حمنہ جوس پی رہی تھی جب مہرماہ شاپنگ سے واپس آئی
“میں آگئی!”مہرماہ خوشی سے بھاگتی ہوئی لاؤنچ میں آئی تو سامنے کھڑی حمنہ سے ٹکرا گئی حمنہ کے ہاتھ میں موجود جوس کا گلاس اس کے اوپر گر گیا
“آپی_______!! “حمنہ نے خفگی سے کہا
“ایک اس لڑکی کو چین نہیں ہے کوئی کام ڈھنک سے نہیں کرسکتی”فائزہ بیگم نے مہرماہ کو دیکھتے ہوئے غصے سے کہا
مہرماہ نے ان کی بات کو خاطرِ مدارت میں نا لاتے ہوئے حمنہ کو دیکھ کر قہقہہ لگایا
“تم سے سمجھدار تو حمنہ ہے! ہر وقت بچوں جیسی حرکتیں کرتی رہتی ہو اور اتنا ہسنا بھی اچھی بات نہیں ہے”فائزہ بیگم نے سمجھاتے ہوئے کہا
“میری پیاری مما زندگی کو جی لینا چاہیے کیا پتہ بعد میں مجھے ہسنے کا موقع ملے نا ملے”مہرماہ نے فائزہ بیگم کے کندھے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا
“ﷲ نا کرے مہرماہ”انہوں نے تڑپ کر کہا
“مذاق کررہی ہوں میں”مہرماہ نے کہا
“ﷲ پاک میری بیٹیوں کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے”فائزہ بیگم نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا
کون جانے اس کا مذاق سچ ہونے والا تھا!!!
کون جانے زندگی اس سے ہنسنے کا موقع چھینے والی تھی!!!
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
تہجد کا وقت تھا حمنہ کی آنکھ الارم کی آواز سے کھلی
فریش ہوکر وضو کیا اور نماز ادا کی
دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے وہ کچھ دیر خاموش رہی
“ﷲ پاک آپ تو دلوں کے حال جانتے ہیں آپ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے!!!
میرے دل کو سکون بخش دیں!!!
جو کبھی میرا نصیب نہیں ہوسکتا اسے میرے دل سے بھی نکال دیں!!!
مجھے لاحاصل خواہش کا طلب گار بنے سے بچائیں!!!
مجھے آپ کی رضا میں راضی ہونے کی توفیق عطا فرمائے!!!
“آمین”اس کا پورا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کئے اور جائے نماز طے کرنے لگی
“حمنہ!!!!”مہرماہ نے اسے پکارا
“جی آپی!!! “مہرماہ کو اس وقت جاگتا دیکھ کر حمنہ کو حیرت ہوئی
“تمہاری طبعیت ٹھیک ہے نا؟”مہرماہ نے اس کے چہرے کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا
“جی!!! کیوں کیا ہوا؟”حمنہ نے ناسمجھی سے کہا
“تم روئی تھی؟”مہرماہ اب بھی مطمئن نہیں ہوئی تھی
“نہیں آپی”حمنہ نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے جھوٹ کہا
“ہممممممم!!!”مہرماہ اس کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ کر کچھ مطمئن ہوئی
“آپ کیوں جاگ رہی ہیں؟”حمنہ نے پوچھا
“آنکھ کھل گئی تھی تمہارے کمرے کی لائٹ آؤں تھی تو تمہیں دیکھنے آگئی!!!
اب جاؤ آرام سے سوجاؤ!!!
ﷲ حافظ!!!
ﷲ حافظ!!!
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
گھر میں ہر طرف افراتفریح مچی ہوئی تھی آج مہرماہ کا نکاح تھا عباد سے
گھر میں ہی چھوٹی سی تقریب رکھی گئی تھی جن میں صرف چند خاص رشتہ دار اور گھروالے موجود تھے
رمشاء نے ڈیپ ریڈ کلر کا لہنگہ زیب تن کیا ہوا تھا ہاتھوں میں سرخ رنگ کی چوڑیوں کے ساتھ گلاب اور چنبیلی کےگجرے پہنے ہوئے تھے برائیڈل میک اپ کے ساتھ ہم رنگ جیولری پہنے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ سجائے وہ نظر لگ جانے تک حیسن لگ رہی تھی جو ایک بار دیکھے نظریں ہٹانا بھول جائے
وہ کمرے میں حمنہ کے ہمراہ بیٹھی ہوئی تھی
نکاح خواہ آنے والے تھے کچھ ہی دیر میں وہ عباد کے نام سے منسوب ہونے والی تھی
وہ بےحد خوش تھی اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا تھا
مہمانوں کی آمد و رفت شروع ہوگئی تھی عباد کو ضروری کام سے اچانک جانا پڑ گیا تھا
اچانک سے باہر لاؤنچ میں میں سے زوہیب صاحب کے غصہ کرنے کی آوازیں آنے لگی
اس نے حیرت سے ساتھ بیٹھی حمنہ کو دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ بابا کو کیا ہوا ہے کس پر غصہ کررہے ہیں
حمنہ نے بےنیازی سے کندھے اچکائے
“حمنہ جاؤ تم دیکھو باہر کیا ہورہا ہے”اس نے فکرمندی سے کہا
حمنہ اثبات میں سر اثبات میں ہلاتی ہوئی باہر چلی گئی
“مہرماہ تمہیں بابا بلا رہے ہیں…………..بہت غصے میں ہیں “حمنہ نے پھولتے ہوئے سانس کے ساتھ کہا
مہرماہ کا دل کانپ گیا تھا آج سے پہلے اس نے کبھی اپنے بابا کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا
“کیوں کیا ہوا؟مہرماہ نے حیرانگی سے پوچھا
“پتہ نہیں باہر کوئی لڑکا آیا ہوا ہے اور آگے مجھے نہیں پتہ بابا نے کہا ہے تمہیں بلا کر لاؤں”حمنہ نے تفصیل بتائی
مہرماہ اپنا لہنگہ سنبھالتی ہوئی ڈرتے دل کے ساتھ لاؤنچ میں آئی
“بابا آپ نے بلایا؟”اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا
“تم اس لڑکے کو جانتی ہو؟”انہوں نے سامنے موجود نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
مہرماہ نے نظریں اٹھائے سامنے موجود شخص کی جانب دیکھا اسے محسوس ہوا آسمان اس کے سر پر آ گرا ہو
“شاہ زین”لب ہلے تھے لیکن آواز نہیں نکلی تھی
“تم سے پوچھ رہا ہوں تم اسے جانتی ہو یا نہیں”اب کی بار انہوں نے غصے سے چیختے ہوئے کہا تھا
مہرماہ کو اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا تھا اس کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھی
اس نے ڈرتے ہوئے سر نفی میں ہلایا تھا
“مہرماہ تم سب کو بتا کیوں نہیں دیتی کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور تم نے ہی مجھے یہاں بلایا ہے”شاہ زین نے بڑی ہی صفائی سے جھوٹ بولا
مہرماہ کا منہ حیرت کے مارے کھلا رہ گیا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کی شادی والے دن اسکے گھر پر کیا کررہا ہے اور سب کے سامنے جھوٹ کیوں بول رہا ہے
“بابا یہ جھوٹ!!!” مہرماہ کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے تھے زوہیب صاحب نے بناء اس کی بات سنے اس کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا
وہ لڑکھڑاتی ہوئی ایک قدم پیچھے ہوئی تھی
بےیقینی کے عالم میں گال پر ہاتھ رکھے زوہیب صاحب کو دیکھ رہی تھی
انہوں نے پہلی بار مہرماہ پر ہاتھ اٹھایا تھا مہرماہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کے رخسار کو بھگورہے تھے
“مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی مہرماہ تم تو میرا مان تھی تم نے میرا مان توڑ دیا !!!! آج سے تم ہم سب کے لئے مرگئی میں سمجھوں گا ہماری صرف ایک ہی بیٹی ہے حمنہ”ان کے لہجے میں رمشاء کے لئے بےپناہ نفرت تھی
“دور کردو اسے میری نظروں سے جب نکاح خواں آئے اسے باہر لے آنا”زوہیب صاحب نے فائزہ بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
بھائی صاحب معاف کیجئے گا لیکن آپ کی اس بدکردار بیٹی کو اپنی بہو نہیں بناؤ گی”تحمینہ نے مہرماہ کا طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
“مہرماہ کا نکاح آج اور ابھی ہی ہوگا لیکن عباد کے ساتھ نہیں اس لڑکے کے ساتھ”انہوں نے حتمی فیصلہ سنایا
“بابا یہ جھوٹ بول رہے ہیں میرا اعتبار کریں”مہرماہ نے اپنی صفائی دینے کی ناکام کوشش کی
“ہاں ہاں یہ ان کے اعتبار کا ہی تو نتیجہ ہے کہ تم نے ہمیں یہ دن دکھایا”تحمینہ بیگم نے طنزیہ لہجے میں کہا
حمنہ مہرماہ کو کمرے میں لے گئی اس کا تو رو رو کر برا حال تھا
“عباد کہاں رہ گئے؟”مہرماہ نے روتے ہوئے حمنہ سے پوچھا
“حمنہ میرا یقین کرو شاہ زین جھوٹ بول رہے ہیں میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے میں نے کبھی عباد کے علاوہ اور کسی کو نہیں چاہا”مہرماہ نے اپنا یقین دلانے کی آخری کوشش کی
“آپی مجھے آپ پر یقین ہے”حمنہ نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
“تم عباد کو کال کرو وہ آکر سب ٹھیک کردیں گے”مہرماہ نے التجائیہ کہا
“میں کرتی ہوں کال آپ پریشان نا ہو”حمنہ نے اسے حوصلہ دیا
“اچھا ہے ہونے دو مہرماہ کی شادی اس لڑکے سے!!!! اس سے مہرماہ عباد کی زندگی سے تو چلی جائے گی”حمنہ جیسے ہی عباد کو کال کرنے لگی اس کے دل نے کہا تھا اور وہ سوچ میں کھو گئی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...