ڈاکٹر نارنگ کے سرقات سے توجہ ہٹانے کے لیے
حملہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
جب سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی ’’تصنیف‘‘ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات کے سرقات سامنے آئے ہیں،ان سے بریت کے لیے نہ تو ڈاکٹر نارنگ نے خود کوئی واضح صفائی دی ہے اور نہ ہی ان کے کسی حامی کو توفیق ملی ہے کہ وہ ان کا دفاع کرتے ہوئے علمی زبان میں اور دلیل کے ساتھ ان کی سرقہ سے بریت ثابت کر سکے۔سرقہ کے شرمناک الزام سے جان چھڑانے کے لیے نارنگ صاحب کے حامیوں نے مختلف النوع الزام تراشیوں کا سہارا لیا،گالی گلوچ سے کام لیااور اس میں اس حد تک چلے گئے کہ اخلاقیات کی ساری حدیں پار کر گئے۔پہلی بار جب نارنگ صاحب نے نہایت ذلیل اور غلیظ قسم کا حملہ کرایا توچند مہینوں کے اندر ہی مئی ۲۰۰۹ء میں عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نمبر کے ذریعے اس کا کافی و شافی علمی ردِ عمل پیش کر دیا گیا۔اس خاص نمبر کو بین الاقوامی شہرت ملی۔اس کے مندرجات کو بڑے پیمانے پر توجہ حاصل ہوئی اور ادباء نے نارنگ صاحب کے سرقوں کو نمایاں طور پر پہچانا اور اس کا برملااظہار کیا ۔
دوسری بار پھر نارنگ صاحب نے ایک ذلیل ترین حملہ کرایا۔اس کے جواب میں میری کتاب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت فوراََ منظرِ عام پر آگئی۔میں نے اپنی اس کتاب کے ابتدائیہ میں بڑی صراحت کے ساتھ لکھا تھا:
’’ہم کبھی بھی کسی ذلیل ترین شخص کی سطح تک نہیں اتریں گے لیکن جب بھی نارنگ صاحب نے ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کیں ،اس کا جواب براہِ راست نارنگ صاحب کو دیا جائے گا۔عکاس کا نارنگ نمبربھی ایسا ہی جواب تھا اور اب میری یہ کتاب بھی ویسا ہی جواب ہے۔میں نارنگ صاحب سے وعدہ کرتا ہوں کہ وہ میرے خلاف یا اس کارِ خیر میں شریک میرے ساتھیوں میں سے کسی کے خلاف، جب بھی کسی ارذل شخص سے غلاظت اچھالنے کی خدمت لیں گے انہیں بالکل اسی طرح خراجِ تحسین پیش کیا جائے گا جیسا عکاس کے نارنگ نمبر کی صورت میں کیا جا چکا ہے اور جیسا اب میری اس کتاب کی صورت میں کیا جارہا ہے۔ہمارے موقف اور ہمارے دلائل میں سچائی کی کتنی طاقت ہے،یہ بات نارنگ صاحب سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔‘‘
اس کے بعد سے نارنگ صاحب کے کسی حامی کی طرف سے پھر کوئی بد زبانی نہیں کی گئی۔ایک خاموشی سی طاری ہوگئی۔چنانچہ میری طرف سے اور میرے قریبی دوستوں کی طرف سے بھی پھر کوئی دفاعی کاروائی کرنے کی نوبت نہیں آئی۔لیکن اب پھر یکایک ایک نہایت گھٹیا ااور بدزبانی سے لبریزمضمون نظام صدیقی صاحب کی طرف سے’’نیا ورق‘‘کے شمارہ ۳۴میں شائع کرایا گیا ہے ۔ میں نے جو چیلنج اور وعدہ کر رکھا تھا اس کے عین مطابق اس مضمون کے جواب میں ارشد خالد صاحب کی مرتب کردہ کتاب اردو ادب کی تاریخ کا سب سے بڑا سرقہ چند مہینوں کے اندر شائع کی جاسکتی ہے۔تاہم ابھی ہم اسی جواب پر اکتفا کرکے یہ بتا رہے ہیں کہ ارشد خالدکی ۲۸۰صفحات پر مشتمل مذکورہ کتاب بھی چھپنے کے لیے تیار ہے۔اگرنارنگ صاحب اپنے سرقات کو چھپانے کے لیے اس قسم کی حرکتیں کرائیں گے تووہ کتاب کسی وقت بھی منظرِ عام پر آسکتی ہے۔ ان کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہم کر رہے ہیں۔اس کا ایک فائدہ ضرور ہوگا کہ اس کے نتیجہ میں جہاں ایک طرف نارنگ صاحب کے سرقات نمایاں ہوتے رہیں گے وہیں ان سرقات سے بریت کے لیے ان کے حامیانِ کرام کی غیر علمی، غیر مدلل اور بے تکی الزام تراشیوں کی اوچھی حرکتیں بھی تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہوتی جائیں گی۔نظام صدیقی صاحب کے اس انتہائی گھٹیا،غیر مدلل اور بد زبانی پر مشتمل مضمون سے اگر نارنگ صاحب کی سرقات کے جرم سے بریت ہو گئی ہے تو انہیں مبارک ہو۔لیکن اگر وہ اپنے سرقہ کی دلدل میں اور دھنستے جا رہے ہیں تواس طرح ہاتھ پیر مارنے کی ان کی حالت قابلِ رحم ہے۔
میں نظام صدیقی صاحب کی بدزبانیوں کے جواب میں تو کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ اس سطح پر اترنے کے لیے ان کی ’’مادری زبان‘‘اور ’’پدری لب و لہجہ‘‘میں بات کرنا پڑے گی۔سو وہ اپنی اس قسم کی تحریروں سے بے شک اپنے ماں باپ کا نام روشن کرتے رہیں،میں ان کا اس سطح کا جواب نہیں دوں گا کیونکہ مجھے شوخیٔ تحریر،برہم تحریر اور بد زبانی کے فرق کا اندازہ ہے۔میں نظام صدیقی صاحب کے اس مضمون کے سلسلہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا،البتہ ان کے موجودہ حملہ کے جلی عنوان ’’اردو ادب میں طالبانیت اور ادبی طالبان ‘‘کے تناظرمیں چند معر و ضا ت ضرور پیش کروں گا۔ان معروضات کا مقصد ایک طرف اپنے مجموعی موقف کو واضح کرنا ہے تو دوسری طرف نارنگ صاحب کے طریقۂ واردات کو نمایاں کرتے ہوئے اصل ادبی اشویعنی سرقاتِ نارنگ پر توجہ مرکوز کرائے رکھنا ہے۔
نارنگ صاحب نے اپنے سرقات سے توجہ ہٹانے کے لیے پہلا عذر یہ تراشہ تھا کہ یہ شمس الرحمن فاروقی کے لوگوں کا کام ہے،یوں اپنے سرقات کو معرکۂ نارنگ و فاروقی کے گہرے رنگ میں دبانے کی کوشش کی۔اس پر میں نے سختی سے نوٹس لیا تھا اور بتایا تھا کہ فاروقی صاحب کا اس علمی مسئلہ کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ پھر اپنی بریت کے لیے نارنگ صاحب کو یہ نسخہ سوجھا کہ اپنے سرقات کے مسئلہ کو مسلمان اردو والوں کے ہندو اردو ادیبوں کے ساتھ تعصب کے الزام سے جوڑ دیا۔یہ دونوں نسخے نارنگ صاحب نے کئی معرکوں میں آزمائے ہیں اور ان کے لیے عمومی طور پر مفید رہے ہیں کہ انہیں کچھ ہمدردیاں مل جاتی ہیں۔لیکن میرے سلسلہ میں یہ دونوں الزام جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے۔میں نے اس نازیبا الزام کا جواب اپنی ذات کے حوالے سے پورے شواہد کے ساتھ دیا کہ میں نے تو جدید ادب کاجوگندر پال نمبر ۱۹۸۵ء میں پاکستان سے شائع کیا تھا جو پاکستان سے کسی زندہ ہندوستانی ادیب پر کسی بھی ادبی رسالہ کا پہلا نمبر تھا۔اسی طرح جب پاکستان میں چراغ حسن حسرت کو اردوماہیا کا بانی قراردیا جا رہا تھا تو میں نے تحقیقی شواہد کے ساتھ نہ صرف ہمت رائے شرما کو اردو ماہیے کا بانی ثابت کیا بلکہ اپنی کتاب’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘بھی شائع کی۔اس کے نتیجہ میں مجھے پاکستان کے علمی سطح پر شکست خوردہ عناصر سے آن ریکارڈ یہ گالی سننا پڑی کہ ماہیا کی یہ بحث کافروں کی سازش ہے۔ جوگندر پال،دیوندر اسر ،پروین کمار اشک اورجگدیش پرکاش جیسے ادیبوں کے فن کی مختلف جہات پر میرے مضامین تبصرے ریکارڈ پر موجود ہیں۔
جب نارنگ صاحب کے یہ دوپرانے اور آزمودہ حربے ناکام ہوگئے تو انہوں نے ایک اور مقبول حربہ اختیار کیا۔کسی زمانے میں وہابی طبقہ کے بارے میں عامتہ المسلمین میں شدید نفرت اس حد تک پائی جاتی تھی کہ مسلمان آبادی والے دیہات میں گنڈا سنگھ کے ساتھ تو کھانا پینا جائز تھا لیکن کسی وہابی کے ہاتھ کا کھاناحرام تھا۔گاؤں کے مولوی صاحب ایک بار گنڈا سنگھ سے کسی باعث ناراض ہوئے تو انہوں نے مسجد میں اعلان کر دیا کہ گنڈا سنگھ وہابی ہو گیا ہے۔اس اعلان کے نتیجہ میں گنڈا سنگھ کا جینا حرام ہو گیا۔اس بے چارے نے مولوی صاحب سے معافی مانگی اور اپنی غلط یا صحیح کوتاہی کی تلافی بھی کر دی۔چنانچہ مولوی صاحب نے دوبارہ اعلان کیا کہ گنڈا سنگھ وہابیت سے تائب ہو گیا ہے اس لیے اب اس کے ساتھ کھانا پینا اور میل جول رکھنا جائز ہے۔کبھی جو نفرت انگیز رویہ وہابیوں کے بارے میں تھا،حالیہ چند دہائیوں میں وہی نفرت انگیز رویہ احمدیوں کے خلاف پروان چڑھا ہے۔نارنگ صاحب کو تو کسی حیلے سے اپنے سرقات کو چھپانا یا ان سے توجہ ہٹاناتھا،سو انہوں نے لگے ہاتھوں اس حربے کو بھی آزما لیا۔سیکولر ہونے کے دعوے کے ساتھ بظاہرفرقہ پرستی کی شدید مخالفت بھی کی جا رہی تھی اور ساتھ ہی مجھے احمدی ہونے کے حوالے سے ایکسپلائٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔(احمدی کے ساتھ بہائی کا تڑکا بھی لگایا جا رہا تھا) میرے ساتھ تو جو ہورہا تھا سو ہو رہا تھا،عمران بھنڈر پر بھی احمدی ہونے کا الزام لگایا جا رہا تھا۔ جب اس تیسرے وار سے بھی میں بچ نکلا تو اب مجھے طالبان میں سے قرار دیا جا رہا ہے اور ادب میں طالبانیت کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ایک سانس میں احمدی اور بہائی کہنا اور دوسرے سانس میں طالبان قرار دے دینا۔الزام تراشی کے اس پورے تسلسل میں بجائے خود ایک لطیفہ ہے۔نارنگ صاحب جس قسم کی الزام تراشی اور رنگ بازی سے کام لے کر سرقہ کے الزام سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں،اس میں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
ویسے میں اب اس سارے منظر نامہ کو ایک نظر دیکھتا ہوں تو واضح ہوتا ہے کہ نارنگ صاحب کو اس حال تک پہنچانے والے ان کے مخالفین نہیں بلکہ ان کے وہ حامیانِ کرام ہیں جو بے تکی حمایت کرکے انہیں مزید خراب کیے جا رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سرقات کا انکشاف کرنے والا عمران بھنڈر صاحب کا مضمون اپنی ابتدائی صورت میں پہلے ماہنامہ’’نیرنگِ خیال‘‘راولپنڈی کے سالنامہ ۲۰۰۶ء میں چھپا تھا۔اس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ مضمون اور مضمون نگار دونوں ہی اس سالنامہ میں دفن ہو کر رہ گئے تھے۔چونکہ سرقات اور جعلسازی کے خلاف میرے خیالات اور کاوشیں ایک عرصہ سے جاری تھیں،چنانچہ جیسے ہی مجھے اس بارے میں کہیں سے بھنک پڑی،میں نے مضمون نگار سے رابطہ کیا، اس مضمون پر نظر ثانی کرائی اور مضمون کو جدید ادب کے شمارہ نمبر ۹،جولائی ۲۰۰۷ء میں شائع کیا۔جدید ادب میں چھپنے کے بعد اس مضمون کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی ۔ یہ معاملہ یہیں پر مکمل ہو جاتا ،اگر نارنگ صاحب کی حمایت میں پہلا بے دلیل جواب نہ لکھا جاتا۔جاوید حیدر جوئیہ صاحب نے نارنگ صاحب کے دفاع میں ایک کمزور سا مضمون لکھا۔میں نے وہ جواب بھی شائع کیا اور بھنڈر صاحب سے اس کا جواب بھی لکھوایا۔اس کے بعد یہ سلسلہ محض اس لیے بڑھتا گیا کہ نارنگ صاحب کے حامی حضرات کسی دلیل کے ساتھ کوئی جواب دینے کی بجائے کمزوراور بے دلیل باتوں سے جواب دے رہے تھے یا سیدھی گالی گلوچ کر رہے تھے۔اسی وجہ سے بات بڑھتی چلی گئی۔
بھنڈر صاحب کے پہلے مضمون میں براہِ راست سرقہ کا الزام نہیں لگایا گیا تھا،نارنگ صاحب کو ترجمہ بلا حوالہ کا ملزم گردانا گیا تھا۔ لیکن جیسے جیسے نارنگ صاحب کے بے دلیل دفاع میں جارحانہ انداز بڑھتا گیا ہماری طرف سے بھی ترجمہ بلا حوالہ کے مہذب الفاظ کو زیادہ کھل کر بلکہ کھول کر سرقہ،چوری اور ڈاکہ قراردیا گیا۔مفہوم سارے الفاظ کا ایک ہی ہے،صرف اندازِ بیان کا فرق ہے۔ہمیں سخت الفاظ میں جواب لکھنے پر مجبور کیا گیا ۔یہ کارِ خیر نارنگ صاحب کے حامیانِ کرام ہی کے کیے دھرے کا نتیجہ ہے۔جہاں تک عمران بھنڈر صاحب کے چھیڑے ہوئے دوسرے مباحث کا تعلق ہے ،میرے ساتھیوں نے اور میں نے اول روز ہی سے انہیں اہمیت نہیں دی تھی۔ میرے نزدیک وہ سب بے کار کی باتیں تھیں۔ مثال کے طور پر جب جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۰میں جاوید حیدر جوئیہ کا نارنگ صاحب کی حمایت میں مضمون شائع کیا گیا تو میں نے اپنے ادارتی نوٹ میں صاف لکھا کہ:
’’جوئیہ صاحب کے مضمون کا مجموعی تاثر میرے نزدیک یہ بنا کہ نارنگ صاحب کی غلطی کا ہلکا سا اقرار کرکے پھر اسے جلدی میں حوالہ نہ دے سکنے اور صفحات کی نمبرنگ نہ دے پانے سے جوڑ کر بے ضرر غلطی بنادیا۔اس کے بعد مضمون کی روح اور اصل کو چھوڑ کر فروعات میں بحث کو الجھا دیا،تاکہ نارنگ صاحب کے بلا حوالہ تراجم سرقہ سے توجہ ہٹ جائے۔جہاں تک دوسرے اشوز کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ میں عمران شاہد کے مقابلہ میں جاوید حیدر جوئیہ سے زیادہ قریب ہوں۔لیکن یہاں ان پر ساری توجہ مرکوز کرنا نفسِ مضمون’’ بلا حوالہ ترجمہ سرقہ‘‘ کی طرف سے توجہ ہٹا کردر حقیقت دوسرے مباحث میں الجھا دینا ہے ۔‘‘
(جدید ادب شمارہ نمبر ۱۰۔جنوری ۲۰۰۸ء صفحہ نمبر ۲۰۶)
اسی طرح ڈاکٹر نذر خلیق نے عکاس کے نارنگ نمبر کے اداریہ میں بھی اس حقیقت کابرملا طور پر اظہار کیا :
’’ یہاں اس امر کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران شاہداپنے مضامین میں گوپی چند نارنگ کے سرقوں کی نشاندہی کے علاوہ جن دوسرے متعلقات میں جاتے ہیں وہاں پر ان کے سرقوں کی نشاندہی کی داد دینے کے باوجود ان سے اختلاف کرنا پڑتا ہے۔جدید ادب (شمارہ نمبر ۱۰صفحہ نمبر ۲۰۶) میں حیدر قریشی نے بھی۔۔۔اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اور یہاں بھی ان تحفظات کا اظہار ضروری ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔اس قسم کے بیانات سے عمران شاہدبھنڈرکے اردو میں مطالعہ کی کمی کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے وہ اپنی نصابی حدود میں جو کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں،اگر وہ ان کا پی ایچ ڈی کا موضوع نہ ہوتا تو وہ اپنے کسی اور سبجیکٹ تک ہی محدود ہوتے۔۔۔۔اردو تنقید و ادب میں مزید کئی مثبت اور روشن مثالیں موجود ہیں۔سب کچھ منفی نہیں ہے۔اسی طرح عمران کے بعض دوسرے مباحث پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔خصوصاََ جہاں ایسی غیر متعلقہ باتوں کی بھرمار ہے جن کا سرقہ کی نشاندہی کے بنیادی مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اور جو ان کے یونیورسٹی نوٹس اور نصابی نوعیت کے مواد پر مبنی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران شاہد اردو تنقید میں اور کوئی کتنااہم کام کر لیں لیکن گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو بے نقاب کرناان کاسب سے اہم کام اور یہی ان کی ادبی شناخت رہے گا۔‘‘
ارشد خالدنے عکاس کے نارنگ نمبر میں نارنگ صاحب کے حامی شمیم طارق صاحب کا ایک مضمون بھی شامل کیا تھا۔اس مضمون میں شمیم طارق صاحب نے بھنڈر صاحب کے بارے میں لکھا تھا:
’’عمران شاہد بھنڈر کو آپ نے دونوں شماروں میں جگہ دی ہے مگر ان کے دونوں مضامین پڑھ کر آنکھوں میں اس بوڑھی عورت کی شبیہ گھوم جاتی ہے جو اپنی گٹھری سنبھالتی ہے تو خود گر جاتی ہے اور خود کو سنبھالتی ہے تو گٹھری گر جاتی ہے۔ موصوف موضوع پر قابو رکھنے کے بجائے موضوع کے سامنے بے قابو ہوگئے ہیں۔ ‘‘(عکاس انٹرنیشنل نارنگ نمبر صفحہ نمبر ۱۰۰)
سرقہ کے مسئلہ پر اپنا واضح موقف قائم رکھنے کے باوجود ارشد خالد نے اس مضمون پر فراخدلی کے ساتھ بھنڈر صاحب کے مقابلہ میں اپنے مخالف کیمپ کے ادیب شمیم طارق سے اتفاق کیااوراپنے نوٹ میں لکھا کہ:
’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کے دفاع میں ابھی تک ان کے کسی بہی خواہ کو علمی کامیابی نہیں ملی۔شمیم طارق کے اس مکتوب نما مضمون میں بھی نارنگ کے سرقوں کا کوئی معقول جواب نہیں دیا گیا۔عمران شاہد بھنڈر کے حوالے سے ابھی تک یہی تاثر بن پایا ہے کہ وہ انگلینڈ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے جانے سے پہلے پاکستان میں اپنے موضوع مابعد جدیدیت پراردو میں لکھا ہواجو کچھ پڑھ کر گئے تھے،وہ ان کے کام آگیا ہے۔اصل کتابوں تک رسائی کے بعد انہوں نے بجا طور پر ایک اچھے طالب علم کی طرح ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو نشان زد کر دیا ہے۔ علمی و ادبی طور پر ابھی یہی خاص کام ہی ان کی پہچان ہے۔اس مضمون میں علامہ اقبال پرعمر ان شاہد کے نامناسب اعتراضات کے جواب میں شمیم طارق نے بجا طور پر گرفت کی ہے۔میں اس معاملہ میں شمیم طارق سے لفظ بلفظ متفق ہوں،لیکن نارنگ کے سرقوں کی جو نشاندہی عمران شاہد بھنڈرنے کی ہے وہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔اس حقیقت سے انکارکرنا بے جاضد ہے۔
ارشد خالد‘‘ (عکاس انٹرنیشنل نارنگ نمبر صفحہ نمبر ۹۹)
عمران بھنڈرصاحب بنیادی طور پر مارکسی فلسفہ کے زیر اثر مارکسی تنقید لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہر انسان کو اچھے پیرائے میں اپنے افکار کے اظہار کا حق حاصل ہے۔تاہم عمران بھنڈرصاحب سرقات سے ہٹ کرجب دوسرے موضوعات و معاملات سے الجھتے ہوئے جارحانہ انداز اختیار کر رہے تھے تو انہیں زبانی سمجھانے کے ساتھ میں نے ان کا نام لیے بغیر ان کی مادیت پرست سوچ پر، انہیں کے لیے جدید ادب شمارہ نمبر ۱۱ (جولائی ۲۰۰۸ء)کے اداریہ میں اختصار کے ساتھ لکھاتھا:
’’ادب میں سامنے کی حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت تک رسائی کی تخلیقی کاوش ایک طرح سے صوفیانہ رویہ رہا ہے۔موجود مادی کائنات کے پارٹیکلزکی تہہ میں اس کے عقبی بھید موجود ہیں لیکن تاحال سائنس پارٹیکلز سے کوارکس (کلرز) تک پہنچ کر رُک جاتی ہے اور اس سے آگے اس کے ہونٹوں پر بھی ایک حیرت انگیز مسکراہٹ ہی رہ جاتی ہے۔ ہمارے جو صاحبانِ علم مادی دنیا سے ماورا کسی حقیقت کو مجہولیت سمجھتے ہیں،انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔لیکن یہ ذہن میں رہے کہ ماورائیت کی پرچھائیوں کو مس کرنے کا تجربہ نہ رکھنے والے صاحبانِ علم اپنے علم کی حد کو کائنات کے بھیدوں کی آخری حدنہ سمجھیں۔ ایسے احباب کو ان کے مادی ذہن کے مطابق ہی بتانا مناسب ہے کہ انسانی دماغ کی کار کردگی کو دیکھیں تو اس کا ۱۰فی صد ہی ابھی تک کارکردگی کا مظاہرہ کررہاہے۔اس ۱۰فی صد دماغی کارکردگی نے انسان کو کتنی حیرت انگیز ترقیات کے دور تک پہنچا دیا ہے۔اس سے دماغ کا جو ۹۰فی صد حصہ بظاہر خاموش پڑا ہے،اس کی بے پناہی کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔اچھے تخلیق کاروں کو اس ۹۰فی صد سے کبھی کبھار جو کچھ ملتا ہے،اس کا اندازہ تخلیق کار ہی کر سکتے ہیں۔سو ماورائیت تو ہمارے باہربے پناہ کائنات سے لے کر ایٹم کے اندر اس کے بلڈنگ بلاک کی تلاش تک مسلسل موجود ہے۔اور انسانی دماغ کا ۹۰فی صد خاموش حصہ بجائے خودہمارے اندرماورائیت کی کارفرمائی کا زبردست ثبوت ہے۔
ماورائیت کے نام پر یا صوفیانہ رمزیت کے نام پر اگر بعض لوگ سطحی یا بے معنی تحریریں پیش کر رہے ہیں تو اس نقلی مال کا مطلب بھی یہ نکلتا ہے کہ اصل بھی موجود ہے۔اصل کرنسی ہوتی ہے تو اس کی جعلی کرنسی بنانے والے اپنا کام دکھاتے ہیں۔حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت کی جستجو رکھنے والوں کو ایک طرف تو مذہبی نظریہ سازوں کا معتوب ہونا پڑتا ہے دوسری طرف وہ لوگ بھی ان کے در پَے رہتے ہیں جو بظاہر خود کو مذہبی نظریہ سازی کے استحصالی طرز کا مخالف کہتے ہیں۔لیکن عجیب بات ہے کہ حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت اور زندگی کو اس کے وسیع تر مفہوم میں جاننے کی کوشش کرنے والوں کو دونوں طرف کے لوگوں سے ایک جیسی ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ مذہبی نظریہ سازوں کے مخالف ترقی پسند وں کا رویہ تو بعض اوقات خود مولویانہ طرزِ عمل سے بھی زیادہ مولویانہ ہوجاتا ہے۔امید ہے ہمارے ایسے صاحبانِ علم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گے۔ ‘‘
سو بھنڈر صاحب میرے لیے فکری طور پر کبھی اہمیت کے حامل نہیں رہے۔چونکہ وہ نارنگ صاحب کے سرقوں کی نشان دہی کر رہے تھے،یہی ان کی ادبی اہمیت تھی اور یہی ان کی ادبی اہمیت ہے۔جب دوستانہ طور پر بات ہوتی تھی تو میں نے انہیں بارہا کہا تھا کہ غیر ضروری طوالت سے بچنا چاہیے۔کوزے میں دریا بند کرنے کی توفیق نہ ہو تو کوزے کو دریا بنانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔اس اداریہ کے ذریعے بھی میں نے انہیں عملاَ بتایا تھا کہ بات کو کم از کم الفاظ میں کیسے بیان کیا جا سکتا ہے۔انہیں ابھی تک اندازہ نہیں ہوا کہ ان کے لکھے پانچ سو صفحات میں سے صرف پچاس صفحات کام کے ہوتے ہیں۔اس کا عملی نمونہ میں اپنی کتاب ’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘کے صفحہ ۹۸تا ۱۳۵پر یکجا کرکے پیش کر چکا ہوں۔اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک وہ پی ایچ ڈی نہیں کر سکے،اس پر مخالفین بغلیں بجا رہے ہیں تو یقیناََ ہمیں بھی شرمندگی ہے۔
جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۱کے بعد جدید ادب میں نارنگ صاحب کے سرقات کے تعلق سے مزید کچھ نہیں چھپ رہا تھا۔شمارہ نمبر ۱۲میں ان کے سرقوں کے حوالے سے کوئی مضمون شامل نہیں تھا۔صرف چند خطوط میں رسمی سا ذکر تھالیکن نارنگ صاحب نے غیر ضروری طور پر سنسر شپ نافذ کراکے خود ہی اپنا تماشا لگا لیا۔تب سے جو بات چلی ہے تو ابھی تک رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ جیسے ہی ہنگامہ تھمنے لگتا ہے نارنگ صاحب کا کوئی حامی کوئی پھپھسا اور بے دلیل مضمون لکھ کر یا گالی اور بد زبانی سے لبریز تحریر پیش کرکے پھر نارنگ صاحب کے لیے کسی نارنگ نمبر،یا کسی کتاب کی اشاعت کا موجب بن جاتا ہے۔
میں اپنے بارے میں مخالفین کے سارے جھوٹے سچے الزامات کو سامنے رکھ کر کہتا ہوں کہ آپ مجھے جتنا برا ثابت کرنا چاہتے ہیں میں اس سے بھی زیادہ برا اور گنہگار ہوں۔لیکن میرے تمام تر گناہوں کے باوجود اور عمران بھنڈر صاحب کے بارے میں بیان کردہ مذکورہ بالاکمزوریوں کے باوجود ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی سرقہ کے الزام سے بریت ممکن نہیں ہے۔میں نے بہت برا کیاہے،بہت گنہگار ہوں لیکن میں نے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا،چوری تو نہیں کی ہے
جبکہ نارنگ صاحب نے بہت بڑا علمی ڈاکہ ڈالا ہے،اردو ادب کی تاریخ کی سب سے بڑی چوری کی ہے۔اور ہاں ایک تو میں نارنگ صاحب کی طرح ادبی چور یا ڈاکو نہیں ہوں،دوسرے نہ میں طالبانی ہوں نہ زعفرانی۔میرے نزدیک طالبانی ہوں یا زعفرانی۔۔۔دونوں ہی مذہب کو ،دھرم کوانتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف لے جانے والے لوگ ہیں۔کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خود نارنگ صاحب زعفرانی کیمپ کے پسندیدہ دانشور ہیں اور اس حوالے سے بہت سارے شواہد آن ریکارڈ موجود ہیں۔مذہب کے دو پہلو ہیں،ایک تنظیمی دوسرا روحانی۔میں مذہب کے روحانی پہلو کا قائل ہوں اور میرے نزدیک روحانیت کا سفر کسی بھی مسلک اور مذہب کا بندہ اپنے اخلاس اور نیک نیتی کے ساتھ کرنا چاہے تو اپنے ظرف کے مطابق اس میں کامیاب اور سپھل رہتا ہے کیونکہ یہ سراسر ہربندے اور خداکااپنا معاملہ ہوتا ہے۔جہاں تک مذہب کے تنظیمی پہلو کا تعلق ہے اپنوں سمیت میں ہر مسلک و مذہب کے تنظیمی لوگوں کا ڈر کے مارے احترام کرتا ہوں، اور بچ بچاکر رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہوں۔
نارنگ صاحب کی زعفرانی حلقے سے محبت و یکانگت پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔یار جہاں رہیں خوش رہیں۔ درپیش مسئلہ صرف اور صرف یہ ہے کہ نارنگ صاحب بڑے افسوس ناک سرقہ کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ادب کی تاریخ میں وہ اس معاملہ میں ہمیشہ داغ دار رہیں گے۔ابھی تک ان کی طرف سے ’’عذرِ گناہ بد تر از گناہ ‘‘کے سوا کوئی وضاحت نہیں ہو سکی۔اور ان کا دفاع کرنے والے سارے کے سارے لوگ انہیں سرقہ سے بری کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ادب کی تاریخ ان حامیانِ نارنگ کو اس حوالے سے اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرے گی
اپنے مضمون’’جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲کی کہانی‘‘میں ایک اور زاویے سے یہ تجویز دے چکا ہوں کہ نارنگ صاحب کی کتاب’’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘کو کسی طور انگریزی میں ترجمہ کرکے چھاپا جائے۔اسی حوالے سے اب یہاں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گاجو مجھے بعد میں معلوم ہوئی۔ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ جیتنے والے ادیب کی کتاب کو ہندوستان کی دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے کے ساتھ انگریزی میں بھی ترجمہ کرکے شائع کیا جاتا ہے۔لیکن ۱۹۹۳ء میں نارنگ صاحب کی سرقہ کردہ کتاب’’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ کو ساہتیہ اکیڈمی انعام ملنے سے اب تک۔۔۔ابھی تک اس کتاب کا انگریزی ترجمہ نہیں کرایا گیا؟اس ترجمہ نہ کرانے میں جو حقیقت پنہاں ہے وہ اہلِ نظر کے لیے ناقابلِ فہم نہیں ہے۔
اگر ڈاکٹر نارنگ نے ادب کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا ڈاکہ نہیں مارا تو انہیں چاہیے کہ اپنی مذکورہ کتاب کا انگریزی ترجمہ کروائیں اور شائع کروائیں۔انہیں یہ مفت کی سرکاری سہولت میسر ہے،بلکہ ان کا استحقاق ہے۔اردو کتاب کے پہلے ایڈیشن کے مطابق انگریزی ترجمہ کروائیں اور کتاب کو انگریزی میں چھپوائیں۔اردو دنیا میں حقیقت مزید روشن ہو گی توانگریزی دنیا میں بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل۔اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۱۳۔مارچ ۲۰۱۱ء