حمنہ تیار ہو کر نیچے پہنچی تو وہاں صرف تحمینہ بیگم ناشتہ پر اس کا انتظار کررہی تھی عباد اس کے اٹھنے سے پہلے ہی باہر چلا گیا تھا
“آٹھ گئی آجاؤ میرے ساتھ ناشتہ کرو”انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
پہلا نوالہ کھاتے ہی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے یہ سوچ کر اس کا آج اس گھر میں پہلا دن تھا رسم و رواج کے مطابق تو زوہیب صاحب اور فائزہ بیگم کو اس کے لئے ناشتہ لانا چاہیے تھا
“کیا ہوا حمنہ تم رو رہی ہو بیٹا”انہوں نے فکرمندی سے پوچھا
“بابا مجھ سے کیوں ناراض ہیں اس سب میں میرا کیا قصور؟”حمنہ نے روتے ہوئے کہا
“سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا تم فکر مت کرو مجھے تو شروع سے مہرماہ کے ارادے صحیح نہیں لگتے تھے”انہوں نے غصے سے کہا
“مہرماہ آپی ایسی نہیں ہیں”وہ کہنا چاہتی تھی پر خاموش رہی اسے پتہ تھا تحمینہ پھپھو کو شروع سے ہی مہرماہ کچھ زیادہ پسند نہیں تھی
“بیٹا آرام سے ناشتہ کرلو”انہوں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شاہ زین اور مہرماہ ناشتہ کی ٹیبل پر پہنچنے تو گھر کے سب افراد اپنے ناشتہ کے ساتھ انصاف کرنے میں مصروف تھے
شاہ زین کی آمد سے سب لاعلم تھا لیکن یہ ان کے لئے حیرت کا باعث نہیں تھا کیونکہ شاہ زین اس طرح رات گئے ہی زیادہ تر آتا تھا حیرت کی وجہ شاہ زین کے ساتھ کھڑی مہرماہ تھی
“شاہ زین یہ لڑکی کون ہے؟”حاشم صاحب نے سوالیہ انداز میں پوچھا
“میری بیوی ہے”شاہ زین نے اطمینان سے جواب دیا
سب کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا لیکن شاہ زین مطمئن سا اپنے ناشتہ کے ساتھ انصاف کرنے میں مصروف تھا
“تم کس کا انتظار کررہی ہو بیٹھو”شاہ زین مہرماہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو ابھی تک ڈائینگ ٹیبل کے پاس کھڑی ہوئی تھی
مہرماہ بناء کچھ کہے شاہ زین کی برابر والی نشست پر بیٹھ گئی
“یہ کونسی حرکت ایسے چھپ کر شادی کرنے کی”حاشم صاحب نے غصے سے کہا
“چاچو آپ جانتے ہیں میں کسی کو جواب دینے کا پابند نہیں ہوں اور کس نے کہا میں نے چھپ کر شادی کی ہے؟ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور ہم نے شادی کرلی آپ کو کوئی مسئلہ ہے”شاہ زین نے اپنے مغرور سے انداز میں کہا
“سوسائٹی والوں کو کون فیس کرے گا”انہوں نے آبرو اچکاتے ہوئے کہا
“آپ بتادیں سب کو دو دن بعد میرا ولیمہ ہے جس نے آنا ہو آ جائے”شاہ زین نے ان کی ناراضگی کو بناء کسی خاطر مدارت میں لاتے ہوئے کہا
شاہ زین بظاہر ناشتہ کررہا تھا لیکن اس کی نظریں مہرماہ پر تھی جو کب سے اپنے سامنے رکھی ہوئی خالی پلیٹ کو تک رہی تھی
شاہ زین اٹھ کر کمرے میں چلا گیا مہرماہ بھی اس کے پیچھے چل دی صبا مہرماہ کو شاہ زین کی بیوی کے روپ میں دیکھ کر پیچ و تاب کھاتی رہ گئی
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
بیا دلہن کے روپ میں بےحد حسین لگ رہی تھی
“ضیاء تم ٹائم پر پہنچ جانا”بیا نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا
دروازے پر دستک ہوئی بیا نے جلدی سے فون رکھ دیا
“بیا تم کیا کرنا چاہ رہی ہو”انہوں نے فکرمندی سے پوچھا
بیا نے انہیں ساری بات بتائی
“بیا لیکن_____!!”انہوں نے کچھ کہنا چاہا لیکن بیا نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا
“امی پلیز آپ میرا ساتھ دیں”بیا نے التجائیہ کہا
“مجھے تمہاری خوشی سے بڑھ کر اور کچھ عزیز نہیں ہے”انہوں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
حمنہ اوپر کمرے میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ اس کا موبائل بجنے لگا موبائل پر فائزہ بیگم کا نام جگمگا رہا تھا
“اسلام علیکم امی کیسی ہیں”حمنہ نے کال رسیو کرتے ہوئے کہا
“عباد کہاں ہے اس کا فون نہیں لگ رہا”فائزہ بیگم نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا
“امی کیا ہوا ہے آپ پریشان لگ رہی ہیں؟”حمنہ نے فکرمندی سے پوچھا
“تمہارے بابا کو ہارٹ اٹیک آیا ہے ہم ہاسپٹل میں ہیں تم عباد کے ساتھ جلدی سے آجاؤ”فائزہ بیگم نے روتے ہوئے کہا
حمنہ جلدی سے عباد کو کال کرنے لگی
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
مہرماہ وضو کرکے ظہر کی نماز پڑھنے لگی
نماز مکمل کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں میں بےاختیار آنسو آ گئے
“ﷲ پاک آپ جانتے ہیں نا میں نے کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کیا جس سے میرے بابا کا سر شرم سے جھکے!!!!!!
میں تو ہمیشہ سے ان کا غرور بنا چاہتی تھی!!!!
پھر کیوں آپ نے مجھے ان کے ذلیل اور رسوا ہونے کا سبب بنا دیا کیوں”وہ روتے ہوئے اپنے ﷲ سے محو گفتگو تھی
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ایک بار باتوں باتوں میں شاہ زین نے اسے اپنے اسلام آباد والے گھر کا ایڈریس بتایا تھا عباد صبح ہوتے ہی اسلام آباد کے لئے نکل گیا راستے میں چند لوگوں سے شاہ ولا کا راستہ پوچھتے ہوئے وہ بالآخر شاہ ولا پہنچ گیا
عباد نے اپنی گاڑی شاہ ولا کے آگے روکی ایک نظر شاہ ولا پر ڈال کر وہ جیسے ہی اندر داخل ہونے لگا اس کے موبائل نے مسلسل بجنا شروع کردیا پہلے تو اس نے اگنور کردیا پھر کوئی ضروری کال نا ہو یہ سوچ کر موبائل دیکھا
حمنہ کا نام جگمگا رہا تھا
“ہیلو”عباد نے بےدلی سے کہا
“عباد کہاں ہیں آپ بابا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے میں اور پھپھو ہسپتال جا رہے ہیں آپ بھی پہنچ جائیں”حمنہ نے روتے ہوئے کہا
“آرہا ہوں میں”عباد نے کہا اور فون جیب میں رکھ کر گھر میں داخل ہوا
“مہرماہ !!!!!!!!! مہرماہ”عباد نے گھر میں داخل ہوتے ہی مہرماہ کو پکارنے لگا
“عباد!!! “مہرماہ جو ابھی تک جائے نماز پر بیٹھی تھی عباد کی آواز سنتے ہی دروازے کی طرف لپکی
شاہ زین نے اس کا بازو کھینچ کر اسے اپنی جانب کیا
“کہاں جارہی ہوں؟”شاہ زین نے غصے سے پوچھا
“چھوڑا میرا ہاتھ نیچے عباد آیا ہے مجھے لینے”مہرماہ نے اس کی گرفت سے اپنا بازو آزاد کرنے کی ناکام کوشش کی
“جب تک میں نہیں چاہوں گا تم اس گھر سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکال سکتی”شاہ زین نے اس کے بازو پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا
مہرماہ نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا
“تمہیں عباد سے ملنا ہے”شاہ زین نے اس سے دور ہوتے ہوئے کہا
مہرماہ نے پہلے شاہ زین کو حیرت سے دیکھا پھر اثبات میں سر کو جنبش دی
“جاؤ!!!! “اس نے مطمئن سے انداز میں کہا
“تم عباد سے بھی وہی کہو گی جو میں نے اپنے گھر والوں سے کہا ہے”وہ جانے کے لئے مڑی تھی کہ شاہ زین کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی
“میں تمہاری طرح جھوٹی نہیں ہوں”مہرماہ نے طنزیہ کہا
“جھوٹ تو تمہیں بولنا پڑے گا ورنہ!!!”شاہ زین بولتے بولتے رکا
“ورنہ کیا؟!!!”مہرماہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا
“میں تمہارے سو کولڈ کزن پلس میری وجہ سے نا ہونے والے شوہر کو جان سے مار دوں گا”شاہ زین نے دھمکی دینے والے انداز میں کہا
“تم ایسا نہیں کرو گے نا”مہرماہ نے یقین دہانی چاہی
“میں ایسا ہی کروں گا!!! یہ میرا گھر ہے اور میں جو چاہے وہ کرسکتا ہوں اور مجھے یہاں کوئی روکنے والا بھی نہیں ہے “شاہ زین نے ترکی با ترکی کہا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
“مہرماہ!!! “عباد کی نظر زینے اترتی مہرماہ پر پڑی وہ اس کی جانب بڑھا
“مہرماہ شاہ زین”شاہ زین نے مسکراتے ہوئے کہا اور مہرماہ کے برابر میں آ کر کھڑا ہوگیا
مہرماہ نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا
“تم بکواس بند کرو اپنی”عباد نے غصے سے کہا
“بہنوں کے سسرال آکر تماشے نہیں کرتے”شاہ زین نے چہرے پر دل جلانے والی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا
“مہرماہ تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں آگیا ہوں”عباد نے مہرماہ کو تسلی دینا چاہی
“تم بتاتی کیوں نہیں ہو اسے کہ یہ شادی ہم دونوں کی پسند سے ہوئی ہے”شاہ زین نے مہرماہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
“تم میرے ساتھ چلو”عباد نے شاہ زین کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا
“عباد تم جاؤ یہاں سے میں یہاں بہت خوش ہوں “مہرماہ نے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا
“میں نے تمہیں کہا تھا نہ کہ تم خود بھی کہوگی کہ تم مجھے دھوکہ دے سکتی ہوں میں تمہاری بات پر بھی یقین نہیں کروں گا”عباد نے یاد دہانی کروائی
مہرماہ کی آنکھوں میں ٹہرے آنسو چھلکنے کو بے تاب تھے
“مجھے تم سے کوئی بحث نہیں کرنی جاؤ یہاں سے”مہرماہ نے سختی سے کہا
“مہرماہ میں جانتا ہوں تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو لیکن میں بھی تمہیں اس قید سے رہائی حاصل کروا کے رہوں گا”اس نے سلگتی ہوئی نظر شاہ زین پر ڈالی اور جانے کے لیے مڑا
“مامو ہاسپٹل میں ایڈمیٹ ہیں انہیں ہارٹ اٹیک آیا ہے”عباد اسے دیکھتا ہوا کہہ کر وہاں سے چلا گیا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
مہرماہ کی آنکھوں سے تسلسل کے ساتھ آنسو جاری تھے
باقی سب گھر والے پہلے ہی تماشہ دیکھ کر اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے اور شاہ زین بھی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا
وہ مردہ قدم اٹھاتی ہوئی زینے چڑھنے لگی
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر شاہ زین پر پڑی جو موبائل میں مصروف تھا
غصے کی ایک سرد لہر دوڑی وہ غصے سے آگ بگولہ ہوتی ہوئی شاہ زین کے مقابل جا کھڑی ہوئی
“کتنے آرام سے یہاں بیٹھے ہو تم میرے بابا کو ہسپتال پہنچا کر”اس نے شاہ زین کا موبائل چھینتے ہوئے غصے سے کہا
“برے لوگوں کے ساتھ برا ہی ہوتا ہے”شاہ زین نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے اطمینان سے کہا
“مسٹر شاہ زین!!! اگر میرے بابا کو کچھ ہوا نا تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی”مہرماہ نے انگلی دیکھتے ہوئے وارن کیا
“تم کر بھی کیا سکتی ہو”شاہ زین نے قہقہہ لگایا
“جاؤ حالت اپنے باپ کے لئے دعا کرو یہ نا ہو تم مجھ سے بحث کرنے میں مصروف رہو ادھر تمہارا باپ اوپر پہنچ جائے”شاہ زین نے ہنستے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
“ﷲ پاک آپ تو رحم کرنے والے ہیں ہم پر بھی رحم کریں!!!
میرے بابا کو زندگی بخش دیں!!!
ﷲ پاک پلیــــز پلیز پلیز میرے بابا کو کچھ نا ہو!!!
آپ چاہیں تو پتھر میں بھی جان ڈال دیتے ہیں میرے بابا میں جان ڈال دیں!!!
انہیں لمبی اور تندرستی و صحتیابی والی زندگی عطا فرمائے!!!
وہ روتے ہوئے اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر اپنے باپ کی زندگی کے لیے دعا گو تھی
•••••••••••••••••••••••••••••••••••
سب مہمان آ چکے تھے بیا پریشانی کے عالم میں ٹہل رہی تھی اس نے ضیاء کو کال ملائی دو بار بیل جانے کے بعد کال رسیو ہو گئی
“ہیلو آپ کون”فون میں سے کسی لڑکی کی آواز ابھری
“ضیاء گھر پر ہیں”بیا نے پوچھا
“ابھی ابھی نکلے ہیں گھر سے”لڑکی نے جواب دیا
“آپ کون؟”بیا بےاختیار پوچھ بیٹھی
“میں ضیاء کی بیوی”بیا کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر زمین بوس ہوگیا تھا
پیروں تلے زمین سرک گئی تھی
کچھ ہی دیر میں پورے گھر میں شور مچ گیا تھا کہ بارات نے آنے سے انکار کردیا
آس کی آنکھوں کے سامنے شیزی کا چہرہ لہرایا اپنے لیے اس کی آنکھوں میں محبت اور کرب دیکھ کر بیا نے زور سے آنکھیں میچ لی
وہ خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی اس کا انتخاب ایک ایسا شخص تھا جو محض شروع سے اسے دھوکہ دے رہا تھا وہ کسی اور سے کیا نظریں ملاتی
آس نے پرفیوم کی بوتل زور سے آئینے پر ماری تھی
پورے کمرے کانچ بکھر گئے تھے
آس کے دل کا حال بھی ان کانچ کے ٹکڑوں جیسا تھا
اس کا دل بھی اس طرح ہی ہزاروں ٹکڑوں میں ٹوٹ گیا تھا
اچانک سے دروازے پر دستک ہونے لگی لیکن وہ سب کو نظرانداز کئے ہوئے تھی
آس مے کانچ ایک ٹکڑا اٹھایا اور اپنی کلائی پر پھیر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے ہاتھ کی کلائی بھی کاٹ دی
••••••••••••••••••••••••••••••••••••
“ﷲ بیڑا غرق کرے مہرماہ کا منحوس کھاگئی میرے بھائی کو”تحمینہ بیگم نے روتے ہوئے کہا
“آپا ایسے تو مت کہیں”فائزہ بیگم کا دل کانپ کر رہ گیا
وہ سب اس وقت ہسپتال کے کوریڈور میں بیٹھے ہوئے تھے حمنہ وہی ٹہل رہی تھی اور روتے ہوئے اپنے ﷲ سے اپنے باپ کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی!!!
فائزہ بیگم کا رو رو کر برا حال تھا
اور تحمینہ بیگم مہرماہ پر طنز کرنے میں مصروف تھی
“ہزار بار سمجھایا تھا مہرماہ کو اتنی ڈھیل مت دو!!!
لیکن میری سنتا ہی کون ہے!!!
اب انجام بھگتو!!!
پورے خاندان کے سامنے بےعزت کروا دیا!!!
بھائی صاحب کو کچھ بھی ہوگیا نا تو میں اس مہرماہ کو زندہ نہیں چھوڑوں گی!!! ” انہوں نے غصے سے کہا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...