اس کتاب کی مصنفہ تقریباِ پینتالیس برس سے لندن میں رہ رہی ہیں ۔ وہ وہاں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں۔( غیر ملکیوںکے اردو سیکھنے کے لیئے انھوںنے ایک خاص نصاب اور اسکے طریقہ تعلیم پہ مقا لہ لکھا ہے ۔یہ پراجیکٹ گولڈ سمتھ یونیورسٹی اور کیمبرج یونیور سٹی کے اشتراک سے تیار ہوا تھااور حمیدہ معین رضوی نے ایک اوراردو کی استادکوثر علی کے اشتراک سے یو نیورسٹی کے بتائے ہوئے مقاصد اور رہنمائی میں اسے مکمل کیا تھا ۔بر طانیہ کے اردو اساتذہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں )
’’ بے سورج بستی ‘‘ کا پیش لفظ معروف افسانہ نگار منشا یاد نے لکھا ہے، نیز اس کتاب پہ رائے دینے والوں میں محمد اقبال فہیم جوزی، کرنل غلام سرور ریٹائرڈ اور نثار ترابی بھی شامل ہیں ۔گیارہ افسانوں پر مشتمل یہ کتاب تجربات سے گذرنے والے واقعات و حالات کو مشاہدے کے سانچے میں یوں ڈھالتی ہے کہ قاری ا ن تجربات اور مشاہدات کو اپنی ذات سے مربوط کرنے کا اعلان کرتا ہے۔بہ الفاظ دیگر ، فرد اپنے زمانے سے منسوب سماج کے اجتماعی رنگ کا ایک جیتا جاگتا عکس نظر آتاہے،اس عکس میں دیس بھی ہے اور پردیس بھی ۔ اس تیزی سے سکڑتی دنیا میں سفر کے دوش پر سوار خو اہشوں اور امیدوں کے جلو میں رواں، دواں مسافر اپنی صدیوں پرانی ثقافت کو ہجرت کی ایک ضرب سے توڑ نے کے باوجود خود کو اپنے ماضی سے جدا کرنے سے قاصر ہے ۔ شعوری طور پہ بھی اور غیر شعوری طور پہ بھی ۔پاک وہند کے تارکین ِوطن انگلستان میں انگریزی لباس پہنتے ہیں ،وہاں کے شدید موسموں کا ہدف بھی بنتے ہیں،نسلی تعصب کا شکار بھی ہوتے ہیں آیندہ نسل کے ضیاع کے خدشات کا بھی مقابلہ کرتے ہیں ۔ قرب میں دوری کے لمحات بھی دیکھتے ہیں ، بجالیکن وہ مجموعی طور پہ خود کو اپنے ماضی سے جڑا رکھنا چاہتے ہیں۔وہ دھوپ اور چھا ئوںکی مسلسل جنگ میں ملوث ہونے کے باوجود خود کو بکھرنے سے بچانے کی کو ششوںمیں ذہنی طور پہ بھی اور جسمانی طور پہ بھی مصروف رکھتے ہیں اور ایک دن دیارِ غیر کی اجنبیت میںآشنائی کا پیام پاکر ، خاموشی سے تنہائی کی چادر اوڑھ کر ابد تک کی نیند سو جاتے ہیں۔ یوں کہیئے کہ ’’بے سورج بستی‘‘ ایسے عنوان میںدو علامتیں ہیں ۔ ’’بے سورج‘‘ اور ’’بستی‘‘ ۔ان علامتوں میں پنہاں اور عیاں کہا نیاں اشکوں اور مسکراہٹوں سے معمور راہیں ہیں۔ ان راہوں میںپائے جانے والے طوفان ہائے غبار اور موڑ توڑ تو مشترک ہو سکتے ہیں لیکن ان گو دوں میں ہمکنے والی منزلیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔
حمیدہ معین رضوی کی تحریر میں الفاظ اپنے اپنے مفاہیم سے مصنفہ کے حسنِ انتخاب اور ذوقِ جواز کی نشاندہی کرتے ہیں۔ذرا ان الفاظ کے مناظر میں ان کے پس منظر کی اہمیت اور افا دیت کے زاویئے سے ملاحظہ کیجیئے ۔’چراغ‘ ، ’ وجود‘،’ادراک‘ ،’ لطافت‘ ،’اٹوٹ‘ ،’استعارہ‘ ،’اجنبی ‘، ’ بہار ‘،’زخم‘،’ مسٗلہ‘۔ اس فہرست میں ’ باز گشت‘ کو بھی ایک نمائیندہ حیثیت سے شامل کیجیئے ۔
مختصراََ یہ کہیئے کہ’’بے سورج بستی ‘‘ کے افسانے بہر صورت ’’باز گشت ‘‘کے آوازے ہیں ۔عہدَ حاضر میں تیزی سے بدلتی دنیاکے واقعات و حالات کے آوازے جذبات میں مقیم اورآنکھوں سے اوجھل ہوجانے والی پرانی تہذیب، رہن سہن، اور اقدار کے آوازے مغرب میںآباد، مشرق کی پروردہ حمیدہ معین رضوی نے اپنے افسانوں سے اردو زبان و ادب کے چہرے وجدان سے روشن کردیئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...