے بعد بھی وہ شمعون کی خاموش سی طبیعت میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھ سکی جس سے نفرت کی جاتی ۔۔
“ہوں گے ان کے اپنے کوئی مسئلے ۔۔
مجھے کیا ۔۔”
شہلا یہ سوچ ہی رہی تھی جب اچانک شمعون نے نظریں گھما کر اس کی طرف دیکھا تو بری طرح خجل ہو کر اس نے اپنا سر جھکا لیا ۔۔
“اس کے ارادے نیک نہیں لگ رہے ۔۔
یہ شمعون چاچو پر ڈورے ڈالنے کی کوشش میں ہے ۔۔”
حمزہ پھر ہانیہ کی کان میں بولا ۔۔
وہ ہانیہ کے برابر میں اور ہانیہ شہلا کے برابر میں بیٹھی تھی ۔۔
سو شہلا نے بھی حمزہ کے نادر خیالات سن لیئے اور لب بھینچ کر رہ گئی ۔۔
اسے ہلکے کردار کا سمجھا جا رہا تھا اس خیال کے آتے ہی اس کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔۔
مجبوری کتنا ذلیل کرواتی ہے ۔۔
“میں اپنے گھر چلی جائوں گی ۔۔”
شہلا نے دل میں ارادہ باندھا جبکہ شمعون جس کی تیز سماعتوں تک حمزہ کی دھیمی آواز میں کہی گئی بات بآسانی پہنچ گئی تھی عجیب سے انداز میں پل بھر کو مسکرایا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہمارے جو دادا تھے وہ بلا کے رنگین مزاج تھے ۔۔
بقول میری دادی کے ۔۔”
ہانیہ کے گھورنے پر امتل سٹپٹا کر بولی ۔۔
“جب میرے پاپا جو دادا کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے اور اس وقت اٹھارہ سال کے تھے۔۔
تب دادا نے حویلی کی ایک خادمہ کے ساتھ “آہم آہم” سمجھ گئی نا ۔۔”
امتل نے گلا کھنکھار کر معاملے کی نوعیت سمجھائی جسے سمجھ کر شہلا نے سٹپٹا کر سر اثبات میں ہلا دیا ۔۔
“گڈ گرل ۔۔
بس شمعون چاچو کے پیدا ہونے کے بعد وہ خادمہ انہیں یہاں چھوڑ کر نہ جانے کہاں چلی گئی ۔۔
شمعون چاچو دادا کی کسی دوسری بیوی سے ہوتے تو وہ پھر بھی ٹھیک تھا لیکن شمعون چاچو تو ۔۔
بس ان کی اسی حقیقت کی وجہ سے سب ان سے نفرت کرتے ہیں ۔۔
دادی نے دادا سے طلاق کا مطالبہ کردیا تھا اس سب کے بعد ۔۔
سو دادا نے جزبات میں آ کر خودکشی کر ڈالی ۔۔
یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے شمعون چاچو سے نفرت کی ۔۔
میرے پاپا کے سوا گھر میں کوئی انہیں پسند نہیں کرتا ۔۔
نیو جنریشن پر اپنے بڑوں کی سکھائی سمجھائی باتوں کا اثر ہے شائد اس لیئے ہم میں سے بھی کوئی انہیں قبول نہیں کر سکا ۔۔”
شہلا امتل کی بے پروائی پر اسے دیکھتی رہ گئی ۔۔
اس نے تو یونہی جھجک کر سرسری انداز میں سب کے صبح کے رویئے کے بارے میں پوچھ لیا تھا ۔۔
جواب میں امتل نے اس کے آگے بڑے سکون سے ساری خاندانی ہسٹری کھول کے رکھ دی ۔۔
گویا اسے کوئی فکر نہیں تھی کہ کوئی انجان مہمان شمعون کے بارے میں میں کیا سوچے گا ۔۔
شہلا کو امتل سمیت حویلی کے سب ہی مکین کٹھور دل لگے اور اسے شمعون سے ہمدردی ہوئی ۔۔
ساتھ ہی تیمور آفندی کے لیئے دل میں احترام اور بڑھ گیا ۔۔
“لیکن میرا خیال ہے شمعون چاچو کا کہیں بھی کوئی قصور نہیں ۔۔
ان سے یہ نفرت ناجائز ہے ۔۔
کم سے کم تم لوگ ۔۔”
اپنی ہی دھن میں آہستہ سے کہتے ہوئے شہلا نے چونک کر اپنا خالی پہلو دیکھا ۔۔
ہانیہ اور امتل فون پکڑے کافی فاصلے پر کھڑی نہ جانے کس سے باتوں میں لگی تھیں ۔۔
اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ دونوں کب اس کے پاس سے گئی تھیں ۔۔
سر جھٹک کر شہلا اپنے کمرے میں جانے کے لیئے لان کی بینچ سے اٹھی اور جیسے ہی مڑی شمعون کے فولادی وجود سے ٹکرا گئی ۔۔
اس لمس سے اسے کچھ یاد آیا تھا لیکن کیا وہ سمجھ نہیں پائی ۔۔
ایک اچٹتی سی معزرتانہ نظر شمعون پر ڈال کر وہ آگے بڑھ گئی جبکہ شمعون ایک ٹک اس کی گھٹنوں سے تھوڑی اوپر الجھی سلجھی سی لہراتی چوٹی کو دیکھتا رہ گیا ۔۔
تیمور آفندی کے بعد یہ پہلی بار تھا کہ کسی نے اس کے حق میں کچھ کہا تھا ۔۔
اس کا ہاتھ بے اختیاری میں اپنے دل پر پڑا تھا ۔۔
کچھ عجیب سا ہوا تھا اندر ۔۔
جو اس وقت وہ سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس کا حویلی میں چوتھا دن تھا ۔۔
وہ چار سو بار اپنے گھر واپس جانے کی بات کر چکی تھی اور تیمور آفندی سے ڈانٹ کھا چکی تھی ۔۔
اور ڈانٹ کھلانے کے بعد وہ اسے آئس کریم یا چاکلیٹ بھی زبردستی کھلاتے ۔۔
گویا حویلی میں اس کا دل لگانے کی کوشش کرتے ۔۔
شہلا حیران ہوتی کوئی شخص اجنبیوں پر اتنا مہربان کیسے ہو سکتا یے ۔۔
لیکن جو بھی تھا وہ درحقیقت یہاں سے جانا چاہتی تھی ۔۔
کیونکہ آتے جاتے حمزہ کے طنز اور کاٹ دار نظریں اسے تکلیف دے رہی تھیں ۔۔
پتہ نہیں حمزہ اسے اتنا ناپسند کیوں کرتا تھا ۔۔
وہ بہرحال بہت ہرٹ ہو چکی تھی اور لازمی اپنے گھر جانا چاہتی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سنو ۔۔”
حمزہ کی پکار پر وہ کمرے میں جاتے جاتے رک گئی اور ناچار اس کی طرف مڑی ۔۔
“تم یہاں کب تک رہوگی آخر ۔۔
جاتی کیوں نہیں ۔۔
ارادے کیا ہیں تمہارے ۔۔
مہمان تین دن تک ہی برداشت کیا جا سکتا ہے ۔۔”
“میں انشااللہ یہاں سے جلد چلی جائوں گی ۔۔
مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے اس بڑی سی حویلی کے ایک چھوٹے سے دل و دماغ والے فرد سے ہر آدھے گھنٹے بعد بے عزت ہونے کا ۔۔
آپ کی مزید اطلاع کے لیئے عرض ہے میں بھی ایک عام سی انسان ہوں جسے رویئے ہرٹ کرتے ہیں ۔۔
اور میں مزید ہرٹ نہیں ہونا چاہتی ۔۔
چلی جائوں گی میں ۔۔”
سخت لہجے میں کہہ کر شہلا نے دروازہ حمزہ کے منہ پر پوری قوت سے بند کیا تھا ۔۔
حمزہ ساکت و سامت وہیں کھڑا رہ گیا ۔۔
شہلا کے تیزی سے برستے آنسو اور آنکھوں سے جھلکتی تکلیف اور گلے نے حمزہ کو سخت نادم کردیا تھا ۔۔
وہ گم صم سا سیڑھیوں کی طرف بڑھا تو وہاں سیڑھیوں کے دوسرے سٹیپ پر شمعون سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔
حمزہ اسے نظر انداز کر کے سائڈ سے سیڑھیاں اترنے لگا جب شمعون کی سرد آواز پر رکنا پڑا ۔۔
“تم آخر کیوں چاہتے ہو وہ یہاں سے چلی جائے ۔۔”
“اور آپ آخر کیوں نہیں چاہتے کہ وہ یہاں سے جائے ۔۔”
شمعون کے ہی انداز میں منہ بنا کر پوچھتے ہوئے حمزہ نے ایک ابرو اچکائی ۔۔
شمعون خاموش نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس سے پہلے ہی سیڑھیاں اترتا چلا گیا جبکہ پیچھے حمزہ کی آنکھوں میں اب الجھن تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی بیڈ پر ایک سیاہ بلی کو موجود پایا ۔۔
شمعون کے دروازہ بند کرتے کے ساتھ ہی وہ بلی ایک بوڑھی عورت کے روپ میں بدل گئی ۔۔
شمعون کے لفظ بے آواز ہلے ۔۔
“ماں ۔۔”
“شمعون میں بھوک پیاس سے مر جائوں گی ۔۔
آخر تم مجھے کوئی شکار کیوں نہیں کرنے دے رہے ۔۔”
“میں اپنے طریقے سے کوئی شکار کل تک لادوں گا ۔۔
آپ خود کچھ نہیں کریں گی ۔۔
ہرگز بھی نہیں کریں گی ۔۔”
شمعون کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں جنہیں اپنی ماں کی آنکھوں میں گاڑ کر وہ چبا چبا کر بولا ۔۔
سامنے کھڑی بوڑھی ملگجے حلیے والی عورت ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔
وہ بوڑھی ہوچکی تھی ۔۔
اس کی طاقتیں شمعون کی پاورز کے آگے کچھ نہیں تھیں ۔۔
شمعون کی بات ماننے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ تھی کہ وہ اس کی ماں تھی ۔۔
اس سے سوال کر سکتی تھی ۔۔
“لیکن کیوں ۔۔”
اس کے مشکوک انداز پر شمعون نے ایک سخت تنبیہہ کرتی نظر اس پر ڈالی اور واش روم میں گھس گیا ۔۔
پیچھے اس کی ماں ہنکار بھر کر اپنے اصل روپ میں لوٹتی کھڑکی کے زریعے لان میں کود گئی ۔۔
جاتے جاتے اس نے موبائل پر مصروف ہانیہ کے قریب ہو کر غرانا ضروری سمجھا ۔۔
ہانیہ دہشت سے اسے دیکھ کر چیخ مارتی حویلی کے اندر دوڑ پڑی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حویلی لوٹا تو ایک خالی پن سا اسے ہر طرف محسوس ہوا ۔۔
سب ہی لوگ موجود تھے اپنے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مگن ۔۔
مگر کچھ تھا جو نہیں تھا ۔۔
لب بھینچ کر ہر طرف دیکھ لینے کے بعد وہ مٹھیاں بھینچے ناخن تراشتی امتل کے سر پر پہنچا اور گہری سانس بھر کر خود پر ضبط کرتے ہوئے سرسری انداز میں شہلا کے بارے میں پوچھا ۔۔
امتل سدا کی بے پروہ تھی ۔۔
کچھ الٹا سیدھا سوچے سمجھے بغیر شہلا کے اپنے گھر لوٹ جانے کی اطلاع دی ۔۔
شمعون نے جبڑے سختی سے بھینچ کر اس کی واپسی کے بارے میں پوچھا ۔۔
“میرا نہیں خیال وہ اب واپس آئے گی ۔۔”
امتل کے جواب پر شمعون کی سیاہ پتلیوں کا سائز زرا کم ہوا ۔۔
“کیسے نہیں آئے گی ۔۔
آنا تو اسے پڑے گا ۔۔
خود اپنے قدموں سے چل کر یہاں آئے گی وہ ۔۔”
اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے وہ غرایا ۔۔
کافی دیر بعد اس کی گاڑی ایک مخدوش حال بڑی سے عمارت کے آگے رک گئی ۔۔
جب وہ اندر داخل ہوا تو ہر طرف سناٹا تھا ۔۔
پھر ایک میائوں کی آواز کے ساتھ ایک بلی کہیں سے نکل کر آئی ۔۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں تیس پینتیس بلیاں جمع ہوگئیں ۔۔
سب بلیاں سر اٹھائے جیسے شمعون کے کچھ کہنے کی منتظر تھیں ۔۔
“آج رات ۔۔
کم سے کم تین فرد ۔۔
تین فرد حویلی کے ۔۔
تم لوگوں کے حوالے ۔۔”
اس کی بات ختم ہوتے ساتھ ہی بلیوں کی کریہہ آوازیں بلند ہوئی تھیں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...