حامد: آموں کی خوشبو پھیلی تو جھولا ڈالا۔ بادلوں کی چھاؤں ملی تو چندریا رنگنے کو بیٹھ گئیں
بیگم: اور دھانی چوڑیاں آپ سے منگواؤں گی۔۔ ٹھیک ہے نا بھابھی
صدیقی: ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے
+حامد: گویا میں دکان دکان دھانی چوڑیاں تلاش کروں گا
بیگم: پکوان کا سامان بھی آئے گا۔ ٹھیک ہے نا بھابھی
صدیقی: ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے
حامد: اب سے پہلے تو شاید یہ سوال مجھ سے کبھی نہیں کیا گیا۔
بیگم: ہر سال بہو بیٹیاں اکٹھی ہوتی ہیں، پکوان پکتے ہیں۔ مگر آپ بھول بھول جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے نا بھابھی
صدیقی: ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے
بیگم: اے ہاں تاریخ آج کون سی ہے۔ اٹھائیس یا انتیس
حامد: اٹھائیس انتیس کہتی ہو، ستائیس یاد نہیں۔ میں کہتا ہوں سمجھ لو پہلی ہے اور دلھن آتی ہو گی کڑکڑاتے ہوئے نوٹ لے کر۔
بیگم: میرا بیٹا بھیجتا ہے تو لاتی ہیں۔ ان کا مجھ پر کوئی احسان نہیں۔
حامد: تم کہو تو خط لکھ کر صفدر سے دریافت کروں کہ میاں تم جھولے چندریا دھانی چوڑیاں اور پکوان کے لئے روپے بھیجتے ہو
بیگم: آپ کا خط ادھر سے جائے گا صفدر کا خط ادھر سے آئے گا۔ جب تک تو ہمارے گھر کے پکوان کے بعد بھابھی کے گھر پکوان کی بہار آ رہی ہو گی۔۔۔ ٹھیک ہے نا بھابھی
صدیقی: ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے
حامد: ہر بات کا ایک ہی جواب، ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے۔ اسے کہتے ہیں نند بھاوج کا گٹھ جوڑ
بیگم: جانے کو پر تولے بیٹھی ہیں، اس لئے اچٹتے ہوئے جواب دے رہی ہیں۔ اب دوپٹے کو الگنی پر ڈال دوں۔ بھابھی یہ تولیہ۔۔۔ پہلے الگنی کو صاف کر لوں
صدیقی: میں گرد صاف کئے دیتی ہوں
حامد: تو یہ جو جھولے چندریا دھانی چوڑی اور پکوان کا سلسلہ ہے۔ یہ آپ کے گھر تک بھی پھیلا ہوا ہے۔
صدیقی: چندریا الگنی پر ڈال کر ہی ادھر آتی ہے
حامد: غالباً اسی لئے ہمارے بھائی صاحب کہتے تھے کہ کچھ دنوں بعد خود انھیں کو نہایت آسانی سے الگنی پر ڈالا جا سکے گا۔
بیگم: اجی کوئی بُرا مانے یا بھلا مانے۔ چندریا تو سال کے سال الگنی پر پڑتی رہے گی۔ ٹھیک ہے نا بھابھی
صدیقی: ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے۔
حامد: پھر وہی نپی تلی بات۔ نہ ایک حرف اِدھر نہ ایک حرف اُدھر
بیگم: سہیل چارہ کاٹ رہا ہو گا اور آنکھیں دروازے پر لگی ہوں گی، اماں کے لئے۔
حامد: تو پھر انھیں چلا جانا چاہئیے کہیں ایسا نہ ہو صاحبزادے چارے کا گٹھر سر پر رکھے ہوئے یہیں تشریف لے آئیں
بیگم: اے ہاں اس پگلے سے یہ بھی کچھ بعید نہیں، ٹھیک ہے نا بھابھی
صدیقی: ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے
حامد: اب یہ تکلف کی زنجیر پیروں میں ڈالے بیٹھی ہیں
بیگم: آپ ہی نے باتوں کا جال ایسا پھیلایا ہے کہ وہ اٹھتی ہیں اور اٹھ کے بیٹھ جاتی ہیں۔
حامد: بہر حال اب ان کی مشکل آسان ہو جانی چاہئیے
بیگم: ہائے یہ کیا کہا۔۔۔۔ اونہہ آپ کو تو محاورے بولنے بھی نہیں آتے۔ اچھا بھابھی
صدیقی: جاؤں
بیگم: ہوں۔ (بلند آواز میں) اور وہ سنہری لچکا اپنی چنریا میں ضرور لگانا۔۔ ٹھیک ہے نا بھابھی
صدیقی: دور سے) ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے۔ (جاتی ہے)
حامد: ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے۔ ہاں ہاں بالکل ٹھیک ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے مجھ سے کہتی ہیں ٹھیک کر دوں گی۔
بیگم: سچ کہوں آپ تو اب ہر بات میں فی نکالنے لگے ہیں۔
حامد: اصل بات تمھارے دل میں یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد شاید سٹھیا گیا ہوں
بیگم: اے اللہ نہ کرے جو میں ایسا سوچوں، ساٹھ سال کے ہو چکے ہیں تو کیا ہے
سٹھیائیں آپ کے دشمن۔ چندریا کیسی ہے
حامد: بس ایسی چندریا ہے کہ میں شاعر ہوتا تو شعر لکھنے بیٹھ جاتا
بیگم: آپ نے تو زندگی میں اتنی شاعری بھی نہیں کی جتنی ہمارے چچا جان کر لیتے تھے
حامد: ہوں تمھارے چچا جان کتنی شاعری کر لیتے تھے
بیگم: دلہا کی طرف سے سہرا، دلھن کی طرف سے رخصتی۔ تکیے کا شعر چچا جان سے لے لو، رو مال کا شعر چچا جان سے لے لو۔ بچوں کی تاریخ پیدائش، بڑوں کی تاریخ وفات،
حامد: واقعی بڑے بڑے کام کر گئے ہیں زندگی میں تمھارے چچا جان
بیگم: ہمارے میکے کے جتنے مکان ہیں سب پر چچا جان کے لکھے ہوئے پتھر لگے ہیں۔
حامد: تمھارے چچا جان پتھر لکھتے تھے اسی لئے تو تمھاری بھی ہر بات پتھر کی لکیر ہوتی ہے۔
بیگم: اب آپ پھر ہمیں بنانے لگے
سہیل: (آتا ہے) اماں اماں۔۔ ابا کہتے ہیں شہر سے باہر زمین لے کے جھگی بناؤ
حامد: چارے کے گٹھر میں تمھارا چہرہ چھپا ہوا ہے۔ پہچاننے میں دشواری ہو رہی ہے۔
بیگم؛ اے آواز تو بالکل اپنے سہیل کی سی ہے۔
حامد: قد کی درازی بھی ان کے برابر ہے۔۔ مگر ہم تو چہرے سے آدمی کو پہچاننے کے قائل ہیں
بیگم: اے پیچھے کو نہ ہٹنا وہاں میری چندریا الگنی پر پڑی ہے۔ کبھی تمھارے گٹھر میں لپٹ جائے۔
سہیل؛ سب بول رہے ہیں، اماں نہیں بول رہیں
حامد: (ہنس کر) گٹھر کا چھجا آنکھوں کے آگے ہے۔ ڈرتا ہوں چارے میں کوئی آنکھ پھوڑ ٹڈا نہ ہو۔
سہیل: (ڈر کر) ہو ہو ہو۔۔۔۔ ٹڈا۔۔۔ آنکھ پھوڑ ٹڈا
بیگم: ارے ارے۔۔۔۔ گھاس کمرے میں پھیلا دی
حامد: (ہنستا ہے)
سہیل: دیکھتا ہوں کہیں چھپا تو نہیں بیٹھا
حامد: اسے لپیٹ لو، باندھ لو۔۔۔ وہ در اصل گھاس میں نہیں میری بات میں تھا۔
سہیل: اچھا ابھی لو۔۔۔ مگر اماں کہاں ہیں
بیگم: وہ کہ رہی تھیں تمھارے ہی پاس جا رہی ہوں
سہیل: پھر تو میں بھی جاؤں جلدی سے
حامد: ہاں کہیں پھر ایسا نہ ہو کہ تم اُدھر جاؤ اور وہ اِدھر آ جائیں
سہیل: کوئی ہوتا تو گٹھر کو ہاتھ لگا کے میرے سر پر رکھوا دیتا
حامد: یہاں میرے سوا کون ہے۔ تو کیا یہ خدمت میرے سر پڑے گی
عدیل: (دروازے پر) اخبار والا
حامد: خوب موقع سے آئے۔ آ جاؤ۔ چلے آؤ
عدیل: (آتے ہوئے)یہ کہنے آیا ہوں کہ آپ شام کا اخبار بھی منگایا کریں
حامد: تمھاری بات بھی سنوں گا۔۔ پہلے ان کی مدد کرو
عدیل: اچھا صاحب۔۔۔ ہاں بھئی تو شاباش۔۔ ٹھیک ہے
سہیل: ذرا اس طرف کو
عدیل: یہ لو۔۔۔ اب تو ٹھیک ہے
سہیل: ہاں شاید ٹھیک ہے
عدیل: بس تو کھڑے ہو جاؤ
حامد: ارے ارے۔۔۔ قدم لڑکھڑا گئے، گٹھر نیچے اور چارا پھر کمرے میں بکھر گیا۔۔۔ لاحول ولا۔۔۔
بیگم: بچہ ہے۔۔ بھئی ایک دفعہ پھر ان کی مدد کرو
عدیل: شام کے اخبار کے لئے کیا کہتی ہو بیگم صاحبہ
حامد: اماں پہلے ایک کام سے تو پیچھا چھوٹے۔ یہ کمرہ تو جنگل بنا ہوا ہے، جنگل میں کہیں اخبار جاتے ہیں۔
عدیل: صاحب جنگل ہو یا پہاڑ، دریا ہو یا سمندر، ریگستان ہو یا بیابان پڑھنے والے ہر جگہ اخبار پڑھتے ہیں۔
حامد: یوں کہو کہ جنگل ہو پہاڑ ہو، دریا ہو یا سمندر، ریگستان ہو یا بیابان، تم جہاں آدمی کی خوشبو سونگھتے ہو وہیں اخبار لے کر پہنچ جاتے ہو۔
سہیل: لو پہلوان اب آ جاؤ
حامد: ہاں بھئی ان کی چندیا پر گٹھر سجا دو
عدیل: یہ لو جی
سہیل: اب میں چلا اماں کے پاس
بیگم: اے ٹھہرو ٹھہرو۔۔۔ قدم روکو
سہیل: جی
بیگم: میری چندریا بھی تمھارے گٹھر کے اوپر لہرارہی ہے (ہنسی)
حامد: اوہو ایک عظیم نقصان ہوتے ہوتے رہ گیا۔
بیگم: میرے لئے عظیم نقصان ہی تھا۔ اتنی محنت جو کی ہے رنگنے میں
عدیل: صاحب شام کا اخبار۔۔ اس میں ہم آپ کو اچھی اچھی تصویریں بھی دیں گے۔
حامد: تمھاری اچھی اچھی تصویروں کی مجھے ضرورت نہیں۔ صرف تحریروں سے دل چسپی رکھتا ہوں۔ خبریں، شہ سرخیاں، ادارئیے، مزاحیہ کالم، مضامین، مختلف قسم کے کھیلوں کا حال، ادبی حصہ۔۔۔۔ یہی سب کچھ بہت ہے میرے لئے۔
عدیل: یہ سب کچھ شام کے پرچے میں آپ کو ملے گا
حامد: ارے بھئی صبح کا پرچہ اسی کو پڑھتے پڑھتے شام ہو جاتی ہے۔ میں شام کا پرچہ لے کر کیا کروں گا۔
عدیل: اچھا صاحب میں نے تو ایک قدردان، مہربان سمجھتے ہوئے آپ سے کہا تھا۔
حامد: قدردان، مہربان کے لئے سڑک کے کنارے مجمع لگاؤ۔۔۔ جاؤ
عدیل: اچھا صاحب۔۔ (جاتا ہے)
حامد: تو تمھارا وہ پروگرام اپنی جگہ ہے
بیگم: بہو بیٹیوں کو جمع کر کے پکوان پکانے کو جو کہہ رہی ہوں
حامد: ہاں ہاں وہی
بیگم: اے پکوان کا تو نام ہوتا ہے۔ اصل میں تو ایک زور دار دعوت کرنی ہوتی ہے، ایسی دعوت کہ اگلے سال تک اس کی باتیں ہوتی رہیں۔
سال کے سال یہی ہوتا چلا آیا ہے ایک زمانے سے۔۔ تو اب کیا منہ چھپاکے بیٹھوں گی
حامد: میری خوشی کی بھی انتہا نہ ہو گی اس روز
بیگم: اے سچ کہو۔۔۔۔ نہیں یہ تو ایک طنز کر رہے ہیں
اعجاز: (آتا ہے) وہ نالائق لڑکا تو ادھر نہیں آیا۔
بیگم: آئیے بھائی صاحب
اعجاز: گھر میں تالا ڈال کر کہیں چلا گیا۔
حامد: تشریف رکھئے
اعجاز: ہوں بیٹھنا ہی پڑے گا اس کے انتظار میں
حامد: کیا پئیں گے ٹھنڈا یا گرم۔۔۔ اب تو ہر جگہ یہی دریافت کیا جاتا ہے
اعجاز: میں دیہاتی آدمی سادہ پانی کو پسند کرتا ہوں۔ آدھے لیمو کا رس بھی اس پانی میں ہو تو لگتا ہے جیسے پہنچ گیا اپنے گاؤں کے سرائے پر
حامد: جی تو یہ پانی کا جگ ہے میز پر۔۔۔ اور وہ جگ کے برابر شیشے کا سادہ گلاس ہے۔۔۔ اور اس کے قریب پلیٹ میں لیمو رکھے ہیں، شوق فرمائیے۔
اعجاز: واہ تم تو تیار ہی رکھتے ہو، جی کو بہلانے کا ساز و ساماں
حامد: ذرہ نوازی ہے آپ کی جو ایسا فرماتے ہیں
بیگم: پہلے تو بھابی آئیں۔۔ سہیل کو تلاش کرتی ہوئی۔ جب وہ چلی گئیں تو سہیل آ کے بھابی کی کھوج میں۔۔ جب وہ چلے گئے تو۔۔۔
اعجاز: تو میں آیا اس بے وقوف کی تلاش میں۔۔ یہی نا
بیگم: جی جی ہاں
اعجاز: ڈر یہ ہے کہ اب اگر میں وہاں جاؤں تو کہیں وہ میری تلاش میں یہاں نہ آ جائیں
حامد: اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایک ایسا چکر ہو گا جو کبھی ختم نہ ہو گا
اعجاز: تو پھر کیا کیا جائے تمھارے خیال میں
حامد: آپ خیال نہ فرمائیں تو عرض کروں
اعجاز: برا کیوں مانوں گا کہو کہو
حامد: جب تک پکا ارادہ نہ ہو۔۔ کوئی چکر سے نہیں نکل سکتا
اعجاز: کیا مطلب
حامد: اپنے بیٹے سہیل میاں کو انسانیت کی راہ پر ڈال دو
اعجاز: ہاں ہاں انسانیت کی راہ پر ڈالوں گا اسے۔۔ کیوں نہیں ڈالوں گا۔۔ ارے بھئی میں تو انسانیت کی راہ پر ہوں
حامد: آپ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں
اعجاز: تو بس کان سے پکڑ کر اس راستے پر چلاؤں گا جس راستے پر میں چلتا ہوں
مگر فی الحال وہ ٹیڑھا میڑھا سا راستہ طے کرنا ہے جو یہاں سے میرے گھر تک جاتا ہے
سلام علیکم
حامد: وعلیکم السلام
اعجاز: (جاتے ہوئے) اور بیٹھتا لیکن ذرا جلدی میں ہوں
ڈاکٹر: اوہ پلیز۔۔۔ بڑے صاحب پلیز
اعجاز: اے اماں دیکھتے نہیں میں دو قدم کا ایک قدم بناتا ہوا جا رہا ہوں
حامد: (دور سے) کیا بات ہے ڈاکٹر
ڈاکٹر: (آتے ہوئے) ایک مستقل حادثہ ہے۔ آپ کے دروازے پر کسی کا ٹکرا جانا
حامد: اوہ آج تو آپ کے اسٹیتھو اسکوپ کو نقصان نہیں پہنچا
ڈاکٹر: میرے حصہ کی ہر مصیبت اسٹیتھو اسکوپ سہہ جاتا ہے
حامد: اوہو یہ تو غلیل کی طرح دو شاخہ بنا ہوا ہے۔
ڈاکٹر: ان کا تو شاید ارادہ تھا کہ کمان کی طرح کھینچیں اور تیر کی طرح پھینک دیں مگر اتفاق سے میری گردن درمیان میں تھی۔
(حامد اور ڈاکٹر کی ہنسی)
بیگم: میں سوچ ہی رہی تھی کہ آج ڈاکٹر صاحب کے آنے کا وقت ہے۔ اب تک کیوں نہیں آئے۔
ڈاکٹر: آنے کی کوئی ضرورت تو نہیں تھی۔ احتیاطاً چلا آیا ہوں۔
حامد: ٹھیک ہی کیا آپ نے۔۔ شکریہ آپ کا
ڈاکٹر: نبض۔ ٹمپریچر۔ بلڈ پریشر
نرس: یس سر
حامد: جی جناب بھی کہہ سکتے ہیں
ڈاکٹر: ہاں ہاں اسی طرح کہو
نرس: جی جناب۔ آئیے میڈم
حامد: خاتون۔ محترمہ، بیگم صاحبہ
نرس: آئیے بیگم صاحبہ
بیگم: ہاں بھئی چلو۔۔ اس کمرے میں چلتے ہیں
حامد: اور کیا حالات ہیں ڈاکٹر۔۔ دیکھو جو کچھ میں کہتا تھا وہی ہو رہا ہے نا
ڈاکٹر: کیا کہتے تھے آپ
حامد: پاکستان جس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا، اس منزل کی طرف قدم بہ قدم بڑھنا
ڈاکٹر: جی ہاں، دیکھ تو میں رہا ہوں
حامد: شروع میں یہ ہوا تھا کہ معیشت کے بعض شعبوں کو سود سے پاک کرنے کے اقدامات کئے گئے
ڈاکٹر: جی
حامد: حدود شرع کا قانون نافذ کیا گیا
ڈاکٹر: بے شک
حامد: قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کے لئے شریعت بینچوں کا قیام اور پھر وفاقی عدالت شرعیہ تشکیل دی گئی
ڈاکٹر: جی
حامد: اور اب زکوٰۃ کا نظام نافذ کر دیا گیا
ڈاکٹر: جی
حامد: یہ پاکستان ہی کے لئے نہیں تمام عالم اسلام کے لئے تاریخی اہمیت کا واقعہ ہے۔
ڈاکٹر: اور اب میں اس خیال کو عملی شکل میں دیکھنا چاہوں گا کہ اِدھر اذان ہوئی اور اُدھر ہر شخص جہاں ہے وہیں موذن کی آواز کی سمت روانہ ہو جاتا ہے۔ بات چیت، نوکری، تجارت کاروبار سب کچھ چھوڑ کر اللہ کے حضور سجدہ کرنے لگے۔ دکان، دفتر اسکول کارخانے میں کوئی نہیں۔ تمام مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی۔
حامد: انشاء اللہ یہ صرف خواب نہیں رہے گا۔ اسے آپ عملی صورت میں دیکھ سکیں گے۔
ڈاکٹر: ہاں نرس آ گئیں تم۔۔ چارٹ مجھے دکھاؤ
نرس: یہ ٹمپریچر۔ یہ نبض۔ یہ بلڈ پریشر۔ اور یہ دوائیوں کی فہرست
ڈاکٹر: ہوں۔۔ ٹھیک ہیں۔۔ مبارک ہو اب آپ بالکل ٹھیک ہیں
بیگم: کیا سچ مچ ڈاکٹر صاحب
ڈاکٹر: ہم ڈاکٹر لوگ مریضوں سے سچ ہی بولتے ہیں
بیگم: دوائی
ڈاکٹر: اب کوئی دوا نہیں۔ بس کھانے پینے میں جو پرہیز بتایا گیا ہے اس سے کچھ دنوں جاری رکھیں
حامد: مطلب یہ کہ اگر کچھ تکلیف محسوس کریں تو یہ دیکھئے گا
ڈاکٹر: اول تو انشاء اللہ کوئی تکلیف اب ہو گی نہیں۔ اور خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہو۔ تو میں حاضر ہوں۔ مجھے یاد فرمائیں۔ خدا حافظ
حامد: خدا حافظ
نرس: خدا حافظ
بیگم: اللہ نگہبان
ریحانہ: (آتے ہوئے) السلام علیکم۔ آج تو ڈاکٹر صاحب ہنستے ہوئے جا رہے تھے
بیگم: جیتی رہو
حامد: وہ اس لئے کہ ان کی مریضہ مکمل طور پر صحتیاب ہو گئیں
ریحانہ: سچ امی بڑی ہی خوشی ہوئی یہ سن کر۔ ورنہ میں رہتی وہاں تھی اور دل یہاں پڑا رہتا تھا۔
حامد: ذرا اُس طرف دیکھو
ریحانہ: چندریا۔۔ (ہنسی) اس رنگا ئی کا جواب نہیں
بیگم: عمر گزاری ہے اسی کام میں، پھر کہیں جا کر یہ سلیقہ آیا ہے
ریحانہ: در اصل میں اس وقت اس لئے آئی تھی کہ کل شب برات ہے
بیگم: تمھیں فکر کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جہاں سے بھی اور جس طرح بھی ملی، میں نے اچھی خاصی آتش بازی منگائی ہے اپنے چندا کے لئے۔ نہیں اپنے کشور کے لئے۔
حامد: جب یہ خرافات منگوائی گئی تو کیا میں سو رہا تھا
بیگم: شاید آپ ناراض ہوں۔ اس خیال سے میں نے بریف کیس میں چھپا کے منگائی تھی بشیرن سے۔ یہی سوچ کر ذرا خوش ہو گا، اچھلے کودے گا، کلکاریاں مارے گا۔
حامد: کئی مین ہول ہیں جن کے ڈھکنے غائب ہیں، کسی کو فوراً سے پیشتر بھیجو کہ اس تام جھام کو غرق کر آئے۔
بیگم: اور اگر اس نے گھر آ کر بھولے بھالے منہ سے کہا نانی میری آتش بازی تو میرا تلے کا سانس تلے اور اوپر کا سانس اوپر رہ جائے گا۔
حامد: وہ زمانے بھول جاؤ۔ وہ یہ کچھ نہیں کہے گا۔ میرے ساتھ عبادت میں مشغول رہتا ہے صبح تک۔
ریحانہ: ریاض صاحب کا خیال تھا کہ خاندان کے تمام افراد اگر ایک جگہ جمع ہو جائیں تو کیا ہی اچھا ہو
حامد: کار لائی ہو
ریحانہ: جی
حامد: پھر قباحت کیا ہے۔ سب عزیزوں کے گھر کہتی ہوئی نکل جاؤ
ریحانہ: خبر تو میں سب کو کر دوں اور سب آ بھی جائیں گے۔ مگر پہلے آپ سے اجازت لینی تھی
بیگم: اے بیٹی اب تم بھی اجازت کی بات کرنے لگیں
حامد: اس گھر کے دروازے تمام عزیزوں کے لئے ہر وقت کھُلے ہیں
ریحانہ: ایں یہ کون
حامد: اماں کیا گھاس کھا گئے ہو جو گھاس کا گٹھر سر پر اٹھائے پھر چلے آ رہے ہو
سہیل: ابا بھی باڑے پر نہیں پہنچے، اماں بھی نہیں پہنچیں
بیگم: اے تو کیا یہ بوجھ برابر تمھاری کھوپڑی پر ہے
سہیل: گردن اکڑ رہی ہے
حامد: وہ تو تمھیں تلاش کرنے گھر گئے تھے
سہیل: بہت دیر ہو گئی تو میں نے کہا آپ کے گھر چلوں
ریحانہ: مگر یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے۔ کپڑے پسینے میں شرابور، منہ سے نہیں نکلتی، چہرہ گھاس میں چھپا ہوا۔
سہیل: میں جب آ رہا تھا تو اس طرف سے ایک بکری نے منہ مارا تو گھاس سے میرا آدھا چہرہ چھپ گیا۔ تھوڑا سا دور چلا تو دوسری طرف سے گائے نے منہ مارا تو گھاس سے میرا پورا چہرہ چھپ گیا۔ اٹکل سے یہاں تک آیا ہوں۔
بیگم: تو آج سے تمھارا نام ہے میاں اٹکل بچو۔
(ہنسی)
بیگم: ایک نظر اخبار پر ایک نظر دروازے پر۔۔۔۔ ۔ یہی دیکھ رہی ہوں اتنی دیر سے
حامد: اوہو، میں دیکھ ہی نہیں رہا تھا کہ تم دیکھ رہی ہو، معاف کرنا
بیگم: اس میں مافی تلافی کی کیا بات ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ بات کیا ہے۔
حامد: بات ایسی ہے کہ سوچتا ہوں پہلے سے یہ بات مجھے کیوں نہ سوجھی
بیگم: کچھ کچھ تو میں بھی سمجھ رہی ہوں، مگر تمہاری زبان سے کہلوانا چاہتی ہوں۔
حامد: تم کیا سمجھیں
اعجاز؛ (مکان کے باہر) میں تیرا دشمن ہوں کیا
سہیل: مگر ابا میں تو انھیں جان کے ساتھ رکھوں گا
بیگم: بتا دوں کیا سمجھی
حامد: ہوں
بیگم: دروازے کے لئے نیا پردہ لاؤ گے۔۔۔ مگر میں کہتی ہوں کھڑکیوں کے پردوں کا رنگ بھی اڑ گیا ہے۔
حامد: (ہنستا ہے) خوب سمجھیں، کیا کہنے ہیں آپ کی سمجھ کے
بیگم: سمجھدار تو میں ایسی ہوں کہ پہلے دن سے آج تک اپنی سمجھ ہی سے تمھارے گھر کو چلا رہی ہوں
حامد: پہلے دن سے آج تک گھر کو چلا رہی ہو، اور گھر جہاں تھا اب تک وہیں ہے۔
بیگم: (لہجہ بدل کر) اے تو چلانے کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ گھر میں بھی گھوڑا گاڑی کی طرح پہئے لگے ہیں۔
سہیل: (مکان کے باہر) اپنی چیز اپنے پاس، میں تو بس یہ جانوں ہوں، یہ بات میری کھوپڑی میں بیٹھ گئی ہے۔
اعجاز: تیری عقل سر کے لمبے لمبے بالوں میں چھپ گئی ہے۔۔۔ دکان پہ لے جا کے استرا پھرواؤں گا تیری کھوپڑی کا۔
حامد: شاید بھائی صاحب ہیں کہیں دروازے کے قریب
بیگم: بیٹے کو ڈانٹ ڈپٹ رہے ہیں کسی بات پر
حامد: بڑے ہیں، کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ویسے یہ کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ سڑک پر۔۔۔۔
بیگم: اے گھر ہو یا سڑک، باپ کو اختیار ہے جہاں چاہے بیٹے سے کن پکڑی کروائے (ہنستی ہے)
میں تو کہتی ہوں تم نے بھی مجھ سے چھپ چھپ کر ہزاروں مرتبہ میرے صفدر کو ڈانٹا ہو گا بچپن میں
حامد: (بیزاری سے) یاد نہیں۔۔ اخبار پڑھنے دو
بیگم: یاد نہیں۔۔۔ اے میں کہتی ہوں کیوں یاد نہیں۔ کبھی نہ کبھی تو ضرور غصہ کیا ہو گا
حامد: ہاں میں ہمیشہ پٹائی کرتا رہا ہوں صفدر کی۔
بیگم: (ہنس کر) جب مجھ سے جان چھڑانا چاہتے ہو تو ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہو
حامد: اچھا یہی سمجھ لو ار جان چھوڑو، اخبار پڑھنے دو۔
بیگم: اخبار کی آخری سطر تک ایک ایک حرف پڑھو گے، یوں لگتا ہے جیسے نوکری اسی لئے چھوڑی تھی کہ گھر میں بیٹھ کر اخبار چاٹا کریں گے۔
حامد: اب میں ایک کان سے سنوں گا، ایک کان سے اڑاؤں گا۔
بیگم: اور زندگی بھر تم نے کیا ہی کیا ہے۔ ہمیشہ سنی ان سنی کرتے رہے، اگر شروع سے میری باتوں کو دھیان سے سنا ہوتا تو آج کوٹھی بھی ہوتی اور کار بھی اور دو چار نوکر چاکر بھی
سہیل: مکان کے باہر) نہیں ابا نہیں
اعجاز: (مکان کے باہر) نہیں کو ہاں کیسے بناتے ہیں، اس کی ترکیب مجھے آتی ہے۔
حامد: باہر ہی جھگڑا کئے جاتے ہیں، آخر اندر تشریف کیوں نہیں لاتے۔
بیگم: کوٹھی کار اور نوکر ہوتے یا نہیں
حامد: خدا نے جو کچھ دے رکھا ہے بہت ہے میرے لئے۔۔۔ اوہو تم نے آ کر ایسا باتوں میں لگایا کہ شربت کا گلاس رکھے رکھے گرم ہو گیا۔
بیگم: کوئی بات نہیں، ایک گلاس اور بنائے دیتی ہوں، یہ لو اِدھر شربت کا نام لیا اُدھر وہ آئیں۔۔۔۔ خوب وقت پر آئیں، میں شربت بنانے ہی جا رہی تھی۔۔۔ میرے کشور کا کیا حال ہے۔
ریحانہ: جی امی وہ ٹھیک ہیں، شاید کچھ دیر بعد یہاں آئیں، کیا بوا آج نہیں آئیں
بیگم: آج دو دن ہو گئے، بغیر کچھ کہے سنے غائب ہیں، گھر کا سار کام مجھ پر پڑ گیا ہے۔
ریحانہ: بیمار تو نہیں ہو گئیں
حامد: ارے بھئی وہ دروازے پر غالباً بھائی صاحب
ریحانہ: سہیل سے باتیں کر رہے تھے، میں سلام کر کے اندر چلی آئی
بیگم: سب کے لئے شربت بنا لاؤں
ریحانہ: سنئے
بیگم: (تھوڑی دور) ہوں
ریحانہ: میرے لئے شربت نہ لائیے گا
بیگم: کیوں
ریحانہ: میں آئس کریم کھا کر آئی ہوں
بیگم: تو کیا ہوا، ایک گلاس شربت بھی سہی
ریحانہ: جی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی۔
بیگم: تو بے ضرورت ہی سہی۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ بیٹی آئے اور دو گھونٹ شربت بھی نہی پئے۔
حامد: سوال یہ ہے کہ جب وہ انکار کر رہی ہیں تو کیا ضرورت ہے فضول خرچی کی
بیگم: سن لیا تم نے، آدھے گلاس شربت کو فضول خرچی کہہ رہے ہیں۔
حامد: سو گلاس شربت ہو یا ایک گلاس، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فضول خرچی اپنی جگہ فضول خرچی ہے۔
ریحانہ: امی مجھے ایک کہاوت یاد آ رہی ہے
بیگم: اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مہر۔۔۔ یہی نا
ریحانہ: (ہنس کر) یہ تو آپ نے اپنے مطلب کی کہاوت سنا دی
بیگم: تو بھئی تم بھی اپنے مطلب کی کہاوت سنا کر دل خوش کر لو۔۔ اور کیا
ریحانہ: تم پیسوں کی فکر کرو۔۔۔۔ روپے اپنی فکر آپ کریں گے۔
حامد: بالکل، بالکل۔۔۔ اگرچہ مجھے کہاوتوں وغیرہ سے دل چسپی نہیں ہے مگر اس وقت یہی کہاوت مجھے بھی یاد آ رہی تھی۔
بیگم: تو پھر چھوڑو، ایسا ہی فضول خرچی کا خیال ہے تو تم بھی شربت پی کر کیا کرو گے۔
قیصر نقوی: (آگے ہوئے) مگر میں ضرور شربت پیوں گی، السلام علیکم
بیگم: وعلیکم السلام، آؤ۔۔۔ آ جاؤ، میں تو تمھیں یاد ہی کر رہی تھی۔
قیصر نقوی: آپ نے یاد کیا اور میں۔۔۔
بیگم: اور شربت مانگ کر تو تم نے میرا دل خوش کر دیا، ابھی لائی (جاتی ہے)
ریحانہ: گھر ہی سے آ رہی ہیں ؟
قیصر نقوی: ہوں
ریحانہ: رخشندہ بھابی ٹھیک ہیں
قیصر نقوی: ہاں وہ تو خیریت سے ہیں
ریحانہ: وہ تو خیریت سے ہیں۔۔ کیا مطلب
حامد: بھائی صاحب کو دیکھا دروازے پر ؟
قیصر نقوی: جی نہیں تو
حامد: حیرت ہے، دروازے تک آئے، صاحبزادے سے سوال جواب کئے اور۔۔۔
دودھ والا: (دروازے پر) دودھ
حامد: اوہو دودھ۔۔۔۔ ارے بھئی دودھ کے لئے برتن
بیگم: (دور سے) دودھ میں لئے لیتی ہوں
(مختصر وقفہ)
بیگم: (دروازے پر) آج آدھا سیر زیادہ
حامد: (بلند آواز) آج زیادہ کیوں
بیگم: آنے والوں کی خاطر کے لئے
دودھ والا: بیگم ساب پچھلے مہینے کی بقایا بھی اب کی پہلی کو۔۔۔
بیگم: پہلی دوسری تاریخ میں نہیں جانتی۔۔۔ جب ہمارے پیسے آئیں گے تو تمھیں بھی مل جائیں گے
دودھ والا: پورا حساب کر دیجیو، بیگم ساب
بیگم: اچھا اچھا
(مختصر وقفہ)
بیگم: (آتے ہوئے) لو، میری عقل پر بھی پتھر پڑ گئے ہیں۔ دودھ لئے ہوئے یہاں چلی آئی اور شربت۔۔۔
قیصر نقوی: اب آپ میرے پاس بیٹھئے۔۔۔ میں آئی آپ سے ملنے اور آپ۔۔۔۔
حامد: زیادہ دودھ لے لیتی ہو،۔۔۔۔ اور پھر جب بل آتا ہے تو۔۔۔۔
بیگم ؛ اب یہ تو مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ آنے والے آئیں اور میں خالی خولی باتوں سے تواضع کر کے رخصت کر دوں
ریحانہ: مگر امی وہ گھریلو بجٹ
حامد: تم انھیں گھریلو بجٹ کی باریکیاں سمجھاؤ اور میں کچھ دیر اخبار۔۔۔ سمجھ لو کہ میں یہاں موجود ہی نہیں ہوں
بیگم: لو وہ تو گئے خبروں کی دنیا میں
ریحانہ: آپ نے کہا تھا رخشندہ تو خیریت سے ہیں۔
بیگم: اچھا یہ کہا تھا انھوں نے۔۔
قیصر نقوی: اصل میں۔۔ اب کیا کہوں
بیگم: مجھے ہول آتا ہے۔۔ بولو جلدی بولو۔۔ کیا بات ہے
قیصر نقوی: صبح سے بار بار آئینہ دیکھ رہی ہوں
بیگم: یقین نہیں آتا ہو گا کہ تمھاری ہی صورت ہے۔
قیصر نقوی: جی
بیگم: ہاں ہاں۔۔ عمر بڑھنے لگے تو لگتا ہے، آئینہ جھوٹ بول رہا ہے۔
قیصر نقوی: میں کچھ اور ہی کہہ رہی تھی۔
بیگم: اچھا کہو
قیصر نقوی: ریحانہ کو آنکھیں دکھاؤں گی
بیگم: اے کیوں میری بچی نے کیا قصور کیا ہے جو اسے آنکھیں دکھاؤ گی
قیصر نقوی: یہ بات نہیں۔۔۔ مطلب یہ کہ۔۔۔۔ ریحانہ ذرا میری آنکھیں دیکھو
دودھ والے کی ماں: (آتے ہوئے) ایک کو بازار بھیجا، ایک کو گھر بھیجا، بڑی مشکل سے
بیگم: دروازے سے ہی چہچہاتی چلی آ رہی ہو۔۔۔ کون دونوں
دودھ والے کی ماں: وہی دونوں باپ بیٹے۔۔ گلی کے نکڑ پر۔۔۔ باپ ڈانٹے جا رہے تھے، بیٹا ضد کئے جا رہا تھا۔
قیصر نقوی: بھائی اعجاز کا ذکر ہے شاید
دودھ والے کی ماں: لوگوں کے جھگڑے طے کرانے ہی میں میری تو عمر بیت گئی
بیگم: ہاں جھگڑے طے کرانے میں تو تمھارا جواب نہیں
قیصر نقوی: جھگڑے طے کرانے میں بھی جواب نہیں۔۔۔ اور جھگڑے شروع کرانے میں بھی جواب نہیں
(ہنسی)
دودھ والے کی ماں: ہنسو، جی ہنسو، ہنستے ہی گھر بستے ہیں
بیگم: ذرا اُدھر دیکھنا
ریحانہ: جی امی
بیگم: پھر وہی ایک نظر اخبار پر ایک نظر دروازے پر
ریحانہ: کسی کا انتظار کر رہے ہیں شاید
دودھ والے کی ماں: اے بی بی یہ تمھاری آنکھیں
قیصر نقوی: میری آنکھیں
دودھ والے کی ماں: ہاں ہاں
قیصر نقوی: میں پہلے ہی ریحانہ سے کہہ رہی تھی کہ بھی ذرا میری آنکھیں دیکھنا
اعجاز: (مکان کے باہر) میری بات نہیں مانے گا تو کسی دن سر پکڑ کر روئے گا
سہیل: ابھی سر پکڑ کے رونے کو بیٹھ جاؤں، میرا دل تو یہ کہوے ہے
دودھ والے کی ماں: اے وہی دونوں
بیگم: ہاں وہی ہیں
قیصر نقوی: تم تو کہہ رہی تھیں کہ جھگڑا ختم کرا دیا
دودھ والے کی ماں: پھر جا کے دیکھوں، اب کیا بات ہوئی
(جاتی ہے)
بیگم: اخبار کی آخری سطر پڑھ لیں گے، اس کے بعد ہی خبروں کی دنیا سے لوٹیں گے، دیکھو ریحانہ
ریحانہ: جی
بیگم: میری بات نہیں سن رہے۔۔ اور وہی ایک نظر اخبار پر ایک نظر دروازے پر۔
ریحانہ: میں نے کہا نا کہ کسی کا شدید انتظار ہے
بیگم: (بلند آواز) میں نے کہا میں کچھ کہہ رہی ہوں تم سے
حامد: آں ہاں، کنواں
بیگم: کنواں۔۔۔ کیا کنویں کا انتظار کر رہے ہو
ریحانہ: ڈیڈی تو پھر اخبار پڑھنے لگے
بیگم: کہتے ہیں، آں ہاں کنواں۔۔۔ اب کوئی سمجھے تو کیا سمجھے
قیصر نقوی: کنویں کو کیا ہوا
بیگم: کچھ بھی نہیں، وہ دیکھ لو سامنے آنگن میں۔ جیسا تھا ویسا ہی ہے۔
ریحانہ: ہینڈ پمپ ؟
بیگم: نل بھی ٹھیک ہے۔ جب چاہو پانی بھر لو۔ آس پڑوس کے بچے بھی بالٹیاں بھر بھر کے لے جاتے ہیں، بھی سچ تو یہ ہے کہ اس کنویں سے بڑا ہی آرام ہے۔
حامد: آں ہاں کنواں
بیگم: میں کہتی ہوں، پوری بات کیوں نہیں کہتے
حامد: ایک منٹ۔۔ اوہ بڑی اہم خبر
بیگم: پھر تشریف لے گئے خبروں کی دنیا میں
قیصر نقوی: ہاں تو ریحانہ
ریحانہ: جی
قیصر نقوی: وہ۔۔۔ میری آنکھیں
دودھ والے کی ماں: (آتے ہوئے) میں نے پھر انھیں سمجھا بجھا کے چلتا کر دیا
قیصر نقوی: سمجھانا بجھانا اور لگائی بجھائی کرنا۔۔۔ ایک ہی بات ہے تمھارے لئے
دودھ والے کی ماں: دیکھو بی بی۔۔۔ صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے
ریحانہ: بس بس۔۔ جھگڑا چکانے کی ماہر تو آپ ہیں، آپ کا خدانخواستہ کسی سے جھگڑا ہوا، تو اسے ختم کرانے کو کون آئے گی
قیصر نقوی: ریحانہ
ریحانہ: جی
قیصر نقوی: کیا تم سمجھتی ہو، یہ مجھ سے لڑیں گی۔۔۔۔ تم نے مجھے اور انھیں برابر کر دیا
بیگم: بھئی ہمارے ہاں سب برابر ہیں، نہ کوئی چھوٹا نہ کوئی بڑا
قیصر نقوی: اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر میں چلی
ریحانہ: جا رہی ہیں آپ
قیصر نقوی: ہاں، اب ایک منٹ بھی۔۔۔
ریحانہ: مگر وہ آپ کی آنکھیں ؟
بیگم: ڈاکٹر صاحب
ڈاکٹر: السلام علیکم
حامد: وعلیکم السلام ڈاکٹر۔۔ کرسی
قیصر نقوی: وہ۔۔۔۔ میں
بیگم: جا رہی ہو ؟
قیصر نقوی: جی نہیں، بلکہ۔۔۔۔
حامد: بھئی وہ شربت کا کچھ ذکر تھا۔ اور اب تو اتفاق سے ڈاکٹر صاحب بھی۔۔۔۔
بیگم: ہاں۔۔ ابھی
ڈاکٹر: آپ کے مزاج
حامد: اب تو کوئی شکایت نہیں، سوائے بڑھاپے کے
قیصر نقوی: وہ۔۔۔ میں
دودھ والے کی ماں: اللہ بھلا کرے آپ کا ڈاکٹر ساب۔۔۔۔ میری نبض دیکھ لو
قیصر نقوی: تم ذرا خاموش رہو۔۔۔ پہلے میں۔۔۔
دودھ والے کی ماں: بی بی میں زیادہ بیمار ہوں
قیصر نقوی: دیکھو تم پھر میری برابری کر رہی ہو
دودھ والے کی ماں: برابری کا قصہ تو بیگم ساب پہلے ہی برابر کر گئیں
ڈاکٹر: میں دونوں کو دیکھ لوں گا
قیصر نقوی: مگر پہلے میں۔۔
اعجاز: (تھوڑے فاصلے پر) چلتا کیوں نہیں۔۔۔ میرے ساتھ اندر چل
سہیل: چل تو رہا ہوں
حامد: اوہ بھائی صاحب
اعجاز: اصل میں یہ تمھارا بھتیجا
حامد: میں صبح سے آپ کے انتظار میں تھا
بیگم: میں شربت لے آئی
حامد: جی مجھے آپ کا انتظار تھا
اعجاز: خیریت
حامد: آں ہاں کنواں
بیگم: اتنی دیر سے یہ سبق رٹے جا رہے ہو، آں ہاں کنواں، آں ہاں کنواں
حامد: میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ گلی کی طرف والی دیوار کے ساتھ ایک ٹنکی بنوائی جائے
بیگم: ٹنکی بھر لیا کریں گے
حامد: ہاں
بیگم: اس لئے کہ کسی دن کنویں میں پانی نہ آئے تو ٹنکی کا پانی۔۔۔۔
دودھ والے کی ماں: بیگم ساب، وہ نل ہے کہ کنواں۔۔۔
حامد: میرا کچھ اور ہی خیال ہے بھائی صاحب
اعجاز: کیا خیال ہے
حامد: دیوار کے ساتھ ٹنکی بنوائی جائے، اور کنویں میں لگائیں پانی کھینچنے کی مشین
اعجاز: اچھا
حامد: اور دیوار میں باہر کی طرف تین چار نل لگا دئیے جائیں
اعجاز: بھئی وہ کیوں
حامد: ٹنکی بھری ہو گی، محلے میں جسے ضرورت ہو، بالٹی لائے، پانی بھر لے۔۔۔ ایک ہفتے کے اندر اندر بھائی صاحب۔۔۔۔ یہ انتظام کر لینا ہے
بیگم: اچھا تو یہ وجہ تھی جو ایک نظر اخبار پر اور ایک نظر دروازے پر تھی
قیصر نقوی: ڈاکٹر صاحب میری آنکھیں پیلی ہو رہی ہیں، ذرا دیکھئے
اعجاز: ڈاکٹر صاحب انھیں دیکھیں۔ اور تم اس لڑکے کو دیکھو۔۔ ہاں بھئی اِدھر آ۔۔۔ اِن کے قریب
حامد: کیا بات
اعجاز: کمر سے نوٹوں کی گڈی باندھے پھرتا ہے
سہیل: اس مارے کے کہیں کھو نہ جائیں
اعجاز: اب سمجھاؤ اسے
سہیل: میں نے چھپا کے کمر سے نوٹ باندھے تھے، تم نے سب کو بتا دیا
حامد: بھئی بچا ہوا روپیہ۔۔۔۔ اپنے پاس نہیں رکھنا چاہئیے۔۔ بلکہ
سہیل: میں جاؤں ہوں
اعجاز: جہاں جائے گا۔۔۔ ہر سمجھدار آدمی یہی بات کہے گا
سہیل: مگر میں نے جو کہا۔۔ اپنی چیز اپنے پاس
حامد: بھئی۔۔۔ قوم کے کام آنا چاہئیے بچا یا ہوا روپیہ، مطلب یہ کہ کسی ایسی جگہ روپیہ لگاؤ کہ۔۔۔
اعجاز: اب بھی سمجھا یا پھر میں سمجھاؤں دوسری طرح سے
سہیل: ابا، بات یہ ہے۔۔۔۔ ۔ مجھے بھی پتہ ہے۔۔۔۔ ۔ سب ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر
اعجاز: مگر کیا
سہیل: نوٹ کمر سے بندھے ہوئے نہ ہوں تو مجھے نیند نہیں آتی (سب کی ہنسی)
حامد: بے وقوف
(سب کی ہنسی)
سہیل: نوٹوں کی گڈی کمر سے نہ بندھی ہو تو مجھے نیند نہیں آتی رات کو
اعجاز: سنا تم نے یہی بات سنوانے کو میں لایا ہوں اِسے اپنے ساتھ
حامد: اس لڑکے کو میں سمجھتا ہوں علاج کی ضرورت ہے
بیگم: اے تو کونسی غلط بات کہہ دی بچے نے اپنا پیسہ ہے چاہے کمر سے باندھے چاہے تکئے کے نیچے رکھے
سہیل: ہاں میرے نوٹ
اعجاز: تیرے نوٹ۔۔۔ وہ تیرے نوٹ ہیں ؟
سہیل: اور نہیں تو کیا
اعجاز: وہ تیرے نوٹ نہیں ہیں۔ بھینس کے نوٹ ہیں۔ بھینس کماتی ہے۔ بھینس کا دودھ بیچتا ہے تُو
حامد: آپ بھی، میں سمجھتا ہوں، کچھ زیادہ ہی غصے میں ہیں
بیگم: یہ بھی خوب رہی، تیرے منہ پر تیری سی میرے منہ پر میری سی، اُس سے بھی کہتے ہو، میں سمجھتا ہوں، اِن سے بھی کہتے ہو، میں سمجھتا ہوں
حامد: سمجھتا کیا ہوں، سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں جب کوئی انوکھی بات سامنے آتی ہے تو۔۔۔
آپ تشریف رکھئے نا۔
اعجاز: میں کیا تشریف رکھوں۔۔ اس نالائق کو دیکھو، مجھ سے پہلے بیٹھ گیا کرسی کھینچ کر
حامد: گڈی کے بوجھ سے تھک گیا ہو گا، شاید اس لئے۔۔۔
اعجاز: (افسردہ لہجہ) یہ کیا تھکے گا، میں ہی چیختے چیختے تھک گیا۔ پست ہو گیا، میری ہمت جواب دے گئی۔ یہ لڑکا اب میرے قابو کا نہیں رہا۔
حامد: ٹھیک ہو جائے گا، ٹھیک ہو جائے گا
اعجاز: اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے۔ روپیہ اور بھینس، روپیہ اور بھینس
بیگم: کماؤ بچہ ہے، پھولے پھلے گا۔ اس کا ہاتھ کھُلا ہو گا تو آپ بھی ہزار فکروں سے دُور رہیں گے۔
اعجاز: ہاتھ کھُلا ہو گا ؟۔۔۔ اِس کا ہاتھ کھُلا ہو گا ؟۔۔۔ یہ جو نوٹوں کو کمر سے باندھے پھرتا ہے
حامد: اصل میں ہوا یہ ہے کہ شروع شروع میں بھینس کے ساتھ اس کی رسّی بھی آپ نے دراز کر دی۔
اعجاز: ہاں زبان دراز بھی ہوتا جا رہا ہے نالائق
بیگم: اے کہاں، وہ معصوم تو اتنی دیر سے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا ہے۔
سہیل: میرے منہ میں تو کچھ بھی نہیں، صبح سے میں نے کچھ بھی نہیں کھایا۔
اعجاز: سمجھیں، یہ ہے اس کی سمجھ کا حال۔ میں تو کہتا ہوں، کچھ دنوں میں بھینس کی طرح نوٹ چرنے لگے گا۔۔ میرا مطلب ہے گھاس چرنے لگے گا۔
سہیل: اب میں جاؤں
حامد: کہاں (ہنس کر) نوٹ چرنے۔۔۔۔ میرا مطلب ہے گھاس چرنے
سہیل: بھینس کو چارا ڈالوں گا
بیگم: اپنے منہ میں صبح سے کھِیل اُڑ کے نہیں گئی اور بھینس کے چارے کا اِتنا خیال ہے۔
سہیل: آپ بھی ابا کی طرف سے بولنے لگیں
اعجاز: ایک یہی کیا، دنیا میری طرف سے بولے گی۔ جو سنے گا لعن طعن کرے گا۔
سہیل: وہ میرے انتظار میں ڈکرا رہی ہو گی۔ میں جاؤں
اعجاز: جانے سے پہلے نوٹ کمر سے کھول کر یہاں میز پر رکھ۔۔ میں انھیں جمع کرا کے آؤں گا اپنے ہاتھ سے۔
کشور: (آتے ہوئے) سہیل بھائی
سہیل: ہاں
کشور: قریب آ کر) وہاں بہت سے آدمی ہیں، سب تماشا دیکھ رہے ہیں، ایک گھر کی چھت پر ایک بھینس کھڑی ہے۔
سہیل: میری بھینس، میری بھینس (بھاگتا ہے)
حامد: یعنی بکٹٹ
بیگم: سر پہ پاؤں رکھ کے بھاگے
ڈاکٹر: (فاصلے پر) ارے، اوہو، دیکھتے نہیں، ہائیں ہائیں
حامد: (بلند آواز) ڈاکٹر کیا ہوا
ڈاکٹر: (آتے ہوئے) وہ جو تھے وہ۔۔۔ یہ دیکھئے اسٹیتھو اسکوپ ٹوٹا ہوا
حامد: اوہو
ڈاکٹر: ارے صاحب لگتا تھا جیسے مقابلے کی دوڑ میں حصہ لیا ہے کہ میں۔۔ میں درمیان میں۔۔۔ تو وہ مجھے پھلانگ کر۔۔
حامد: سمجھے ہوں گے رکاوٹوں والی دوڑ ہے
ڈاکٹر: ہرڈل۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ شاید۔۔ مگر میرا اسٹیتھو اسکوپ
بیگم: تجھے میرے چندا یہ کیا سوجھی۔۔۔۔ پیاری پیاری شرارتیں بہت کرنے لگے ہو
اعجاز: ایسا نادان بھی نہ سمجھو اُس نالائق کو۔۔۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بھینس کے پر نہیں لگے ہوتے جو اُڑ کر چھت پر جا بیٹھے
حامد: بہانہ چاہئیے تھا اُڑن چھو ہو جانے کے لئے
اعجاز: نوٹوں کے ساتھ اُڑ گیا
ڈاکٹر: ایک دل چسپ کیس ہیں وہ میرے لئے۔ میں کافی دنوں سے ان کی اسٹڈی کر رہا ہوں۔ مطالعہ کر رہا ہوں۔
بیگم: تم پڑھنے گئے تھے
کشور: جی ہاں
بیگم؛ اِس ہفتے کوئی ناغہ تو نہیں کیا
کشور: جی نہیں
حامد: ناغہ نہیں کیا تو پھر انھیں۔۔۔
بیگم: ہاں اِس کا انعام رکھا ہے، انعام دوں گی اپنے لعل کو۔ اسے دیکھتی ہوں تو کئی چُلّو خون بڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹر: اوہ آپ کا بلڈ پریشر
بیگم: دیکھ لیجئے اچھی خاصی آپ کے سامنے بیٹھی ہوں
ڈاکٹر: جی ہاں جی ہاں آپ ٹھیک ہیں، بالکل ٹھیک ٹھاک، پھر بھی اگر بلڈ پریشر دیکھ لیا جائے تو کیا نقصان ہے۔
بیگم: آپ کی مرضی
ڈاکٹر: آں۔۔۔ ذرا ہاتھ۔۔۔ شکریہ۔
(مختصر وقفہ)
ڈاکٹر: او کے۔ پرہیز جو بتایا گیا تھا
بیگم: پرہیز کر رہی ہوں
کشور: ڈاکٹر صاحب
ڈاکٹر: جی
کشور: میرا بلڈ پریشر بھی۔
بیگم: اے اللہ نہ کرے۔ میں واری جاؤں
اعجاز: بچہ ہے، کھیل سمجھ رہا ہے
ڈاکٹر: تھرما میٹر
کشور: پہلے میں
بیگم: اوں ہوں
ڈاکٹر: نبض
بیگم: ہوں (منہ میں تھرمامیٹر ہے)
اعجاز: ڈاکٹر صاحب آب و ہوا کی تبدیلی میرے خیال میں۔۔۔۔ ۔
ڈاکٹر: آب و ہوا کی تبدیلی، در اصل اُنھیں کرنی چاہئیے جو مجھے پھلانگ کر گئے ہیں
اعجاز: کیا واقعی ڈاکٹر صاحب
ڈاکٹر: تھرمامیٹر لائیے۔۔۔ ہوں۔۔۔ نارمل
بیگم: (جاتے ہوئے) کشور آؤ میرے ساتھ
کشور: (جاتے ہوئے) اپنی پسند کا انعام لوں گا
ڈاکٹر: اُن کا علاج بھی ضروری ہے
اعجاز: میرے بیٹے کا ؟
ڈاکٹر: میں اِس نتیجے پر اندازاً پہنچا ہوں کہ اُن کی تربیت میں۔۔۔
اعجاز: سچ کہا آپ نے۔۔۔ اِس کی ماں جو ہیں تو انھوں نے۔۔۔۔
حامد: ٹھہر جائیے
اعجاز: ایں
حامد: گھریلو حالات کی تفصیل میں نہ جائیے
ڈاکٹر: ڈاکٹر کی حیثیت سے میں۔۔۔۔
حامد: جب علاج کرانے کا ارادہ ہو گا تو دیکھا جائے گا
ڈاکٹر: اچھا۔۔ یوں ہی سہی
حامد: اسٹیتھو اسکوپ کی قیمت
ڈاکٹر: جی نہیں۔۔۔ وہ تو محض ایک اتفاق تھا بلکہ ایک حادثہ کہنا چاہیئے۔
اب مجھے اجازت
حامد: خدا حافظ
(مختصر وقفہ)
اعجاز: تم نہیں چاہتے تھے کہ میں۔۔۔۔
حامد: کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ڈاکٹر تم ہمارے خاندانی معاملات میں دل چسپی نہ لیا کرو
اعجاز: مگر وہ تو کہتے تھے۔۔ یعنی علاج وغیرہ
حامد: اس سلسلے میں مناسب معلوم ہوا تو کسی نفسیات کے ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے گا۔ اوہ السلام علیکم
سہیل کی ماں: اللہ عمر دراز کرے
اعجاز: گھر ہی سے آ رہی ہو
سہیل کی ماں: ہاں
اعجاز: وہ بے وقوف گھر پہنچا
سہیل کی ماں: کون۔۔ سہیل
اعجاز: اس کے علاوہ یہ شاندار خطاب کس کا ہو سکتا ہے
حامد: بھائی صاحب کو اس نے پھر ناراض کر دیا
سہیل کی ماں: خوش کون سے دن ہوئے تھے جو آج خفا کر دیا
اعجاز: میں نے تم سے کچھ پوچھا تھا
سہیل کی ماں: نہیں۔۔۔۔ وہ گھر تو نہیں پہنچا
اعجاز: دیکھ لیا
حامد: جی
اعجاز: تم نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ وہ بہانہ تلاش کر رہا تھا اُڑن چھو ہونے کے لئے۔
خیر کوئی بات نہیں۔ میں اس سے نمٹنا جانتا ہوں
سہیل کی ماں: میری جان بڑی مصیبت میں ہے۔
اعجاز: اس کی بے جا طرف داری کرتی ہو، پھر کہتی ہو، جان بڑی مصیبت میں ہے۔
حامد: گھر نہیں پہنچے تو پھر کہاں گئے ہوں گے۔
سہیل کی ماں: کل کہہ رہا تھا دوسرا گنڈاسا لاؤں گا، کُٹّی کاٹنے کے لئے۔ شاید بازار۔
اعجاز: تو پھر میں بھی بازار۔۔۔
حامد: آپ ابھی نہیں جائیں گے۔
اعجاز: ایں
حامد: کچھ ناشتہ وغیرہ
سہیل کی ماں: پتہ چلا تھا بوا نہیں آئیں تو میں نے سوچا چل کر ہاتھ بٹاؤں گی گھر کے کام میں
دودھ والا: (دروازے پر) دودھ (سائیکل کی گھنٹی)
حامد: اچھا بھئی
سہیل کی ماں: میں
حامد: جی نہیں میں جاتا ہوں دودھ لینے
(مختصر وقفہ)
اوہو یعنی تم بھی۔
بیگم: ان کی آواز سنی تو وہیں سے بھَگونا لے کر دوڑی
حامد: میرے پاس یہ خالی جگ رکھا تھا۔ تو میں سے۔۔
دودھ والا: تو کیا ہوا بھگونا اور جگ دونوں کو بھرے دیتا ہوں
حامد: نہیں نہیں۔۔۔ زیادہ نہیں، ورنہ پہلی تاریخ کو۔۔۔
بیگم: ہاں پہلی کو حساب کرنا ہو گا۔۔۔۔ مگر یہ بھی ہے کہ آج شاید کچھ زیادہ مہمان۔۔۔
دودھ والا: خود بھی پیو باؤجی، مہمانوں کو بھی گلاس بھر بھر کے۔۔۔۔
حامد: نہیں جتنا روزانہ لیتے ہیں
دودھ والا: ایک جگ، ایک بھگونا۔۔۔۔ روزانہ اتنا ہی مقرر کر لو
حامد: میں تو مقرر کر لوں گا۔۔ مگر یہ بتاؤ تم نے اپنے گھر کے لئے کتنا دودھ مقرر کیا ہے۔
دودھ والا: میرے گھر کی گل بات مت کرو
حامد: کیا اپنے مہمانوں کو بھی گلاس بھر بھر کے۔۔۔
دودھ والا: میرے مہمانوں کو چھوڑو ساب جی۔۔۔
بیگم: کیوں کیا تمھارے گھر مہمان نہیں آتے
دودھ والا: بات یہ ہے بیگم ساب۔۔۔۔ میرے گھر جب کوئی مہمان آنے کو ہوندا ہے تو میں اپنی گھر والی اور بیٹا بیٹی کو لے کے پہلے سے پہلے ہی اس کے گھر مہمان چلا جاؤں ہوں۔
بیگم: مہمانوں سے کیوں کنّی کٹاتے ہو۔۔۔ ارے بھئی جو مہمان آتا ہے، وہ اپنی قسمت کا ساتھ لاتا ہے۔
دودھ والا: بہت اچھی گل کہی بیگم ساب، ایک دم فسٹ کلاس۔۔۔ پر سنو، میں جب کسی کے گھر مہمان جاؤں ہوں، تو میں بھی اپنی قسمت کا ساتھ لے جاؤں ہوں۔ لاؤ بھگونا بھر دوں
حامد: نہیں جگ میں
دودھ والا: اچھا جی لاؤ جگ ہی بھر دوں
حامد: میں کہہ چکا ہوں کہ جتنا دودھ روزانہ لیتے ہیں
اعجاز: (دور سے) ارے بھئی کیا دو چار کڑھاؤ دودھ لے رہے ہو جو اتنی دیر لگا دی
حامد: جی آتا ہوں، آ رہا ہوں
(مختصر وقفہ)
بیگم: اے وہ باورچی خانے میں کون ہے
سہیل کی ماں: میں ہوں
بیگم: (قریب آ کر) کب آئیں، مجھے تو پتہ بھی نہیں چلا
سہیل کی ماں: پراٹھے بناؤں یا پوریاں
بیگم: اے واہ میں کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہوں گی۔ آپ تکلیف نہ کریں
سہیل کی ماں: تو میرے بھی ہاتھوں کو کونسی مہندی لگی ہوئی ہے جو کام کو ہاتھ نہ لگاؤں، کفگیر کدھر ہے
بیگم: ہائے کنارہ لگ گیا شاید ہانڈی کا
سہیل کی ماں: پانی کا چھینٹا
بیگم: آں ہاں۔۔۔ یہ رہا پانی
سہیل کی ماں: آٹا تو گُندھا ہوا ہے ہی۔۔۔ دو مُکّیاں اور مار لوں
بیگم: تو آخر میں کس مرض کی دوا ہوں
سہیل کی ماں: چاہتی ہو کہ میں اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ جاؤں
بیگم: روٹھ گئیں
سہیل کی ماں: غیر جو سمجھ رہی ہو مجھے۔۔۔ ایک میں ہوں کہ ماں جائی سے بڑھ کے تمھیں سمجھتی ہوں
بیگم: دل دے دل کو راہ ہوتی ہے۔۔۔ میری نظر بھی کبھی بدلی ہوئی نہیں پاؤ گی۔
سہیل کی ماں: اوہ۔۔۔ اس چولھے پہ۔۔۔۔ پانی تو ابلنے لگا
بیگم: کیتلی کو اتار کے دو چمچے پتّی
سہیل کی ماں: بس دو چمچے
بیگم: اور آدھی آدھی پیالی دی جائے گی۔ میں ذرا ہاتھ روک کر خرچ کر رہی ہوں آج کل۔ سہیل کی ماں: ہاں بھئی قطرہ قطرہ دریا ہوتا ہے۔ تھوڑی تھوڑی بچت بھی کی جائے تو۔۔۔۔
بیگم: پلّو سے کیوں پکڑ رہی ہو کیتلی کو۔۔۔۔ وہ کپڑا پڑا ہے چائے دانی کی اوٹ میں
سہیل کی ماں: اسے کہتے ہیں تِل اوٹ پہاڑ۔۔۔ مجھے نظر ہی نہیں آ رہا تھا کپڑا
بیگم: پہلے تو میں نے کہا، مجھے کنجوسوں کے پڑوس میں رہنا بھی گوارا نہیں۔۔۔ مگر پھر ریحانہ نے ایک بڑی اچھی بات کہی
سہیل کی ماں: اس پر تو مجھے ٹوٹ کے پیار آتا ہے۔ بیٹی نہیں ہیرا ہے ہیرا۔ کیا کہا اس نے ؟
بیگم: کسی کتاب میں پڑھ کر آئی تھی
سہیل کی ماں: کیا
بیگم: کہنے لگی، تم پیسوں کی فکر کرو، روپے خود اپنی فکر کر لیں گے۔
حامد: (دور سے) میں کہا سنتی ہو
بیگم: ابھی لاتی ہوں
سہیل کی ماں: اب لے چلیں، ناشتہ
بیگم: ناشتے ہی کے لئے تو آواز دی ہے اُنھوں نے
سہیل کی ماں: تو پھر چلو
(مختصر وقفہ)
بیگم: اوئی چپ چاپ آ کر بیٹھ گئیں، ہمیں خبر بھی نہیں
قیصر نقوی: میں نے سوچا ناشتے کی میز پر ہی ملاقات ٹھیک رہے گی
حامد: بھائی صاحب کو بمشکل روکا ہے
اعجاز: میں جا کر دیکھنا چاہتا تھا کہ اُس نے کسی بات کا کچھ اثر لیا یا نہیں
بیگم: رخشندہ ٹھیک ہیں
قیصر نقوی: وہی تو مجھے یہاں تک پہنچا کے گئی ہیں
بیگم: تمھیں پہنچا دیا اور خود چلی گئیں دروازے تک آ کر۔۔۔ اب یہ زمانہ آن لگا ہے، چلو میں کسی گنتی شمار میں نہیں مگر سسر کو تو سلام کر جاتیں
حامد: ہاتھ بڑھائیے بھائی صاحب
قیصر نقوی: اس کی جان کو میٹنگیں ویٹنگیں بھی تو لگی رہتی ہیں۔۔۔ دیر ہو رہی تھی
بیگم: ہاں تو یہ کہو۔۔۔ میں بھی تو کہوں رخشندہ کے آج یہ کیا جی میں آئی کہ۔۔۔۔
حامد: یہ باتوں کا نہیں ناشتے کا وقت ہے۔ بسم اللہ
قیصر نقوی: جی۔۔ جی ہاں
بیگم: اوئی تم نے کیوں برقع سنبھالا
سہیل کی ماں: دل بچے میں پڑا ہے۔ پتہ نہیں اس نے ابھی کچھ کھایا ہو گا یا نہیں
اعجاز: اس کا ذکر چھیڑ کر میری بھوک اُڑا دی۔
بیگم: تم بیٹھو میں اس کے لئے ناشتہ دان تیار کر دوں گی
قیصر نقوی: صفدر کا خط آیا تھا کل رخشندہ کے نام
بیگم: کیا لکھا اس نے
قیصر نقوی: بس یہی خیریت وغیرہ
حامد: (اچانک) ارے بھئی خیریت۔۔ تم کیسے لوٹ آئے
سہیل: ابا۔۔۔ ابا
اعجاز: ایں
سہیل: لُٹ گیا، میں لُٹ گیا
بیگم: اللہ خیر
سہیل: چارے والے کو پیسے دینے لگا تو خالی رو مال کمر سے بندھا ہوا تھا، نوٹوں کی گڈی کسی نے صاف کر دی
حامد: ارے۔۔ اوہو
اعجاز: اور نہ مان میرا کہنا۔۔۔ ارے اسی دن کا مجھے ڈر تھا۔۔ مگر تو میری باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑاتا رہا
سہیل: ابا۔۔ ابا
اعجاز: اب سر پکڑ کے رو۔۔
سہیل کی ماں: میرا بچہ۔۔۔ میرا بچہ
سہیل: میں تو پاگل ہو جاؤں گا
ریحانہ: میں آ سکتی ہوں
بیگم: ریحانہ آؤ
ریحانہ: دولت بہت زیادہ ہو گئی ہے کیا اب اس گھر میں
حامد: یعنی
ریحانہ: میں دروازے میں داخل ہوئی تو کواڑ کے پیچھے یہ۔۔۔۔
سہیل: میرے نوٹوں کی گڈی۔۔۔ میرے نوٹوں کی گڈی۔۔
(سب کی ہنسی)
حامد: غالباً یہ بھاگتے ہوئے جب ڈاکٹر سے ٹکرائے تھے اس وقت یہ نوٹوں کی گڈی، کمر میں بندھے ہوئے رو مال سے نکل کر۔۔۔ یہ دیکھئے گا۔۔۔
(سب کی ہنسی)
بیگم: دنیا تو ہرن کی طرح چوکڑیاں بھر رہی ہے۔
حامد: دنیا ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرے یا چیتے کی طرح چھلانگیں لگائے مجھے کیا۔ مجھے تو غرض ہے اپنی چال سے۔ جس میں ہمیشہ ایک توازن رہا ہے۔
بیگم: اے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔ یہ نہ بھولئے
حامد: تم خربوزے کو کہتی ہو، میں کہتا ہوں اگر پپیتے کو دیکھ کر پپیتا بھی رنگ بدلنے لگے تو مجھے کیا۔ میرا اپنا ایک رنگ ہے اور میں اس پر قائم ہوں۔
ریحانہ: (فاصلے پر) میں تو سیب لے کر چلی تھی اور اب دیکھتی ہوں کہ موسمیوں کی تھیلی میرے ہاتھ میں ہے
صفدر: (فاصلے پر) کوئی بات نہیں۔ لے آئیے۔ میں موسمیاں بھی کچھ کم شوق سے نہیں کھاتا۔
ریحانہ: نہیں نہیں۔۔ یہ سیب امی اور پاپا کے لئے ہیں۔
صفدر: کیا کہا سیب ہیں
ریحانہ: ہاں میں سیب ہی کہوں گی۔ وہ اگر موسمی بن گئے تو بن جانے دو
بیگم: (بلند آواز) میں نے کہا یہ کیسی نوک جھونک ہو رہی ہے
ریحانہ: (آتے ہوئے) کوئی بات نہیں امی۔ میں آپ کے لئے سیب لائی ہوں
بیگم: دادی اماں کا چشمہ صندوق میں رکھا ہے۔ اسے نکال لاؤں
حامد: پچھلے سال وہ چشمہ لگایا تھا تو کہتی تھیں۔ دو صفدر نظر آتے ہیں۔
اب غالباً اس چشمے سے ایک صفدر کے بجائے چار صفدر دکھائی دیں گے
بیگم: ایک صفدر کے دو نظر آئیں یا چار مگر یہ تو دیکھ لوں گی کہ آنکھوں کے سامنے سیب ہیں یا موسمیاں
حامد: کیوں ریحانہ کیا بات ہے
صفدر: (آتے ہوئے) یہ کیا بتائیں گی۔ مجھ سے پوچھئے
ریحانہ: میں تو اب بھی یہی کہوں گی کہ سیب ہیں۔ راستے میں موسمی بن گئے تو میں کیا کروں۔
حامد: صفدر
صفدر: جی۔ پاپا
حامد: اب یہ مذاق ختم ہو جانا چاہئیے
صفدر: جی بہت اچھا۔ یہ لیجئے سیبوں کی تھیلیاں۔ بس اب شکایت نہ کیجئے گا۔
حامد: تھیلیاں بدل دی تھیں تم نے
صفدر: جی نہیں۔ انھوں نے باتیں کرتے ہوئے ایک تھیلی میز پر رکھی اور پھر باتیں کرتے ہوئے ہی دوسری تھیلی اٹھا لی۔ اس میں میری لائی ہوئی موسمیاں تھیں۔
ریحانہ: کم سے کم دو سیب روزانہ کھایا کیجئے آپ
حامد: کیا مجھ سے کہا
ریحانہ: آپ سے بھی اور امی سے بھی۔
حامد: دال روٹی مل جائے یہی بہت ہے
ریحانہ: کشور کی ڈیوٹی لگا دوں گی۔ وہ چار تازہ سیب روزانہ پہنچا دیا کریں گے۔
حامد: نہیں۔ یہ باتیں بیٹیوں کے فرائض میں داخل نہیں
ریحانہ: پاپا زمانہ بدل گیا ہے۔ اب کوئی ان باتوں کا خیال نہیں کرتا۔
بیگم: مین نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ دنیا ہرن کی طرح چوکڑیاں بھر رہی ہے۔ آج کچھ ہے تو کل کچھ پرسوں کچھ
ریحانہ: چار سیبوں کی ایسی کون سے بڑی بات ہے۔
بیگم: بھائی کے ہوتے تم کیوں ایسی بات سوچو
صفدر: سنا باجی آپ نے۔ بیٹے کی شان ہی اور ہوتی ہے
حامد: مگر وہ چوکڑیاں بھرنے کی بات یاد رہے
بیگم: ریحانہ تو خواہ مخواہ چوکڑیوں کے بیچ میں آ گئیں
حامد: روئے سخن غالباً کسی اور طرف تھا
صفدر: باجی میری نئی پینٹنگ آپ نے نہیں دیکھی۔
ریحانہ: نہیں تو
صفدر: آہا سچ کہتا ہوں، سیزان نے کیا سیب بنائے ہوں گے، جو میں نے بنائے ہیں۔
ریحانہ: تو دکھاؤ نا
صفدر: چلئے
ریحانہ: چلو
بیگم: جیسے بچپن میں تھے ویسے ہی اب بھی ہیں دونوں۔ ویسا ہی پیار ویسی ہی پیاری پیاری لڑائیاں
حامد: آہا آئیے تشریف لائیے
قیصر نقوی: السلام علیکم
بیگم: وعلیکم السلام
حامد: مزاج شریف
بیگم: اے میں نے کہا اب تو تم بٹوہ ہاتھ میں لٹکائے بغیر گھر سے نکلتی ہی نہیں۔
قیصر نقوی: کیا کہا بٹوہ
بیگم: ہاں ہاں
قیصر نقوی: بٹوہ تو وہ ہوتا ہے جس میں پرانے زمانے کی بڑی بوڑھیاں چھالی تمباکو رکھتی ہیں۔ یہ پرس ہے پرس۔
حامد: خوبصورت پرس ہے۔ آپ کے انتخاب کی داد دیتا ہوں۔
قیصر نقوی: جی شکریہ
بیگم: تم پرس کہو یا کچھ اور کہو۔ اصل میں تو بٹوہ ہے
حامد: تم یہ کیوں نہیں سمجھتیں کہ جسے بٹوہ کہا جاتا ہے۔ اُس میں ناخن پالش، ہونٹوں کا رنگ اور چھوٹا آئینہ نہیں رکھا جاتا
قیصر نقوی: آپ تو جادو گر معلوم ہوتے ہیں
حامد: بندہ کس قابل ہے
قیصر نقوی: دیکھے بغیر پرس کی سب چیزیں دیکھ لیں
حامد: یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ اس میں پانچ پانچ روپے والے دو نوٹ بھی ہیں۔
قیصر نقوی: پانچ والے نہیں۔ پچاس والے دو نوٹ
بیگم: وہی دونوں جو ایک مہینہ پہلے بھی ساتھ لئے آئی تھیں۔ اے میں کہتی ہوں کبھی کچھ خرچ بھی کر دیا کرو
قیصر نقوی: وہ اور تھے، یہ اور ہیں
حامد: ہاتھی کے کچھ دانت صرف دکھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ (بیگم کی ہنسی)
قیصر نقوی: کیا مجھ پر ہنس رہی ہیں۔
حامد: نہیں۔ ہاتھی پر ہنس رہی ہیں۔ آپ خیال نہ کریں۔
بیگم: اے میں ہاتھیوں پر کیا ہنسوں۔ مجھی سے ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ بھئی اپنا وزن کم کرو۔
قیصر نقوی: اپنا وزن کم کیجئے۔ باتوں کا وزن بڑھائیے۔
بیگم: پہلے تولو پھر بولو۔ میری تو یہ عادت ہے۔ اور آج کی نہیں ہمیشہ کی یہی عادت ہے۔
قیصر نقوی: پہلے تو آپ ٹک تک سب کا منہ تکا کرتی تھیں۔ بولتی ہی کب تھیں۔
(اچانک) مگر۔ مگر۔ مگر
بیگم: بٹوہ دیکھ کر مگر مگر۔ اے کیا بٹوے میں مگر مچھ بیٹھا ہے۔
حامد: کیا بات ہے، خیریت
قیصر نقوی: مگر آپ نے ٹھیک کہا تھا۔ پرس میں پانچ والے نوٹ ہیں۔
حامد: (ہنس کر) مجھے پہلے ہی معلوم تھا
قیصر نقوی: مگر وہ تو پچاس والے تھے
حامد: پرس کو دیکھئے
قیصر نقوی: ہاں
حامد: دلہن کا پرس
قیصر نقوی: دھوکے میں اٹھا لائی
حامد: کچھ دیر پہلے، جب وہ یہاں سے گئی تھیں تو انھوں نے دس روپے اس میں رکھے تھے
قیصر نقوی: میں چلی
بیگم: اے بیٹھو نا۔ ایسی بھی کیا جلدی۔ یہ لیجئے وہ تو سچ مچ ہی چل دیں
حامد: ہوں۔ اب مجھے اخبار دیکھنے دو۔
بیگم: اخبار
حامد: جی
بیگم: ایک بات پوچھوں
حامد: نہیں
بیگم: اے۔ سن بھی لیجئے
حامد: نہیں
بیگم: ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دینا۔ مگر سن لیجئے۔
حامد: اچھا کہو
بیگم: کسی دن حساب لگا کر دیکھئے۔ شروع سے اب تک کتنے اخبار پڑھ چکے ہیں آپ
حامد: جتنے اخبار تم ردی والے کے ہاتھ فروخت کر چکی ہو پہلے دن سے آج تک
اب خود حساب لگا لو
بیگم: بیچ دیتی ہوں تو کیا بُرا کرتی ہوں۔ کچھ نہ کچھ پیسے تو واپس مل ہی جاتے ہیں۔
حامد: یہ ترکیب بھی میری ہی بتائی ہوئی ہے
بیگم: ایک اور خیال دل میں آیا
حامد: کیسا خیال۔ مگر جلدی بتاؤ۔ مجھے دیر ہو رہی ہے
بیگم: آپ ہنسیں گے
حامد: ہنسی آئی بھی تو نہیں ہنسوں گا اب بولو
بیگم: سوچتی ہوں۔ اگر بیچ نہ دیتی تو بہت سے اخبار تو ہمارے گھر میں ریحانہ سے بھی بڑی عمر کے ہوتے
(حامد کی ہنسی)
ریحانہ: (آتے ہوئے) مجھے ہنستے ہوئے بچے بہت اچھے لگتے ہیں
بیگم: اے میں نے کہا۔ کیا کہتی چلی آ رہی ہو۔
حامد: میں ہنس رہا تھا
ریحانہ: میں تو ایک پینٹنگ کی بات کر رہی ہوں
صفدر: (آتے ہوئے) قیمت ادا کرنی ہو گی۔ یہ میں بتائے دیتا ہوں۔
ریحانہ: سن رہی ہیں آپ
بیگم: صفدر
صفدر: جی
بیگم: یہ میں کیا سُن رہی ہوں
صفدر: جی وہ کچھ نہیں، میں تو بس یوں ہی کہہ رہا تھا
بیگم: اور سنو۔ وہ ہاتھ میں بٹوہ لٹکائے آئی تھیں
صفدر: اچھا
بیگم: جی میں تو آئی۔ کہہ دوں۔ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا
اعجاز: (آتے ہوئے) میرا جوتا وہ نالائق پہن گیا۔ اس کا جوتا مجھے پہننا پڑا
حامد: تشریف رکھئے
اعجاز: پنجے کو ذرا دباتا ہے اس لئے چال میں فرق ہے
حامد: لیکن یہاں آپ کی چال کو کچھ نہیں کہا گیا
اعجاز: تو کیا پھر سچ مچ کسی کوے اور کسی ہنس کی چال کا ذکر تھا
حامد: آپ بھی تشریف رکھئے
صدیقی: میں جو دروازے سے یہاں تک بکٹٹ آئی ہوں تو شاید مجھے کہا ہے
بیگم: کوئی بکٹٹ آیا ہو یا چلتا ہوا آیا ہو۔ یہاں تو بات کہیں اور کی ہو رہی تھی
صدیقی: تو پھر وہ کون ہیں جنھوں نے ہنس بننے کی کوشش کی
صفدر: آیا تھا کسی شہر سے اک ہنس بچارا
صدیقی: اے ہے بیچارے پر یاد آیا۔ سہیل کی بھینس کو چارا دینا تو میں بھول ہی گئی۔
اعجاز: مجھے ناشتہ دینا بھی تو بھول گئیں
ریحانہ: ناشتہ تو ابھی ہم لوگوں نے بھی نہیں کیا ہے
بیگم: آپ کا رستہ دیکھا جا رہا تھا
اعجاز؛ سنا سہیل کی اماں۔ یہ ہمارا رستہ دیکھ رہی تھیں
صدیقی: گھر میں بیٹھے بیٹھے رستہ دیکھا جا رہا تھا۔ کوئی گھر سے نکل کر راستہ دیکھتا
بیگم: اے میں نے کہا خیر تو ہے۔ یہ بات کرتے کرتے تیوری پر بل کیوں پڑ گئے۔
صدیقی: اپنے گھر سے ہمارے گھر تک پیدل جاؤ۔ پھر ہمارے گھر سے اپنے گھر تک پیدل آؤ۔ تمھاری تیوری پر بھی بل پڑ جائیں گے۔
بیگم: آخر بات کیا ہوئی
اعجاز: ارے بھئی وہ تو ہمیں بچہ سمجھتے ہیں۔ نادان بچہ۔ ناسمجھ بچہ
صدیقی: اور مجھے بچی۔ معصوم بچی
بیگم: وہ کون ہیں۔ کس کی بات کر رہی ہو
اعجاز: بھئی دیکھو جب ہم گھٹنوں چلتے تھے تو ٹھیک ہے ہمیں چلنا نہیں آتا تھا۔ جب ابا جان کا ہاتھ پکڑ کر چلتے تھے تو ٹھیک ہے ہمیں چلنا نہیں آتا تھا۔ مگر اس کے بعد تو ہم ہوا کے جھونکوں کی طرح اُڑے پھرتے تھے۔
صدیقی: اور اب وہ ہمیں چلنا سکھاتے ہیں۔
اعجاز: بس یوں سمجھ لو۔ دل جل کر کوئلہ ہی تو ہو گیا۔
صفدر: شاعری کی کتاب میں تو لکھا ہے، دل جل کر ہیرا ہو جاتا ہے
اعجاز: تم ہیروں اور کوئلوں سے کھیل رہے ہو اور میرے سینے میں انگارے دہک رہے ہیں
صفدر: سوچ رہا ہوں۔ آپ گھٹنے چلتے ہوئے کیسے لگتے ہوں گے۔
اعجاز: ارے بھئی یہ ذکر ہمارے بچپن کا ہے۔ جب ہم اتنے سے تھے تم سے بھی چھوٹے
صفدر: حیرت کی بات ہے
اعجاز: یہ عمر ہو گئی اور اب وہ ہم سے کہتے ہیں سڑک پر چلنا سیکھو
صفدر؛ پھر آپ نے کیا جواب دیا
اعجاز: میں نے کہا۔ اماں بڈھے طوطوں کو پڑھاتے ہو
بیگم: ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اصل بات کیا ہے۔
اعجاز: ارے بھئی انھوں نے برقع کو اس طرح لپیٹا اور نقاب کو یوں ذرا سا اوپر کو اٹھایا۔ پھر جیسے ہی سڑک پار کرنے کو قدم بڑھایا۔ فوراً وہ آ گئے۔ ’’ نہیں محترمہ یہاں سے سڑک پار نہ کیجئے۔ ‘‘
صدیقی: کوئی ان سے پوچھے۔ جب ہمیں سامنے والی دکان پر جانا ہے تو یہیں سے سرک پار کیوں نہ کریں۔ کیوں جی وہ زیرا زیرا کیا کہتے تھے
اعجاز: پتہ نہیں
ریحانہ: زیبرا کراسنگ کہا ہو گا
اعجاز: ہاں یہی کہا تھا
حامد: اچھا تو اب مجھے کچھ بولنا ہی پڑے گا
اعجاز: بولو
حامد: بلکہ میرا خیال ہے صفدر تم کچھ بولو
صفدر: جی در اصل بڑے شہروں میں ٹریفک بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے باقاعدہ قاعدے قانون ہیں
اعجاز: ہم تو پیدل تھے
صفدر: پیدل چلنے والوں کے لئے بھی، قاعدے ہیں۔ مثلاً ایک یہی جس کا آپ نے ذکر کیا۔ سڑک ہمیشہ زیبرا کراسنگ سے پار کرنی چاہئیے، اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔
ریحانہ: یہ ایک محفوظ طریقہ ہے
اعجاز: تو پھر غلطی ہماری ہی تھی۔
صفدر: غلطی کیا۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ معلوم نہیں تھا۔
اعجاز: سہیل کی اماں
صفدر: جی
اعجاز: چلو اب زیبرا کراسنگ ہی سے سڑک پار کریں گے
صدیقی: جی چلئے
حامد: مگر ناشتے کا بھی کچھ تذکرہ تھا
سہیل: (آتے ہوئے) بٹیریں لایا ہوں
حامد: آؤ سہیل۔ کہاں سے لائے ہو بٹیریں
سہیل: اپنے ہاتھ سے پکا کے لایا ہوں
اعجاز: جوتا کیوں بدلا۔ پہلے اس بات کا جواب دے
سہیل: بھول ہو گئی ابا
اعجاز: بھول کا علاج کرنا بھی مجھے آتا ہے
حامد: نہیں نہیں۔ سنئے سنئے
اعجاز: یہ جوتے اور تیرے پاؤں۔ یہ منہ اور مسور کی دال
حامد: سنئے سنئے
اعجاز: ہاں کہو
حامد: سنئے ابھی ذکر ہو رہا تھا ٹریفک کا
اعجاز: ہوں
حامد: تو بات یہ ہے کہ باتوں کا بھی ٹریفک ہوتا ہے۔ اس ٹریفک کا بھی یہ اصول ہے کہ سڑک درمیان سے پار نہ کرو۔ مطلب یہ کہ کوئی بات سمجھانی ہو تو غصہ نہیں پیار سے سمجھانی چاہئیے چھوٹوں کو
صفدر: باتوں کی سڑک بھی، زیبرا کراسنگ سے پار کرنی چاہئیے
بیگم: اے ناشتے کا کسی کو خیال نہیں
صفدر: اوہو کوئی بٹیر اڑ نہ جائے
بیگم: اس لئے تم سب مل کر۔۔ بٹیریں اُڑاؤ
(ہنسی)
٭٭٭