زرنین زوجاجہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوئی۔پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔۔۔ اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنا سانس بحال کیا اور بیڈ کے قریب لگے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔ ایک نظر ہاتھ میں پکڑے موبائل پر ڈالی جہاں حازق کے بہت سے میسجز آئے ہوئے تھے
وہ سارے میسجز پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔۔ ہر میسج کے ساتھ اُس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوتی گئی
اتنی آسانی سے تو معاف نہیں کروں گی۔۔۔اُس نے حازق کے چہرے کو نظروں کے حصار میں لیے کہا۔۔اور دوبارہ موبائل پر نظر جما دی
حازق منتیں کرنے کے انداز میں معافی مانگ رہا تھا۔۔۔ وہ پھر مسکرائی تھی
دروازے کی آواز پر اُس نے اپنی مسکراہٹ سمیٹی اور فریحہ کی جانب متوجہ ہوگئی
#########
اماں جان پلیز مجھے ایک ایک لفظ بتائیے گا۔۔ شریعت کے کونسے تقاضے ہیں جنہیں بابا سائیں نہیں مانتے۔۔کونسی وجوہات کی بنا پر بابا سائیں آپ سے اتنا بدگمان ہوگئے ہیں۔۔ میں سب جاننا چاہتا ہوں ایک ایک لفظ۔۔۔زرنین اور فریحہ کے جاتے ہی حازق نے پھر زوجاجہ بیگم سے کہا
وہ خود کو مضبوط بنا کر آیا تھا تاکہ ہر قسم کی بات برداشت کر سکے۔۔ ایک دعا تھی دل میں کہ کچھ بھی ہو بس زرنین کا ساتھ ہمیشہ برقرار رہے۔۔ وہ زرنین کو چھوڑنے یا اسے تکلیف پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔
اُس نے سوالیہ نظروں سے زوجاجہ بیگم کو دیکھا
میں سب بتاؤں گی۔۔۔زوجاجہ بیگم چارپائی پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی
رشید میری سگی اولاد نہیں ہے۔۔حمید کی پیدائش سے پہلے میں نے رشید کو گود لیا تھا۔۔۔ایک دن کوئی رشید کو ہمارے پرانے گھر کے باہر چھوڑ کر چلا گیا۔۔جب تمہارے ابا جان کام سے واپسی آئے تو رشید پر نظر پڑی۔۔رشید کو تمہارے ابا جان اور میں نے اٹھا لیا اور پھر پولیس میں خبر کر دی۔۔ رشید کا کوئی والی وارث نہ آیا اور اس طرح رشید کو ہم نے پالنا شروع کیا۔۔۔شادی کے پانچ سال بعد بھی میرے گھر کوئی اولاد نہ تھی۔۔رشید کو میں نے اپنی سگی اولاد سے بھی بڑھ کر پالا۔۔۔۔۔
زوجاجہ بیگم کچھ دیر خاموش ہوئی۔۔انہیں رشید کی بے رخی یاد آئی تھی
حازق چارپائی سے نیچے ٹانگے لٹکائے بیٹھا تھا۔۔۔اور ساری بات غور سے سُن رہا تھا۔۔اُسے افسوس ہوتا تھا رشید کا رویہ دیکھ کر
اور پھر دو سال بعد اللہ نے ہمیں حمید سے نواز دیا۔۔۔زندگی اچھی گزرنے لگی تھی۔۔۔۔تمہارے ابا جان اور میں نے رشید کو بتا دیا تھا کہ وہ ہماری سگی اولاد نہیں ہے۔۔۔شاید اسی لئے رشید کا رویہ دن با دن بدلتا گیا۔۔ بچپن سے ہی دل میں بدگمانی کو پناہ دے دی جو بڑے ہونے تک پروان چڑھتی گئی۔۔اُسے لگتا کہ ہم حمید کو زیادہ پیار کرتے ہیں۔۔حمید ہمیشہ سے ہی رشید سے بہت محبت کرتا تھا۔۔۔وہ اِس بات سے انجان تھا کہ حمید اس کا بھائی نہیں ہے۔۔
زوحاجہ بیگم کا سانس بے ترتیب ہونے لگا تھا۔۔۔ وہ ایک دم رکی۔۔
حازق جو سر جھکائے سن رہا تھا اپنا سر اوپر اٹھایا۔۔ اور زوجاجہ بیگم کو دیکھا جو اپنا سانس درست کر رہی تھیں
میں پانی لاتا ہوں۔۔۔ وہ کہتا اٹھا اور جلدی سے پانی کا گلاس بھر کر لایا
یہ لیں اماں جان۔۔ اُس نے چارپائی کے پاس کھڑے ہوکر کہا۔ اور ایک پریشان سی نظر زوجاجہ پر ڈالی
میں ٹھیک ہوں تم بیٹھو۔۔۔۔زوجاجہ بیگم نے حازق کو بیٹھنے کا کہا اور پانی کا گلاس ہاتھ میں ہی تھامے رکھا
حازق دوبارہ آہستہ سے بیٹھ گیا۔۔
لیکن اماں جان زمینوں کا کیا معاملہ ہے؟حازق نے اب کی بار الجھ کر پوچھا
دیکھو بیٹا شریعت میں کسی بھی لے پالک کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔۔۔
تمہارے دادا جان کی وفات سے کچھ سال پہلے رشید نے جائیداد کا مطالبہ کیا۔۔۔ لہذا تمہارے دادا جان نے کسی عالم سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ کے حیات ہوتے وراثت نہیں ہوگی۔۔وراثت وہ ہوتی ہے جو کسی شخص کی وفات کے بعد اس کا پیچھے چھوڑے ہوئے مال یا جائیداد کو ورثاء میں تقسیم کر دیا جائے۔۔اور سوتیلی اولاد کا وراثت میں کوئی حق نہیں ہے۔۔ ہاں اگر آپ چاہیں تو بطور انعام اپنی زندگی میں اگر کسی کو کچھ دینا چاہے تو جائز ہے۔۔۔
حازق کے زہن پر جمی دھول اب مٹنے لگی تھی۔۔ بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے تھے اُسے۔۔
اور پھر تمہارے بابا جان نے رشید کے نام اپنی ایک زمین کر دی جہاں رشید نے گھر بنایا اور الگ رہنے لگا ہم سے۔۔البتہ حمید کو ابھی کچھ نہ دیا تھا اور اسے کسی چیز کی خواہش بھی نہ تھی۔۔۔ زوجاجہ بیگم نے سچ بتایا تھا مگر حازق ابھی بھی الجھن کا شکار تھا
لیکن اماں جان بابا سائیں نے کہا تھا کہ آپ لوگوں نے حمید چچا کے نام دو زمینیں کر دیں تھی۔۔حازق اپنا مسئلہ سمجھاتے بولا
نہیں یہ صرف رشید کی سوچ ہے۔۔ وہ جھوٹ بولتا ہے تم سے۔۔ تمہارے ابا جان کی دو زمینیں تھیں ایک وہ جہاں تم لوگ آباد ہو اور ایک یہ جہاں ہم لوگ رہتے ہیں۔۔۔جمال نے اپنی وفات سے پہلے ہی مجھے وصیت کر دی تھی کہ میری زمین کا شریعت کے ممطابق حصہ کرنا۔۔۔اور جو تیسری زمین ہے جو ابھی صرف ایک پلاٹ کی مانند ہے وہ حمید کی محنت سے بنائی گئی ہے۔۔ جہاں زرنین ایک فلاحی ادارہ قائم کرنا چاہتی ہے۔۔۔ وہ زمین حمید نے اپنی وفات سے دو دن پہلے ہی زرنین کے نام کی تھی۔۔۔شاید میرے بچے کو اپنے آخری وقت کا علم ہوگیا تھا۔۔۔زوجاجہ بیگم خاموش ہوگئی تھی۔۔۔ایک مرتبہ پھر حمید کی یاد نے ان کی آنکھیں بھگو دیں تھیں۔۔
حازق نے آگے بڑھ کر زوجاجہ بیگم کے آنسو صاف کیے اور انہیں اپنے سینے سے لگا لیا
اماں جان بابا سائیں جو بھی کر رہے ہیں یا سوچ رہے ہیں میں ہرگز ایسا کچھ ہونے نہیں دوں گا۔۔زرنین کا خواب ضرور پورا ہوگا۔۔۔حازق آہستہ آواز میں بول رہا تھا
رشید نے اُسے کبھی باپ کا پیار نہ دیا تھا۔۔حمید کے ہوتے اُسے باپ کی کمی محسوس نہ ہوئی اور حمید کی وفات پر اُسے لگا جیسے وہ آج باپ کے سائے سے محروم ہوگیا ہو۔۔
حازق میں بات کروں گی رشید سے۔۔ہوسکتا ہے وہ سمجھ جائے۔۔ زوجاجہ بیگم نے اپنا سر اٹھاتے کسی امید کے تحت کہا
جی اماں جان آپ کر لیجیے گا بات۔۔۔حازق نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
وہ جانتا تھا اپنے باپ کو کہ وہ کبھی نہ مانے گا۔۔
اماں جان۔۔۔اُس نے خاموش بیٹھی زوجاجہ کو پکارا
جی میری جان۔۔ زوجاجہ بیگم خود کو سمبھالتے ہوئے مسکرا کر بولی
میں زرنین کی رخصتی چاہتا ہوں جلد از جلد۔۔۔ وہ ضدی انداز میں بولا
اچھا جی میں کرتی ہوں رشید سے بات اگر وہ مانتا ہے تو ٹھیک ہے نہیں تو پھر تم خود مختار ہو اِس فیصلے کیلئے۔۔۔لیکن ایک بار اپنے والد سے اجازت لینا تمہارا فرض ہے۔۔۔وہ حازق کے چہرے پر پیار کرتے ہوئے بولی
جی۔۔۔حازق نے اثبات میں اپنا سر ہلایا۔۔
اچھا اب میں جاتا ہوں اپنی بیگم صاحبہ کو منانے۔۔ اِس بار تو پتا نہیں کیا ہوگیا یے۔۔ ایک میسج تک کا جواب نہیں دیا۔۔توبہ توبہ۔۔ حازق کانوں کو ہاتھ لگاتا شرارت سے بولا
ہاں تو صحیح ہے نا۔۔اُسے پورا حق ہے ناراض ہونے کا۔۔ زوحاجہ بیگم زرنین کی سائیڈ لیتے بولی
اماں جان اتنی جلدی پارٹی بدل لی آپ نے۔۔وہ چارپائی سے کھڑا ہوا اور مصنوئی خفگی سے بولا
تم دونوں ہی میری آنکھوں کا تارا ہو۔۔۔اور تم تو میرے حمید کی پرچھائی ہو۔۔جب جب تمہیں دیکھتی ہوں میرا حمید نظر آتا ہے مجھے۔۔ زوجاجہ بیگم نے محبت بھری لفظوں میں کہا اور حازق کے سہارے سے اٹھ کر اندر کی جانب چلنے لگی۔۔
حازق بھی مسکراتا ہوا چلنے لگا۔۔ ڈھیروں سکون اُس کے اندر اتر گیا تھا۔۔ زرنین کو اپنانے کا ارادہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوچکا تھا
##########
زرنین حازق کو دیکھتے ہی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔۔اب وہ بیڈ پر بیٹھی اپنے انگلیوں سے کھیل رہی تھی۔۔۔وہ جانتی تھی کہ حازق ضرور آئے گا۔۔
وہ اٹھی اور خود کو مصروف کرنے کیلئے الماری کھولی۔۔ پہلے سے ہی درست کپڑوں کو دوبارہ صحیح کرنے لگی۔۔۔
ارے یہ پیج (صفحہ) کس چیز کا ہے۔۔۔الماری کے ایک کونے میں کوئی صفحہ پڑا ہوا تھا۔۔ زرنین کی نظر اُس پر پڑی
اُس نے ہاتھ میں پکڑ کر کھلولنا چاہا تبھی دروازے کے کھلنے کی آواز آئی۔۔ زرنین سے فوراً سے وہ صفحہ اپنا کتاب میں رکھ دیا اور الماری بند کر کر پلٹی
حازق دونوں بازو سینے پر باندھے اُس کے پیچھے کھڑا مسکرا رہا تھا
آپ۔۔۔ زرنین نے چونک کر کہا
جی میں آپ کا شوہر۔۔جس سے آپ ناراض بیٹھی۔۔حازق ایک ایک لفظ پر زور دیتا بولا
میں کون ہوتی ہوں آپ سے ناراض ہونے والی۔۔ زرنین بے رخی سے کہتی وہاں سے آگے بڑھی اور بیڈ پر بیٹھ گئی
آپ منکوحہ ہیں میری اور بہت جلد رخصت ہونے والی ہیں ہمارے ساتھ۔۔ حازق ترکی بہ ترکی بولتا زرنین کے مقابل بیٹھ گیا
زرنین سر جھکائے اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔۔ حازق کی بات پر اپنی جھکی پلکیں اٹھائیں۔۔ حازق کی نظروں سے جھلکتی محبت زرنین پر واضح تھی۔۔اُس کی آنکھوں میں اپنا چہرہ دیکھ کر زرنین کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ بکھری
میں مانتا ہوں کہ بہت ہینڈسم ہوں لیکن اگر ایسے دیکھوں گی تو مجھے شرم آئی گی۔۔ حازق شرارت سے بولا
نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔زرنین نے سٹپٹا کر اپنی آنکھیں جھکادی
حیا کی لالی گالوں پر بکھر گئی تھی۔۔
حازق کی موجودگی میں وہ ساری ناراضگی بھول گئی
کیا مطلب ہے کیا ہینڈسم نہیں ہوں میں۔۔ حازق نے صدمے سے کہا
نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔ زرنین فوراً کنفیوز سی بولی
تو کیا ہوں ہینڈسم۔۔ حازق نے آبرو اچکائے
زرنین نے غصے سے حازق کی جانب دیکھا
حازق کا ایک جاندار قہقہہ کمرے میں گونجا
زرنین جل گئی تھی اندر سے۔۔۔ وہ غصے سے اٹھی اور وہاں سے جانے لگی۔۔ حازق نے آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ تھام لیا
زرنین۔۔ پلیز یار مان جاؤ۔۔ حازق منت بھرے لہجے میں بولا
زرنین مسکراتے ہوئے مڑی اور حازق کو محبت سے دیکھا
میں آپ سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتی تھی لیکن آپ کو بھی چاہئے تھا ایک بار مجھے بتا دیتے۔۔۔ میں کتنا پریشان ہوگئی تھی۔۔ زرنین سارے گلے شکوے کرنے میں لگ گئی
اچھا اچھا بس۔۔آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ بلکہ اب صرف کچھ دن ہیں پھر ہم ایک ساتھ ہی ہوگے انشاءاللہ۔۔ حازق نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنی جیب سے ایک ڈبی نکالی
زرنین نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔
کیا میں یہ پہنا سکتا ہوں۔۔ حازق نے اجازت چاہی
زرنین نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا
حازق نے دو کڑے زرنین کی نازک کلائیوں میں ڈالے
یہ بہت خوبصورت ہیں۔۔زرنین کڑوں کو دیکھتی چہچہاتے ہوئے بولی
اب تو ناراض نہیں ہو مجھ سے۔۔ حازق نے معصوم سی شکل بنا کر کہا
نہیں بالکل نہیں۔۔ زرنین کھلکھلا کر ہنس دی
رات نے سیاہ چادر اوڑھ لی تھی۔۔ چاند دونوں کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔۔لیکن مستقبل کیسا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی جانتا تھا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...