(Last Updated On: )
حموربی عہد میں عدالتیں تین قسم کی تھیں
١ مذہبی عدالتیں
٢ سرکاری عدالتیں
٣ پنچایتیں
مذہبی عدالتیں
یہ سب سے قدیم تھیں معلوم ہوتا ہیکہ ابتدا میں مذہبی رسوم کے علاوہ تمام عدالتی کاروبار بھی مندر کے ذمہ تھا اور کاہن یا پجاری ہی تمام معاملات کا مذہبی قانون کی رو سے فیصلہ کرتے تھے
امر واقعہ یہ ہیکہ تمام پرانی قوموں میں بادشاہ اور مذہبی پیشوا شخص واحد ہوا کرتا تھا اسلیے جہاں ایک وقت میں وہ پوجا پاٹ اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مہاپجاری اور کاہن اعظم کے فرائض سر انجام دیتا تھا وہیں وہ دوسرے وقت میں اپنی رعایا کے قضیے حل کرنے کے لیے سب سے بڑا قاضی بھی ہوتا تھا
کچھ وقت بعد بادشاہوں نے مذہبی کاموں کے لیے الگ کاہن اور پجاری مقرر کر دیے جو اس شعبے میں اسکا ہاتھ بٹاتے تھے لیکن اصولا” وہ اب بھی کاہن اعظم اور مہاپجاری خود ہی ہوتا تھا
یہی وجہ ہیکہ قانون میں مذہبی رسوم کے باقیات ملتے ہیں مثلا” اسکے آغاز ہی میں بددعا اور جادو ٹونے کا ذکر ہے اور حکم ہیکہ اگر کوئی شخص کسی کے خلاف جادو کرنے کا الزام لگائے تو اس سے اسکا ثبوت طلب کیا جائے کیونکہ یہ بہت خطرناک الزام سمجھا جاتا تھا جسکو اج کا ہتک عزت کیس سمجھا جائے جادوگر سماج میں بہت حقارت اور خوف کی نظر سے دیکھا جاتا تھا الزام لگانے والے کو ثبوت مہیا کرنے کے لیے مقدس دریا فرات میں غوطہ لگانے اور بچ کر نکل انا ہوتا تھا جس سے معلوم چلتا ہیکہ ان لوگوں میں تیرنے کا رواج نہیں تھا
کہیں ممالک میں آگ میں کودنے کا رواج بھی تھا جیسا کہ ہندوستان میں رام چندر جی نے اپنی بیوی سیتا کو اپنی عصمت وعفت ثابت کرنے کے لیے کہا تو انھوں نے آگ میں سے گزر کر اپنی بے گناہی ثابت کی گویا اگنی دیوتا نے انکے باعصمت ہونے کی شہادت دی
زمانہ حال کے نظریات قانون و عدل کی رو سے اس سے زیادہ بے معنی قانون اور وحشیانہ طریقہ انصاف خیال میں نہیں آسکتا لیکن پرانے لوگوں کا یہی عقیدہ تھا کہ دیوتا انسان کی زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے انکے ہاں فریقین اپنے تمام معاملات دیوتاوں کے حضور پیش کرتے جس پر دیوتا کسی نشان یا آواز یا اور طریقے سے اپنا فیصلہ سنا دیتےاس قدیم نظریے کے مطابق کاہن اور ہجاری دیوتا کے نمائندے ہوتے تھے اور لوگوں کا یہ ایمان تھا کہ دیوتا ان سے ہمکلام ہوتا ہے اور انھی کے ذریعے احکامات صادر کرتا ہے
قاضی دیوتا کا نمائندہ مانا جاتا تھا دیوتا نہ غلطی کر سکتے ہیں نہ غلط فیصلہ دے سکتے اس لیے قاضی کافیصلہ آخری ہوتا اور اس کے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ انکے عقیدے کے مطابق قاضی کا فیصلہ دراصل دیوتا کا کیا فیصلہ ہے اور دیوتا اپنا کلام نہیں بدلتے
سرکاری عدالتیں
شروع میں ان عدالتوں کا وجود نہیں تھا یہ بعد میں قائم کی گئیں ان میں ہر قسم کے دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت ہوتی تھی اور یہاں قاضی حکمران وقت کی طرف سے مقرر ہوتا تھا اور اسی کا نمائندہ تسلیم کیا جاتا تھا ان عدالتوں کے قیام کے بعد صرف وہی مقدمات مذہبی عدالتوں میں بھیجے جاتے تھے جہاں قسم اٹھانے یا دیوتا کی طرف کسی اشارے کی ضرورت محسوس ہوتی
ان عدالتوں کے قیام سے محسوس ہوتا ہیکہ مذہبی طبقے کی گرفت نظام حکومت اور عوام ہر کمزور ہو رہی تھی اور لوگ یہ محسوس کرنے لگے کہ زندگی میں ایسے معاملات بھی پیش آسکتے ہیں جنکا فیصلہ دیوتاوں کی طرف رجوع کیے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے
مدعی ان عدالتوں کے سامنے اپنا دعوی’ پیش کرتے کوئی وکیل وغیرہ نہیں ہوتا تھا اس کے بعد قاضی مدعا علیہ اور حسب ضرورت گواہوں کو طلب کرتا کسی مکان یا کھیت یا زمین کے بارے میں دعوی’ ہونے کی صورت میں قاضی موقع کا معائنہ کرنے کا مجاز تھا اگر کوئی گواہ نہ ہوتا اور مدعی یا مدعاعلیہ کے پاس کوئی تحریری شہادت بھی نہ ہوتی تو ان سے قسم لی جاتی تھی اور اسکے بعد قاضی اپنا فیصلہ لکھ دیتا اگر فریقین ایک مرتبہ فیصلے پر اپنی رضامندی کا اظہار کر دیتے تو اسکے بعد اسکی خلاف ورزی قابل تعزیر تھی
تمام قانون میں قید کی سزا کا کہیں ذکر نہیں اور غالبا” قیدخانے تھے بھی نہیں قانون میں صرف ان سزاوں کا ذکر ہے
جرمانہ ، داغ لگانا ، شہر بدر یا ملک بدر ، غلام بنالینا اور موت
ان عدالتوں کے فیصلے عام انسانوں کے فیصلے تھے انکے قاضی کسی دیوتا کے نہیں بلکہ بادشاہ کے نمائندے ہوتے تھے اور وہ بھی عام انسانوں کی طرح غلطی کر سکتے تھے اسلیے اجازت دی گئی کہ ان فیصلوں کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے پہلی اپیل صوبائی عامل یا اسکی عدالت میں کی جاسکتی تھی اور اطمینان نہ ہونے پر معاملہ مرکزی حکومت اور بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا جاتا
حموربی کے خطوط سے معلوم ہوتا ہیکہ وہ ملک میں عدل و انصاف قائم رکھنے کا خاص خیال رکھتا تھا جو شخص بھی چاہتا اپنا قضیہ اس کے سامنے رکھ سکتا تھا اسکی بھی ضرورت نہیں تھی کہ کیس پہلے صوبائی عامل یا اسکی عدالت میں دائر کیا جائے بادشاہ بحد امکان فورا” اسکا فیصلہ کر دیتا تھا اور متعلقہ افسر کو اس پر عمل درامد کی ہدایات بھیج دی جاتی تھیں
پنچایتیں
یہ بھی نہایت قدیم نظام ہے بلکہ عین ممکن ہیکہ یہ مذہبی عدالتوں سے پہلے وجود میں آیا ہو
آج ہمارا نظریہ یہ ہیکہ جب کوِئی شخص کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ کسی فرد واحد کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اسکی یہ حرکت پورے معاشرے یا سماج کے خلاف ہوتی ہے اس لیے اسے گرفتار کیا جاتا ہے اور سزا دی جاتی ہے
یہ بہت قدیم اصول ہے شروع میں آبادی کم تھی ان دنوں میں اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہوتا پوری برادری کا یہ حق تھا کہ وہ بحثیت مجموعی مجرم سے باز پرس کرے چنانچہ مجرم تمام قبیلے کے سامنے پیش کیا جاتا اور وہ غوروغوض کے بعد سزا تجویز کرتے
آبادی بڑھنے کے ساتھ لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اب ہر ایک معاملہ قوم کے سامنے پیش کرنا دشوار تھا اس لیے طے ہایا کہ پوری برادری کی جگہ ان کے قابل اعتماد اور تجربہ کار بوڑھے وقتا” فوقتا” اکھٹے ہو کر فیصلہ کر دیا کریں انکا فیصلہ پوری برادری کا فیصلہ تصور ہو گا
ممکن ہے شروع میں یہ پانچ افراد پر ہی مشتمل ہوئی ہو پانچ کے عدد سے کچھ مذہبی خوش عقیدگی بھی وابستہ ہے
ایک کہاوت بھی ہیکہ جب پانچ آدمی فیصلہ کرنے بیٹھیں تو چھٹا انکا مشیر خدا ہوتا ہے جو انھیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے
اس پنچایت کے اجتماع عام طور پر شہر کی فصیل یا پھاٹک پر ہوتے تھے بلکہ بابل کی پرانی دستاویزات میں پنچایت کا لفظ استمعال نہیں ہوا صرف پھاٹک یا فصیل کا ذکر ہے کہ فلاں شخص فلاں فصیل کے سامنے پیش کیا گیا یا فلاں شخص پھاٹک پر حاضر ہوا جس سے مراد یہ کہ وہ پنچایت کے روبرو حاضر ہوا