ابھی سوچ رہا ہوں رہنے دوں۔۔۔ ان پیسوں سے پڑھائی تو مکمل ہو ہی جاےُ گی پھر کل کو شادی ہوگی تو بیوی کو لے کر الگ ہی گھر میں رہنا بہتر ہے۔۔۔ ”
وہ پرسوچ انداز میں بولا۔
“ہاں بہتر ہے تم الگ ہی رہو۔۔۔ ورنہ اس گھر کی نحوست تمہاری زندگی میں بھی شامل ہو جاےُ گی۔”
وہ تلخی سے بولی۔
عمر یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا جس کے چہرے کی کیفیات لمحہ بہ لمحہ تغیر ہو رہی تھیں۔
کبھی غیض، کبھی بےبسی، کبھی رنج تو کبھی الجھن۔۔۔
“تم اب چلے جاؤ یہ نہ ہو زاہد کا دماغ پھر سے خراب ہو جاےُ۔۔۔ ”
کھڑکی سے زاہد کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جنہیں سنتے ہی حیا بول پڑی۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا چلا گیا۔
وہ سانس خارج کرتی آنکھیں بند کرتی تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔
“پتہ نہیں یہ آزمائش کب تمام ہو گی؟”
گلابی لب دھیرے سے پھڑپھراےُ۔
~~~~~~~~
“آئم سو سوری۔۔۔ ”
وہ زرش کے ہاتھ پکڑے مجرمانہ انداز میں بول رہا تھا۔
“میرا دل نہیں کرتا یہاں رہنے کو۔۔۔ ہم امی کی طرف چلتے ہیں وہ جگہ پرسکون ہے۔ کہیں کچھ برا نہ ہو جاےُ، میں چاہتی ہوں ہمارا بچہ اس دنیا میں آ جاےُ،،ان واقعات سے مجھے خوف محسوس ہوتا ہے۔”
وہ اس کے بالوں کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔
“تمہارا شوہر اس قابل ہے کہ تمہاری حفاظت کر سکے۔۔۔وعدہ کرتا ہوں اب کوئی تمہارے آس پاس بھی نہیں بھٹک سکتا۔۔۔کچھ برا نہیں ہوگا یقین کرو۔۔۔”
وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگا۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرانے لگی۔
اس کا پر اعتماد انداز مجبور کر گیا زرش کو ہتھیار ڈالنے پر۔
“تمہارے بال بڑے ہو گئے ہیں۔۔۔ ”
وہ اس کے سیاہ گھنے بادلوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی۔
“ہاں بس ٹائم نہیں مل رہا۔۔۔ بابا سائیں نے فون کر کے کہا تھا اپنی حالت درست کرو جیل سے فرار ہوۓ قیدی لگ رہے ہو۔۔۔”
وہ مسکراتا ہوا بولا۔
“بلکل صحیح کہا انہوں نے۔۔۔ ”
وہ وائز کے بال کھینچتی ہوئی بولی۔
“آؤچ۔۔۔ ظالم بیوی ہو تم۔ اس معصوم سے شوہر پر ظلم کر رہی ہو؟”
وہ مظلومیت سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
“تم اور معصوم۔۔۔ دور دور تک کوئی رشتہ نہیں۔ اچھا یہ بتاؤ تم نے کوئی نام سوچا ہے؟”
وہ پرجوش انداز میں بولی۔
“ہاں بلکل۔۔۔ جیل میں رہ کر نام ہی سوچتا رہا میں۔”
وہ قہقہ لگاتا ہوا بولا۔
“میں نے کہا تھا ہم اس سب کے متعلق کوئی بات نہیں کریں گے۔۔۔ ”
وہ اس کے منتشر بالوں کو سمیٹنے لگی۔
“اچھا چلو ہم نام کی بات کر رہے تھے ہیں نہ؟”
وہ آنکھیں سکیڑتا ہوا بولا۔
“بلکل۔۔۔ ”
وہ اثبات میں سر ہلاتی تائیدی انداز میں بولی۔
“ولی حیات۔۔۔ ”
وائز کی آنکھیں چمکنے لگیں تھیں۔
“بہت اچھا ہے۔۔ اور تمہارے نام سے بھی مل رہا ہے۔”
وہ کھل کر مسکرائی۔
“نام رکھنے کی اجازت میں تمہیں نہیں دے سکتا جب دوبارہ یہ موقع آےُ تب تم اپنی خواہش پوری کر لینا۔۔۔ ”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“میں نے کب لڑائی کی تم سے اس بات پر؟”
وہ خفگی سے اس کے بال بکھیرتی ہوئی بولی۔
سیاہ بال روشن پیشانی پر منتشر ہو گئے۔
“ہاہاہاہا۔۔۔ میں نے سوچا اس سے پہلے تم ایسا کچھ سوچو میں تمہیں آگاہ کر دوں۔”
وہ دلچسپی سے زرش کو دیکھ رہا تھا جو ابھی تک اس کے بالوں کے ساتھ الجھی ہوئی تھی۔
“یہ لمحے کتنے خوبصورت ہیں نہ؟”
وہ اپنے خیالوں میں مگن تھی۔
“بہت انتظار کیا ہے ان لمحوں کا میں نے۔۔۔ ”
وہ اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتا ہوا بولا۔
“جانتی ہوں۔۔۔ ”
وہ مسکرا کر کہتی دروازے کی جانب دیکھنے لگی۔
“چلو تم اب آرام کرو۔۔۔ ”
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
” ہاں بول؟”
وہ فون کان سے لگاےُ کمرے سے باہر نکل گیا۔
“تھینک یو وائز۔۔۔ ”
وہ دروازے کو دیکھتی مسکرانے لگی۔
وہ پرسکون سی کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی۔
~~~~~~~~
“کہاں جانا ہے؟”
وہ گاڑی میں بیٹھتی ہوئی بولی۔
“ریسپشن کے لئے ڈریس لینا ہے تمہارا۔۔۔ امی فآرٹ نہیں تھیں تو مجھے آنا پڑا۔”
وہ گاڑی سٹارٹ کرتا ہوا بولا۔
حیا گردن اٹھاےُ اس مال کو دیکھنے لگی۔
وہاں برانڈ کے کپڑے تھے۔
اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔
“یہاں سے لیں گے؟”
وہ ہچکچاتی ہوئی بولی۔
احسن جو اپنی رو میں چل رہا تھا آواز پر رک کر اسے دیکھنے لگا۔
“کیوں کوئی مسئلہ ہے؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“نہیں۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں۔”
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
“ہممم چلو۔۔۔ ”
وہ اشارہ کرتا تیز قدم اٹھانے لگا۔
“ہاں یاسر بولو۔۔۔ ”
وہ فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا۔
“یار۔۔۔ وائز نے کہا تھا ان سب سے دور رہنا۔ ویسے بھی انہیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے اب ان چیزوں سے۔”
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔
حیا اس کے عقب میں چلتی جا رہی تھی۔
“تم دیکھو۔۔۔۔ پسند کرو میں آتا ہوں۔”
وہ اسے اشارہ کرتا ایک طرف چل دیا۔
وہ لب کاٹتی سامنے موجود ڈریسز کو دیکھنے لگی۔
ایسی جگہ پر وہ پہلی بار آئی تھی۔
“یس میم۔۔۔ برائیڈل ڈریس لینا ہے آپ کو؟”
لڑکا اس کے پاس آتا ہوا بولا۔
“جی۔۔ ریسپشن کے لیے۔”
وہ احسن کو ڈھونڈتی ہوئی بولی۔
“پھر ایسا کریں گے رات میں فارم ہاؤس چلے گے۔۔۔۔نہیں یار پینا نہیں ہے بس اڑا لیں گے۔”
وہ بولتا ہوا ٹہل رہا تھا۔
نور متحیر سی اسے دیکھ رہی تھی۔
“میں ابھی آتی ہوں۔۔۔ ”
وہ حمزہ کو کہتی ہوئی اس کی جانب چلنے لگی۔
“ہاں اسے بھی بلا لینا لیکن اویس کو مت بلانا یار وہ۔۔۔ میں بعد میں بات کرتا ہوں۔”
وہ نور کو اپنے عین مقابل کھڑے دیکھ کر فون بند کرنے لگا۔
“بولو؟”
وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا بولا۔
“تو تم نے نکاح کر لیا؟”
وہ زخمی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
“تمہارا تو نکاح کب سے ہوا ہے۔۔۔ رائٹ؟”
وہ آنکھیں سکیڑتا ہوا بولا۔
“رائٹ۔۔۔ تو کیا نام ہے۔۔ ہاں حیا۔۔۔ محبت نور سے، منگنی سدرہ سے اور نکاح حیا اب یہ بتا دو رخصتی کس کی کرواؤ گے؟”
وہ محظوظ انداز میں بولی۔
“سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ اور یاد ہے تم نے آخری بار مجھے کیا کہا تھا کال پر؟ کہ کسی کو تکلیف دے کر تم خوش نہیں رہ سکتے۔۔۔ تو میں نے تمہیں جو تکلیف دی اس کے بدلے حیا کو تکلیف سے نکال لیا۔ یہ اس کا ازالہ ہے۔۔۔ ”
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
وہ نفی میں سر ہلاتی اسے دیکھنے لگی۔
“اور کتنی زندگیاں برباد کرو گے؟ ویسے میں بہت خوش ہوں حمزہ کے ساتھ خدا کے واسطے اب حیا کو خوش رکھنا۔۔۔”
وہ تاسف بھری نگاہ ڈالتی ہوئی بولی۔
“ہاں نکاح کیا ہے تو خوش ہی رکھوں گا۔۔۔ تم خوش ہو نہ بس میں بھی خوش ہوں۔”
وہ زخمی سا مسکرایا۔
“احسن تم نے ہم دونوں کو سزا دی ہے۔۔۔ لیکن اب یہ سزا صرف تمہارے لئے ہے کیونکہ حمزہ ایک بہترین انسان ہے اور میں بہت خوش ہوں اس کے ساتھ۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی مڑ گئی۔
وہ سانس خارج کرتا اسے جاتا دیکھنے لگا۔
“کوئی پسند آیا؟”
وہ مسکراتا ہوا حیا کے پاس آیا۔
“نہیں مجھے سمجھ نہیں آ رہی اور یہ تو بہت۔۔۔ ”
“آؤ میں تمہاری مدد کرتا ہوں۔۔۔ ”
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا۔
وہ چہرہ موڑے اسے دیکھنے لگی۔
“یہ کلر اچھا لگے گا تم پر۔۔۔ ”
وہ حیا کو دیکھتا ہوا بولا۔
“اچھا ہے۔۔۔ ”
وہ مدھم سا مسکرائی۔
“اب کہاں جانا ہے؟”
وہ گاڑی کی جانب چل رہے تھے۔
“بھوک لگی ہے کہیں کھانے کے لیے چلتے ہیں۔۔۔ ”
وہ دروازہ کھولتا ہوا بولا۔
“دیر نہیں ہو جاےُ گی۔۔۔ ”
وہ لب کاٹتی اسے دیکھنے لگی۔
“فکر مت کرو۔۔۔تم اپنے شوہر کے ساتھ ہو۔”
وہ بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔
“ہممم ٹھیک ہے۔۔۔ ”
وہ ہلکی پھلکی سی ہو گئی۔
~~~~~~~~
“جینی تم کیوں وائز کے ساتھ الجھ رہی ہو؟”
فیڈی جھنجھلا کر بولا۔
“میں الجھ رہی ہوں یا وہ؟ وہ اس فضول سی لڑکی کی وجہ سے مجھے اگنور کر رہا میری انسلٹ کر رہا۔۔۔ ”
وہ تلملا اٹھی۔
“تم اس حقیقت کو قبول کیوں نہیں کر لیتی؟ زرش اس کی بیوی ہے اور وہ اسے اپنی بیوی مانتا ہے اس لئے یہ سب برداشت نہیں کرے گا۔”
وہ نفی میں سر ہلاتا سیگرٹ کا کش لینے لگا۔
“ہوں۔۔۔ بیوی۔۔۔ مجھ میں کیا کمی تھی جو اس کو بیوی بنا لیا؟”
وہ ہنکار بھرتی گلاس اٹھا کر دیکھنے لگی۔
جینی کے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا۔
“یار اس کی مرضی ہم کون ہوتے ہیں اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے والے۔۔۔ ”
وہ کوفت سے بولا۔
“فائن۔۔۔ اب میں اس وائز کی شکل بھی نہیں دیکھوں گی۔۔۔ اس نے جو گھر آ کر اس دن کیا اٹ واز ٹو مچ (وہ بہت زیادہ تھا)”
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
“تو تم کیوں شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال رہی ہو؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“اب نہیں کر رہی میں کچھ بھی۔۔۔ بھاڑ میں جاےُ ویسے بھی مجھے شیراز خان کی طرف سے ڈیٹ کی آفر ملی ہے۔”
وہ شانے سے بال ہٹاتی ہوئی بولی۔
فیڈی تشکرانہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
~~~~~~~~
“وائز ہم رات میں واپس آ جائیں گے یا حویلی میں رکیں گے؟”
وہ اس کے کمرے میں آتی ہوئی بولی۔
وہ جو ٹائی کے ساتھ الجھ رہا تھا اس کی آواز پر چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
ریڈ کلر کا کامدار سوٹ پہنے، مہارت سے کیے گئے میک اپ نے اسے بدل کر رکھ دیا تھا۔
جھکتی اٹھتی گھنی پلکیں، سرخ لپ اسٹک سے پوشیدہ ہونٹ۔۔۔
وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگا۔
“کیا ہوا؟ اچھی نہیں لگ رہی؟”
وہ اس کے اس انداز پر پریشان ہو گئی۔
“اتنی پیاری تو تم شادی والے دن بھی نہیں لگ رہی تھی۔۔۔”
وہ اسے بازوؤں سے پکڑتا ہوا بولا۔
زرش مسکراتی ہوئی چہرہ جھکا گئی۔
“تب خوش نہیں تھی اور اب خوش ہوں نہ اس لئے۔۔۔ ”
وہ آنکھیں اٹھاتی اسے دیکھنے لگی۔
“ہاں بلکل۔۔۔ اور ایسے معلوم ہو رہا ہے تمہارے چہرے پر نور ہے شاید ہمارے بےبی کے باعث۔”
وہ اس سے دور ہوتا شیشے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
“امی بھی یہی کہتی ہیں۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
“وائز تم سلون نہیں گئے؟”
وہ اس کے بےترتیب سے بال دیکھتی ہششدر سی بولی۔
“جی نہیں۔۔۔ ”
وہ زور دے کر بولا۔
“کیوں؟ بال دیکھیں اپنے۔۔۔ ”
وہ خفگی سے بولی۔
“مجھے ایسے ہی اچھے لگ رہے ہیں بڑے بڑے۔۔۔ ”
وہ بالوں میں برش پھیرتا ہوا بولا۔
وائٹ شرٹ ساتھ گرے واسکٹ اور اس پر گرے کوٹ پہنے وہ ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔
اس کی شیو آج بھی بڑھی ہوئی تھی۔ جو اس کی شخصیت کا آئینہ دار تھی۔
صاف رنگت پر بڑھی ہوئی شیو اور بڑھے ہوۓ بال غضب ڈھا رہے تھے۔
“اوکے میں ریڈی ہوں۔۔۔ ”
وہ سٹڈ لگاتا اس کی جانب گھوما۔
“یہ رہا آپ کا والٹ، چابیاں اور فون۔۔۔ ”
وہ اس کے سامنے کرتی کھڑی ہو گئی۔
“تھینک یو۔۔۔ تم چادر لے لو۔۔ میں تب تک لاک لگا لوں۔”
وہ لائٹ آف کرتا ہوا بولا۔
وہ اپنے کمرے سے چادر اٹھانے چلی گئی۔
“کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟”
وہ سیٹ بیلٹ باندھتا ہوا بولا۔
“نہیں اب چلو دیر ہو جاےُ گی ہمیں۔۔۔ ”
وہ فون اٹھا کر ٹائم دیکھتی ہوئی بولی۔
“خاص مہمان دیر سے ہی آتے ہیں۔۔۔ ”
وہ مسکرا کر کہتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔
وہ پرسکون سی شیشے سے پار دیکھنے لگی۔
گاڑی تیزی سے سڑکوں پر بھاگتی جا رہی تھی۔
حویلی کو خوب سجایا گیا تھا۔
وائز کے ریسپشن کی مانند احسن کا ریسپشن بھی گارڈن میں ہی کیا گیا۔
وہ دونوں گیٹ عبور کرتے اندر داخل ہوۓ۔
“دیکھو ہم سب سے لیٹ ہیں۔۔۔ ”
وہ لوگوں کی گہما گہمی کو دیکھتی ہوئی بولی۔
“تو کیا ہوا؟ تم کیوں ٹینشن لیتی ہو۔۔۔ تم وائز رضی حیات کی بیوی ہو اس لئے ہر فکر سے آزاد ہو جاؤ۔”
وہ اس کا ہاتھ پکڑے چلنے لگا۔
چہرے پر مسکراہٹ سجاےُ وہ لوگوں کے سلام کا جواب سر کو خم دے کر دے رہا تھا۔
ایک عجیب سا غرور چھلکتا تھا اس کی چال سے۔۔۔ شاید وہ عادی تھا۔
“میری بچی کیسی ہو؟ اتنی دیر لگا دی میں کب سے راہ تک رہی ہو۔۔ ”
گل ناز زرش کو گلے لگاتی ہوئی بولی۔
“گھر کا فنکشن پھر کیا مسئلہ؟”
وہ آبرو چکا کر بولا۔
“اچھا اچھا۔۔۔ تمہارے آگے بھلا کس کی چل سکتی۔ میں زرش کو لے جاتی ہوں مہمانوں سے ملوانا ہے۔”
وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔
“لے جائیں لیکن زرش کچھ کھانا پینا مت اوکے؟”
وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔
“اوکے۔۔۔ ”
وہ مسکرا کر کہتی چل دی۔
شال سے زرش نے خود کو لپیٹ رکھا تھا۔
“آ گئی میڈم۔۔۔ ”
ثوبیہ فیض حیات کے ہمراہ کھڑی تھی۔
“اس حویلی میں رہنا ہے نہ تو یہ بَیر ختم کرو۔۔۔ بھائی صاحب کی طبیعت سے واقف ہو تم وہ عورت کو کچھ نہیں سمجھتے خاص کر تم جیسی گاؤں کی عورتوں کو۔۔”
وہ طنز کر رہے تھے۔
“ہونہہ۔۔۔ سارے زور ہم پر ہی چلتے ہیں یہ شہر والیاں تو لاڈلی بنی گھوم رہی ہیں۔۔۔ میں جب آئی تھی زبان تک نہ کھولنے دیتے تھے مجھے بابا سائیں۔”
وہ ماضی کی باتیں دہرانے لگی۔
“وہ بیچارے ﷲ کو پیارے ہو گئے اب تو ان کی جان بخش دو۔۔۔ اور دعا کیا کرو ﷲ سے کہ وہ ہمیں بھی اولاد سے نواز دے۔۔۔ یہ تمہارے حسد کے باعث ہم آج محروم ہیں اس نعمت سے۔”
وہ ہنکار بھرتے چل دئیے۔
“ہاں سب کچھ میری وجہ سے ہی ہے۔۔۔ ”
وہ منہ بسورتی ہوئی بڑبڑائی۔
سٹیج پر حیا احسن کے پہلو میں بیٹھی تھی۔
سکن کلر کا ڈریس پہنے، مہارت سے کیا گیا لائٹ سا میک اپ، سیاہ بال آگے ڈال رکھے تھے، پیشانی پر بندیا لگاےُ، گھنی پلکوں کو جھکاتی اٹھاتی وہ پری معلوم ہو رہی تھی۔
وہ سر جھکاےُ انگلیاں مڑور رہی تھی۔
“تم ٹھیک ہو؟”
وہ اس کی گھبراہٹ محسوس کرتا ہوا بولا۔
“جی بس ڈر لگ رہا تھا۔”
مدھم سی سرگوشی سنائی دی۔
“ڈرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ”
وہ مسکراتا ہوا سامنے دیکھنے لگا۔
نور مسکراتی ہوئی اپنی امی اور حمزہ کے ہمراہ آ رہی تھی۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر احسن بھی کھل کر مسکرایا۔
“تم خوش ہو۔۔۔ اچھا ہے۔۔۔ ”
وہ اسے دیکھتا خود کلامی کر رہا تھا۔
“کچھ کہا آپ نے؟”
حیا اس کی جانب دیکھتی ہوئی بولی۔
“نہیں کچھ نہیں۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
گل ناز بیگم کی خوشی سنبھالے، سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔
“امی میں بیٹھ جاؤں تھک گئی ہوں؟”
وہ کرسی کی جانب اشارہ کرتی ہوئی بولی۔
“ہاں۔۔ مجھے خیال ہی نہیں رہا بیٹھ جاؤ وائز کو معلوم ہوا تو غصہ کرے گا۔ میں وائز سے کھانے کا پوچھتی ہوں۔”
وہ فکر سے کہتی چل دیں۔
زرش حیا کو دیکھنے لگی۔
چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
“سچ میں حیا اس سب کی حقدار نہیں بلکہ کوئی بھی لڑکی ایسے ظلم کی حقدار نہیں۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
“امی آئیں بیٹھ جائیں۔۔۔ ”
وہ ثریا کو دیکھتی مسکراتی ہوئی بولی۔
وہ حال احوال دریافت کرتی بیٹھ گئی۔
~~~~~~~~
“حیا دیکھو آج میں تمہیں کچھ باتیں سمجھانا چاہتا ہوں اور میں دوبارہ دہراؤں گا نہیں تمہیں سب یاد رکھنا پڑے گا۔۔۔ ”
وہ دروازہ بند کرتا اس کے سامنے آ بیٹھا۔
“جی میں یاد رکھوں گی۔۔۔ ”
وہ جھکے ہوۓ سر کو مزید جھکا کر بولی۔
“میں اپنی کزن نور کو پسند کرتا تھا آج سے نہیں کئی سالوں سے لیکن ہماری شادی نہیں ہو سکی۔۔۔ ایک بات یاد رکھنا ہمارے خاندان کی عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی کو نظر بھر کے دیکھتی بھی نہیں ہے۔ تم میری بیوی ہو تو وفاداری بھی مجھ سے ہی ہونی چائیے۔ میں برداشت نہیں کروں گا کسی اور انسان کو۔۔۔۔ ”
بولتے بولتے چہرے پر سختی بڑھنے لگی۔
“میں سمجھ گئی۔۔۔ ”
وہ آہستہ سے بولی۔
“اگر تم چاہتی ہو کہ ہم ایک خوشحال زندگی بسر کریں تو تمہیں میری مرضی کے مطابق ڈھلنا پڑے گا۔۔۔ ”
وہ الماری کے پاس جاتا کوٹ اتارنے لگا۔
“میں پوری کوشش کروں گی آپ کی ہر توقع پر پوری اتروں۔۔۔ ”
اس کی آواز مزید مدھم ہو گئی۔
وہ رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
“شاید میں کچھ زیادہ ہی تلخ ہو گیا۔۔۔ ”
وہ خود کلامی کرتا اس کے پاس آیا۔
“تم ڈرو مت۔۔۔ میں نے پہلے دن ہی تمہیں یہ سمجھانا مناسب سمجھا۔ تم اگر کچھ کہنا چاہتی ہو تو کہہ سکتی ہو۔۔۔ اگر کوئی ماضی تمہارا؟”
وہ اس کا ہاتھ پکڑتا نرمی سے بولا۔
“نہیں مجھے کچھ نہیں کہنا۔۔ ”
وہ اسے دیکھتی معدوم سا مسکرائی۔
احسن اثبات میں سر ہلاتا مسکرانے لگا۔
~~~~~~~~
“احسن میری بات غور سے سننا۔۔۔ ”
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا حویلی سے باہر نکل آیا۔
“جی بتائیں۔۔۔ ”
وہ اس کے ہمراہ قدم اٹھا رہا تھا۔
“اب تو نے حیا سے شادی کی ہے تو اسے محبت اور عزت سے رکھنا۔۔۔ پہلے ہی اس بیچاری نے کافی بری زندگی دیکھی ہے۔ اور ایک بات یاد رکھنا بیوی وہ تمہاری ہے اس کی عزت کروانا تمہارا فرض ہے۔۔۔
چاچی سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اپنے شوہر ہونے کا فرض نبھانا۔۔۔ وہ سب چھوڑ کر یہاں آئی ہے اس لئے اسے ایک عزت والی زندگی دینا، عورت کے لیے عزت سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے۔۔۔
بہت سے مرد ایسے ہوتے ہیں جنہیں شادی کا تو بہت شوق ہوتا ہے لیکن اپنی بیوی کو تحفظ نہیں دے پاتے۔۔۔تحفظ سے مراد ان کی عزت کروانا، انہیں یہ فیل نہ کروانا کہ یہ ان کا گھر نہیں۔۔۔اور اب سدھر جاؤ تم اس دن۔۔۔”
وہ گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔
“میں نے پی نہیں تھی قسم لے لیں۔۔۔ ”
وہ اس کی بات کا مفہوم سمجھ چکا تھا۔
“جانتا ہوں لیکن پھر بھی جتنا ان گناہوں کے قریب جاؤ گے وہ اتنا تمہیں اپنی جانب کھینچیں گے اور تمہارے دوست میرے دوستوں سے مختلف نہیں ہیں اس لئے خبردار کر رہا ہوں۔ پرسکون زندگی گزارنی ہے تو یہ شراب، کلب، لڑکیاں سب سے دور رہو۔۔۔ یہ سب بربادی کا سامان ہے۔۔۔ ”
وہ دو قدم اس سے آگے بڑھ گیا۔
“آپ کو دیکھ کر تو میں خود کو بدل رہا ہوں۔۔۔ بھائی آپ میری انسپیریشن ہیں۔”
وہ اس کے سینے سے لگتا ہوا بولا۔
وائز اس کی پشت تھپتھپاتا مسکرانے لگا۔
“ہم خود اچھے انسان ہوں گے تو کل کو اپنے بچوں کو بھی اچھا انسان بنائیں گے۔ جانتے ہو مجھے ایک حدیث نے سب سے زیادہ بدلا۔۔۔
“نبی ﷺ نے فرمایا! (رات میرے پاس دو آنے والے آےُ اور مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔) ہم اس سے آگے چلے تو تنور جیسی چیز کے پاس آےُ تو اس میں شور و غوغا اور آوازیں سی پیدا ہو رہی تھیں۔
نبی ﷺ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اس میں جھانکا تو اس میں مرد و عورت بلکل ننگے تھے اور ان کے نیچے سے آگ کے شعلے آتے اور ان شعلوں کے آنے سے وہ شور و غوغا کرتے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: میں نے ان دونوں سے پوچھا یہ لوگ کون ہیں؟۔۔۔۔۔وہ کہنے لگے : وہ جو تنور جیسی چیز میں لوگ تھے وہ سب زنا کرنے والے مرد اور عورتیں تھیں۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 6525 )”
تنور اسے کہتے ہیں جس میں روٹی پکائی جاتی ہے۔
اس دن مجھے خوف محسوس ہوا تھا اور میں نے توبہ کر لی۔۔۔۔ آج بھی یہی کوشش ہوتی ہے ان سب سے دور رہوں۔”
وہ سرد آہ بھرتا ہوا بولا۔
آنکھیں نم تھیں۔ وہ رخ موڑ کر آنکھیں صاف کرنے لگا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...